عشرہ مبشرہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ
صحابہ ہیں جنہیں زندگی میں ہی جنت کی بشارت دے دی گئی ھے.
ان دس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا ذکر حضرت عبدالرحمن بن عوف رضي
اللہ تعالٰی عنہ کی روایت کردہ حدیث میں ہے کہ:
عبدالرحمن بن عوف رضي اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہيں کہ نبی صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا
ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں ، عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں ،
عثمان رضي اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہيں ، علی رضي اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں،
طلحہ رضي اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں ، زبیر رضي اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں ،
عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں ، سعد رضي اللہ تعالٰی عنہ
جنتی ہيں ، سعید رضی اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں ، ابوعبیدہ رضي اللہ تعالٰی
عنہ جنتی ہیں سنن ترمذی حدیث نمبر ( 3682 ) ۔
حدیث میں سعد سے مطلب سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالٰی عنہ اور سعید سے
مطلب سعید بن زید رضي اللہ تعالٰی عنہ ہیں ۔
ان صحابہ کرام کے علاوہ اوربھی کئی ایک صحابہ کو جنت کی خوشخبری دی گئی ہے
مثلا خدیجہ بنت خویلد رضي اللہ تعالٰی عنہا، عبداللہ بن سلام اورعکاشہ بن
محجن رضی اللہ تعالٰی عنہم وغیرہ۔
ایک ہی حدیث میں ان سب کے نام ذکر ہونے کی بنا پر انہیں عشرہ مبشرہ کہا
جاتا ہے ۔
آپ رضی اللہ تعالی ولادت بعد عام الفيل بسنتين وستة أشهر (50 ق هـ / 574ء)
آفتاب رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے درخشندہ ستاروں میں سب سے روشن
نام یار غار رسالت، پاسدار خلافت، تاجدار امامت، افضل بشر بعد الانبیاء
حضرت ابوبکر صدیق کا ہے جن کو امت مسلمہ کا سب سے افضل امتی کہا گیا ہے۔
بالغ مردوں میں آپ رضی اللہ سب سے پہلے حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔ آپ رضی اللہ
کی صاحبزادی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ
وسلم کی سب سے محبوب زوجہ ہونے کا شرف حاصل ہوا۔واقعہ فیل کے تین برس بعد
آپ رضی اللہ تعالی کی مکہ میں ولادت ہوئی۔آپ رضی اللہ تعالی کا سلسلہ نسب
ساتویں پشت پر سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مل جاتا ہے۔ آپ
رضی اللہ تعالی کا نام پہلے عبدالکعبہ تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و
آلہ وسلم نے بدل کر عبداللہ رکھا، آپ رضی اللہ تعالی کی کنیت ابوبکر تھی۔
آپ رضی اللہ تعالی قبیلہ قریش کی ایک شاخ بنو تمیم سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ
رضی اللہ تعالی کے والد کا نام عثمان بن ابی قحافہ اور والدہ کا نام ام
الخیر سلمٰی تھا۔ آپ رضی اللہ تعالی کا خاندانی پیشہ تجارت اور کاروبار
تھا۔ مکہ میں آپ رضی اللہ تعالی کے خاندان کو نہایت معزز مانا جاتا تھا۔
کتب سیرت اور اسلامی تاریخ کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ بعثت سے قبل ہی آپ
