گزشتہ دنوں وفاقی دارالحکومت اسلام آبادکے مضافات
میں ایک ایسے ادارے کی تقر یب میں جانے کا اتفاق ہوا کہ جہاں دینی مدارس کے
طلبہ کونصابی تعلیم مکمل کرنے کے بعد خصوصی کورسز کرائے جاتے ہیں ۔اس ادارے
کا قیام دینی مدارس کی ایک غیر فرقہ وارانہ ٗملک گیر اور منظم تنظیم جمعیت
طلبہ عربیہ پاکستان کے چند سابق عہدیداروں کی فکر ٗ سوچ بچار اور اشتراک
عمل کے نتیجے میں 26 مئی 2009 کوعمل میں آیا تھا۔ جبکہ اس کا باضابطہ سنگ
بنیاد وائس چانسلر رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی اسلام آباد پروفیسر ڈاکٹر انیس
احمد نے 18 اگست 2009 کو رکھا ۔مرکز تعلیم وتحقیق کی مجلس مشاورت میں
پروفیسر ڈاکٹر حافظ حبیب الرحمان چیئرمین ٗمولانا حافظ ساجد انورسیکرٹری ٗ
مولانا ڈاکٹر محمد کاشف شیخ ٗمولانا مطیع الرحمان ٗ جاوید اختر ٗ مولانا
سید عارف شیرازی ٗمولانا محمد جاوید قصوری ٗ مولانا محمد غیاث ٗاور منتظم
اعلیٰ جمعیت طلبہ عربیہ پاکستان شامل ہیں ۔یقینا یہ ایک نا قابل انکار
حقیقت ہے کہ احیائے اسلام کے حوالے سے اُمت مسلمہ کا سر فہرست مسئلہ تعلیم
و تحقیق کا ہے۔اس ہنر اور ہتھیار کے بغیر اقوام عالم میں کوئی با وقار
مرتبہ ومقام حاصل نہیں کیا جا سکتا ۔ نفاذ شریعت کے لئے کام کرنے والی دینی
قوتوں میں ایک عرصہ سے ایسے رجال کار کی کمی کا شدت سے احساس پایا جاتا ہے
ٗ جو فکری ٗتعلیمی سیاسی ٗ معاشی اور تمدنی میدانوں میں مسلمانوں کی نشاۃ
ثانیہ میں بنیادی کردار ادا کریں ۔اس اہم دینی فریضہ کی ضرورت کو پیش نظر
رکھتے ہوئے ہی مرکز تعلیم و تحقیق کی بنیاد رکھی گئی ہے۔یہ محض ایک تعلیمی
ادارہ نہیں بلکہ ایک تعلیمی و تحقیقی تحریک کا عنوان اور نقطہ آغاز
ہے۔حقیقت یہ ہے کہ یہ کام ایک وسیع اور ہمہ گیر علمی ٗ تحقیقی اور فکری
تحریک کا تقاضا کرتا ہے۔ ادارے نے اپنے جو اہداف مقرر کئے ہیں ٗ ان میں
مختلف شعبہ جات افتاء ٗ قانون اور اسلامی معیشت میں متخصصین اور اسکالرز کی
تیاری ٗ ایسے نوجوان محققین کی تیاری کہ جواُمت کو درپیش مسائل کا مدلل حل
پیش کر سکیں۔مختلف شعبہ ہائے حیات کی ضروریات کے مطابق ریفریشر کورسز کا
اجراء اور دینی مدارس کے اساتذہ کو تدریس کی تربیت دیناشامل ہیں۔
تین شعبہ جات کو فوکس کیا گیا ہے۔ 1۔شعبہ تعلیم 2 ۔ شعبہ تحقیق و تالیف 3
۔شعبہ دعوت و تربیت ۔شعبہ تعلیم میں تخصص فی الفقہ و الافتاء کا دو سالہ
پروگرام ہے۔ اس شعبہ میں درس نظامی کی تکمیل کے بعد داخلہ دیا جاتا ہے۔ اب
تک 32 درس نظامی کے فضلا تخصص فی الفقہ و الافتا کر چکے ہیں۔اس وقت چوتھا
