عجب کرپشن کی غضب کہانی کے ہیروسابقہ معزول وزیر اعظم
کو جمہوریت پسندی کا بخار چڑھ بیٹھا ہے۔ عوام اور قانون کی عدالت میں ذلت و
رسوائی کی سزا پانے والے نواز شریف کو کرپشن زدہ جمہوریت کا دردنچلا نہیں
بیٹھنے دے رہا۔ بسیار کوشش کے باوجود مُلک میں ان کی من چاہی انارکی کا
نقشہ تشکیل نہ پا سکا تو اب براہِ راست عدلیہ کے احترام و وقار کی دھجیاں
بکھیرنے کی مہم پر گامزن ہو گئے۔مقصد بس یہی کہ عدلیہ مشتعل ہو کر انہیں
سزا دے اور یہ عوام کی ہمدردیاں سمیٹنے میں کامیاب ہو جائیں۔ مگر عدالت نے
ان کے مذموم عزائم کو بھانپتے ہوئے حد درجہ ضبط اور صبر کا دامن تھامے
رکھاجس کی جتنی تعریف کی جائے ،کم ہے۔ سو عدالت سے خود کو سیاسی شہید قرار
دِلوانے کی ہنڈیا تو دھری کی دھری ہی رہ گئی ۔
عدلیہ سے محاذ آرائی کی جنگ میں عوام کو بطور ایندھن جھونکنے کی ناپاک کوشش
میں ناکامی کے بعد موصوف نے اپنی توپوں کا رُخ کسی اورجانب کر لیا ہے۔ مُلک
کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کے امین اور محافظ اداروں کے بارے میں
ہرزہ سرائی کا سلسلہ اپنے عروج پر پہنچ چکا۔ خلائی مخلوق پر بیانات کی آڑ
میں انہیں نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ مگر ٹھہریئے، یہ جنہیں خلائی مخلوق قرار
دے کر اس پر اعتراض اُٹھا رہے ہیں، شکایت تو دراصل اس کے بدلے ہوئے تیور پر
ہے۔ اسٹیبلشمنٹ نے ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے خود کو سیاست سے الگ
تھلگ کر لیا ہے اور اپنی تمام تر توجہ مُلک کی سا لمیت کو درپیش عناصر اور
خطرات سے نمٹنے کی جانب مرکوز کر رکھی ہے۔اور نواز شریف کو اپنا قبلہ سدھار
چکے اور آئینی کردار ادا کرتے ادارے کہاں ایک آنکھ بھاتے ہیں۔ اصل خلائی
مخلوق تو نواز شریف کے گلو بٹ، پولیس، پٹواری اور دست بستہ افسر شاہی تھی
جس کی بدولت وہ نوّے کی دہائی میں ’بھاری اکثریت‘ سے کامیاب ہوتے رہے۔ اس
خلائی مخلوق کی معاونت کے چمتکار اور عوام سے لوٹے پیسے کی چمک کے باعث ہی
انہیں وہ کمال حاصل ہو گیا کہ انتہائی کم ٹرن آؤٹ کے باوجود بھی اپنی سیاسی
حریف بے نظیر کی پارٹی کے مقابلے میں ان کے اُمیدوار چالیس پچاس ہزار کی
ووٹوں کی برتری سے کامیاب ٹھہرتے۔
سیاسی تنہائی نے نااہل نواز شریف کی ذہنی حالت غیر کر دی ہے۔ اس پر اعلیٰ
پولیس افسر عصمت اﷲ جونیجو پر تشدد کے حوالے سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں
درج کیس میں عمران خان کی بریت کا فیصلہ تو ان پر جیسے آسمانی بجلی بن کر
گرا۔ قارئین بخوبی واقف ہیں کہ 2014ء میں شریفوں کے اقتدار کا سنگھاسن
