پہلوان ، بالآخر پہلوان ہوتا ہے، پہلوان کی پٹائی بہت
شرم کی بات ہے ، خصوصا جب پٹائی کرنے والا کوئی عام سا آدمی ہو۔ اسرائیل
نے اپنے آپ کو مشرقِ وسطیٰ کا پہلوان مشہور کر کرکھا ہے، سعودی عرب سمیت
دیگر عرب ریاستیں اسرائیل کی طاقت کے سامنے سر تسلیمِ خم کر چکی ہیں، گزشتہ
دنوں جب شام نے اسرائیل پر کامیاب میزائل حملہ کیا تو اسرائیل کو سخت ہزیمت
اور شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔چنانچہ اس شرمندگی کو چھپانے کے لئے اسرائیل
نے یہ راگ الاپنا شروع کر دیا کہ یہ حملہ شام نے نہیں بلکہ ایران نے کیا ہے۔
اربابِ دانش بخوبی جانتے ہیں کہ اگر ایران اسرائیل پر حملہ کرے گا تو وہ
صرف حملے کا نہیں بلکہ اسرائیل کے خاتمے کا دن ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ایرانی
اداروں نےایران کی جانب سے اسرائیل پر حملہ کئے جانے کی تردید کی ہے۔
اس سے پہلے تینتیس روزہ جنگ میں بھی حزب اللہ نے اسرائیل کی طاقت کا گھمنڈ
توڑا تھا۔فلسطینی تنظیم حماس کے مطابق جولان میں اسرائیل کے فوجی ٹھکانوں
پر جوابی کارروائی شام کا حق ہے اور وہ زمانہ گزر گیا جب اسرائیل حملے کرکے
بھاگ جاتا تھا ۔شام نے بھی کہا ہے کہ اب اسرائیل کو ہر حملے کا جواب دیا
جائے گا۔اسی طرح محاذ آزادی فلسطین نے بھی اسرائیل پرشام کے جوابی حملوں پر
خوشی کا اظہار کیا ہے۔اطلاعات کے مطابق ان حملوں کے بعد بہت سارے صیہونی
اسرائیل سے بھاگنے کی سوچ رہے ہیں۔ اسرائیل کی بوکھلاہٹ کا یہ عالم ہے کہ
اسرائیل کی طرف سے بار بار ان حملوں کو ایران کی کارروائی کہا جا رہا ہے
جبکہ حقیقت میں ایران نے اپنی طرف سے جوابی حملے کا حق ابھی تک محفوظ رکھا
ہوا ہے۔اسرائیل جو حزب اللہ یا شام کی فوج کے حملوں کی تاب نہیں رکھتا وہ
یقیناً ایران کا حملہ کبھی بھی نہیں سہہ سکتا ۔
اب اگر تل ابیب اور ریاض میں ایران اور امریکہ کے مابین جوہری خاتمے پر
خوشیاں منائی جارہی ہیں تو یہ عالمی حالات سے آنکھیں چرانے کے مترادف ہے۔
اس وقت خود سعودی عرب پوری اسلامی دنیا میں اپنی ساکھ کھو چکاہے اور دوسری
طرف ہر نئے دن کا سورج اسرائیل کے لئے موت کا پیغام لے کر طلوع ہوتا ہے۔
ہر فلسطینی کی گرتی ہوئی لاش اسرائیل کے تابوت میں ایک کیل کا کام کر رہی
ہے۔اسرائیل اتنی بڑی عسکری طاقت نہیں اور ویسے بھی جنگیں اسلحے کے بجائے
قوتِ ایمانی سے لڑی جاتی ہیں لہذا ضروری نہیں کہ اسرائیل کے تابوت میں
آخری کیل ٹھونکنے کے لئے ایران کو ہی میدان میں اترنا پڑے بلکہ ایران سے
پہلے شام، حزب اللہ اور حماس جیسی قوتیں بھی اسرائیل کے دانت کھٹے کر سکتی
ہیں۔
ایران اور اسرائیل کے موجودہ تناو کے تناظر میں نیز امریکہ کے ساتھ ایران