اور پانچواں بیج جاری ہے۔ جس میں طلبہ کی تعداد 20 ہے۔یہ پروگرام چار سمسٹر
پر مشتمل ہے۔ جس میں پہلے دو سمسٹر عربی اور انگلش لینگویج کے ہیں۔اس کے
علاوہ درج ذیل مضامین کی تدریس کی جاتی ہے۔علوم القرآ ن ٗ علوم الحدیث ٗ
جدید فقہی مسائل میں سے ادب الفتویٰ ٗاصول افتاء ٗفقہ المقارن ٗاصول الفقہ
ٗ آیات الاحکام ٗ المدخل لدرستہ الفقہ الاسلامی ۔ تیسرے سمسٹر میں فتاویٰ
کی عملی مشق کرائی جاتی ہے۔اور چوتھے میں جدید فقہی مسائل میں کسی منتخب
موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھوایا جاتا ہے۔ طلبہ کوتحقیقی اور تعلیمی مقاصد کے
لیے کمپیوٹر لیب اور انٹر نیٹ کی سہولت بھی حاصل ہے۔اس کے ساتھ ساتھ عملی
طور پر تدریس ٗ امامت و خطابت اور دیگر پیشہ وارانہ سرگرمیوں میں مصروف عمل
مقامی فاضلین درس نظامی علمائے کرام کے لیے دو سال کے دورانیہ پر مشتمل
ہفتہ وار کلاس کا آغاز نومبر 2015 سے کیا گیاہے۔جس میں اس وقت پندرہ علماء
کرام شریک ہیں ۔ اس کے علاوہ اپریل 2015 سے بچیوں کی دینی تعلیم کا باقاعدہ
آغاز کیا گیا ہے۔اس کا الحاق رابطتہ المدارس الاسلامیہ پاکستان کے ساتھ ہے۔
اسی طرح شعبہ دعوت و تربیت کے تحت معاشرے کے مختلف زیر تعلیم طلبہ اور
زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے بھی ریفریشر کورسز
کروائے جاتے ہیں ۔ ٭دینی مدارس کے فاضلین و مدرسین کے لیے دورہ تدریب
المعلمین ٗآئمہ و خطباتربیتی پروگرام ٗعربی ٗ انگلش کورس ٗکمپیوٹر کورس ۔
٭اسکول و کالجز کے اساتذہ اور طلبہ کے لیے فہم قرآن وسنت اور فہم دین کورس
۔٭وکلا اور قانون کے پیشہ سے وابستہ افراد کے لیے اسلامی قانون کورس۔٭تاجر
پیشہ افراد کے لیے اسلامی تجارت و معیشت کورس۔٭عامتہ الناس اور مزدور پیشہ
افراد کے لیے فہم دین کورس ۔٭خواتین کے لیے اسلامی عائلی قوانین کورس ۔شعبہ
تحقیق و تالیف ٗ یہ ادارے کا اساسی شعبہ ہے ۔ جس کا مقصد ایسے نوجوان
محققین کی تیاری ہے کہ جو اُمت کو درپیش اہم مسائل کا حل اسلامی نقطہ نظر
سے عصر حاضر کی زبان میں اور مدلل انداز سے پیش کر سکیں ۔ ٭اس شعبہ کے تحت
اب تک مجلہ تعلیم و تحقیق کے پانچ شمارے شائع ہو چکے ہیں ۔تحقیقی مقالہ جات
٭ اہم معاصر موضوعات پر تخلیقی نوعیت کا کام۔ تراجم٭امہات الکتب اور اہم
معاصر دینی لٹریچر کے تراجم ۔سیمینارز ٭عالم اسلام کو درپیش اہم مسائل پر
سیمینارز کا انعقاد۔ نوجوان محققین کی تیاری ٭تحقیق سے وابستہ افراد کو
تحقیقی سہولیات کی فراہمی اور رہنمائی کے لیے تحقیق کے طرق اور مناہج پر
نامورمحققین کے توسیع محاضرات کا انعقاد۔
سطور بالا میں مرکز تعلیم و تحقیق کے اغراض و مقاصد ٗ اہداف ٗ پروگرام اور