عوامی سُونامی کی لپیٹ میں آکر ڈوبنے کو تھا کہ انہوں نے اپنی ہی پارٹی کے
گلو بٹوں کو دھرنے والوں میں شامل کروا کر پاکستان ٹیلی ویژن پر قبضہ
کروایا اور پولیس افسروں کو تشدد کا نشانہ بنا کر دھرنے کے پُرامن شرکاء کو
تخریبی عناصر اور فسطائیت کے علمبردار ثابت کرنے کی مذموم کوشش کی۔ بعد کی
تحقیقات میں ان کی بدسرشتی کھل کر سامنے آ گئی۔
خیر، عمران خان کی بریت کے بعد شہنشاہِ کرپشن بڑے شریف کا بیان آیا کہ اِس
بریت سے سیکیورٹی اداروں کا مورال ڈاؤن ہو گا اور ان کی فعالیت میں کمی
واقع ہو گی۔ شاید اسی موقعے کے لیے غالبؔ نے فرمایا تھا کہ
حیران ہوں کہ سر کو پیٹوں یا جگر کو روؤں میں
مقدور ہو تو نوحہ گر ساتھ رکھوں میں
اداروں کی حُرمت کے یہ کتنے بڑے پاسدار ہیں۔ اس کے لیے ایک ہی مثال پیش کی
جاتی ہے۔ آج کوئی نہیں جانتا کہ جاوید اشرف کون تھا۔ جاوید اشرف ایک لیگی
کارکن تھا جسے شریفوں نے اپنی خون آشام سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا۔ جس
ذوالفقار علی بھٹو کو آج یہ جمہوریت کا چیمپئن قرار دیتے نہیں تھکتے۔ 90 ء
کی دہائی میں اُسی بھٹو کو غدارِ وطن قرار دیتے ہوئے اس کی برسی منانے پر
بھی انہیں اعتراض ہوتا تھا۔ 4 اپریل 1996ء کو پیپلز پارٹی کی حکومت کے
دوران بھٹو کی برسی بنائی جا رہی تھی جب ریگل چوک میں برسی کے خلاف ایک
پلانٹڈ احتجاج کے دوران جاوید اشرف کو انہوں نے اپنی جماعت کے غنڈوں کے
ذریعے مروایا اور اِلزام پولیس پر دھر دیا گیا۔ حالانکہ یہ جاوید اشرف اس
لیے مارا گیا کیونکہ وہ ان کے جابرانہ اندازِ حکمرانی، رعونت اور مطلق
العنانیت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے والے لیگی رہنما میاں اظہر کے
شانہ بشانہ کھڑا تھا۔ سو پارٹی کے اندر سے بغاوت کی اُٹھنے والی آواز کو
بھی خاموش کرا دیا گیا اور جماعت کے کھاتے میں ایک شہید کا بھی اضافہ ہو
گیا۔ اسی مظلوم کارکن جاوید اشرف کے قل کی تقریب کے دوران لوہاری میں لیگی
غنڈوں نے پولیس پر براہ راست فائرنگ کی تو اسی نواز شریف نے انہیں ’میرے
شیرو‘ کہہ کر شاباش دی ۔ جنرل آصف نواز جنجوعہ کی زہر خورانی سے موت ہو،
مشرف کا طیارہ موڑنے کی گھناؤنی سازش، یا افسروں کو سرِ عام ہتھکڑیاں لگوا
کر عوام میں سستی شہرت حاصل کرنے کے حربے۔ ان کی تو پُوری سیاسی زندگی
اداروں کی حُرمت اور فعالیت کو پامال کرنے اور نوکر شاہی کو زیرِ نگین
بنانے میں گُزری ہے۔ ان کے زیر اقتدار صوبے پنجاب میں پولیس کی فعالیت بھی
سب کے سامنے ہے جو ان کے گھر کی کنیز بن کر رہی گئی ہے۔ سیاسی مخالفین کو
