میں اور میرے شوہر ہمیشہ سے لکھنے اور پڑھنے کے شوقین رہے.
ہمارے گھر میں ہمیشہ کتابوں کی الماری رہی. شادی سے پہلے میں اپنے ابا کی
لائبریری سے مستفید ہوتی رہی. جب میں کینیڈا آئی ستره سال پہلے تو فاصلے
اتنے سمٹے ہوئے نہیں تهے. انٹرنیٹ تها مگر سیل فون پر ڈیٹا کا تصور نہیں
تها.نیا ملک، نئی ثقافت، نئی زبان، معاشی مشکلات کے پہاڑ غرض کیفیت یہ تهی
کہ سر منڈواتے ہی اولے پڑے. اگر کبھی پبلک لائبریری میں دو بسیں بدل کر
جانا پڑتا تو اردو کی چند کتابیں وہاں دیکه کر دل باغ باغ ہوجاتا. ہر طرف
انگریزی اور فرانسیسی بولنے والوں کے بیچ اپنی زبان کی بہت کمی محسوس ہوتی.
میرے میاں کو ایک مہینے کی تگ و دو کے بعد ایک ware house میں مزدوری کی
نوکری ملی. زندگی کا پہیہ چلانے کے لیے وہ ساتوں دن کام کرتے اور بعض اوقات
وہ دو دو شفٹیں بھی کام کرتے. میں اور میرا چه ماه کا بیٹا ہم ایک دوسرے کے
ہمدرد اور ہمدم تهے. ان دنوں مجھ پر یہ حقیقت افشا ہوئی کہ دیواروں سے
باتیں کرنا کیا ہوتا ہے. میرا دل کتابیں پڑھنے اور آرٹیکل لکھنے کے لئے
ہمکتا مگر دونوں ہی شوق اس وقت کوه نور کی طرح لاحاصل شوق لگتے. اس وقت میں
نے فیصلہ کیا کہ اگر کبھی کینیڈا میں مجھ پر زندگی مہربان ہوگئی تو میں ان
لوگوں کے لئے کچھ ضرور کرونگی جو وسائل کی کمی کے باعث کتابوں سے دور
ہوجاتے ہیں. پھر مصروفیت کے پہئے نے میرے خواب دهندلا دئے. اب سترہ سال بعد
ایک فیس بک پر شامل درویش صفت بهائی کی طرف سے دعوت نامہ موصول ہوا کہ میں
نے اپنے گھر کے باہر سے multicultural mini library شروع کی ہے. آج اس کا
افتتاح ہے اگر آپ لوگ آئنگے تو خوشی ہوگی. میرے میاں روز تقریبا تین گهنٹے
کی مسافت کرتے ہیں اپنی نوکری کے سلسلے میں. مگر جب ان سے میں نے اپنی
خواہش کا اظہار کیا کہ ہم سب کو اس نیک کام میں شریک ہونا چاہیے تو انہوں
نے حامی بهرلی. یوں شام کو جب ہم ان صاحب کے گھر پہنچے. پہلی بار ان سے
تعارف ہوا یہ ہماری سید نجم حسن سے پہلی ملاقات تھی. انتہائی منکسرالمزاج
اور خدمت خلق کا جذبہ رکھنے والے اس شخص نے اپنی مدد آپ کے تحت اپنی
آرگنائزیشن خود تشکیل دی جس کا نام Humanity with love ہے. ان کے گھر کے
سامنے کافی لوگ افتتاحی تقریب کے لئے آئے ہوئے تھے. میڈیا والے بھی موجود
تھے.
تقریب کے اختتام پر ہم نے ان سے اپنی خواہش کا اظہار کیا کہ اگر ہمارے گھر
کے سامنے بھی ایسی لائبریری بن جائے. انہوں نے بڑی خوشی سے حامی بهرلی. ہم
نے سٹی city سے اجازت لی اور اگلے ہفتے ہمارے بهائی نجم الحسن اور میرے
میاں نے مل کر اس لائبریری کو ہمارے گھر کے آگے نصیب کردیا. اس میں ہماری
خواہش ہے کہ ہر زبان کی کتاب شامل کی جائے. . ابهی فی الوقت انگریزی کتابوں
کے ساتھ ساتھ پنجابی، اردو، فرانسیسی کتابوں کی اکثریت ہے. سکول سے واپس
آتے بچے کتابیں نکال کر لے جاتے ہیں اور پڑه کر واپس رکھ جاتے ہیں. کئی
بزرگ جو دور لائبریری نہیں جاسکتے وه کتابیں لے کر جاتے ہیں. اکثر لوگ
گاڑیاں روک کر اس سے کتابیں لیتے ہیں. ہم لوگ کتابیں donation میں اکٹھی
کرتے ہیں .ہر کتاب مکمل طور پر مفت ہے .لائبریری سے کتابیں لینے کے لئے
پڑهنے کا شوق ہونا شرط ہے.روز شام کو میرے بچے اور میں اس میں کم ہونے والی
کتابوں کی کمی پوری نئی کتا بیں لگا کر پوری کردیتے ہیں.میں ،میاں، بچے سب
شاداں وفرحاں ہیں. آپ لوگوں سے اس کہانی کو شئر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر
وطن عزیز میں سے آپ لوگوں میں سے بھی کوئی ہمت کرے تو شاید ہماری قوم پهر
سے زندہ ہوجائے. ناچ گانے میں دلچسپی کے بجائے شاید کتابوں سے پهر پیار
ہوجائے. اگر گلی محلوں میں ایسی لائبریریوں کا قیام اپنی مدد آپ کے تحت کیا
جائے تو صبح نوید ضرور ہوگئی.انشاءاللہ. |