پاکستان اولیا ء اﷲ کا فیضان ہے ۔ پاکستان اندرونی اور
بیرونی دشمنوں کی تمام تر سازشوں کے باوجود اگر آج تک قائم ہے تو اس میں اﷲ
تعالی کے فضل وکرم کے ساتھ ساتھ اولیاء اﷲ کی دعاؤں اورکرامتوں کا اثر بھی
شامل ہے ۔ میں اس وقت ایک ایسی روحانی شخصیت کی کرامتوں کا ذکر کرنا جارہا
ہوں ۔ جن کا مشاہدہ خودمیں نے کیا ہے ۔ بات کو آگے بڑھانے سے پہلے یہ بتاتا
چلوں کہ ہوش سنبھالنے کے بعد میں اس جستجو میں رہا کہ کسی ولی کامل کے ہاتھ
پر بیعت کر لی جائے ۔ مدت دراز تک دربدر بھٹکتا رہا۔ پھر ایک صاحب ( خالد
نظام )کے توسط سے میں گلبرگ تھرڈ لاہور کی جامع مسجد طہ پہنچا ‘ جہاں رہبر
شریعت مولانا محمد عنایت احمد منبر پر تشریف فرما تھے اور نماز جمعہ کا
خطبہ دے رہے تھے ۔ اس بات میں کوئی مبالغہ نہیں کہ مسجد میں داخل ہو تے ہی
میرے جسم میں تھراتھراہٹ محسوس ہوئی اور یوں محسوس ہوا جیسے میں کسی اور
روحانی دنیا میں داخل ہوچکا ہوں ۔حضرت صاحب نماز جمعہ کے بعد فارغ ہوئے
تومیرا دل چاہ رہا تھا کہ میں ان کے قدموں میں گر کر اس وقت تک رووں جب تک
وہ مجھے اپنے ہاتھوں سے اٹھا کر سینے سے نہ لگالیں ۔ پھر نہ جانے کس طاقت
نے مجھے روک لیا ۔میں حوصلہ کرکے آگے بڑھا اوران سے بیعت کی درخواست کردی۔
جسے انہوں نے قبول کرلیا لیکن بیعت کرنے کا فریضہ حضرت میاں میر قادری ؒ کے
دربار عالیہ پر انجام پایا ۔
اگر ملازمت پر جانے کی مجبور ی نہ ہوتی تو شاید میں مسجد طہ ہی کاہوکر رہ
جاتا لیکن نماز فجر باجماعت اور نماز عشاباجماعت ادائیگی کے لیے مسجد طہ
میں آنا میرے معمول کا حصہ بن چکا تھا جہاں اجتماعی طور پر پیرو مرشد کی
موجودگی میں درود و سلام کی محفلیں جمتی ‘ آپ کے ارشادات سننے کا موقع میسر
آتا ۔ سوال اور جواب کا سلسلہ شروع ہوتا تو عقل و دانش کی بے شمار باتیں
ذہن نشین ہوتیں ۔اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ آپ ؒ کے دست مبارک پر
بیعت کرنے کے بعد میری دنیا یکسر تبدیل ہوکر رہ گئی ۔
ایک صبح نماز فجرکے بعد مسجد میں ہم درود پاک پڑھ رہے تھے۔ ایک شخص نے سوال
کیا کہ ہم یہاں روزانہ درود پاک پڑھتے ہیں تو کیاموت کے بعد بھی اﷲ تعالی
ہمیں یہ توفیق بخشے گا ۔ آپ ؒ مسکرائے اور فرمایا کبھی آپ نے مچھلی کھائی
ہے ۔ مچھلی پانی کے بغیر زندہ نہیں رہتی۔ جب مچھلی کو پانی سے نکال لیا
جائے تو ختم ہوجاتی ہے۔ پھر جب ہم اس کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے مصالحہ لگا کر
پکاکر کھاتے ہیں تو مچھلی انسانی پیٹ میں پہنچ کر بھی پانی مانگتی ہے ۔ اس
لیے کہ پانی اس کی زندگی ہے ۔ جو شخص زندگی میں پانچ وقتہ نماز اور درود
پاک کو معمول بنالے گا ۔ قبر میں بھی اﷲ اسے یہی توفیق عطا فرمائے گا ۔ آپ
