احمد یٰسین جو فارنزک لیبارٹری میں رہنے کی وجہ سے یہ سب
باتیں جانتا تھا۔ اسے بہت سے کوڈ ورڈز کا بھی ادراک تھا اور ایک بہت ہی
حساس ادارے میں کام کرنے کے تجربہ کی وجہ سے وہ دنیا کی بہت سی زبانیں خوب
اچھی طرح سمجھتا تھا۔ اس نے وہ فریکوئنسی ملائی اور کال کے انتظار میں بیٹھ
گیا۔ اس نے اور احمد مختار نے وقت مقرر کر لیا تھا کہ باری باری اس کال کا
انتظار کریں گے ۔ احمد یٰسین کی باری تھی اور وہ منتظر تھا کہ اتنے میں ریڈ
بائی لہرؤں کا شور ابھرا ۔ اس نے اپنی پوری توجہ اس طرف لگا دی ۔
کوئی اپنے آپ کو جے جے کہہ رہا تھا اور کسی ایس ون سے رابطہ کرنا چا رہا
تھا ۔ تھوڑی ہی دیر میں وہ بولا وی آر بی ہائندآر (ہم آر کے پیچھے ہیں )
اور دوسری طرف سے بہت مدھم آواز سنائی دے رہی تھی تا ہم قابل سماعت تھی ۔
او کے ۔ ایس ون از آن لائن ۔ کیا رپورٹ ہے ؟
سر ہم اسی شہر میں جس میں آر
کے موجود ہونے کے امکانات ہیں۔ اور اسی شہر میں ٹرسٹ بھی ہے ہم نے ٹرسٹ کے
اردگرد چکر لگایا ہے اور یہ معلوم کیا ہے کہ وہاں کی سیکورٹی بہت سخت ہے
خاص طور پر غیر ملکیوں کے لئے ۔ ان سے ملاقات کے لئے الگ دفتر قائم ہے ۔ ہم
نے وہاں سے موجود چند افراد سے ٹرسٹ کے بارے میں معلومات حاصل کی ہیں ۔ میں
اور میرے ساتھی کے لئے نیا حکم کیا ہے۔
تم اپنی سمجھ کے مطابق آگے بڑھتے رہو اور جب کوئی سرا ہاتھ آ جائے تو تب
رابطہ کرنا ۔ اوور اینڈ آل ۔
احمد یٰسین کو عبرانی زبان پر عبور تھا اس لئے اسے پیغام کا ایک ایک لفظ
یاد ہو گیا اس نے وہ کوڈورڈز نوٹ کر لئے اور ریڈیو بند کر دیا ۔
اس کے لئے اگرچہ یہ ناگہانی صورتحال نہ تھی لیکن پریشان کن ضرور تھی ۔ اس
نے بیٹھے ہی بیٹھے ایک منصوبہ تیار کیا اور اس پر عمل کرنے کے لئے رئیس سے
مشورہ مانگا۔ رئیس نے حضرت صاحب سے اجازت طلب کی۔ اور احمد یٰسین کو اپنا
منصوبہ مکمل کرنے کو کہا۔
اس نے علیم اور غازی کو بلایا اور انہیں بھکاری بن جانے کو کہا ۔ ان کے ذمہ
یہ ڈیوٹی تھی کہ جیسے ہی وہ غیر ملکی جوڑا ٹرسٹ کے اردگرد یا اندر دیکھیں
اسے فوراً اطلاع دیں ۔ علیم اور غازی نے اسی وقت تیاری شروع کر دی ۔ تھوڑی
ہی دیر میں وہ بالکل بھکاری نظر آ رہے تھے تو انہوں نے اپنے کشکول اٹھائے
اور ٹرسٹ سے باہر آ گئے ۔ ٹرسٹ کا رقبہ تقریباً 25ایکڑ تھا ۔ اس لئے انہوں
نے دو حصوں میں تقسیم کر لیا ۔ ایک طرف علیم چلا گیا اور دوسری طرف غازی ۔