رضی اللہ تعالی کے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے درمیان گہرے
دوستانہ مراسم تھے۔ ایک دوسرے کے پاس آمد و رفت، نشست و برخاست، ہر اہم
معاملات پر صلاح و مشورہ روز کا معمول تھا۔ مزاج میں یکسانیت کے باعث باہمی
انس ومحبت کمال کو پہنچا ہوا تھا۔ بعثت کے اعلان کے بعد آپ رضی اللہ تعالی
نے بالغ مردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کیا۔ ایمان لانے کے بعد آپ رضی
اللہ تعالی نے اپنے مال و دولت کو خرچ کرکے مؤذن رسول صلی اللہ علیہ والہ
وسلم حضرت بلال رضی اللہ تعالی سمیت بے شمار ایسے غلاموں کو آزاد کیا جن کو
ان کے ظالم آقاؤں کی جانب سے اسلام قبول کرنے کی پاداش میں سخت ظلم وستم کا
نشانہ بنایا جارہا تھا۔ آپ رضی اللہ تعالی کی دعوت پر ہی حضرت عثمان رضی
اللہ تعالی ، حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ تعالی ، حضرت طلحہ رضی اللہ
تعالی ، حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی اور حضرت سعد بن ابی وقاص
رضی اللہ تعالی جیسے اکابر صحابہ ایمان لائے جن کو بعد میں دربار رسالت سے
عشرہ مبشرہ کی نوید عطا ہوئی۔سلسلہ نقشبندیہ کے اقرب طرق یعنی خدا تعالیٰ
کی معرفت حاصل کرنے کا سب سے نزدیکی راستہ ہونے کی وجہ یہ بھی ہے کہ اس
سلسلہ میں آنحضرت صﷺ تک پہنچنے کا وسیلہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں
جو انبیاء علیہم السلام کے بعد تمام مخلوقات میں سب سے افضل ہیں۔ ظاہر ہے
وسیلہ جس قدر قوی ہوگا راستہ اتنی ہی جلدی اور آسانی سے طے ہوگا۔جب قریش
مکہ کے مظالم اپنی انتہا کو چھونے لگے تو سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ و آلہ
وسلم نے مسلمانوں کو حبشہ کی جانب ہجرت کی اجازت دے دی۔ اہل ایمان کی بڑی
تعداد نے اس پر لبیک کہا اور حبشہ کی جانب ہجرت کرنا شروع کردی۔ اس موقع پر
آپ رضی اللہ تعالی بھی حکم نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر سرتسلیم خم
کرتے ہوئے حبشہ کے سفر پر روانہ ہوگئے۔ تاہم اہلیان مکہ میں آپ رضی اللہ
تعالی کی عزت کا یہ عالم تھا کہ آپ رضی اللہ تعالی نے اپنے سفر کا کچھ ہی
حصہ طے کیا تھا کہ کفار مکہ کے ایک طاقتور سردار ابن دغنہ سے برداشت نہ
ہوسکا۔ اس نے باوجود ایمان نہ لانے کے آپ رضی اللہ تعالی کو روک لیا اور
اپنی حمایت اور پناہ پیش کردی۔ اس سے اندازا کیا جاسکتا ہے کہ مسلمان
ہوجانے کے باوجود آپ رضی اللہ تعالی کی مکہ میں کس قدر عزت و منزلت
تھی۔صدیق اور عتیق آپ رضی اللہ تعالی کے خطاب ہیں جو آپ کو دربار رسالت صلی
اللہ علیہ و آلہ وسلم سے عطا ہوئے۔ آپ رضی اللہ تعالی کو دو موقعوں پر صدیق
کا خطاب عطا ہوا۔ اول جب آپ رضی اللہ تعالی نے نبوت کی بلا جھجک تصدیق کی
اور دوسری بار جب آپ نے واقعہ معراج کی بلا تامل تصدیق کی ۔ اس روز سے آپ
کو صدیق اکبر کہا جانے لگا۔جب سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے
مسلمانوں کو مدینہ ہجرت کا حکم دیا تو آپ رضی اللہ تعالی کو سرکار صلی اللہ
علیہ و آلہ وسلم کا ہمسفر بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ اس سفر میں آپ رضی اللہ
تعالی نے تمام مواقعوں بالخصوص غار ثور میں قیام کے دوران حق دوستی ادا