ؒ نے فرمایا کہ اولیا ء اﷲ اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور اسی طرح عبادت میں
مشغول ہیں جس طرح وہ اپنی زندگی میں رہا کرتے تھے ۔ آپ ؒ نے فرمایا ایک
مرتبہ میں حضرت کرماں والا ؒ گیا ۔پیر و مرشد سید اسماعیل شاہ بخاری ؒ کے
مزار مبارک پر حاضری دی ۔ کشف قبور سے دیکھا تو پیرو مرشد نماز ادا کررہے
ہیں ۔میں نے دخل دینا توہین سمجھی اور واپس چلا آیا کچھ دیر بعد پھر مزار
پر گیاتو آپ ؒ دعا فرما رہے تھے جونہی میں اٹھ کر واپس آنے لگا تو قبر کے
اندر سے ہی کرماں والوں نے توجہ فرمائی اور کہا میں فارغ ہوگیا ہوں ‘ اب
واپس جانے کی ضرورت نہیں ۔ یہ بات ثابت کرتی ہے کہ اﷲ کے نیک بندے قبر میں
بھی زندہ ہوتے ہیں۔
ایک دن میں نے پیر صاحب سے عرض کی کہ قبر میں ہم کیسے نماز اور قرآن پاک
پڑھ سکتے ہیں جبکہ وہاں اندھیرا ہوگااور جگہ بھی اتنی کم ہوگی کہ کروٹ لینا
بھی ممکن نہیں ہوگا ۔ میری بات سننے کے بعد آپ ؒ نے فرمایا اﷲ نے چاہا تو
آپ کو قبر کا نظارہ بھی کروا دیاجائے گا ۔ یہ پیرکامل کا فیضان تھا کہ ان
کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے بعد میں نے پانچ وقت نماز کے علاوہ تہجد اور صلوۃ
بھی شروع کردی اور یہ عمل اﷲ کے فضل سے زندگی کی آخری سانس تک جاری و ساری
رہے گا ۔
پچھلی رات کا وقت تھا ‘میں خواب کی حالت میں خود کو مردہ حالت میں دیکھتا
ہوں ۔ گھر میں کہرام مچا ہواہے۔رونے کی آوازیں سن کر میں سوچتا ہوں شاید
کوئی فوت ہوگیا ہے جب میں نے اٹھنے کی کوشش کی تو اٹھ نہیں پایا ۔گویا میں
ہی فوت ہوا ہوں ۔ میں حلفا یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ غسل دینے والے نے جب
میرے سر پر پانی ڈالا تو میں نے پانی کی گرمائش اور ہاتھوں کے لمس کو محسوس
کیا۔ میں چیخ و پکار کرتا رہالیکن کسی تک میری آواز نہیں پہنچی ۔ کفن پہنا
کر میت کو تیار کرلیا گیا۔ خواتین نے حلقہ بناکے درود و سلام پڑھنا شروع
کردیا ۔ اس لمحے میں بہت پریشان تھا کہ یہ لوگ مجھے دفن کر کے ہی آئیں ۔
میں عزیزوں کے نام لے کرانہیں مدد کے لیے پکار رہا تھا ۔حتی کہ کلمہ شہادت
کی آواز میرے کانوں میں پڑی اور جنازہ اٹھاکر لوگ قبر ستان کی جانب چل پڑے
۔ نماز جنازہ کے بعد مجھے لحد میں اتار دیاگیا۔مولوی صاحب کے دعائیہ کلمات
بھی سنے ۔ واپس جاتے ہوئے لوگوں کے قدموں کی چھاپ بھی سنائی دی ۔ بے بس
ہوکر میں نے خود کو حالات پر چھوڑ دیا۔ کچھ دیر لیٹا رہا اچانک مجھے اپنے
دائیں جانب روشنی کی ایک کرن سی دکھائی دی ۔ جب میں نے یہ دیکھنا چاہا کہ
یہ روشنی کہاں سے آرہی ہے تو میں ایک وسیع و عریض ہال میں جا گرگیا ۔وہ ہال
اس قدر بڑا تھاکہ وہاں بے شمار لوگ ٹولیوں میں الگ الگ بیٹھے دکھائی دیئے ۔
