سب سے پہلے اپنی جان

جنرل(ر)پرویز مشرف نے سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگایا۔ ان کا یہ نعرہ کافی مقبول ہوا۔ اسی کو انھوں نے اپنی انگریزی خود نوشت کے اردو ترجمہ کی شہ سرخی بنایا۔ جب کہ In the Line of Fire کا اردو ترجمہ لغوی یا معنوی لحاظ سے کسی طور بھی سب سے پہلے پاکستان نہ تھا۔ پھر ایسا وقت بھی آیا جب جنرل صاحب جو کبھی مکا لہرا کر اپنی بہادری کے پرچم لہراتے تھے، پھسل کر ملک سے نکل گئے۔ سب سے پہلے پاکستان کے نعرہ کو انھوں نے سب سے پہلے اپنی جان میں بدل دیا۔ جان ہر کسی کو عزیز ہوتی ہے۔ بے شک یہ زندگی اﷲ کی امانت ہے۔ اس کا مقصد ہے۔ ہمیں کتنے نام یاد ہیں جو اس دنیا میں فخر اور عزت سے گنے جاتے ہیں۔ ایسے بے شمار ہیں جنھوں نے اپنی جان کو دوسروں پر نچھاور کر دیا۔ پاک فورسز کے ہزاروں اہلکار ملک کا دفاع کرتے ہوئے سرحدوں، گلیشئرز، ریگستانوں ، بیابانوں اور دیار غیر میں گمنامی میں شہید ہو گئے۔ ان شہداء کو سلام ہے جنھوں نے سب سے پہلے اپنی جان کے بجائے سب سے پہلے پاکستان کا عملی مظاہرہ کیا۔ ان شہداء میں ایک معصوم کم سن بچے صائم شفاعت کے نام کا اضافہ ہوا ہے۔ جو اپنے سامنے ڈوبتے ہوئے مہمان سیاح طلباء کو بچانے کے لئے نالہ جاگراں میں کود پڑا۔ ابھی تک صائم کی لاش نہیں مل سکی ہے۔

