اپنے ہاں کی سیاست میں کامیابی کا سب سے بڑا راز منافقت
ہے جبکہ لوٹا ہونا اور وقت کے ساتھ قبلہ بدل لینا سونے پہ سہاگہ ،بڑے بڑے
جغادری بازو لہرا لہرا کر اپنے لیڈروں سے وفاداری کا عزم اور اظہار کرتے
ہیں اور وقت آنے پر سورج مکھی کے پھول کی طرح سورج کے ساتھ ساتھ اپنی سمت
تبدیل کرلیتے ہیں،منافقت اورڈھٹائی کی اس سے بڑی اور کیا مثال دی جائے کہ
وہ لوگ جو عام دنوں میں عام آدمی کو عام آدمی تک سمجھنے کو تیار نہیں ہوتے
الیکشن کے دنوں کی آمد کے آغاز کے ساتھ ہی بچھ بچھ جانے کو تیار ہوتے ہیں
جو کسی کے مرنے پر بھی نہیں جاتے وہ شادی اور ختنوں کی رسم پہ بھی مبارکباد
دینے پہنچ جاتے ہیں،ادھر ہم ہیں کہ آج تک گلی نالی سے باہر ہی نہیں نکل
سکے،پانچ سال ہمیں دھتکارنے والے جب ہمارے دروازے پر آتے ہیں تو ہم صرف
اپنے سگے رشتے داروں کو نیچا دکھانے اور اپنا شملہ اونچا کرنے کی خاطر پھر
انہی کے ہاتھ پر بیعت کر لیتے ہیں،جھوٹے وعدے لارے اور نام نہاد ترقی کے
خواب، نہ دکھانے والوں کو یاد رہتے ہیں نہ دیکھنے والوں کو،استحصال ہے جو
کب سے جاری و ساری ہے وہ بھی کچھ اس طرح کہ ہٹ دھرمی اور بے حیائی کی ساری
حدیں کراس کیے جارہا ہے،کوئی پوچھنے والا ہے نہ کوئی بتانے کو تیار،کہ جناب
کل تک آپ فلاں جماعت کا دم بھر رہے تھے میری ساری برادی آپ کے پیچھے ناراض
،بہن بھائی تک کئی جگہ پر آپ کی خاطر قربان ہو گئے مگر آپ،،کل تک جو گندے
تھے آج وہی پارسا مطلب کہ پارسائی کا سرٹیفکیٹ اور ٹھیکہ آپ کے پاس کب سے
اور یہ آپکو دیا کس نے،اگر ہم چکوال اور خصوصاً تلہ گنگ کی بات کریں تو یہ
جو آج کہہ رہے ہیں کہ ہمیں ووٹ دو ہم علاقے کی قسمت بدل دیں گے یہ اسی طرح
مدتوں سے تلہ گنگ والوں کی گردن پر سوار ہیں جیسے ن لیگ اور پیپلز پارٹی
والے پاکستان کی گردن پر سوار ہیں،اگر پاکستان پر اس کے وجود میں آنے سے
لیکر اب تک چند خاندان قابض رہے ہیں تو آپ ذرا نیچے نظر دوڑائیں آپ کو ایسی
ہی صورتحال تقریباً ہر ضلع اور تحصیل میں بھی نظر آئے گی جہاں پر بھی عوام
کی گردنوں پر یہ موروثی نظام اور چند خاندان اور ان کے عزیزو اقارب حکومت
کرتے نظر آئیں گے،کوئی عام شخص کہیں بھی ان چھوٹے چھوٹے پردھان منتریوں نے
آگے نہیں آنے دیا اور نہ ہی آئندہ آنے دینے کوتیار ہیں،منافقت کی حد یہاں
بھی آپ کو یوں نظر آئے گی کہ جب کبھی ان کی محفل میں بیٹھنے کا اتفاق ہو ہی
جائے تو مواخات،رواداری، بھائی چارے اور سادگی کی مثالوں کے لیے حضرت عمر
فاروق ؓ اور خلفائے راشدین سے کم پر نہیں ٹھرتے،تلہ گنگ میں مدتوں ان
لیگیوں اور پپلیوں کی بھی حکومت رہی مگر اگر کہیں کچھ تھوڑی بہت بہتری ہوئی
تو ان کی بجائے ایک عام شخص حافظ عمار یاسر کی وجہ سے ہوئی،حافظ عمار یاسر
اگر چاہتے تو ان ہی کی طرح اپنی جماعت ق لیگ سے مشیر یا وزیر مملکت کا عہدہ
خود لیتے اور اپنے کئی عزیزو اقارب کو اہم سرکاری عہدوں پر تعینات کروا کے
آنیوالی نسلیں سنوار تے ،مگر چونکہ مکار اور چالاک نہیں تھے سادہ اور عام
انسان تھے سو اپنی بجائے علاقے کی ترقی کا سوچتے رہے،تلہ گنگ شہر کے وسط
