تحریر: محمد عرفان جتوئی، ملتان
دنیا کا وجود دو افراد سے مل کر بنا ہے۔ ایک نر اور دوسرا مادہ۔ مخلوقات
میں ہر چیز کے دو دو جوڑے بنائے گئے تاکہ یہ دنیا بڑھے۔ قدرت نے جہاں
حیوانوں کو جوڑوں میں بنا کر آزاد چھوڑ دیا وہیں انسانوں پر کئی طرح کی
پابندیاں عاید کردیں۔ دوطرفہ اس نظام کو باقاعدہ طور پر ازدواجی نظام کا
نام دے کر ایک معاشرت قائم کردی گئی۔ تمام ادیان میں ازدواج کو ایک نظام کے
تحت رکھا گیا۔ اسی طرح اسلام نے بھی ازدواجی نظام میں بہت محتاط رویہ
اختیار کیا تاکہ زندگی کا یہ اہم ترین پہلو بہتر طریقے سے چلتا رہے۔ مگر
کچھ ایسے پہلو بھی ہیں کہ کہ جس سے اکثر اوقات رشتہ ازدواج اختلافات کا
شکار ہوجاتا ہے۔
شریعت اسلامیہ نے شادی کا حق والدین اور بچوں میں برابر تقسیم کیا ہے۔
والدین کو ولی بنایا تو بچوں کی دلی رضا مندی بھی لازم قرار دیا۔ بچوں کی
شادی کے معاملے میں جہاں والدین کو 50فیصد اختیارات دیے گئے تھے وہیں
50فیصد اختیار بچوں کو بھی دیا گیاہے۔ موجودہ حالات میں دیکھا جائے تو کہیں
والدین 100فیصد اختیارات اپنے ہاتھ میں لے کر بغیر رضا مندی کے بچوں کی
شادی کردیتے ہیں تو کہیں بچے اپنے والدین کو مجبور کرتے ہیں اور اپنی پسند
کی شادی کرتے ہیں یا پھر گھر سے بھاگ جاتے ہیں۔ ازدواجی معاملات میں اونچ
نیچ کی بنیادی وجہ دوطرفہ سمجھوتا نہیں ہوتا۔ اپنے نفع ونقصان میں بچے یہ
سمجھتے ہیں کہ ہم زیادہ جانتے ہیں جبکہ والدین یہ سمجھتے ہیں کہ یہ تو بچے
ہیں انہیں کیا پتا۔
عموما والدین کی جانب سے کیے گئے رشتے میں لڑکا اور لڑکی میں برابری کا
عنصر بالکل شامل نہیں ہوتا۔ ایسی سیکڑوں مثالیں موجود ہیں جس میں ایک فریق
مکمل ایجوکٹیڈ ہوگا جبکہ اس کا ہمسفر مشکل سے میٹرک پاس ہوگا۔ ایک طرف ایم
بی بی ایس ڈاکٹر ہیں تو دوسری طرف ان کی شادی ان پڑھ لڑکی سے کردی گئی۔
ایسے میں یقینا وہ کبھی خوش نہیں رہ پائے گا۔ ضروری تھا کہ اس کی شادی بھی
کسی ایسے ہی خاندان میں کی جاتی۔ جہاں کم از کم برابری ہوتی۔
ایک شادی کے اثرات کسی بھی فرد پر اس طرح سے پڑھتے ہیں۔ یا تو شادی کے بعد
ایک ہفتہ میں ہی معاملات سیٹ ہوجاتے ہیں۔ جیسے کہیں 2 دوست آپس میں تھوڑی
بہت چپقلش کے بعد صلح کرلیں۔ دوسری قسم یہ ہے کہ جس میں غلطی کا خمیازہ پور
ا اسے بھگتنا پڑتا ہے جیسے جب کوئی طالب علم نا پڑھنے کی وجہ سے فیل ہوجاتا
ہے لیکن جیسے ہی وہ اپنی اس ناکامی سے باہر نکلتا ہے اسے اس غلطی کا احساس
ختم ہوجاتا ہے۔ یوں اس غلطی کا ازالہ سال 2سال میں ہوجاتا ہے لیکن تیسری
قسم غلطی کی ایسی قسم ہے جس اک ازالہ زندگی بھر ممکن نہیں ہوتا۔ مثلا ڈاکٹر
کی مبینہ غفلت سے کسی مریض کی موت کسی ڈرائیور کی غفلت سے کسی کا جانی و
مالی نقصان اسی طرح شادی جیسے سنگین معاملے میں طرفین کی مس مینجمنٹ نہ صرف
2خاندانوں کو تباہ کرتی ہے۔ بلکہ طلاق کی صورت میں دو تین معصوم نسلوں تک
کو اپنی تباہی کا نوالہ بنالیتی ہے۔ لیکن والدین کو اپنی اس ہونے والی یا
کی ہوئی غلطی کا قطعا احساس نہیں ہوتا۔