احمد یٰسین کو ڈر تھا کہ آج شاید جے جے اینڈ کمپنی ادھر نہ آجائیں تاہم
احتیاطً اس نے ایسا کیا تھا کہ اگر ادھر آئیں تو خالی واپس نہ جائیں ۔
احمد یٰسین اپنے کمرے میں بہت بے چینی سے علیم اور غازی کی کال کا انتظار
کر رہا تھا ۔ کہ غازی نے اسے کال کیا ۔ سر وہ غیر ملکی جوڑا ایک کار میں
ابھی ابھی میرے پاس سے گزرا ہے ۔ کار کا نمبر غیر ملکی اور رنگ گرے ہے ۔
مرد نے سیاہ چشمہ پہن رکھا ہے اور اس عورت کے کاندھے پر بیگ یا کیمرہ لٹک
رہا ہے ۔ وہ علیم کی طرف یعنی ٹرسٹ کے مین گیٹ کی طرف جا رہے ہیں ۔
احمد یٰسین نے اپنے دو ساتھیوں کو موٹر سائیکل پر پہلے ہی تیار کر رکھا تھا
جو میں گیٹ سے تھوڑی سی دور کھڑے موٹر سائیکل کا پلگ صاف کر رہے تھے ۔ ایک
سوا ر تھا اور ایسے لگ رہا تھا جیسے وہ دوسرے سے اس کا حال دریافت کر رہا
ہو۔ احمد یٰسین نے انہیں ٹرانسٹمر پر مختصر سا احوال سنایا اور تیار رہنے
کا کہا۔
امجد موٹر سائیکل پر سوار تھا اس نے جب گاڑی اپنے قریب آتے دیکھی تو موٹر
سائیکل چلا لی ۔ وہی گاڑی ان کے پاس سے گزر گئی اس نے اس کا تعاقب شروع کر
دیا ۔ اتنی دیر میں سعود بھی سوار ہو گیا اور ٹرسٹ سے دوسری طرف گھوم کر اس
گاڑی کے آگے آ گیا ۔ احمد یٰسین چاہتا تو اسی وقت انہیں پکڑ سکتا تھا مگر
اس میں جلد بازی تھی اور پھر وہ ان کے سامان پر بھی قبضہ کرنا چاہتا تھا تا
کہ ان کے بارے میں مکمل معلومات مل سکیں اور وہ اپنا منصوبہ آگے بڑھا سکے ۔
امجد اور سعود نے دیکھا کہ وہ خود کار کیمرے سے ٹرسٹ کی بلڈنگ کی فلم بناتے
جا رہے تھے ۔ انہوں نے بڑی ہوشیاری سے ان کا تعاقب جاری رکھا اور جب ان کی
گاڑی اس کوٹھی میں داخل ہو گئی جس میں وہ رہائش پذیر تھے تو وہ دونون واپس
آ گئے اور احمد یٰسین کو رپورٹ کی ۔
*۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔*
احمد یٰسین کچی گولیاں کھیلنا نہیں چاہتا تھا ۔ اس لئے اس نے پہلے اس کوٹھی
کے مالک کا نام و پتہ دریافت کیا تو وہ نسوار خاں نکلا۔ ڈائریکٹری سے نسوار
خاں کا فون نمبر وغیرہ نوٹ کر لیا۔
اور رات کے اندھیرے کا انتظار کرنے لگے ۔
اس دوران ساری معلومات اس نے رئیس احمد ناصر کو پہنچا دیں ۔ رئیس نے مشورہ
دیا کہ وہ ایسے حملہ نہ کریں بلکہ جہاں تک ممکن ہو مقابلے کی نوبت نہ آنے
دیں اور بہت خاموشی سے اپنا کام کریں ۔ احمد یٰسین کو مشورہ پسند آیا اور
اس نے اپنی ٹیم کے دو نہایت ہی چالاک اور زیرک ساتھی اپنے ساتھ لئے اور مشن
