گنج کرم ‘ پیرطریقت ‘ رہبر شریعت خلیفہ مجاز حضرت
کرماں والا شریف ‘ حضرت مولانا محمد عنایت احمد 1938ء کو وادی کشمیر کے
معروف گاؤں "کلسیاں"کے ایک دینی گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ آپؒ کے والد گرامی
شرافت ‘ دیانت اور روحانیت کے اعتبار سے اپنی الگ پہچان رکھتے تھے ۔ تبلیغ
دین اور روحانی فیض کے ساتھ ساتھ ان کا ذریعہ معاش کھیتی باڑی تھا ۔ آپ ؒ
کی والدہ (قاسم بی بی ) بہت نیک سیرت اور پابند صلوۃ تھیں ۔جب آپ ؒ کی
ولادت با سعادت ہوئی تو قطب الا قطاب حضرت سید ولایت شاہ ؒ مبارک دینے کے
لیے گھر تشریف لائے اور آپ ؒ کو گود میں اٹھا کر پیار کرتے ہوئے فرمایا ۔
اﷲ نے چاہا تو یہ بچہ اپنے وقت کا قطب ‘ بہترین عالم دین اور منبع رشد و
ہدایت ہوگا۔ قیام پاکستان کے وقت آپ ؒ کا خاندان وادی کشمیر سے ہجرت کرکے
گجرات کے نواحی گاؤں چک 34میں آبسا ۔یہاں آئے ہوئے ابھی چند سال ہی گزرے
تھے کہ آپ ؒ کی والدہ ماجدہ اچانک بیمار ہوکر دنیا سے رخصت ہوگئیں ۔گویا چھ
سال کی عمر میں ہی آپ ؒ شفقت مادر سے محروم ہوگئے ۔آپ ؒنے ہوش سنبھالا تو
والد گرامی نے اوکاڑہ میں استاد العلماء حضرت غلام علی اوکاڑوی ؒ کے مدرسے
"اشرف المدارس" میں آپ کو دینی تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھیج دیا۔ایک شام آپ
ؒ پیدل ہی چلتے ہوئے کرماں والا شریف پہنچے اور حضرت سید اسماعیل شاہ بخاری
ؒ سے مل کر بیعت ہونے کی درخواست کی ۔ انہوں ؒ نے فرمایا بیلیا تم تو ازل
سے ہی میرے مرید ہو۔ پھر سینے پر دست شفقت پھیرااور فرمایا جاؤ ہم تمہیں
دنیا کے تمام علوم عطا کرتے ہیں ۔حضرت سیداسماعیل شاہ بخاری فرماتے ہیں
میرے مرید ‘دوسرے پیروں سے زیادہ افضل ہیں ۔آپؒ فرماتے ہیں کہ رات کے
اندھیرے میں دوڑتا ہوا میں جب مدرسے پہنچا تو خوف کے مارے میراسانس پھول
رہا تھا لیکن بیعت ہونے سے جو قلبی سکون ملا اس کا ذکر الفاظ میں نہیں
کرسکتا ۔ آپ ؒ نے پاک پتن شریف میں مولانا منظور احمد اور قصور میں حضرت
محمد عبداﷲ ؒ سے بھی فیض اور علوم حاصل کیے ۔حضرت سیدظہیر الحسن شاہ ؒ نے
ایک ملاقات میں فرمایا آپ ؒ کی میرے پاس ایک امانت ہے ‘جو میں خلافت کی
صورت میں آپ ؒکو دیناچاہتا ہوں ۔جب اس بات کی خبر عقیدت مندوں تک پہنچی تو
جوق در جوق فرزند توحید بیعت کے لیے مسجد طہ گلبرگ تھرڈ لاہور کا رخ کرنے
لگے ۔یہ وہ مسجد ہے جہاں ہفتے میں ایک دو مرتبہ میلاد مصطفے کی محفلیں برپا
رہتیں جن میں دور و نزدیک سے جید علمائے کرام اور مختلف سلسلوں کے پیر شریک
ہوتے۔ اجتماعی طور دردد سلام پڑھنے کاسلسلہ نماز فجر کے بعد شروع ہوتا اور
نماز عشا تک یہ سلسلہ جاری رہتا ۔ ایک مرتبہ ایسی ہی ایک روحانی محفل میں
شیخ القرآن ‘ استاد العلماء حضرت غلام علی اوکاڑوی (جن کے شاگردوں میں
ہزاروں مفتی ‘ عالم اور ولی شامل ہیں ) مسجدطہ تشریف لائے ۔ منبر پر بیٹھ
کر انہوں ؒ نے فرمایا محشر میں جب خدا مجھ سے پوچھے گا کہ اے غلام علی تم
دنیا سے میرے لیے کیا لائے ہو تو میں ادب سے کہوں گا کہ میں تیرا ایک نیک ‘
متقی اور پرہیزگار بندہ محمد عنایت احمد لایا ہوں ۔ یہ کہتے ہوئے انہوں نے
فرمایا میرے پاس جتنے علوم ہیں وہ میں اپنے شاگردمحمد عنایت احمد کو عطا