بڑی تعداد میں لوگوں کو وہاں بیٹھا دیکھ کر مجھے حوصلہ ہوا کہ میں یہاں
اکیلا نہیں ہوں اور بھی موجود ہیں ۔ ابھی میں پیش آمدہ حالات کا سامنا کرنے
کے لیے تیار ہورہا تھا کہ کسی نے مجھے ہاتھ لگایا اور میں اس دنیا میں واپس
لوٹ آیا ۔ میں نے آنکھیں ملتے ہوئے دیکھا تو میرے سامنے پیر مرشد حضرت
مولانا عنایت احمد ؒ کھڑے تھے ۔ وہ فرمارہے تھے کہ تہجد کا وقت ہوچکا ہے
اٹھو او رتہجد پڑھو ۔ جیسے ہی میں نیند کے غلبے سے باہر نکلا تو پیر و مرشد
منظر سے غائب تھے ۔ یہ بھی بتاتا چلوں کہ ان دنوں میرا یہ معمول تھا کہ میں
نماز فجر جامع مسجد طہ میں اپنے پیر ومرشد کی امامت میں ادا کروں ۔ جب میں
مسجد طہ پہنچا تو مجھ پر رات والی کیفیت کاخاصا اثر تھا۔ میں اس قدر خوش
تھا کہ اس کا ذکر الفاظ میں نہیں کیاجاسکتا ۔
نماز فجر کی ادائیگی کے بعد جب درود پاک پڑھا جانے لگاتو پیر و مرشد میری
جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا آپ نے قبر کا حساب دیکھ لیا ہے یا ابھی نہیں ۔
یہ سنتے ہی میری آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور میں ان کے قدموں میں گر پڑا
۔انہوں نے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھااور مجھے دلاسہ دیتے ہوئے فرمایا درود
پاک کثرت سے پڑھنے والوں کی قبریں بھی جنت کی طرح وسیع و عریض اور کشادہ
ہوتی ہیں جن میں جنت کی کھڑکی کھول دی جاتی ہے۔کثرت سے درود خضری پڑھنا
معمول بنالو باقی معاملات اﷲ اور اس کے پیارے رسول ﷺ پر چھوڑ دو۔
ایک مرید نے سوال کیا کہ روز محشرمیں تو اربوں کھربوں انسان ہوں ‘ ہم آپ کو
کیسے تلاش کریں گے ۔ آپ ؒ نے ایک واقعہ سنایا ایک چرواہا دریا کے کنارے
بکریاں چرا رہا تھا ۔ایک بکری دلدلی زمین میں جا پھنسی ۔چرواہا شام ڈھلے
اپنی بکریاں لے کراپنی چراگاہ میں آگیا ۔ شیر نے جب تنہا بکری کو دیکھا تو
وہ اسے کھانے کے لیے آگے بڑھا ۔جیسے ہی اس نے دلدلی زمین پر قدم رکھا تو وہ
بھی دھنس گیا ۔ اب بکری اور شیر آمنے سامنے تھے ۔ شیر بکری کو کھا جانے
والی نظروں سے دیکھ کر غرغرا رہا تھا جبکہ بکری شیر کی بے بسی کو دیکھ کر
مسکرا رہی تھی ۔ شیر دھاڑ اور اس نے کہا ۔ اے بیوقوف بکری موت سے ڈر نہیں
لگتا میں یہاں سے نکل کر تمہارے ہی پاس آرہا ہوں ۔ بکری مسکرائی اور بولی۔
چرواہا جب اپنی بکریاں گنے گا تو ایک بکری کم ہونے پروہ مجھے تلاش کرتا ہوا
یہاں تک پہنچ جائے گا اور مجھے اس دلدلی زمین سے نکال کر اپنے ساتھ لے جائے
لیکن تمہیں یہاں سے کون نکالے گا تیرا تو کوئی ولی وارث بھی نہیں ہے۔ پیر و
مرشد نے یہ مثال دیتے ہوئے فرمایا کہ پیر و مرشد اگر کامل ہوں تو وہ اپنے
مریدوں کے لیے آخرت میں بھی بخششں کے راستے ہموار کرتا ہے ۔ پیر تو اپنے