کردیا۔ آپ رضی اللہ تعالی کو اس سفر ہجرت کے حوالے سے میں " ثانی اثنین "
کے لقب سے یاد کیا گیا ہے۔ (سورۃ توبہ 40)آپ رضی رضی اللہ تعالی کو
بدر،احد،خندق،تبوک،حدیبیہ،بنی نضیر ، بنی مصطلق ،حنین، خیبر،فتح مکہ سمیت
تمام غزوات میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ہمراہی کا شرف
حاصل رہا۔ غزوہ تبوک میں آپ نے جو اطاعت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی
اعلی مثال قائم کی جس کی نظیر ملنا مشکل ہے۔ اس غزوہ میں سرکاردو عالم صلی
اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ترغیب پر تمام صاحب استطاعت صحابہ نے دل کھول کر
لشکر اسلامی کی امداد کی مگر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی نے ان سب پر اس
طرح سبقت حاصل کی کہ آپ رضی اللہ تعالی اپنے گھر کا سارا سامان لے آئے۔ جب
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ " اے ابوبکر ! گھر
والوں کے لئے بھی کچھ چھوڑا ہے"؟ تو آپ رضی اللہ تعالی نے عرض کی " گھر
والوں کے لئے اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہی کافی ہے "۔
پروانے کو چراغ ہے ، بلبل کو پھول بس
صدیق کے لئے ہے خدا کا رسول بس
دور رسالت کے آخری ایام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آپ رضی
اللہ تعالٰی عنہ کو نماز وں کی امامت کا حکم دیا۔ آپ نے مسجد نبوی میں
سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حکم پر مصلائے رسول پر 17 نمازوں
کی امامت فرمائی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا یہ اقدام آپ رضی
اللہ تعالی کی خلافت کی طرف واضح اشارہ تھا۔ ایک دفعہ نماز کے اوقات میں آپ
رضی اللہ تعالٰی عنہ مدینہ سے باہر تھے۔ حضرت بلال رضی اللہ تعالٰی عنہ نے
آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو نہ پا کر حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو نماز
کی امامت کا کہا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو امامت کرواتا دیکھ کر آپ
صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا "اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ و
آلہ وسلم یہ پسند کرتا ہے کہ ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ نماز کی امامت
کرے۔ یہ بات حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ پر آپ صلی اللہ علیہ و
آلہ وسلم کے اعتماد کا اظہار تھا کہ آپ ہی مسلمانوں کے پہلے خلیفہ ہوں گے
چنانچہ آپ پہلے خلیفہ مسلمین منتخب ہوئے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ
وسلم کے اس دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد صحابہ کرام کے مشورے سے آپ رضی اللہ
تعالی کو جانشین رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم مقرر کیا گیا۔ آپ رضی اللہ
تعالی کی تقرری امت مسلمہ کا پہلا اجماع کہلاتی ہے۔ بار خلافت سنبھالنے کے
بعد آپ رضی اللہ تعالی نے مسلمانوں کے سامنے پہلا خطبہ دیا۔ آپ رضی اللہ
تعالی نے فرمایا کہ میں لوگوں پر خلیفہ بنایا گیا ہوں حالانکہ میں نہیں
سمجھتا کہ میں آپ سب سے بہتر ہوں۔ اس ذات پاک کی قسم ! جس کے قبضے میں میری