کرتا ہوں ۔
پیرمحمد عنایت احمدؒ کی کرامتیں تو بیشمار ہیں لیکن اختصار کی خاطر یہاں
چند ا یک کا ذکر کرتاہوں جس کا میں خود گواہ ہوں ۔ ایک مرتبہ میں نے سوال
کیا ۔پیرو مرشد قبر کا عالم کیا ہوگا مجھے تو بہت خوف آتا ہے کہ میں قبر
میں کیسے دفن ہوں گا اور وہاں کیا معاملہ ہوگا ۔ میری بات سننے کے بعد آپؒ
نے فرمایا اﷲ اپنے بندوں کو ستر ماؤں جتنا پیار کرتا ہے اس سے اچھائی کی ہی
امید رکھو۔ کثرت سے درود پاک پڑھتے رہو اور تہجد سمیت پانچ وقتہ نماز اداکر
نے کے ساتھ ساتھ گناہ کبیر سے بچو ۔تم عرش کے سائے میں رہو گے ۔اس بات کو
ابھی چند دن ہی گزرے تھے کہ میں خواب کی حالت میں خود کو مردہ حالت میں
دیکھتا ہوں گھر میں چیخ وپکار ہورہی تھی ‘ میں اٹھنے کی کوشش کرتا ہوں تو
اٹھ نہیں پاتا یہ سوچ کر میں بے بس ہوجاتاہوں کہ مرنے والا میں ہی ہوں ۔
میں ایک ایک شخص کانام لے کر بتاتا ہوں میں زندہ ہوں مجھے قبر میں نہ اتارو۔
لیکن کسی تک میری آواز نہیں پہنچتی ۔ قبر میں دفن کرکے لوگ واپس چلے جاتے
ہیں تو مجھ پر سخت خوف طاری ہوتا ہے۔ اس کیفیت میں مجھے اپنے دائیں جانب
روشنی کی ایک کرن دکھائی دیتی ہے میں جب اس جانب دیکھنے کے لیے کروٹ لیتا
ہوں تو ایک وسیع و عریض کشادہ ہال میں گرجاتاہوں۔ جہاں پہلے سے بے شمار لوگ
موجود نظر آتے ہیں ۔ اسی اثناء میں مجھے کسی نے بیدار کردیا۔ آنکھ کھل گئی
تو سامنے پیر و مرشد پیر عنایت احمد ؒ کھڑے تھے ‘ انہوں نے فرمایا ‘ تہجد
کا وقت ہوگیا ہے۔ نیند کا غلبہ جب ختم ہوا تو پیر ومرشد منظر سے غائب تھے۔
ان دنوں میں میرا یہ روٹین تھاکہ میں نماز فجر مسجد طہ میں باجماعت پڑھتا
تھا جب میں مسجد طہ پہنچا تو پیرو مرشد نے فرمایا اب تو تمہیں قبر سے خوف
نہیں آتا ۔ اس لمحے مجھ پر ایک روحانی کیفیت طاری تھی ۔ میں آپ ؒ کے قدموں
میں گر کر آنسو بہانے لگا آپ ؒ نے شفقت سے میرے سر پر ہاتھ رکھااور صبر کی
تلقین کی ۔ایک اور سوال کے جواب میں آپ ؒ نے فرمایا مچھلی کی زندگی پانی ہے
اگر پانی نہ ملے تومچھلی مر جاتی ہے ۔مچھلی کو کاٹ کر مصالحے لگاکر پکاتے
ہیں لیکن مچھلی پیٹ میں جانے کے بعد بھی پانی مانگتی ہے یعنی زیادہ پیاس
لگتی ہے ۔اسی طرح قبر میں جب اﷲ کانیک بندہ جائے گا تو وہاں بھی وہی کچھ
کرے گا جو دنیا میں کرتا رہا ہے ۔ 31 جولائی 2011ء کو آپ ؒ کا جسمانی وصال
ہوا۔ وصال کے بعد آپ ؒ سے خواب کی حالت میں ملاقات ہوئی ۔ایک جم غفیر محفل
میلاد میں موجود تھا میں بھی وہاں موجود تھا۔ میں نے پوچھا پیر ومرشد دنیا
میں تو آپ کی خوب عزت و تکریم تھی یہاں کیا معاملہ ہے ۔آپ ؒ نے فرمایا آپ ؒ
خود دیکھ لیں یہاں دنیا سے کہیں زیادہ اچھا ماحول ہے ہر وقت درود وسلام کی
محفلیں جاری ہیں اور نبی کریم کی زیارتیں ہو تی ہے۔ یہ اس پیرکامل کی
کرامتیں ہیں جن کا عرس 14اور 15 مئی کو کبوترپورہ قبرستان گلبرگ تھرڈلاہور
میں شروع ہوگا ۔ جس میں آپ ؒ کے خلفائے کرام اور جید علمائے کرام شریک ہوں
گے ۔بے شک اﷲ اپنے نیک بندوں کے ہاتھ اور زبان بن جاتاہے۔ وہ جو بھی کہتے
ہیں اﷲ تعالی کی عطاہی سے کہتے ہیں ۔ان کا ہر ہر عمل اطاعت خداندوی اورمحبت
رسول ﷺ سے لبریز ہوتاہے ۔ |