نکاح ایک سنت ہے

برائی سے, گناہ سے بچنے کا واحد راستہ کہ سنت نبوی پر عمل ھے اور بلوغت کے بعد نکاح میں جلدی ہی بہتر ھے

اسلام میں نکاح ایک مقدس عہد و پیمان ہے، جو ایک مسلمان زن و شو کے درمیان استوار ہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ ایک دوسرے کے لیے حلا ہوتے ہیں،محبت، تعاون، الفت ویگانگت اور خوشگواری کے ساتھ و زندگی کے سفر کا آغاز کرتے ہیں، ان میں ہر ایک دوسرے سے سکون قلب حاصل کرتا ہے۔ دونوں باہمی صحبت سے آرام و سکون، طمانیت، راحت و آسائش،سچی محبت اور لذت حیات سے بہر ہ ور ہو سکتے ہیں۔ ”علامہ سید سلیمان ندوی رقمطراز ہیں،”اسلام سے پہلے جو اخلاقی مذاہب تھے ان سب میں عورت کو اور عورت و مرد کے ازواجی تعلق کو بہت حدتک اخلاق و روح کی ترقی و مدارج کے لیے مائع تسلیم کیا گیاتھا،ہندوستان میں بودھ،چین،دیدانت جوگ اور سادھو پن کے تمام پیرو کار اسی نظریے کے پابند تھے۔عیسائی مذہب میں تجرد (کنوارا پن)اور عورت سے بے تعلقی ہی کمال روحانی کا ذریعہ تھا۔صرف اسی پر بس نہیں ہوتا تھا بلکہ عورت کو زندہ در گور کر دینا اور ناپاک،پلید اچھوت سمجھنا،خاوند کی لاش کے ساتھ ہی جلا دینا،بیوہ ہونے کی صورت سے اس سے نکاح نہ کرنا،وراثت میں حصہ دار نہ بنانا الغرض عورت کی زندگی ایک عذاب تھی اور وہ ایک زندہ لاش کی صورت میں زندگی بسر کرتی تھی لیکن قربان جائیں اسلام پر کہ اس نے عورت کو کہیں ماں بنا کر قدموں میں جنت رکھ دی،کہیں بہن بنا کر بھائی کو محافظ بنا دیا،کہیں بیٹی بنا کر باپ کو سر پرست بنا دیا، کہیں بیوی بنا کر خاوند کو حاکم محافظ بنا دیا،کہیں خالہ اور کہیں پھوپھی کا درجہ دے دیا،کہیں دادی نانی بنا کر عزت دے دی،کہیں ساس بنا کر وقار سے نواز دیا،لیکن آج افسوس کا مقام ہے کہ اسی عورت نے خواہ وہ دینی تعلیم سے بہرہ ور ہے یا دنیاوی سے،مغربی تہذیب کی جھوٹی چکا چوند کو حقیقی روشنی سمجھتے ہوئے اس میں چلنا شروع کر دیا اور اپنے آپ کو تنہا کر لیا،اپنی محافظ خود بن گئی۔نتیجتاً نہ حفاظت رہی نہ ایمان رہا اور وہ جھوٹی چکا چوند”شادی سے گریز“ کرنا ہے۔آج کی نسل نو آزاد زندگی گزارنے کو پسند کرتی اور اسی کو تر جیح دیتی ہے کبھی پڑھائی کا بہانہ،کبھی رشتہ مطلب کا نہ ملنے کا بہانہ،کبھی تعلیم کا بہانہ اور کبھی سٹیٹس بنانے کا بہانہ اور کمائی کرنے کا بہانہ اسی لیے تو آج ہمارا مسلم مشرقی معاشرہ بھی مغربی معاشرے کے رنگ میں رنگا جا رہا ہے۔بے حیائی، عریانی، فحاشی، بے دینی،عزتوں پر حملہ، تشدد،زنا کاری، نظر بازی،گھروں سے فرار اور طلاقیں عام ہو گئی ہیں اور معاشرہ برائی کی دلدل میں دھنستا ہی جا رہا ہے۔ اولاد، والدین اور بھائیوں کے کنٹرول سے باہر ہورہی ہے‘ شاگرد اساتذہ کے قابو سے باہر ہیں‘ ہٹ دھرمی اتنی کہ ہر طریقے سے سمجھانے کے باوجود اپنی بات پر ہی اڑے رہنا اور اپنی مرضی کرنا آج کی نسل نو کی عادت خاص ہو چکی ہے جس کی وجہ سے بڑوں کا ادب، چھوٹوں سے شفقت،باہمی حقوق،سنجیدگی،ملک وقوم کی فکر،اصلاح کا مادہ تقریباً ختم ہو کر رہ گیا ہے۔اور دشمن کے وار بڑھتے ہی جارہے ہیں، اس کا تسلط مضبوط سے مضبوط تر ہوتا جا رہا ہے۔ شادی فطرتی اورضروری چیز ہے اللہ رب العزت نے سورۃالروم آیت 21 میں فرمایا”اور اس کی(قدرت کی) نشانیوں میں سے یہ ہے کہ تمہاری بیویا ں تم ہی میں سے (یعنی آدمیوں میں سے)بنائیں اس لیے کہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور تم دونوں کے درمیان الفت اور محبت رکھی،بے شک ان باتوں میں ان لوگوں کے لیے جو سوچتے ہیں (اللہ کی قدرت کی) نشانیاں ہیں،عمر کے ایک مخصوص حصہ میں آ کر مرد کوعورت کی ضرورت محسوس ہوتی ہے تا کہ اس سے تسکین حاصل کرے اور عورت کو مرد کی ضرورت ہوتی ہے جس کا سہارا لے کر وہ اپنی سب سے بڑی دولت عصمت کو محفوظ رکھ سکے اور دونوں مل کر پاک دامنی کی زندگی گزاریں“ مرد کے پاس عقل ہے دل نہیں، عورت کے پاس دل ہے عقل نہیں،یعنی ہر ایک کا ایک پہلو کمزور ہے جب تک دونو ں مل نہ جائیں کسی ایک کی بھی زندگی مکمل نہیں ہو سکتی۔اور شادی کرنا اجتماعی حیثیت سے بھی ضروری ہے کہ مذکورہ فوائد کے ساتھ اجتماعی شیرازہ بندی میں سہولت پیدا ہو،تعلقات اور باہمی انس و محبت دو خاندانوں کو جوڑ دے۔

اگر شادی نہ ہو تو باپ کہاں سے آئے گا؟ بھائی چارہ دنیا میں کہا ں سے جنم لے گا؟اور باہمی تعلقات کی جڑ کیونکر مضبوط ہو گی؟نکاح ضروری چیز ہے لیکن مالدار لوگوں اور انگریزی تہذیب کی طرف مائل لوگوں میں عموماً نکا ح کا مذاق اڑایا جاتا ہے یا اس سے اعتراض کیا جاتا ہے یا پھر نکا ح کرنے کے بعد اس پر ندامت کا اظہار کیا جاتا ہے۔یہ محض ہنسی مذاق لہو و لعب اور بے ہودہ افسانوں سے متاثر ہو کر کیا جاتا ہے لیکن یہ طریقہ اور روش لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے راستے اور اس اہم فریضے سے دور لے جاتی ہے جو عظیم مقصد کے لیے ہے اور اس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں مشروع قرار دیا اور اس کی ترغیب دلائی ہے“ (الحیاۃ الزوجیہ)محسن انسانیت محمد نے فرمایا ”اے نوجوانو! تم میں جو اسباب جماع پر قادر ہو(یعنی جوانی کو پہنچ جائے)اس کو شادی کر لینی چاہیے کیونکہ نکاح آنکھوں کو بہت نیچارکھنے والا اور بد کاری سے بچانے والا ہے“اگرچہ یہ خطاب نوجوان مردوں کے لیے ہے لیکن عورتیں بھی اس میں شامل ہیں۔ابن ماجہ کے حاشیہ مفتاح ا لحاجہ میں امام نودیؒ کہتے ہیں کہ صحیح یہ ہے کہ شباب بلوغت (مردوں کی بلوغت عام طور پر 15ویں سال اور عورتوں کی 11 ویں سال سے شروع ہو جاتی ہے)سے لے کر تیس برس کی عمر تک ہے،تیس سے چالیس سال تک اڈھیر پن ہے،چالیس کے بعد بڑھاپا ہے۔محسن انسانیت نے فرمایا”(اے والدین و سرپرستو) جب تمہارے پا س نکاح کا پیغام وہ شخص بھیجے جس کا دین اور اخلاق تمہیں پسند ہو تو اس سے (لڑکی یا لڑکے کا) نکا ح کر دو،اگر تم نے ایسا نہ کیا تو زمین میں فتنہ اور فساد برپا ہوجائے گا“یعنی زنا کاری و بے حیا ئی عام ہو جائے گی،امام الانبیاء محمد الرسول ﷺ کی ازواج مطہرات کے گھروں میں تین شخص گئے اور نبیﷺ کی عبادت کے متعلق دریافت کرنے لگے،جب ان کو آپ ﷺ کی عبادت کی تفصیل بتائی گئی تو گویا انہوں نے اس عبادت کو کم تصور کیا اور کہنے لگے کہ ہمارا نبیﷺ سے کیا تقابل چنانچہ ان میں سے ایک بولا کہ میں تو ساری رات ہمیشہ نماز ہی پڑھتا رہوں گادوسرابولا کہ میں تو ہمیشہ روزے رکھا کروں گااور کبھی کوئی روزہ قضا نہیں کروں گا،تیسرا بولا کہ میں توہمیشہ عورتوں سے الگ تھلگ رہا کروں گا اور میں شادی ہی نہیں کروں گا۔