تاریخ سے وابستہ کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ لفظ چنیوٹ دو
الفاظ چن یعنی چاند اور اوٹ یعنی کسی چیز کے پیچھے کا مجموعہ ہے۔دریائے
چناب اور پہاڑوں کے سنگم میں جب چاند پہاڑوں کی اوٹ سے نکل کر سامنے آتا
ہے تو دریا میں چاند کی پرچھائی دلکش منظر پیش کرتی ہے اسی نسبت سے اس شہر
کا نام چنیوٹ رکھا گیا ہے۔تاہم سات سال قبل چنیوٹ میں ایک قلعہ نما سرائے
کی دریافت سے شہر کا تاریخی منظر نامہ یکسر تبدیل ہوتا دیکھائی دیتا ہے۔
نئے دریافت شُدہ اس سرائے کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ 326 قبل مسیح
چندر گپت موریا کی رانی نے ہندو شاہی دور میں تعمیر کروائی تھی۔کتاب چنیوٹ
کی تاریخ میں لکشمی نارائن لکھتے ہیں کہ رانی چندن شکار کی غرض سے مردوں کے
بھیس میں چنیوٹ آیا کرتی تھی اور شکار کے لئے پہاڑوں اور دریا چناب کا
سنگم اُس کی پسندیدہ جگہیں تھیں مگر یہاں رہائش کے لئے کوئی مقام نہ ہونے
کے باعث اُسے مشکلات درپیش آتی تھیں۔اُس نے چنیوٹ میں دریائے چناب کے
بائیں کنارے پر پہاڑوں کے دامن میں ایک سرائے تعمیر کروائی جس کا نام چندن
یوٹ رکھا گیا جس کا مطلب چندن کی جائے پناہ ہے۔اس سرائے کی دیواروں جن کی
چوڑائی تین فٹ تھی کی تعمیر میں مقامی پہاڑوں کا پتھر استعمال کیا گیا تھا
اور یہ شاید چنیوٹ کی زمین پر رکھی جانے والی پہلی بنیاد تھی۔بعدازاں اس
سرائے کے گرد شہر آباد ہوتا گیا جسے چند یوٹ کہا جانے لگا جو آج کل چنیوٹ
کے نام سے جانا جاتا ہے۔
تاریخ کی کتابوں سے یہ بھی ملتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس سرائے کو
یونیورسٹی کی شکل دے دی گئی تھی جہاں بدھ مت مذہب کے اعلٰی علوم سکھائے
جاتے تھے اور اس یونیورسٹی کا ذکر کئی پُرانی مذہبی کتابوں میں بھی موجود
ہے۔سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ محکمہ آثار قدیمہ پاکستان نے سات سال قبل اس
سرائے کی دریافت کے دوران پہاڑوں کے دامن میں مٹی کے بڑے بڑے ٹیلوں کی تین
مختلف مقامات سے کھدائی کرتے ہوئے اس کا 10 فیصد سے زائد حصہ دریافت بھی کر
لیا تھا مگر باقی کا تمام حصہ تا حال مٹی کے ٹیلوں تلے دبا ہوا ہے اور
محکمہ کی طرف سے کام روک دیا گیا ہے۔مذکورہ جگہ پر کھدائی کے بعد نمودار
ہونے والی تقریباً تین فٹ چوڑی دیواریں اب واضح دکھائی دیتی ہیں۔سرگودھا
میں تعینات محکمہ آثار قدیمہ کے اعلیٰ عہدیدار محمد ایوب نے سُجاگ کو
بتایا کہ اس ٹیلے کی کھدائی کے دوران برآمد ہونے والی عمارت کی ساخت اور
تعمیر کے انداز کے تمام اشارے ہندو شاہی دور کی بدھ مت یونیورسٹی کی جانب
ہی جاتے ہیں جس کا ذکر تاریخ میں ملتا ہے۔اُن کے مطابق اس کھدائی کے دوران
پہاڑ کے دامن میں شمشان گھاٹ (ہندووں کی مردہ جلانے کی جگہ) کے آثار بھی
ملے ہے جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہاں ایک بڑا شہر آباد رہا ہے۔انہوں
نے مزید بتایا کہ اس یونیورسٹی کی دریافت کے دوران دیواروں میں دبائے گئے
مٹکے بھی ملے ہیں جن میں زمانہ قدیم کے لوگ اپنی قیمتی اشیا کو محفوظ کرکے
دیواروں یا زمین میں دفن کر دیا کرتے تھے۔ان مٹکوں میں موجود اُس دور کے
زیورات وغیرہ محکمہ آثار قدیمہ کے پاس محفوظ ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ
اس بات میں اب شاید کوئی شک نہیں رہا کہ پہاڑ کے ان ٹیلوں میں چنیوٹ کی
تاریخ دبی ہوئی ہے اور محکمہ اس پر مزید کام کرنے کا خواہش مند بھی ہے۔
ایوب کے بقول محکمے کے پاس فنڈز کی قلت کے باعث کھدائی کا کام روکنا پڑا
لیکن جیسے ہی مزید فنڈز کا حصول ممکن ہو گا اس پر دوبارہ کام شروع کیا جائے
گاٍ تاکہ اس ہندو شاہی دور میں آباد تاریخی شہر اور اُس دور کے لوگوں کے
رہن سہن کے بارے میں مزید شواہد حاصل کئے جا سکیں۔انھوں نے بتایا کہ اس
معاملے میں محکمہ اوقاف بھی اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے اور رواں سال کے
آخر تک دوبارہ اس پر کام شروع ہونے کی امید ہے۔احسن علی ایک نجی کالج کے
طالبِ علم ہیں اور آثار قدیمہ پر تحقیق کا شوق رکھتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ
چنیوٹ کے پہاڑوں کے دامن میں محکمہ آثار قدیمہ اور اوقاف کی جانب سے ٹیلے
کی کھدائی کے دوران یونیورسٹی کے عقب میں شمشان گھاٹ سے بڑی تعداد میں
انسانی ہڈیاں نکالی گئیں تھیں جن کو ایک طرف پھینک دیا گیا اور وہ جانوروں
کی نظر ہو گئیں۔اگر ان ہڈیوں کے لیبارٹری ٹیسٹ کروا کر تحقیقات کا دائرہ
کار بڑھایا جاتا تو بہت سے نا قابل تردید حقائق سامنے آ سکتے تھے۔اُن کا
ماننا ہے کہ اس مقام پر یونیورسٹی دریافت ہونے کی خبر کے بعد شہریوں کی بڑی
تعداد اس مقام کا رخ کرتی رہی ہے اور وہاں سے کئی افراد کو قیمتی پتھر اور
دھاتیں بھی ملی ہیں۔تعلیم الاسلام گورنمنٹ کالج چنیوٹ میں تاریخ کے پروفیسر
علی عمران شاہ سمجھتے ہیں کہ اگر حکومتِ وقت ضلع چنیوٹ پر توجہ دیتے ہوئے
بدھ مت یونیورسٹی سمیت دیگر تاریخی جگہوں کی باقاعدہ دریافت کا کام شروع
کروائے تو یہ ضلع موہنجو داڑو کی طرح اہم ترین تاریخی مقام بن سکتا ہے۔ |