دبانے کچلنے، لوگوں کی قیمتی جائیدادوں پر قبضہ کروانے، انتخابات میں من
مرضی کے نتائج حاصل کرنے جیسا ہر مذموم فعل آلِ شریف پولیس کے ذریعے کرواتے
ہیں۔ پنجاب کے ہر تھانے میں تعینات ایس ایچ او ان کی مرضی سے تعینات ہوتا
ہے۔ پولیس کی (Politicization) ہی وہ وجہ ہے جس نے پنجاب میں لاء اینڈ آرڈر
کی خراب صورتِ حال کو جنم دے کر عوام کی زندگی کو غیر محفوظ بنا دیا ہے۔
شریفوں کی وطن دُشمنی، مذہب دُشمنی اور عوام دُشمنی کی اس سے بڑی مثال اور
کیا ہو گی کہ انہوں نے اپنے بیرونی آقاؤں کو خوش کرنے اور قادیانی
استعماریت کو بڑھاوا دینے کی غرض سے توہین رسالت کے قانون میں ترمیم کی
ناپاک جسارت کر ڈالی۔اس پر عوامی احتجاج کا ایسا سلسلہ شروع ہوا جو اب تک
تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ پے در پے ہزیمتوں، ذِلتوں، رُسوائیوں کا یہ
سلسلہ محض اﷲ کی پکڑ ہے جو انہیں ایک عذاب سے نکلنے سے پہلے ہی دُوسری آفت
کے منہ میں دھکیل رہا ہے۔
آلِ شریف ابھی تک اپنے خبطِ عظمت باہر نہیں آ سکی۔ عوام ان پر سیاہیاں
اُنڈیلنے، کالک ملنے، جوتا باری سے بھی آگے بڑھ کر بہت کچھ کرنے پر تُلے
بیٹھے ہیں اور یہ اگلے انتخابات میں کامیابی کے بیانات داغنے سے باز نہیں آ
رہے۔ عدالتوں نے ان کے جُرم کے حساب سے شاید انہیں بہت کم سزا دی ہے۔ ان کا
سب سے بڑا جُرم پاکستان دُشمن قوتوں کی اعانت ہے۔ یہ پنڈورہ باکس بھی اب
کھُل چُکا ہے۔ پاکستان کے دُشمن مُلکوں میں رقم کی مبینہ منتقلی تو سامنے آ
چکی اب اس کے پیچھے موجود مقاصد جب سامنے آئیں تو عوامی غیظ و غضب کا سمندر
تمام شریفیہ خاندان اور ایمپائر کو بہا لے جائے گا۔ ان کا عیش کدہ جاتی
عمرہ گورستانِ شریفیہ کا رُوپ دھار لے گاویسے ہی جیسے شداد کی بنائی گئی
جنّت ہی اُس کا مدفون بن گئی۔ان کے لیے جاتی عمرہ میں اپنی خود اختیاری نظر
بندی ہی بہتر ہے۔ اس وقت قومی سلامتی اور عدل کے اداروں کی جس انداز سے
تذلیل و تحقیر کی جا رہی ہے ، ان سے متعلقہ اربابِ اختیار کو اب ذرا بھی
ہچکچاہٹ کے بغیر سب وہ راز طشت از بام کردینے چاہئیں تاکہ عوام کی نظروں سے
جو دِل دہلا دینے والے حقائق اوجھل ہیں، وہ بھی ان پر آشکار ہو جائیں۔ اور
جو تھوڑے بہت سادہ لوح عوام ان کے بیانیے پر یقین کر بیٹھے ہیں، وہ بھی
اپنی سوچ کی سمت درست کر لیں۔ عوام کو وقت کی نبض پر ہاتھ رکھتے ہوئے ان کے
پھسلاووں اور ٹسوؤں کے جال میں پھنسنے سے بچنا ہو گا۔ کیونکہ ان کے اقتدار
کا خاتمہ ایک کرپشن فری پاکستان کی راہ ہموار کرے گا اور ان کی جگہ لینے
والوں کے لیے بھی عبرت اور راست روی کی خاطر تازیانے کا کام دے گا۔ |