تحریر:طیبہ محمد خلیل،جامعہ المحصنات کراچی
جیسے ہی مس عائشہ نے غصہ میں آکر احتشام کے ہاتھوں سے قلم چھین کر پھینکا
تو کلاس میں موجود حفظہ کا دماغ سن ہوکررہ گیا۔۔۔سوچ کے پردے پر جو آج جھلک
پڑی تھی وہ واقعی بہت تلخ تھی۔کہ آج کا جو استاد قلم کو ہاتھ میں لیکر بورڈ
پر بچوں کو علم سیکھانے پر ہمہ تن گوش ہوتا ہے وہی استاد غصہ پر قابو نہ
پاکر شاگردوں سے قلم چھین کر پھینک دیتا ہے۔ابھی وہ اسی کشمکش میں تھی کہ
سوچ کہ دریچے کھلنے لگے کہ کیا تو استاد کلاس میں موجود شاگردوں کو تہذیب
کا سبق دیتا ہے اور پھر اسکولز کے مختلف پروگراموں میں اسٹیج پر لڑکے اور
صنف نازک کو ساتھ نچوا کر خود تالیاں بجاتا ہے وہ استاد جو ادب پڑھا پڑھا
کر بال سفید کرلیتا ہے لیکن شاگرد سے وہی (تو ,تجھے ,تم) کی زبان بولتا ہے
...شاید وہ بچوں کو کم علم اور اپنے اقتدار میں ہونے کی وجہ سے عزت کا
حقدار ہی نہیں سمجھتا یہ بات الگ ہے کہ لڑکیوں کے ساتھ تھوڑا اپنے ادب (تو,
تم, تجھے )کو صرف نظر کر جاتا ہے غلطی استاد کی نہیں ہے غلطی شاگرد کی بھی
نہیں ہے غلطی ہمارے ادوار کی ہے جسے کچھ نہیں آتا اسے معلم بنا دیا حالاں
کہ جس کے پاس خود علم نہ ہو وہ دوسرے کو کیسے اگاہ کرے گا .
**یارب دل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے…….
جو قلب کو گرما دے جو روح کو تڑپا دے...*(علامہ اقبال)
کیسے ہمارے نوجوانوں میں تڑپ پیدا ہوگی کیسے..؟جب کانوں میں لا الٰہ اللّٰہ
کے نام کے بجائے محمد صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کے نام کے بجائے فرقوں کے نام
فیشن کے نام, دشمنان اسلام کے نام کے رٹے لگوائے جائیں گے……..؟قصور ہمارے
اس طبقے کا ہے جو چھ چھ سات سات سال درسگاہوں میں عمر گواتے ہی کھپاتے ہیں
خود کو پھر علمی میدان میں آکر وہ صرف گھر والوں کے لئے ہی مفید ثابت ہو
پاتے ہیں وہ معاشرے پر کام کرنے کے لیے نکلتے ہی نہیں اور سو میں سے دس
نکلتے بھی ہیں تو انہیں کسی سیٹ پر اقتدار نہیں دیا جاتا حتی کہ میٹرک پاس
کو تو معلم بناکر تنخواہ سے تو نوازا جاتا ہے لیکن پانچ پانچ چھ چھ سالہ
تعلیم یافتہ دینی مدارس کے طلباء کو معلم بنانا بھی پسند نہیں کرتے کہ یہ
دہشت گرد ہیں یہ بچوں کو اپنا جیسا بنا دیں گے تو بچے تو پھر اسکول کی
تقریبات میں قمیص شلوار میں ملبوث مدارس کے بچے لگیں گے نہ کہ اسکول کہ...