پاکستان میں 70فیصد شادیوں میں لڑکا لڑکی دونوں یا ان میں سے کوئی ایک دلی
طور پر رضا مند نہیں ہوتا۔ بس رکھ رکھاؤ اور خاندان کی عزت و وقار کے لیے
وہ قربانی دے رہے ہوتے ہیں۔ گویا مں یہ کہہ سکتا ہوں کہ قربانی کے بکرے بنے
ہوئے ہوتے ہیں۔
معاشرتی نظام کا مرد کو شاید اتنا نقصان نہیں ہوتا جتنا ایک عورت کو کیوں
کہ اسلام نے مرد کو حاکمیت دی ہے اس نے تو عور ت کو ماتحت رکھنا ہوتا ہے اس
کی ذات پر عورت کا تعلیمی یا خاندانی معیار تھوڑا کم ہی کیوں نہ ہو لیکن وہ
عورت سے اپنی ایڈجسمنٹ کرلیتا ہے جبکہ بے چاری صنف نازک اپنے والدین کی
چوکھٹ سے لے کر اپنے گھر کی دہلیز تک گویا خاموش لب غلامی کی مثال نظر آتی
ہے۔ احساس کمتری کے کنویں میں گویا یوں غوطہ زن ہوتی ہے کہ اپنے آپ اندر تک
کی اواز بھی گویا خود کو نہیں سنا سکتی۔ کہیں اس بے چاری کو ایم اے ایم فل
کے بعد میٹرک انٹر پاس کے ساتھ رخصت کردیا جاتا ہے تو کہیں اس کو عمر کے
حساب کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے سے بڑے کے ہاتھ تھما دیا جاتا ہے۔ اگر ان
ساری باتوں کو کسی ایک نقطہ پر جمع کیا جائے تو وہ بیٹی جسے اسلام نے رحمت
بنا کربھیجا اسے خود پر بوجھ سمجھا جاتا ہے اور اس کے احساسات اور جذبات
بنا سمجھے بلکہ سمجھنے کی کوشش کیے اس انداز سے دفع کردیا جاتا ہے۔ میرا
جہاں تک خیال ہے کہ انہیں ان کی مجبوری کی وجہ سے یہ سزا دی جاتی اور وہ
مجبوری ان کا آزاد نہ ہونا۔ نہتی وہ بیچاری گھر چھوڑ سکتی نہ ہی وہ ایک مرد
کی طرح ایک سے دوسرے شہر جاسکتی ہے۔ اگر ایک مرد اپنی فیملی سے شادی کے
معاملے پر بائیکاٹ کرے تو اس کے پاس آپشن ہوتا ہے کہ اگر چاہیے تو گھر سے
چلا جائے اور پھر اپنے مطالبات تسلیم کروا لے مگر یہ سب کچھ لڑکی نہیں
کرسکتی۔ اس لیے وہ جیسے ہے جو ہے اس پر رضا مند ہوکر گزر بسر کرتی ہے۔
اسلام نے معاشرتی نظام کو کچھ اس طرح سے پابند کیا ہے کہ والدین بچوں کے
حقوق کے پابند ہیں اور بچے والدین کے حقوق کے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ
بڑھاپے کی حالت میں یا دنیا سے کوچ کے بعد بجائے والدین کے لیے دعا کرنے کے
اپنے سجدوں میں والدین سے شکوے کرتے دیکھائی دیتے ہیں اور وہ شکوے یہی ہوتے
ہیں کہ والدین نے ان کے لیے جیون ساتھی ان کے مزاج کا نہیں چنا اور اس قدر
مشکل میں ان کی زندگی ڈال دی ہے۔ کسی شعر کی طرح ’’احساس نہ جو کرتے یہی
احسان ہوتا‘‘-
والدین ہمار ے محسن ہیں۔ ان کی ذمے داری ہے کہ وہ ہمارے اچھے اور برے کا
خیال رکھیں مگر ہمارے جذبات ، احساسات اور خوشیوں کا گلا گھونٹ کر کسی غلام
کی طرح بغیر کسی رضا مندی کے کسی اور کا کرجائیں کہاں کا احسان ہے۔ اگر
والدین چاہتے ہیں کہ ان کے خاندان کا نام اچھا ہو اور ان کی عزت بڑھے تو
انہیں چاہیے کہ وہ بچوں کا خیال رکھیں۔ ان کی رضا مندی کا بھرپور خیال
رکھیں۔ اپنے فیصلے تھوپنے اور مسلط کرنے کے بجائے بچوں سے ان کی مرضی معلوم
کریں۔ اس طرح دو گھر نہیں کئی گھر خوشی سے زندگی بسر کرسکیں گے۔ |