ہاتھ کی ہتھیلی پر رکھے ہوئے دانوں کی طرح اپنے مریدوں کو ہر لمحے دیکھتا
ہے ۔
ایک شخص نے سوال کیا ‘ اپنے پیرو مرشد سے مدد مانگنا اور دعا کی درخواست
کرنا ‘ کہیں یہ شرک تو نہیں ۔؟آپ ؒ نے فرمایا شرک وہ ہوتا ہے جس میں کوئی
شخص اپنی پرستش کرنے کا حکم دے اورخود کو سجدہ گاہ قرار دے۔ پیر کامل وہ
ہوتے ہیں جو اﷲ تعالی کی نفلی اور فرضی عبادت اورنبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں
روزانہ پانچ سو مرتبہ درود پاک پڑھنے کی تلقین کرتے ہیں ۔ یہ سلسلہ روحانیت
آج سے نہیں چلا بلکہ اس کا مرکز و محور نبی کریم ﷺ کی ذات پاک ہی ہے ۔ آ پ
ؒنے حضرت میاں شیر محمد شرق پوری ؒ کی زندگی کا ایک واقعہ سنایا ۔ یہ واقعہ
کچھ یوں تھا ۔ کسی عقیدت مند کے کہنے پر ایک نوجوان میاں شیر محمدؒ کی خدمت
میں حاضر ہوا اور عرض کی ۔میں حضور ﷺ کی زیارت کر نا چاہتا ہوں ۔میں نے
سناہے آپ کبھی کبھی حرم شریف بھی جاتے ہیں ۔ اس پرمیاں شیر محمد ؒ نے بات
کو ٹالتے ہوئے فرمایا تم کو کسی نے یونہی کہہ دیا ہوگا ۔ پھر فرمایا نماز
عشا ء کے بعد سو مرتبہ درود خضری پڑھ کر کسی سے کلام کیے بغیر سو جایاکرو ۔
ان شاء اﷲ تمہاری مراد پوری ہوجائے گی ۔ اس نوجوان نے میاں صاحب ؒ کی ہدایت
پر عمل شروع کردیا ۔ ایک صبح تہجد کے نوافل اداکرنے کے بعد مصلے پر ہی اسے
اونگھ آگئی ۔اسی حالت میں وہ اپنے سامنے بیت اﷲ شریف کو دیکھتا ہے ۔ میاں
شیر محمد ؒ خانہ کعبہ کا طواف کررہے ہیں ۔وہ نوجوان بھی اٹھااور میاں صاحب
کے پیچھے طواف کعبہ کرنے لگا ۔ابھی طواف مکمل بھی نہیں ہوا تھا کہ سرور
کائنات حضرت محمد ﷺ صحابہ کرام کے ہمراہ تشریف لے آئے ۔حضور ﷺ سراپانور تھے
۔ آنحضور ﷺ کی زیارت سے اس نوجوان پر ایک روحانی کیفیت طاری ہوگئی ۔پھر جب
آنکھ کھلی تو وہ نوجوان اپنے گھر کے مصلے پر موجود تھا ۔
آپ ؒ نے فرمایا میاں شیر محمد شرقپوری ؒ وہ کامل بزرگ ہیں جن کی پیدائش سے
کئی سال پہلے ایک اجنبی بزرگ حضرت خواجہ امیر الدین ؒ شرق پور کی گلیوں میں
لمبی لمبی سانس لیتے اور کچھ سونگتے پھرا کرتے تھے ۔ کسی نے ان سے پوچھا
۔آپ کیا سونگھتے ہیں تو جواب ملا اس محلہ میں ایک پاکیزہ روح آنے والی ہے ۔
اس پاکیزہ روح کا مالک ‘ انسان اپنے رب کا مقبول ترین بندہ ہوگا ۔ پورے
زمانے میں ان کی دھوم ہوگی ۔بزرگ سے جب پوچھا گیا کہ وہ نیک اور پاکیزہ روح
کس گھر میں اترے گی تو بزرگ نے جواب دیا میاں عزیز الدین کے گھر ۔اس نیک
روح کانام شیر محمد ہوگا ۔
یہ وہ شیر محمد ؒ ہیں جن سے بعد میں حضرت سید اسماعیل شاہ بخاری ؒ المعروف
کرماں والوں نے فیض حاصل کیا ۔ اس واقعے کا مختصرا ذکر یہاں کیاجارہا ہے
تاکہ ایمان کو تازگی بخشی جائے ۔گنج کرم پیر حضرت سید محمد اسماعیل شاہ