میں جدید ترین چوہدری پرویز الٰہی ہسپتال تعمیر کروا یا جو بعد میں ترقی کر
کے سٹی ہسپتال بن گیا(ایک لحاظ سے اچھا ہی ہوا کہ اگر نام پرویز الٰہی ہی
رہتا توآج ا س اونچی دکان پھیکا پکوان کو دیکھ کر مایوس لوگوں کی بدعائیں
پرویز الٰہی کو جاتیں،کم از کم اس حد تک تو موجودہ حکومت نے چوہدری پرویز
الٰہی کا خیال رکھا کہ ان کو ملنے والی بدعائیں اپنی جھولی میں ڈالیں)،تلہ
گنگ میانوالی روڈ جوپچھلے پچاس سالوں سے بیوہ کے اجڑے سہاگ کا منظر پیش کر
رہا تھا کو نہ صرف وسیع بلکہ کارپٹڈ کروایا،شہر کے بیشتر علاقوں کو گیس
دلوائی،منتخب وزیر اعلیٰ اور ڈپٹی پرائم منسٹر کو بار بار تلہ گنگ بلایا
،اس کے علاوہ بھی بے شمار چھوٹے بڑے منصوبے حافظ عمار یاسر نے مکمل کروائے
ہیں بے شمار عوامی فلاحی منصوبوں کے نگران بھی ہیں متعدد غریب اور بیواؤں
کی کفالت بھی انکے خاندان کے ذمے ہے جسے وہ انتہائی احسن طریقے سے بغیر کسی
نمو دو نمائش کے جاری و ساری رکھے ہوئے ہیں،تلہ گنگ کے لوگوں کو حافظ عمار
یاسر کے ہاتھ مظبوط کرنے چاہییں تھے،مگر الیکشن کے دنوں میں وڈیروں اور
جاگیر داروں نے عوام کو گجرات جاتی پگ کا جھانسہ دیکر دو مرتبہ پرویز الٰہی
کو یہاں سے کامیاب نہ ہونے دیا،حالانکہ اگر دیانتداری سے دیکھا جائے تو ان
کے تمام ادوار کے مقابلے میں چوہدری پرویز الٰہی کا ایک دور ہر لحاظ سے
بہتر تھا،تاہم پرویز الٰہی کے مقابلے میں جیتنے والوں کی بات کی جائے تو
ایک منتخب ایم این اے عین عالم شباب میں شاید جعلی ڈگری کے ڈر سے میدان
چھوڑ کر بھاگ گئے اور دوسرے صاحب کی دماغی حالت کا عالم یہ ہے کہ گھر آئے
ایک مہمان کو تین بار جپھا ڈال کر ملتے ہیں،وہ ہسپتال جو چوہدری پرویز
الٰہی نے حافظ عمار یاسر کے توسط سے تلہ گنگ کے عوام کو تحفہ دیا تھا انہوں
نے صرف اس کا نام تبدیل کر دیابلکہ انا کی تسکین یہاں تک بھی نہ ہوئی تو اس
ہسپتال میں موجود تمام مشینر ی اٹھا کر ملتان بھجوا دی،آج پھر الیکشن کی
آمد آمد ہے ،سابقہ الیکشن میں ن غنوں کے سربراہ تلہ گنگ کے لوگوں کو ضلع کا
لولی پاپ دیکر تینوں نشستیں لیکر چلتے بنے،تلہ گنگ کے عوا م کو اب ہوش کے
ناخن لینے چاہیں اور اچھے برے کی تمیز کرنا چاہیے،کب تک پگ اور ضلع جیسے
مردہ ایشوز کے نام پر بلیک میل ہوتے رہیں گے،یہاں سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ
اگر مارکیٹ میں یہی سودا موجود ہے تو ہم ووٹ کس کو دیں،جس کا جواب یقینایہ
ہی بنتا ہے کہ یہ لوگ کوئی اوپر سے لکھوا کر نہیں لائے ساتھ کہ ووٹ ان کا
یا ان ہی کے خاندان کے کسی چمچے چہیتے کو دینا ہے الیکشن کا بائیکاٹ ہم
جیسی قوم کر نہیں سکتی کہ جب تک اصلاحات مکمل نہ ہو جائیں اس وقت تک ووٹ
کاسٹ ہی نہ کیا جائے ،لیکن اگر دینا ہی ہے تو حافظ عمار یاسر میں کیا برائی
ہے انہیں دیا جائے ،دستیاب امیدواروں میں ہر لحاظ سے خصوصاًکردار کے حوالے
سے سب سے بہتر امیدوار ہیں،حافظ عمار یاسر سے بھی امید کی جاتی ہے کہ اب کی
بار وہ خوشامدیوں کے نرغے سے ذرا باہر نکل کر دیکھیں گے اور بیساکھییوں کی
تلاش یا بیساکھیوں کے سہارے کی بجائے خود میدان میں اتریں گے۔ |