جان ہے، میں نے یہ منصب و امارت اپنی رغبت اور خواہش سے نہیں لیا، نہ میں
یہ چاہتا تھا کہ کسی دوسرے کے بجائے یہ منصب مجھے ملے، نہ کبھی میں نے اللہ
رب العزت سے اس کے لئے دعا کی اور نہ ہی میرے دل میں کبھی اس (منصب) کے لئے
حرص پیدا ہوئی۔ میں نے تو اس کو بادل نخواستہ اس لئے قبول کیا ہے کہ مجھے
مسلمانوں میں اختلاف اور عرب میں فتنہ ارتدار برپا ہوجانے کا اندیشہ تھا۔
میرے لئے اس منصب میں کوئی راحت نہیں بلکہ یہ ایک بارعظیم ہے جو مجھ پر ڈال
دیا گیا ہے۔ جس کے اٹھانے کی مجھ میں طاقت نہیں سوائے اس کے اللہ میری مدد
فرمائے۔ اب اگر میں صحیح راہ پر چلوں تو آپ سب میری مدد کیجئے اور اگر میں
غلطی پر ہوں تو میری اصلاح کیجئے۔ سچائی امانت ہے اور جھوٹ خیانت، تمہارے
درمیان جو کمزور ہے وہ میرے نزدیک قوی ہے یہاں تک کہ میں اس کا حق اس کو
دلواؤں۔ اور جو تم میں قوی ہے وہ میرے نزدیک کمزور ہے یہاں تک کہ میں اس سے
حق وصول کروں۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کسی قوم نے فی سبیل اللہ جہاد کو
فراموش کردیا ہو اور پھر اللہ نے اس پر ذلت مسلط نہ کی ہو،اور نہ ہی کبھی
ایسا ہوا کہ کسی قوم میں فحاشی کا غلبہ ہوا ہو اور اللہ اس کو مصیبت میں
مبتلا نہ کرے۔ میری اس وقت تک اطاعت کرنا جب تک میں اللہ اور اس کے رسول
صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی راہ پر چلوں اور ا گر میں اس سے روگردانی کروں
تو تم پر میری اطاعت واجب نہیں۔ (طبری۔ ابن ہشام) امیرالمومنین منتخب ہونے
کے اگلے روز آپ رضی اللہ تعالی نے قصد کیا کہ آپ رضی اللہ تعالی اپنی
تجارتی سرگرمیوں کا آغاز کریں تاکہ معاشی معاملات کو انجام دیا جا سکے۔
راستے میں حضرت عمر رضی اللہ تعالی سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے آپ سے عرض کیا
" یا امیرالمومنین ! آپ کہاں تشریف لے جارہے ہیں؟" آپ رضی اللہ تعالی نے
فرمایا "تجارت کی غرض سے بازار کی طرف جارہا تھا"۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی
نے فرمایا " اب آپ امیر المومنین ہیں"،" تجارت اور مسلمانوں کے باہمی
معاملات ایک ساتھ کیسے چلیں گے ؟"۔ آپ رضی اللہ تعالی نے فرمایا " بات تو
آپ (عمر) کی درست ہے مگر اہل وعیال کی ضروریات کیسے پوری کی جائیں گی؟"۔
حضرت عمر نے عرض کیا " آئیے حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ تعالی کے پاس چلتے ہیں
اور ان سے مشورہ کرتے ہیں۔ (واضح رہے کہ حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ تعالی کو
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے امت کا امین مقرر کیا تھا اسی لئے
بیت المال کی نگرانی بھی آپ ہی کے ذمہ تھی۔) حضرات شیخین ، امین الامت کے
پاس پہنچے اور صورتحال ان کے سامنے رکھ دی۔ امین الامت نے فرمایا " اب
ابوبکر رضی اللہ تعالی مسلمانوں کے خلیفہ ہیں۔ مسلمانوں کے مسائل اور
معاملات کے ذمہ دار ہیں۔ خلافت کے معاملات کو نبٹانے کے لئے طویل وقت اور
سخت محنت درکار ہوتی ہے۔ اگر خلیفہ تجارت کریں گے تورعایا کا حق ادا نہ
کرسکیں گے۔ لہذا ان کی اور ان کے اہل وعیال کی ضرورت کے لئے بیت المال سے
وظیفہ مقرر کردینا چاہیے۔ اب سوال یہ تھا کہ وظیفہ کی مقدار کتنی ہو؟ اس