بخاری ؒ بھارتی شہر فیروز پور کے مشرق میں واقع ایک مشہور گاؤں کرموں والا
کے سید گھرانے میں پیدا ہوئے ۔آپ ؒ کے والد سید سکندر علی شاہ المعروف سید
علی شاہ ایک عظیم روحانی شخصیت تھے ‘ جنہیں پورے گاؤں میں عزت و احترام
حاصل تھا ۔ آپ نے دینی تعلیم مولانا رحمت علی سے حاصل کی جبکہ ابتدائی بیعت
مولانا شرف الدین ؒ کے ہاتھ پر کی ۔پیر ومرشدکے انتقال کے بعد آپ ؒ فیروز
پور چھاؤنی پہنچے جہاں ایک مجذوب سے ملاقات ہوئی ۔ اس مجذوب کے ہاتھ میں
چنے کی سبز ٹہنی تھی جس سے وہ بونٹ توڑ کے کھارہے تھے ۔سید اسماعیل شاہ
بخاری ؒ کو دیکھتے ہی مجذوب نے وہ ٹہنی آپ کو تھما دی۔ آپ نے بھی اس ٹہنی
سے بونٹ توڑ کر کھانے شروع کردیئے جب بونٹ ختم ہوگئے تو مجذوب نے آپ ؒ کے
ہاتھ سے خالی ٹہنی لے کر اپنے ہاتھوں میں مسلی جس پر دوبارہ بونٹ نکل آئے ۔
وہ ٹہنی آپ ؒ کو یہ کہتے ہوئے دوبارہ پکڑا دی کہ شاہ صاحب ابھی آپ کی بھوک
باقی ہے ۔ آپ ؒ نے پھر سارے بونٹ کھا لیے ۔یہ دیکھ کر مجذوب نے کہا شاہ جی
لگتا ہے ابھی تک آپ کی بھوک باقی ہے ۔یہ کہہ کر تیسری مرتبہ چنے کی اس شاخ
کو اپنے ہاتھوں میں مسلا اوربونٹ سے لدھی ہوئی ٹہنی آپ ؒ کے سپرد کردی ۔اس
مرتبہ دو لکریں افقی اور عمودی کھینچ دیں جو بظاہر جمع کا نشان بنا تا تھا
اور فرمایا آپ شرق پور شریف حضرت میاں شیر محمد ؒ کی خدمت میں پہنچیں۔ وہ
وقت کے قطب ہیں ‘ وہاں آپ کا انتظا ر کیاجارہا ہے۔ آپ کا باقی حصہ ان کے
پاس ہے ۔ میرا سلام دینے کے بعدیہ ٹھیکری ان کی خدمت میں پیش کرنا ۔بہرکیف
سید اسماعیل شاہ بخاری ‘ شرق پور شریف پہنچے اور میاں صاحب ؒ نے مجذوب کے
کہنے کے بعد ان کے حصے کا فیض آپ کو عطا کردیا ۔ وہاں سے فیض یاب ہو نے کے
بعد آپ کرماں والا گاؤں میں تشریف لائے ۔ جہاں آج بھی آپ ؒ کا مزار مبارک
موجودہے ۔ پیر حضرت عنایت احمد ؒ آپ ؒ کے خلیفہ مجاز اور مرید ہیں ۔ ایک
مرتبہ حضرت کرماں والوں ؒ نے فرمایا جو شخص کرماں والا نہ آسکے وہ مسجد طہ
چلا جائے ۔ وہاں بھی ہمارا ہی فیض کا سرچشمہ جاری و ساری ہے ۔
ایک مرتبہ میں آپ ؒ کی والدہ محترمہ کے بارے میں انٹرویو کرنے کے لیے پہنچا
۔ تو والدہ کا نام سن کرآپ ؒ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے ‘ فرما یا ماں تو
قدرت کا وہ انعام ہے جس کا کوئی بدل نہیں ۔ انسان اپنے آپ کو بھول سکتا ہے
‘ ماں کے لمس کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔وہ بچے کی پکار پر اپنی ہستی
قربان کردیتی ہے ۔ والدہ کے حوالے سے ایک واقعے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا
میں جن دنوں اوکاڑہ میں زیر تعلیم تھا۔ سردیاں شروع ہوچکی تھیں ۔ سردی سے
بچاؤ کے لیے میں نے ایک گرم چادر خرید ی ۔ جس سے سردی کی شدت کچھ کم ہوئی ۔