جاگراں نالہ وادی نیلم آزاد کشمیر کا تیز بہاؤ والی صاف وشفاف ٹھنڈے پانی کی ندی ہے۔ جو کنڈل شاہی کے مقام پر دریائے نیلم میں آبشار بن کر گرتا ہے۔ اس نالہ پر پن بجلی پروجیکٹ بنایا گیا ہے۔گزشتہ برسوں میں کنڈل شاہی سے کٹن تک کی سیر ملک بھر کے سیاحوں کی دلچسپی کا باعث بنی ہے جو مری سے آگے کوہالہ یا ایبٹ آباد سے آگے برار کوٹ کے راستے مظفرآباد پہنچتے ہیں۔ جہاں سے وادی نیلم انہیں خوش آمدیدکہتی ہے۔ گزشتہ دنوں جاگراں نالہ پر نصب معلق پل ٹوٹ جانے سے کئی طلباء نالے کی لہروں کی نذر ہو گئے۔ جس نے اس پورے خطے کو سوگوار بنا دیا۔ جس کسی نے بھی اس سانحہ کے بارے میں سنا ، وہ اپنے جذبات کو قابو میں نہ رکھ سکا۔ ابھی بھی کئی طلباء کی نعشیں نہیں مل سکیں،جنھیں جاگراں کی موجوں نے نیلم میں اتار دیا۔ کہتے ہیں صائم کے والد پکوڑے بیجتے ہیں۔جن کے ہاں اس عظیم بچے نے جنم لیا۔ صائم نے پل ٹوٹنے پر مہمان طلباء کو نالے میں گرتے اور ڈوبتے دیکھاتو وہ تڑپ اٹھا اور نالے میں کود پڑا۔ وہ اپنی جان کی پروا کئے بغیر مہمان طلباء کی زندگی بچارہا تھا۔ مگر خود ہی ان لہروں کا شکار بن گیا۔ صائم نے ایثار و قربانی کی ایک مثال قائم کی اور خود تاریخ کا حصہ بن گیا۔ بلا شبہ صائم کشمیریوں کی مہمان نوازی اور جذبہ انسانی کی ایک علامت بنا۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ کسی مفاد یا مراعات سے بے نیاز لوگ ہی دوسروں کی سلامتی اور حفاظت کے لئے خود کو پیش کر دیتے ہیں۔ ان کی یہ پیشی غیر مشروط ہوتی ہے۔ اﷲ کا شکر ہے ہماری نئی نسل کافی حساس اور انسانیت پسند ہے۔ اس میں شعور بھی ہے۔ یہ اچھائی اور برائی میں تمیز کر سکتی ہے۔ یوں تو آ ج کا نوجوان چمک دمک میں الجھا دیا گیا ہے۔ اس کے پاس وقت کی قلت ہے۔ اس پر ذمہ داریوں کا بوجھ ہے۔ اسے چند مخصوص شعبہ جات میں داخل کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ بلکہ دباؤ ڈالا جا تا ہے۔ جس کی وجہ سے صلاحیتیں دب کر رہ جاتی ہیں۔ شروع سے بچے کوخود آگے بڑھتے رہنے کے بجائے دوسروں کو آگے بڑھنے سے روکنے کی تربیت ملے گی تو ایسا ہی نتیجہ نکلے گا۔ فرد میں ذمہ دار شہری بننے کا شعور اجاگر ہوناضروری ہے۔ مگر ہمارے سماجی رویئے مختلف ہیں۔ جس وجہ سے انسانیت پیچھے اور مادیت آگے بڑھ جاتی ہے۔ دوسروں کو لیکچر دینے والوں کو جب اپنا مفاد سامنے آتا ہے تو سب کچھ فراموش کر دیتے ہیں۔ یہ ہم روز مرہ کی زندگی میں مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ مگر اب صائم شفاعت جیسی نسل ہماری نمائیندہ ہے۔ جو سب سے پہلے اپنی جا ن کی پروا نہیں کرتی۔ آج بازار سیاست لگا ہے۔ چڑھتے سورج کو سلام ہو رہا ہے۔ ڈوبتے کے ساتھ کون ڈوب سکتا ہے۔ صائم شفاعت کی قربانی اس تاویل کی نفی کرتی ہے۔ ڈوبتے کو بچانے کے لئے ، کنارے تک لانے کے لئے عظیم لوگ اپنی زات کی کوئی فکر نہیں کرتے۔ ہمارے نعروں میں ایک مقبول فقرہ یہ بھی ہے کہ گرتی ہوئی دیواروں کو ایک دھکا اور دو۔ جب گرانے اور توڑنے کے بجائے تعمیر اور جوڑ نے کی سیاست کی زیادہ ضرورت ہے۔ دھکا دینے کے بجائے ہاتھ پکڑنے والے بھی ہم میں موجود ہیں۔ گزشتہ روز قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے بعض اساتذہ اور طلباء سے ملاقات کے دوران پتہ چلا کہ وفاق میں زیادہ تر لوگ نفرت اور انتقام کی سیاست سے متنفر ہیں۔ یہ اصلاح کی سیاست کو پروان چڑھانے کے لئے مہم چلا نے کے حامی ہیں۔ میاں نواز شریف کے تازہ انٹرویو میں فوج پر عالمی اور علاقائی دباؤ ڈالنے کی کوشش کی جھلک نظر آتی ہے۔ یہ انٹرویو ڈان لیکس دوم ہے۔ راولپنڈی اسلام آباد میں جس سے بھی بات کریں ، وہ نواز شریف کی تازہ سیاست سے بیزار نظر آتا ہے۔ ملک کو ایٹمی قوت بنانے میں عالمی دباؤ مسترد اور کوئی سمجھوتہ نہ کرنے، مسلم لیگ ن کے ترقیاتی کام ان کا کریڈٹ ہیں۔ مگر گھر کے معاملات کو یوں سر عام لانا کسی کو پسند نہیں۔ فوج ہو یا عدلیہ، ہر کوئی ادارہ قابل احترام ہے۔ ملک میں امن و امان ، دفاع وطن اور سلامتی میں مسلح افواج نے بڑھ چڑھ کر کردار ادا کیا ہے۔ بہت قربانیاں پیش کی ہیں۔ یہ معتبر ادارہ ہے جو ملک میں افہام و تفھیم ، اتحاد، اداروں کے باہمی تعاون میں پل کا کردار ادا کر سکتا ہے۔ کوئی ادارے کسی مخصوص پارٹی یا علاقے کی حمایت میں اپنا وزن نہیں ڈالتا۔ کیوں کہ یہ محدود نہیں۔ ان کا حلقہ پورا ملک ہے۔ بجٹ میں حصہ، خارجہ پالیسی، سیکورٹی معاملات میں وسیع مشاورت ، سب کی آراء کا احترام، مسلسل گفت وشنید آگے بڑھنے اور بریک تھرو کا راستہ ثابت ہوتی ہے۔ ایک دوسرے کو زیر کرنے، بالادستی قائم کرنے ، اختیارات کی رسہ کشی جیسے مسائل پسماندہ معاشروں میں سر اٹھاتے ہیں۔ جو قومیں کام کرنے ، ترقی کا سفر جاری رکھنے میں مصروف ہوں، ان کے ادارے بلا مشروط تعاون کرتے ہیں۔ انہیں فضولیات میں پڑنے کی فرصت نہیں۔ قوموں کے عروج و زوال کی تاریخ ہمارے سامنے ہے۔ مگر ہم اس سے سبق سیکھنے میں ہتک محسوس نہ کریں تو پیش رفت ہو سکتی ہے۔ دیواروں کو گرانے کے بجائے تعمیر کرنے کی سوچ پروان چڑھ سکتی ہے۔ پھر صائم شفاعت جیسی نسل پیدا ہو رہی ہے۔ یہ نسل انا پرست یا خود غرض نہیں کہ اپنے مفاد کے لئے ملکی مفاد داؤ پر لگا دے۔یہ ڈوبتے کو بچانے کے لئے خود ڈوب جاتی ہے اور سب سے پہلے اپنی جان کے فلسفہ کو مسترد کر رہی ہے۔

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 555614 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More