پر روانہ ہو گیا ۔ دئیے ہوئے پتے پر پہنچ کر ان میں سے ایک مین گیٹ پر گیا
اور دوڑ بیل بجائی ۔ جے جے نے انٹر کام پر پوچھا کہ کون ہے ۔
نسوار خاں نے بھیجا ہے ۔ خاص پیغام دے کر
اچھا میں ابھی دروازہ کھولتا ہوں ۔
دروازہ نہیں کھولنا بلکہ میں تمہیں اپنے ساتھ لینے آیا ہوں۔ یہ رہائش انٹلی
جنس کی نظروں میں آ گئی ہے ۔ فوراً اپنا سامان سمیٹو اور گاڑی میں آ کر
بیٹھو۔
جے جے نے ویلنٹیا کو اس آفت سے آگاہ کیا اور وہ دونوں بہت تیزی سے اپنے بیگ
سنبھال کر باہر آ گئے ۔
باہر آ کر انہوں نے گل خان سے پوچھا کہ گاڑی کہا ں ہے تو وہ انہیں گاڑی کی
طرف لے گیا جس میں احمد یٰسین اور جہانگیر بیٹھے تھے ۔
احمد یٰسین پچھلی سیٹ پر بیٹھا تھا اور ڈرائیونگ سیٹ پر جہانگیر بیٹھا تھا
۔
احمد یسٰین نے ان کے لئے دروازہ کھولا اور ویلنٹیا اور جے جے گاڑی کے اندر
آ گئے ۔
گل خان اگلی سیٹ پر آ کر بیٹھ گیا۔
جے جے نے پوچھا کہ اب کہاں جانا ہے ۔
احمد یٰسین نے انہیں کہا کہ ہمیں نسوار خان کا حکم ہے کہ کہ کوئی بات نہیں
بتانی۔
اچھا ٹھیک ہے ۔ مگر نسوار خان خود کیوں نہیں آیا۔ وہ خود نہیں آتا بلکہ
اپنے آدمیوں کو ہی بھیجتا ہے ۔
ٹرسٹ وہاں سے تقریباً بیس پچیس منٹ کے فاصلے پر تھا مگر گل خان گاڑی بہت
تیزی سے چلا رہا تھا اس لئے وہ پندرہ منٹ میں ہی ٹرسٹ کے قریب پہنچ گئے
تھے۔
ایک مرتبہ پھر جے جے نے پوچھا کہ آخر وہ جگہ کہاں ہے جہاں تم مجھے لے جا
رہے ہو۔
یہ شہر کے قرب و جوار میں کوئی جگہ ہے جہاں تمہیں لے جا رہے ہیں ۔ احمد
یٰسین نے گل خان سے کہا کہ مسٹر جی کے پلیز سٹارٹ ۔
گل خان نے آٹو میٹک ریفل نکال لی اور جے ویلنٹینا کی کھوپڑی پر رکھ دی اتنی
ہی دیر میں احمد یٰسین جے جے کے سینے میں اپنی پستول کی نالی رکھ چکا تھا۔
ہم سپیشل فورس سے تعلق رکھتے ہیں اور تمہیں گرفتار کیا جا رہا ہے ۔
مگر کیوں ؟ ہم تو صحافی ہیں ۔
تم کافی یا صافی ہو۔ یہ تفشیش کے بعد واضح ہو گا ۔ مگر یہ کوئی طریقہ ہے
تفشیش کا ۔ میں تمہارے ملک کی شکایت کروں گا کہ وہاں پر انسانی حقوق یکسر
نظر انداز کئے جا رہے ہیں۔
اتنے میں ٹرسٹ آ گیا ۔ مگر ٹرسٹ میں لے جانے سے پہلے ان کی آنکھوں پر پٹی
باندھ دی گئی اور گاڑی ایسے ہی دو چار چکر لگا کر ٹرسٹ میں داخل ہو گئی ۔
جے جے اور ویلنٹینا کو تہہ خانے میں قید کر دیا گیا اور ان کا سار سامان
حتیٰ کہ کپڑے بھی ان سے لے لئے گئے اور نئے کپڑے پہنائے گئے ۔
|