موقع پر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی نے فرمایا کہ " جتنا مدینے کے کسی ایک
مزدور کی آمدنی ہوتی ہے اتنا کافی رہے گا"۔ عرض ہوا کہ اتنے کم سے تو آپ کا
گزارہ نہیں ہو سکے گا " آپ رضی اللہ تعالی نے فرمایا "اگر اس سے ایک عام
آدمی کے گھر کا گزارہ ہوسکتا ہے تو خلیفہ کا بھی ہونا چاہیے۔ اگر نہیں
ہوسکتا تو اس کا مطلب ہے کہ ایک عام مزدور کس طرح گزارہ کرتا ہوگا"۔ چنانچہ
خلافت اسلامی کے اس پہلے تاجدار کا وظیفہ ایک عام مزدور کے مساوی مقرر ہوا۔
آپ رضی اللہ تعالی نے اس قلیل رقم میں مزید کمی کروا دی۔ واقعہ یوں ہے کہ
آپ رضی اللہ تعالی کو میٹھا مرغوب تھا۔ اب روز جو مقدار بیت المال سے عطا
ہوتی اس میں ہی گزارہ کرنا دشوار تھا چہ جائیکہ میٹھا کہاں سے آتا ؟ آپ رضی
اللہ تعالی کی زوجہ محترمہ نے یہ کیا کہ روز جو آٹا بیت المال سے آتا تھا
اس میں سے چٹکی چٹکی جمع کرنا شروع کردیا۔ جب اس کی مقدار زیادہ ہوگئی تو
ایک روز میٹھا تیار کرکے دسترخوان پر رکھا گیا۔ آپ رضی اللہ تعالی نے
فرمایا " یہ کہاں سے آیا؟ "۔ زوجہ محترمہ نے عرض کیا " گھر میں بنایا ہے"
آپ رضی اللہ تعالی نے فرمایا " جو مقدار ہم کو روزانہ ملتی ہے اس میں تو اس
کی تیاری ممکن نہیں؟"۔ زوجہ محترمہ نے سارا ماجرا عرض کیا۔ آپ رضی اللہ
تعالی نے یہ سن کر فرمایا " اس سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہم کو اتنی مقدار
( جو روز کفایت کی گئی) ہم کو روزانہ زیادہ ملتی ہے اس سے کم میں بھی گزارہ
ہوسکتا ہے۔ لہذا اس کو بیت المال میں داخل کروا دیا جائے اور آئندہ سے
روزانہ ملنے والے وظیفے سے یہ مقدار کم کردی جائے"یہ ایک تاریخ ساز حقیقت
ہے کہ خلیفہ المسلمین، جانشین پیغمبر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی نے
خلافت کا منصب و ذمہ داری سنبھالتے ہی پہلے روز اپنے خطبے میں جس منشو ر کا
اعلان فرمایا پورے دور خلافت میں اس کے ہر حرف کی مکمل پاسداری کی۔ آپ کی
دینی ومذہبی خدمات تاریخ اسلام کا روشن باب ہیں۔ مغربی مورخین (جو عموما
تاریخ اسلام کے واقعات بیان کرنے میں تعصب اور جانبداری سے کام لیتے آئے
ہیں) عہد صدیقی کی کچھ ان الفاظ میں تشریح کرتے ہیں۔ " حضرت ابوبکر رضی
اللہ تعالی کا دور گو کہ نہایت مختصر تھا مگر خود اسلام ، محمد صلی اللہ
علیہ و آلہ وسلم کے بعد کسی اور کا اتنا احسان مند نہیں جتنا ابو بکر رضي
الله عنه کا ہے۔
اس لشکر کی تشکیل رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے عہد مبارکہ
میں ہی کردی تھی تاہم آپ کے وصال کے بعد ریاست الاسلامی کو درپیش اندرونی و
بیرونی خطرات کے پیش نظر صحابہ کرام کی اکثریت اس لشکر کی فوری روانگی کے
حق میں نہیں تھی ۔ اس موقع پر آپ نے موقف اختیار کیا کہ اس لشکر کی تشکیل
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بذات خود فرمائی ہے اس لئے اس کی
روانگی میں کسی قسم کی تاخیر مناسب نہیں۔ اس لشکر نے زبردست کامیابیاں حاصل
کیں اور فتوحات شام کا دروازہ کھول دیا۔حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی
نےخلیفہ منتخب ہونے کے بعد سب سے پہلے جس فتنہ نے سر اٹھایا وہ منکرین زکوۃ
کا تھا۔ آپ نے فیصلہ کیا کہ ان منکرین کے خلاف جہاد کیا جائےگا کیونکہ یہ