کے ایٹمی معاہدے کے اختتام کے باعث سعودی عرب کو بہت خوشی ہوئی ہے جبکہ
دوسری طرف ساری دنیا نے امریکی صدر کے جارحانہ رویے کی مذمت کی ہے اور اس
کے بعد جرمنی سمیت دیگر یورپی ممالک نے ایران کو جوہری معاہدہ جاری رکھنے
کے سلسلےمیں ہر قسم کا تعاون فراہم کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے۔ گویا ہم
کہہ سکتے ہیں کہ یہ ایران کی ایک اور سفارتی فتح ہے کہ پوری دنیا نے ایران
کی حمایت کا علان کیا ہے۔
ایران کے ساتھ امریکہ کے جوہری معاہدے کے خاتمے کے سب سے بڑے حامی اسرائیل
اور سعودی عرب ہی تھے سو اسرائیل اور سعودی عرب کا یہ مشترکہ ہدف بظاہر تو
پورا ہوگیا ہے لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا اسرائیل اور سعودی عرب دیگر
دنیا کو بھی اپنا ہمنوا بنا سکیں گے یا نہیں!؟
کیا اس کے بعد دنیا یمن پر سعودی جارحیت کو جائز قرار دے دیگی اور کیا اس
کے بعد فلسطین پر اسرائیل کے ناجائز قبضے کو عالمی برادری جائز مان لے
گی۔کیا اسکے بعد دنیاسعودی عرب کو طالبان اور القاعدہ جیسی تنظیمیں بنانے
پر شاباش دے گی اور کیا شام میں اسرائیل اور سعودی عرب کی مداخلت کا کوئی
جواز پیدا ہوجائے گا!؟
اگر نہیں تو پھر ظلم کی رات خواہ کتنی ہی طویل کیوں نہ ہو سویرا ضرور ہوتا
ہے، اسرائیل اور سعودی عرب کو وقت آنے پر اپنے تمام جرائم کا حساب دینا
ہوگا۔
حقیقتِ حال یہ ہے کہ افغانستان، شام اور عراق میں دہشت گردوں کی شکست کے
بعد سعودی عرب ،امریکہ اور اسرائیل اس وقت ایران اور حزب اللہ سے انتقام
لینے کے لئے کوششیں کر رہے ہیں، چونکہ انہوں نے دہشت گردوں کو شکست دینے
اور سعودی عرب و امریکہ و اسرائیل کی مثلث کی ناکامی میں اہم کردار ادا کیا
ہے۔
ان دنوں ایک طرف تو اسرائیل اور سعودی عرب کی کوشش ہے کہ امریکہ آگے بڑھ
کر ایران سے لڑائی کرے جبکہ دوسری طرف امریکہ کی بھی کوشش ہے کہ اسرائیل
اور سعودی عرب میں سے کوئی آگے بڑھ کر ایران سے جنگ کا آغاز کرے لیکن
حقیقت حال یہ ہے کہ تینوں میں سے کسی میں بھی ایران کا سامنا کرنے کا حوصلہ
نہیں اور اگر تینوں میں سے ایک میں بھی اس کی جرات ہوتی تو وہ کبھی بھی
مزید انتظار نہ کرتا۔
جنگ بہرحال جنگ ہوتی ہے اور اپنے ساتھ تباہی و بربادی لے کر آتی ہے۔ عالمی
برادری کو چاہیے کہ وہ اس وقت دنیا پر منڈلاتے ہوئے جنگ کے بادلوں کے خلاف
فیصلہ کن کردار ادا کرے ۔ یہ انسانی ہمدردی اور بقائے باہمی کے شعور
کاتقاضا ہے کہ دنیا کے تمام ممالک کو دیگر ممالک پر جارحیت سے روکا جائے
اور اسرائیل جیسے غیر قانونی ملک کو ختم کیا جائے۔ اگر امریکہ ، سعودی عرب
اور اسرائیل کے جارحانہ عزائم کو نہیں روکاجاتا تو آج نہیں تو کل یہ دنیا
جنگ کے شعلوں سے بھڑک سکتی ہے۔ |