ایک رات خواب میں نے اپنی والدہ کو سردی سے کانپتے دیکھا تو بے چین ہوگیا
۔دن چڑھتے ہی میں مدرسے سے باہر نکلا تو مجھے فٹ پاتھ پر لیٹی ہوئی ایک
بوڑھی عورت نظر آئی جو سردی سے کانپ رہی تھی ۔میں نے اپنے جسم پر لپیٹی
ہوئی گرم چادر اتار کر اس بڑھیا پر ڈال دی جس سے اسے کچھ سکون ملا ۔پھر میں
سردی سے کانپتا ہوا مدرسے واپس پہنچا ۔ اگلی رات وہی چادر جو میں بڑھیا پر
ڈالی تھی‘ میری والدہ نے اوڑھ رکھی تھی ۔ والدہ نے شفقت کا اظہار کرتے ہوئے
کہا بیٹا تمہارا تحفہ مجھے مل گیا ہے ۔
***********
یہاں بھی بتاتا چلوں کہ مسجد طہ میں صبح سے لے کر رات گئے تک درود و سلام
کی محفلیں جاری رہتیں ۔لنگرکا وسیع انتظام محمد منشا اور محمد ہدایت کے ذمے
تھا ‘ جو اپنے فرائض باوضو ہوکر درود و سلام پڑھتے ہوئے نہایت ذمہ داری سے
انجام دیتے۔ دور و نزدیک سے فیض حاصل کرنے والے جوق در جوق مسجد طہ میں آتے
ان میں ‘ ہم بھی شامل تھے ۔ ہمیں پیر و مرشد ؒ کے ہمراہ بورے والا کے مشرق
میں واقع صحابی رسول حضرت حاجی شیر ؒ ‘ قبولہ شریف ‘ حضرت بابا فرید گنج
شکر کے مزار شریف پر جانے کا شرف حاصل ہوا ۔اس دوران بے شمار واقعات دیکھنے
کو ملے جو میرے سینے میں دفن ہیں بلکہ آپ ؒ کے منصب ولایت پر فائز ہونے کی
ضمانت بنتے ہیں لیکن یہاں اختصار سے کام لیتے ہوئے انہی پر اکتفا کرتا ہوں
۔ گنج کرم ‘ پیرطریقت ‘ رہبر شریعت حضرت مولانا محمد عنایت احمد 1938ء کو
وادی کشمیر کے معروف گاؤں "کلسیاں"کے ایک دینی گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ آپؒ
کے والد گرامی حضرت صحبت علی ؒ شرافت ‘ دیانت اور روحانیت کے اعتبار سے
علاقے میں اپنی الگ پہچان رکھتے تھے ۔آپ ؒ کی والدہ (قاسم بی بی ) بہت نیک
سیرت اور پابند صلوۃ تھیں ۔جب آپ کی ولادت با سعادت ہوئی تو اس وقت قطب الا
قطاب حضرت سید ولایت شاہ ؒ مبارک دینے کے لیے گھر تشریف لائے اور آپ ؒ کو
اپنی گود میں اٹھا کر پیار کرتے ہوئے فرمایا۔ اﷲ نے چاہا تو یہ بچہ اپنے
وقت کا قطب ‘ بہترین عالم دین اور منبع رشد و ہدایت ہوگا۔آپ ؒ نے 73سال کی
زندگی پائی اور ہوش سنبھالنے سے زندگی کی آخری سانس تک اطاعت خداوندی اور
محبت نبوی ﷺ میں گزار دی ۔
آپ ؒ 31 جولائی 2011ء کی صبح خالق حقیقی سے جاملے ۔تو آپ ؒ کا جنازہ لاہور
کے بڑے جنازوں میں شمار کیاجاسکتا تھا ۔ دورو نزدیک سے لوگ جوق در جوق نماز
جنازہ میں شریک ہوئے ۔ہر آنکھ اشکبار تھی ۔میں بھی ان خوش نصیبوں میں شامل
تھا جنہوں نے نماز جنازہ میں شرکت کی ۔ ابھی آپ ؒ کے جسمانی وصال کو تین دن
ہی گزر ے تھے کہ آپ ؒ خواب میں تشریف لائے ۔ منظر کچھ یوں تھا ‘ایک وسیع و
عریض میدان میں لاکھوں فرزند توحید قطار باندھے نماز جمعہ پڑھنے کے منتظر
