غزوۂ اُحد میں حضور رحمتِ عالم
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زخمی ہو گئے، خود (لوہے کی ٹوپی جو دورانِ جنگ
پہنی جاتی تھی) کی کڑیوں نے رخسار مبارک زخمی کر دیئے۔ یہ دیکھ کر حضرت ابو
بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ بن الجراح دوڑتے
ہوئے خدمتِ اقدس میں پہنچے، حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ بن الجراح نے آگے
بڑھ کر رخسارِ اقدس سے خود کی کڑیوں کو نکالا۔ پہلی کڑی نکالنے لگے تو زور
سے پیچھے گر پڑے اور ان کا ایک دانت ٹوٹ گیا۔ لیکن شمع رسالت کے پروانے نے
اپنے زخمی ہونے کی پروا نہ کی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رخسارِ
اقدس سے خود کی دوسری کڑی کو بھی نکال لیا لیکن ایسا کرتے ہوئے ایک بار پھر
گر گئے اور دوسرا دانت بھی ٹوٹ گیا۔
:: سيرة النبويه، 4 : 29،ابن ہشام
حضرت سیدنا سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ غزوۂ اُحد میں شدید زخمی ہوگئے۔ بارہ
نیزے ان کے جسم کے آر پار ہوئے، تلوار اور تیر کے زخم جو اس کے علاوہ تھے
سَتّر (70) کے لگ بھگ تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے جاں
نثاروں سے فرمایا کہ سعد بن ربیع کی خبر کون لائے گا تو حضرت ابی بن کعب
رضی اللہ عنہ حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ کی تلاش میں نکلے اور ڈھونڈتے
ڈھونڈتے انہیں شہیدوں کے درمیان شدید زخمی حالت میں پایا۔ حضرت ابی بن کعب
رضی اللہ عنہ نے اُنہیں بتایا کہ مجھے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
تمہارا حال دریافت کرنے کے لئے بھیجا ہے۔ اس پر اُنہوں نے اپنا حال بیان
کرتے ہوئے فرمایا
:: صفوة الصفوه، 1 : 6481،ابن جوزی
موطا، 2 : 465 - 2466،مالک بن انس
یا رسول اللہ جنت ہے تیری عطاء کا نام-
حضرت خبیب رضی اللہ عنہ کو قیدی بنا لیا گیا اور کچھ عرصے بعد اُنہیں بھی
تختہ دار پر لٹکا دیا گیا لیکن شہادت سے قبل آپ نے مہلت مانگی کہ میں دو
رکعت نماز پڑھ لوں، اجازت ملنے پر وہ اطمینان سے بارگاہِ خُداوندی میں سجدہ
ریز ہو گئے۔ تختہ دار پر اپنے پروردگار کی بارگاہ میں التجاء کی کہ مولا!
میرا سلام میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچا دے۔ حضرت اُسامہ رضی
اللہ عنہ کا بیان ہے کہ اس وقت میں مدینہ منورہ میں حضور صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی
نازل ہوئی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : وعلیکم السلام۔ اس کے
ساتھ ہی آنکھیں اشکبار ہو گئیں۔ قریشِ مکہ نے آپ رضی اللہ عنہ کو شہید کرنے
کے لئے ایسے چالیس افراد بلائے جن کے آباء و اجداد جنگِ بدر میں واصلِ جہنم
ہوئے تھے۔ اُنہوں نے آپ رضی اللہ عنہ کو شہید کیا، آپ رضی اللہ عنہ کی میت
تختہ دار پر لٹکی رہی، جس کی نگرانی کے لئے کفار نے چالیس افراد کا ایک
ٹولہ مقرر کیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بذریعہ وحی اُس کی اطلاع
ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم میں سے جو شخص بھی حضرت
خبیب رضی اللہ عنہ کو تختہ دار سے اُتارے گا اُس کے لئے جنت ہے۔ چنانچہ
حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ نے حضرت مقداد رضی اللہ عنہ کے ساتھ مل
کر اس حکم کو قبول کیا اور اُنہیں تختہ دار سے اُتار کر لائے۔
:: سيرة الحلبيه، 3 : 160 - 161
جنگ بدر کے موقع پر جب نبی کریم رؤف الرحیم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صفیں
درست فرما رہے تھے تو سواد بن عزیہ کے پیٹ میں جو صف سے ذرا آگے بڑھے ہوئے
تھے، تیر چبھو کر فرمایا ۔سواد! برابر ہو جا۔ اس پر سواد بن عزیہ نے عرض
کیا ۔ ’’یا رسول اللہ! آپ نے مجھے تکلیف پہنچائی جبکہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے
حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے، سو مجھے بدلہ دیں۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے اپنے بطن مبارک سے کپڑا ہٹا لیا اور فرمایا : بدلہ لے لو۔ وہ
(تو بہانہ ڈھونڈ رہے تھے) حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لپٹ گئے اور
بطنِ اقدس کو بوسہ دینے لگے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
فرمایا : اے سواد! تجھے کس چیز نے اس عمل کی ترغیب دی؟ اُنہوں نے عرض کیا :
یارسول اللہ! جیسا کہ آپ ملاحظہ فرما رہے ہیں ممکن ہے میں جنگ میں زندہ نہ
بچ سکوں اس پر میں نے چاہا کہ میرا آخری عمل آپ کے ساتھ یہ ہو کہ میرا جسم
آپ کے جسمِ اطہر سے مس ہو جائے، پس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے
ان کے لئے دُعائے خیر فرمائی۔
:: بدايه والنهايه، 3 : 2271،
تاريخ الامم و الملوک، 2 : 432،امام طبری
سيرة الحلبيه، 2 : 402،وغیرہ |