غریبوں کو ان کا حق نہیں دیتے۔ آپ نے اعلان کیا کہ تمام انسانوں کی ضروریات
یکساں ہیں اس لئے سب کو یکساں معاوضہ دیا جائے اور ان کی ضروریات بیت المال
سے پوری کی جائیں۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی کے دور کے شروع میں فتنہ
ارتداد زوروں پر تھا لیکن صدیق اکبر رضی اللہ تعالی کی مستقل مزاجی اور صبر
سے اسلام پر خطرناک ترین دور بخیر و عافیت ان کی موجودگی میں ختم ہوا اور
عقیدہ ختم نبوت کا تحفظ یقینی بنایا گیا۔ آپ نے اس فتنہ کے انسداد کی مہم
پر حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالی کو مامور کیا جنہوں نے کئی مرتدین
بشمول مدعی باطل طلحہ اور مسیلمہ کذاب جیسے خطرناک عناصر کا مکمل خاتمہ
کردیا۔آپ رضی اللہ تعالی نے مملکت اسلامیہ کے دونوں جانب موجود اس وقت کی
بڑی طاقتوں کو للکارا ۔ ایک جانب شام پر تسخیر کی خاطر پہلے حضرت اسامہ بن
زید رضی اللہ تعالی کے لشکر کو شام روانہ کیا جس نے قیصر روم کی افواج کو
شکست فاش دے کر شام کی فتوحات کا آغاز کیا۔ بعد ازاں حضرت ابوعبیدہ ا بن
الجراح رضی اللہ تعالی اور یزید بن ابوسفیان رضی اللہ تعالی کی قیادت میں
لشکر کشی جاری رہی یہاں تک کہ یہ جنگی لحاظ سے اہم ترین صوبہ قیصرروم کے
اقتدار سے نکل کر اسلامی خلافت کا حصہ بن گیا۔دوسری جانب حضرت خالد بن ولید
رضی اللہ تعالی اور حضرت مثنی بن حارثہ رضی اللہ تعالی جیسے مایہ ناز
جرنیلوں کے زیر قیادت فوجیں روانہ کرکے شاہ کسری کے اقتدار پر زبردست ضرب
لگائی ۔عہد خلافت میں آپ کے زریں کارناموں میں ایک قرآن پاک کو یکجا کرکے
ایک مصحف کی تشکیل کرنا ہے۔اس کی ضرورت اس لئے محسوس ہوئی کہ عربوں میں
سٹوریج کی قوت کو نہایت اہمیت حاصل تھی۔ کسی بھی چیز کو سٹوریج کی بنیاد پر
یاد رکھنا ، تحریر ی صورت میں یاد رکھنے پر فوقیت رکھتا تھا۔ اسی لئے صحابہ
کرام کی ایک بڑی تعداد کو قرآن کریم کا بیشتر حصہ حفظ تھا۔ عہد صدیقی میں
جنگ یمامہ ہوئی جس میں حفاظ کرام صحابہ کی ایک بڑی تعداد نے جام شہادت نوش
فرمایا۔ اس موقع پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی کو یہ خدشہ لاحق ہوا کہ
آنے والے دور میں حفاظ کی کمی کے باعث قرآن کریم میں اختلاف پیدا نہ
ہوجائے۔ آپ نے یہ رائے صدیق اکبر رضی اللہ تعالی کے سامنے رکھی کہ قرآن
پاک کو ایک کتابی شکل میں مرتب کیا جائے۔ آپ نے اول تو انکار کیا مگر جب
اکابر صحابہ نے اصرار فرمایا تو آپ صدیق اکبر رضی اللہ تعالی نے اس کو قبول
فرما لیا اور کاتب وحی حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالی کو اس قرآن پا ک کو
ایک مجوعہ کی شکل میں مرتب کرنے کا حکم دیا جنہوں نے صحابہ کرام کے سینوں
میں محفوظ اور متفرق اوراق کو یکجا کرکے یہ خدمت انجام دی۔ بعد ازاں حضرت
عثمان رضي الله عنه کے دور خلافت میں اسی صحیفہ سے نقول کروا کر دیگر صوبہ
جات میں بھجوائی گئیں۔حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وصال کے وقت
صحابہ کرام کی تسکین کی خاطر کے لئے آپ کی استقامت اور خطبے کے ذریعے ان
میں تسکین قلب پیدا کرنا اور امت میں انتشار کے خدشہ کے پیش نظر بار خلافت
قبول فرمالینا، قرآن کریم کی تدوین مرتدین اور منکرین زکوۃ سے اعلان جہاد،