سرگرمیوں کا تعارف مختصر الفاظ میں پیش کیا گیا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا
سکتا ہے کہ اپنی نوعیت کا یہ ایک منفرد اور مستقبل کے چیلنجز سے نبرد آزما
ئی کے لیے رجال کار تیار کرنے والاادارہ ایک گہری سوچ اور فکر کا نتیجہ
ہے۔ان کی سوچ ٗ فکر اور مقاصد سے شائد ہی کسی کو اختلاف ہو ۔ بلکہ اگر میں
یہ کہوں کہ اس فکر اور سوچ کے حامل اور اُمت کا درد رکھے والے اور کڑھنے
والے افراد جگہ جگہ مل جائیں گے۔مگر کسی منظم ٗ مو ثر اور قابل عمل نہج پر
کام کرنے والے خال خال ہی ہوں گے۔یہ ایک طویل المدت اور پتہ ماری کا کام
ہے۔مرکز کے مدیر پروفیسر ڈاکٹر حبیب الرحمان نے اپنے خطبہ استقبالیہ میں
کہا کہ یہ ادارہ اسی فکر ٗ سوچ اور منہج پر قائم کیا گیا ہے کہ جس کی ضرورت
و اہمیت علامہ اقبال رحمتہ اﷲ علیہ نے محسوس کی تھی۔ میرے ذہن میں پون صدی
قبل کے وہ واقعات اور حالات آ گئے۔جب ڈاکٹرعلامہ محمد اقبال رحمتہ اﷲ علیہ
نے اُمت مسلمہ کی علمی ٗ تحقیقی ٗ سیاسی ٗ سماجی اور معاشرتی زبوں حالی کا
عمیق مطالعہ کرنے کے بعد اور مستقبل کے چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کے لئے
فقہ اسلامی کی جدید تشکیل و تدوین کی ضرورت پر زور دیا تھا۔اس مقصد کے حصول
کے لئے انہوں نے برصغیر سے جس شخصیت کا انتخاب کیا تھا۔وہ جواں سال عالم
دین ٗ صحافی اور مصنف سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒتھے۔ علامہ اقبال ؒ نے خط
وکتابت کے ذریعے سے سید مودودی ؒ کواس اہم کام کو یکسوئی سے انجام دینے کے
لئے شمالی پنجاب منتقل ہونے کے لئے بھی قائل کر لیا تھا۔ مگر قدرت کو کچھ
اور ہی منظور تھا ۔ ادھر سید مودودی ؒ نے رخت سفر باندھا تو دوسری طرف (21
اکتوبر 1938 کو)علامہ محمد اقبالؒکو خالق حقیقی کی طرف سے بلاوا آ گیا۔تاہم
سید مودودیؒ نے پٹھان کوٹ کے ایک زمیندار چوہدری نیاز علی کی طرف سے عطیہ
کردہ زمین میں آکر ڈیرہ ڈال دیا۔ تاریخ اس بستی کو دارالاسلام کے نام سے
یاد کرتی ہے ۔تاہم علامہ اقبالؒ کا وہ خواب اور منصوبہ بھی ان کے ساتھ ہی
قبر میں چلا گیا۔
اس تقریب کے مہمان خصوصی امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق تھے ۔
اس موقع پرشیخ القرآن والحدیث اور صدر رابطتہ المدارس الاسلامیہ پاکستان
مولانا عبدالمالک ٗ مہتمم دارالعلوم تفہیم القرآن مردان ڈاکٹر عطا الرحمان
ٗ اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے پروفیسر حبیب الرحمان عاصم ٗ چیف خطیب کے
پی کے مولانا محمد اسماعیل ٗ امیر جماعت اسلامی سٹی ڈسٹرکٹ راولپنڈی سید