تھے ۔آپ ؒ امامت کے مصلے پر موجود تھے آپ ؒ نے مجھے فرمایا کہ اقامت پڑھو ۔
میں نے اقامت پڑھی تو نماز شروع ہو گئی۔ سلام پھیر نے کے بعد مجھ سے مخاطب
ہوکر فرمایا جب نماز جمعہ کے فرض ادا کر لو تو تین مرتبہ آیت نے کریمہ پڑھا
لیا کرو ‘ اﷲ تعالی تم پر رحم فرمائے گا ۔ میں نے ایک بار پھر پوچھا حضرت
صاحب صرف تین مرتبہ ۔ آپ ؒ نے فرمایا تین مرتبہ ہی کافی ہے ۔ خواب میں ملنے
والی اس ہدایت کا ذکر میں نے اپنے کئی پیر بھائیوں سے بھی کیا۔ کچھ دن بعد
ایک بار پھرخواب کی حالت میں آپ ؒ سے ملاقات ہوئی۔ آپ اپنے مزار شریف کے
باہر دھوپ میں تشریف فرما ہیں ۔ کئی پیر بھائی ان کے اردگرد حلقہ بنائے
بیٹھے ہیں ۔ میں بھی ان میں شامل ہوں ۔ میں نے عرض کیا ہمارے ایک دوست اختر
صاحب مکہ کالونی میں رہتے ہیں وہ بھی آپ سے بہت محبت کرتے ہیں ۔ وہ کہتے
ہیں کہ میں جب مکہ کالونی کی مسجد میں کھڑا ہوتاہوں تو راستے میں حائل تمام
رکاوٹ دور ہوجاتی ہیں اور میں پیر عنایت احمد ؒ کا مزار مبارک اپنی آنکھوں
سے دیکھتا ہوں جو مجھے سبز لباس میں مزار پر آنے کی ہدایت کرتے ہیں ۔ یہ
واقعہ سننے کے بعد پیرو مرشد فرماتے ہیں ۔اختر صاحب جوکہتے ہیں ‘ٹھیک کہتے
ہیں وہ اور ان کے بھائی منصب ولایت پر فائز ہیں ۔ پھر ایک مرتبہ خواب کی
حالت میں آپ ؒ سے ملاقات ہوئی ۔ایک وسیع و عریض مسجد میں محفل میلاد جاری
تھی جہاں پیر و مرشد منصب صدارت پر فائز تھے اور میں ان کے قریب ہی موجود
تھا ۔ میں نے یکدم سوال کیا۔دنیا میں تو آپ ؒ کی بہت عزت وتکریم تھی۔ یہاں
کیا عالم ہے ۔آپ ؒ نے فرمایا آپ دیکھ نہیں رہے یہاں دنیا سے کہیں زیادہ عزت
و احترام حاصل ہے اور روحانیت بھی ۔ ہر لمحے درود و سلام کی محفلیں جمتی
ہیں اور زیارت نبی کریم ﷺ ہوتی ہے ۔ دنیا تو مومن کے لیے قید خانہ ہے ۔ اس
سے زیادہ خوش قسمتی اور کیا ہوسکتی ہے ۔ سچ تو یہ ہے کہ اس خواب کی روحانیت
کئی دن تک مجھ سے طاری رہی ۔
آپ ؒ نے اوائل عمری میں ہی حضرت سید اسماعیل شاہ بخاری ؒ کے دست مبارک پر
بیعت کی تو کرماں والوں نے فرمایا تم ازل ہی سے میرے مرید ہو پھر آپ کے
سینے پر دست شفقت پھیرتے ہوئے تمام دینی اور دنیاوی علوم عطا کردیے ۔آپ ؒ
کو چاروں سلسلوں میں بیعت کی اجازت مل چکی تھی ۔آج بظاہر آپ ؒ ہمارے درمیان
موجودنہیں لیکن آپ ؒ کے مزار مبارک پر ہر وقت تلاوت قرآن پاک اور درود و
سلام کی محفلیں چلتی رہتی ہیں ۔اس سال آپ ؒ کاعرس مبارک ‘ ماہ رمضان کی جلد
آمد کی بنا پر 27 اور28 شعبان مورخہ 14اور 15 مئی 2018ء کو کبوترپورہ
قبرستان گلبرگ تھرڈ لاہور میں منعقد ہوگا ۔ عرس مبارک کی تقریبات خلیفہ
مجاز صاحبزادہ محمد عمر اور صاحبزادہ محمد عثمان کی صدارت میں ہوں گی جس
میں آپ ؒ کے سات خلفاء بھی شریک ہوں گے ۔ |