حضرت اسامہ بن زید کی قیادت میں شام کی جانب لشکر روانہ کرنا اور اس عزم پر
ثابت قدم رہنا ،مملکت شام کی جانب افواج کی روانگی اور انہیں کمک پہنچانا،
خلافت اسلامی کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کے دفاع واستحکام اور عامتہ
المسلمین کی فلاح کے لئے اقدامات،اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے لئے تمام ممکنہ
تدابیر اختیار کرنا آپ کی دینی و مذہبی خدمات کے کارہائے نمایاں شمار ہوتے
ہیں۔سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں نے جس
شخص پر اسلام پیش کیا اس نے پس وپیش سے کام لیا مگر ایک واحد ابوبکر تھے
جنہوں نے میری ایک آواز پر لبیک کہا اور اسلام قبول کیا۔
ابو بکر کے مال نے مجھے جتنا نفع پہنچایا اتنا نفع مجھے کسی کے مال سے نہیں
پہنچا ۔ اس پر حضرت ابوبکر صدیق نے روتے ہوئے عرض کیا " یا رسول اللہ صلی
اللہ علیہ و آلہ وسلم! میں اور میرا مال سب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہی
کا ہے۔
میں اگر اللہ کے سوا کسی کو اپنا دوست و خلیل بناتا تو ابوبکر کو بناتا۔
ایک موقع پر سرکار صلی اللہ وعلیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ آج سے مسجد
نبوی میں کھلنے والی تمام کھڑکیاں اور دروازے بند کردیئے جائیں آئندہ صرف
ابوبکر کا دروازہ کھلا رکھا جائے گا۔
آپ امت پر اتنے شفیق تھے کہ ایک روز سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
نے ارشاد فرمایا "میری امت پر ان میں سب سے مہربان ابوبکر ہیں۔ "(ترمذی)
تم (ابوبکرصدیق) غار میں بھی میرے ساتھ رہے اور بروز قیامت حوض کوثر پر بھی
میرے ہمراہ ہوگے۔ (ترمذی)
انبیاء کرام کے سوائے سورج کبھی ابوبکر سے بہتر آدمی پر طلوع نہیں ہوا۔
کسی قوم کے لئے بہتر نہیں کہ ان میں ابوبکر ہوں اور ان کی امامت کوئی دوسرا
کرے۔
اے ابوبکر ! تم کو اللہ جل شانہ نے آتش جہنم سے آزاد کردیا ہے۔ اسی روز سے
آپ کا لقب عتیق مشہور ہوگیا۔
ایک روز آپ نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا " یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و
آلہ وسلم ! کیا کوئی شخص ایسا بھی ہے جس کو بروز قیامت جنت کے تمام دروازوں
سے بلایا جائے گا ؟ " ، سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد
فرمایا " ہاں ابوبکر ! مجھے امید ہے کہ تم انہی لوگوں میں سے ہو" (بخاری)
سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک روز ارشاد فرمایا " ہم نے ہر
شخص کے احسان کا بدلہ چکا دیا مگر ابوبکر کے احسانات ایسے ہیں کہ ان کا
بدلہ اللہ جل شانہ ہی عطا فرمائے گا"۔
آپ کو یہ اعزاز بھی تنہا حاصل ہے کہ آپ کی مسلسل چار نسلوں کو شرف صحابیت
حاصل ہوا۔ آپ کے والد گرامی حضرت ابی قحافہ آپ خود ، آپ کے صاحبزادے
عبدالرحمن اور پوتے ابو عتیق محمد بھی شرف صحابیت سے مشرف ہوئے۔ رسالت مآب
صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ساری زندگی آپ پر کسی دوسرے کو فضیلت نہیں
دی۔حضرت عمر رضی اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ " حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی
ہمارے سردار، ہمارے بہترین فرد، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو
ہم سب سے زیادہ محبوب تھے۔ایک موقع پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی نے
ارشاد فرمایا کہ " اگر ابوبکر شب ہجرت میں رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ
وسلم کی خدمت اور مرتدین سے قتال کا کارنامہ مجھے دے کر میری ساری عمر کے
اعمال لے لیں تو میں سمجھوں گا کہ میں ہی فائدے میں رہا"۔حضرت عمر رضی اللہ
تعالی ارشاد فرماتے ہیں کہ " ابوبکر نے ایسا راستہ اختیار کیا کہ اپنے بعد
آنے والے کو مشقت میں ڈال گئے"۔اس عظیم خلیفہ نے ہر معاملے میں اپنا وہ ہی
معیار رکھا جو اس وقت کسی عام مزدور کا ہوا کرتا تھا۔حضرت علی رضی اللہ
تعالی فرماتے ہیں کہ قسم ہے اس رب کی جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ
و سلم کو آخری رسول بنا کر بھیجا اور ابوبکر سے اس کی تصدیق کروائی۔ (تاریخ
خلفاء)حضرت معصب بن عمیر رضی اللہ تعالی فرماتے ہیں "اس امرپر تمام امت کا
اتفاق ہے کہ حضرت ابوبکر کا لقب صدیق ہے کیونکہ آپ نے بے خوف و نڈر ہوکر
رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تصدیق کی اور اس میں کسی قسم کی
کوئی جھجک سرزد نہیں ہوئی۔22 جمادی الثانی 13 ہجری بمطابق 23 اگست 634 ء کو
آپ نے 63 برس کی عمر میں مدینہ منورہ میں وفات پائی۔ ۔ اپنی وفات سے پہلےآپ
رضی اللہ تعالٰی عنہ نے مسلمانوں کو ترغیب دی کی وہ حضرت عمر رضی اللہ
تعالٰی عنہ کو خلیفہ تسلیم کر لیں۔ لوگوں نے آپ کی ہدایت پر حضرت عمر رضی
اللہ تعالٰی عنہ کو خلیفہ تسلیم کر لیا۔ وفات کے وقت حضرت ابوبکر رضی اللہ
تعالٰی عنہ نے وہ تمام رقم جو بطور وظیفہ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بیت
المال سے دوران خلافت لی تھی اپنی وراثت سے بیت المال کو واپس کر دی۔ ۔ آپ
کی مدت خلافت دو سال تین ماہ اور گیارہ دن تھی۔ زندگی میں جو عزت واحترام
آپ کو ملا ۔ بعد وصال بھی آپ اسی کے مستحق ٹھہرے اور سرکار دوعالم صلی اللہ
علیہ و آلہ وسلمکے پہلو میں محو استراحت ہوئے۔ آپ کی لحد سرکار دوعالم صلی
اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بائیں جانب اس طرح بنائی گئی کہ آپ کا سر ، رسول
اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے شانہ مبارک تک آتا ہے۔آپ رضی اللہ تعالی
کہ چند اقوال ہیں کہ.... تم میں سے کوئی شخص دوسرے کی تحقیر نہ کرے، کیونکہ
اللہ جل شانہ کے نزدیک ادنی درجے کا مسلمان بھی اعلی درجہ رکھتا ہے۔ ہم نے
بزرگی کو تقوی میں، بےنیازی کو یقین میں اورعزت کو تواضح میں پایا۔ اللہ جل
شانہ وہی اعمال قبول فرماتا ہے جو صرف اس کی رضا کے لیے کئے جائیں۔ جس نے
پنج وقتہ نمازیں پابندی وقت کے ساتھ خشوع وخضوع سے ادا کیں تووہ اللہ کی
حفاظت میں آگیا۔ اے لوگوں ! اللہ کے خوف سے رو، اگر رو نہ سکو تو رونے کی
کوشش ضرور کرو۔ مسلمان کا حق مارنے والے پر اللہ کی لعنت ہوتی ہے۔ جس جسم
کی غذا حرام ہو وہ جہنم میں داخل کیا جائے گا۔ سچ بولنا اور نیکی کرنا جنت
اور جھوٹ بولنا اور بدکاری کرنا دوزخ ہے۔ جس کام کے کرنے کا اللہ تعالٰی نے
اپنی رحمت کا وعدہ فرمایا ہے اس کے کرنے میں جلدی کرو۔اللہ پاک ہر قسم کمی
معاف فرماۓ اپنی رحمت سے. آمین |