عارف شیراز ی ٗ مدیر مرکز تعلیم و تحقیق ڈاکٹر حبیب الرحمان ٗمنتظم اعلیٰ
جمعیت طلبہ عربیہ پاکستان عبید الرحمان عباسی اوردیگر نے بھی اظہار خیال
کیا۔اس موقع پر 32 طلبہ کو اسناد اور شیلڈز دی گئیں۔سراج الحق نے مرکز
تعلیم و تحقیق کے قیام ٗمختصر عرصے میں قابل قدر کام کرنے اور تجویزکردہ
اہداف اور منصوبوں کو سراہتے ہوئے اسے مستقبل میں اُمت کی ضرورت قرار دیا۔
انہوں نے کہاکہ انگریز نے برصغیر میں آ کر دینی اور علمی مراکز کو تباہ و
برباد کیا۔ اسی طرح غرناطہ ٗ اندلس ٗ مصر اور دوسرے ممالک میں مسلمانوں کے
علمی اور تحقیقی اداروں اور مراکز کو جلایا گیا۔یورپ کے کئی شہروں میں
ہمارے اسلاف کی کتابیں لائبریریوں اور کتب خانوں میں اب بھی موجود ہیں
۔انگریزوں کی آمد کے وقت سندھ کے شہر ٹھٹھہ میں 400 اور دہلی میں1000 مدارس
موجود تھے ۔9 /11 کے بعدامریکا نے مسلم ممالک کے تعلیمی نصاب میں من پسند
مضامین شامل کرائے۔ پاکستان کے جنرل پرویز مشرف نے امریکی ڈکٹیشن پر نصاب
میں سے جہادی آیات اور دیگر اسباق نکال دیئے تھے۔انہوں نے کہا کہ دشمن
مسلمانوں میں تفریق پیدا کرنے کے لئے طرح طرح کے منصوبے بناتا ہے ٗمگر
علماء حق نے ہمیشہ اُمت کو جوڑنے اور اتحاد اُمت کے لئے کام کیا ہے۔ نظام
تعلیم کے حوالے سے حکومت کا کوئی وژن نہیں ہے۔ مغرب کی غلامی کے لئے
نوجوانو ں کو کلرک اور دفتری بنایا جا رہا ہے۔ امریکی سفیر نے سکھر میں
طالبعلموں کو کہا کہ وہ اپنے ناموں سے لفظ محمد ﷺختم کردیں ٗکیونکہ ہمارا
کمپیوٹر محمدﷺ کا لفظ قبول نہیں کرتا۔ افسوسناک صورتحا ل ہے کہ ہمارے وزراء
کو سورہ فاتحہ نہیں آتی اور ایسے بھی ہیں کہ جن کو وضو کا طریقہ بھی معلوم
نہیں ہے ۔ سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ 33 لاکھ طلبا دینی مدارس میں زیر
تعلیم ہیں ٗ حکمرانوں کے اصطبل ٗ باغیچوں اور کچن کے لئے بجٹ میں رقم مختص
کی جاتی ہے مگر دینی مدارس کے طالبعلموں کے لئے کوئی پیسہ نہیں ہے۔ ہمیں
موقع ملا تو تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرکے تعلیمی بجٹ کو 2 فیصد سے بڑھا کر 5
فیصد کریں گے۔ہر بچے کو تعلیم دینا حکومت کی ذمہ داری ہے ۔ مستقبل اسلام کا
ہے۔ اﷲ کا دین غالب ہوگا۔ ایم ایم اے کی بحالی سے سیکولر طبقات خوفزدہ
ہیں۔سیاسی برہمنوں اور پنڈتوں کا دور ختم ہونے والا ہے ۔ یہاں ٹرمپ کی
سیاست اور جمہوریت نہیں چلے گی۔ ہم گالی اور گولی کی سیاست کو مسترد کرتے
ہیں ۔وطن عزیز کو دجالی سیاست اور مغربی کلچر سے پاک کرنے کے لئے منبر و
محراب مضبوط مورچے ہوں گے۔
٭ ٭ ٭ ٭ |