پھر بچے تو صرف اسلامیات و اردو کے ہی ہو کر رہ جائیں گے. یہ انگریزی میں
دوسروں سے بات نہیں کریں گے تو کون انہیں پڑھ لکھ کر بھی جا ہل نہ سمجھے گا..؟
اگر انہیں حیا کا علم دے دیا تو اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار بیٹھینگے جب اپنے
ٹیچر کے سر سے دوپٹہ اترتا ہوا دیکھیں گے اور پھر یہ دیے ہوے درس کہ مطابق
بول پڑے تو پھر کون ان کی آوازوں پر ضرب لگائے گا ..دعوت تبلیغ دینے کا وقت
آیا تو آپ ﷺ نے ایک صحابی کو عبرانی زبان سیکھنے کا حکم فرمایا صحابی نے
ایک ہفتے میں ہی عبرانی زبان سیکھ لی اور یہودیوں کو ان کی زبان عبرانی میں
خط لکھ کر اسلام کی دعوت دی گئی.افسوس کی بات ہمارے تعلیمی مراکز کے پرنسپل
لوگ غلطی سے یہ بات سمجھ بیٹھے ہیں کہ مدرسہ سے تعلیم حاصل کرنے والے استاد
عصری علم سے ماورا ہوتے ہیں انہوں نے صرف دنیاوی تعلیم کو دور دور سے پڑھ
کر اپنا علمی سفر طے کیا ہوتا ہے حقیقت تو یہ ہے کہ یہی مدارس کے
طلباء(معلم) ایسے ہوتے ہیں جنہوں نے عصری تعلیم کو ایمانداری سے سے حاصل
کیا ہوتا ہے سنتوں کے پیکر کو یہ سنت یاد رہتی ہے کہ جب دوسروں سے معاملات
درپیش ہوں تو انکی زبان کو اپنی زبان سمجھتے ہوئے انہیں اپنا سمجھتے ہوئے
کیسے اسلام سے اور کیسے حقیقت سے آشنا کرنا ہے ہر چیز کا ایک طریقہ ہوتا ہے
اور زبان استعمال کرنے کا بھی ایک طریقہ ہے مدارس کے علماء بطور اساتذہ
اعلی علم رکھنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی جانتے ہیں کہ کونسا علم کس جگہ کے لئے
کونسا طریقہ کس وقت کے لئے ہے جب استاد کو یہ علم ہو گا (وعلم ادم الاسماء
لا کلھا ..البقرہ) اور آدم کو کل اشیاء کا علم عطا کیا گیا..! تو یقینا وہ
نہ ادب کو صرف نظر کرکیغصے میں آکر شاگردوں سے قلم چھین کر پھینکے گا نہ وہ
تقریبات میں جوان نسل کونچوا کر خود ہاتھوں کو پیٹے (تالیاں) بجائے گا اور
پھر اردو کی کلاس لیتے ہوئے بچوں کو استاد یہ نھی کہے گا ..Urdu is not
allow .. نہ ہی وہ تعصب کو پھیلائے گا حتی کہ طریقے کار کو جانتے ہوئے علم
سے آگاہ کریگا اور پھر نہ ہی شاگرد بھری محفل میں اساتذہ کا نام پکارنے میں
عار محسوس کریگا لیکن یہ سب ہوگا کیسے..؟آخر کار بات اس نقطے پر آکر رکتی
ہے کہ سو میں سے دس فیصد لوگ اہل علم لوگ معاشرے کے لیے خود کو پیش کرتے
ہیں تو 90 فیصد لوگ میدان میں اتر آئیں... اقلیت کی جگہ جب اکثریت جگہ لے
گی تو انشاء اﷲ تبدیلی برحق ہوگی .. اﷲ بھی اس قوم کی مدد فرماتا ہے جو
اپنی مدد آپ کرتے ہیں .. ہمیں ایک قدم اٹھانے کی دیر ہے صرف ایک قدم ایک
وقت آئے گا کہ تعلیمی مرکز کے سربراہ دینی و دنیاوی تعلیم سے آراستہ ہوکر
اسلام کا دستور لے کر بیٹھے ہونگے.
تٔندی بادے مخالف سے نا گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اوڑانے کے لئے۔ |