اتنے میں رسول اللہ ﷺ ان پاس تشریف لائے اور فرمایا ”فلاں فلاں بات کہنے والے تم لوگ ہو؟(انہوں نے کہا ہاں تو)نبی ﷺ نے فرمایا ”یاد رکھو!اللہ کی قسم!میں تمہاری نسبت اللہ تعالیٰ سے زیادہ خوف کھانے والا ہوں اور میرے دل میں اللہ تعالیٰ کا تقویٰ تم سے زیادہ ہے لیکن اس کے باوجود میں روزے بھی رکھتا ہوں اور چھوڑ بھی دیتا ہوں اور (رات کو) نماز بھی پڑھتا ہوں اور آرام بھی کرتا ہوں اور میں نے شادیا ں بھی کی ہیں (لیکن تم میرے مسنون طریقہ کے خلاف کرنے کا ارادہ رکھتے ہوتو سنو) جو شخص میرے مسنون طریقہ سے رو گردانی کرے گاتو اس مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہے“(بخاری،کتاب النکاح)تحفتہ العروس میں ہے کہ اے بیٹا! یقین جانو کہ شادی ان افضل امور میں سے ہے جو لمبی عمر کے لیے مدد گار ثابت ہوتے ہیں اور مربوط و مضبوط زندگی کی طرف لے جاتے ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ کبھی کبھار ازدواجی زندگی اولاد اور گھریلو معاملات کی وجہ سے الجھ کر رہ جاتی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ شادی شدہ شخص اس کے باوجود رضامند،اطمینان اور دلی سکون کے ساتھ زندگی گزارتا ہے جبکہ غیر شادی شدہ اپنی زندگی میں ایک خلا اور اپنی زندگی میں بڑی کمی محسوس کرتا ہے۔کسی نے سچ کہا ہے کہ غیر شادی شدہ شخص بعض اوقات اپنی زند گی کا بادشاہ ہوتا ہے۔لیکن اپنے بڑھاپے میں غلام اور مسکینوں کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتا ہے جبکہ شادی شدہ کبھی کبھا ر اپنی زندگی کے چند ابتدائی سالوں میں پابند و مطیع غلام ہوتا ہے لیکن بڑھاپے میں اپنے آپ کو اپنے گھر میں تاج پہنایا ہو ا باد شاہ محسوس ہوتا ہے اور اس تنہائی اور وحشت سے محفوظ رہتا ہے جس کا غیر شادی شدہ شخص شکار ہو جاتا ہے۔برٹلن کے اعدادوشمار سے پتہ چلتا ہے کہ غیر شادی شدہ شخص لوگوں کے خود کشی کے واقعات شادی شدہ لوگوں کے حادثات کی نسبت زیادہ ہوتے ہیں اور عموماً شادی شدہ انسانوں کی دماغی و اخلاقی حالت متوازن ہوتی ہے ان کی زندگی پر سکون اور ٹھہراؤ والی ہوتی ہے ان کی زندگی میں گجروی اور سوداوی امراض کا شائبہ تک نہیں ہوتا جبکہ ان دونوں مرضوں کے غیرشادی شدہ افراد بہت شکار ہوتے ہیں۔نکاح ایمان کے حصول کا سبب ہے۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ”جب انسان شادی شدہ ہوتا ہے تو وہ اپنا آدھا دین مکمل کر لیتا ہے تو باقی ماندہ آدھے دین میں اسے اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے“یعنی مرد ہو یا عورت وہ زنا کاری اور نظر بازی سے بچ جا تا ہے تو اس صورت میں اس کو نصف ایمان نصیب ہو جاتا ہے باقی جب اسلام کے مطابق زندگی گزارتا ہے تو اس کے ایمان کی تکمیل ہو جاتی ہے۔اللہ پاک ہمیں اسلامی طریقوں کے مطابق صحیح معنوں میں زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فر مائے آمین۔

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 875 Articles with 457734 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More