روزے کے منجملہ ثمرات میں سے ایک ثمرہ مرتبۂ احسان کا
حاصل ہونا ہے۔ مرتبۂ احسان کیا ہے؟ اس پر حدیثِ جبریل مَیں آپ کے سامنے
رکھنا چاہوں گا۔ جس کو امام بخاری نے اور دیگر ائمۂ احادیث نے ذکر کیا ہے۔
مسجد نبوی کا ماحول تھا ۔ مدینہ شریف کی فضائیں تھیں۔ صحابہ حضور کی صحبت
میں جلوہ فراز تھے ۔ نور بٹ رہا تھا ۔ اجالے اُتر رہے تھے۔ صحابہ کے مَن
روشنی سے مالامال تھے۔ حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک
شخص آیا جس کی گھنی سیاہ داڑھی تھی۔ اور اس کا سفید لباس تھا۔ ہم میں سے
اسے کوئی جانتا بھی نہیں تھا۔ لیکن اپنے وجود کی تروتازگی کی وجہ سے وہ
مسافر بھی دکھائی نہیں دیتا تھا۔ کیوں کہ مسافر ہوتا تو آثار سفر اس کے بدن
سے ظاہر ہوتے ۔ لگتا تھا کہ یہی کسی گلی سے نکل کے آیا ہے۔ لیکن چوں کہ وہ
وہاں کا رہنا والا نہیں تھا ہم میں سے اسے کوئی پہچانتا بھی نہیں تھا۔ اب
وہ حضور کی خدمت میں آیا فاسند رکبتیہ الیٰ رکبتیہ اور اپنے گھٹنوں کو جوڑ
کر حضور کے گھٹنوں کے ساتھ ملا کر بیٹھ گیا۔ اور حضور علیہ السلام سے عرض
کرتا ہے کہ حضور مجھے خبر دیجیے کہ ایمان کیا ہے؟ حضورنے ارشاد فرمایا
ایمان یہ ہے کہ تُو اﷲ پر ایمان لائے ، اس کے رسول پر ایمان لائے، پچھلی
کتابوں پہ ایمان لائے ، اچھی بری تقدیر پہ ایمان لائے، فرشتوں پہ ایمان
لائے۔ بتایا حضور نے۔ تو اس نے کہا صدقت آپ نے سچ کہا۔ حضرت عمر کہتے ہیں
کہ ہمیں بڑا تعجب ہوا کہ خود ہی سوال کرتا ہے اور خود ہی تائید کردیتا ہے۔
پھر کہنے لگا اسلام کیا ہے؟ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ اسلام یہ ہے کہ
تُو نماز پڑھے، روزہ رکھے، حج کرے ، زکوٰۃ ادا کرے؛ اراکین اسلام اُس کو
بیان کیے۔ وہ کہنے لگا آپ نے سچ کہا ۔ کہتے ہیں ہمیں پھر تعجب ہوا کہ خود
ہی بات کہتا ہے پھر خود ہی اس کی تصدیق کر رہا ہے۔ کہتے ہیں پھر وہ پوچھتا
ہے من احسان؟ حضور! احسان کیا ہے؟ تو حضور علیہ السلام نے جواباً فرمایا ان
تعبد اللّٰہ کانک تراہ احسان یہ ہے کہ تُو اﷲ کی عبادت اس طرح کرے کہ گویا
تُو اسے دیکھ رہا ہے۔ اور اگر یہ کیفیت تجھے نصیب نہیں ہوتی تو کم از کم یہ
کیفیت تجھے نصیب ہوجائے کہ وہ تجھے دیکھ رہا ہے فان لم تکن تراہ فانہ یراک۔
تو وہ کہنے لگا ہاں! آپ نے سچ کہا۔پھر اس کے بعد اس نے قیامت کی کچھ
نشانیوں کے بارے میں سوالات کیے۔ تو حضور علیہ السلام نے جواب مرحمت
فرمائے۔ جب وہ شخص اٹھ کے چلا گیا تو حضور نے فرمایا عمر !جانتے تھے کہ یہ
شخص کون تھے؟کہا اللّٰہ و رسولہ اعلم اﷲ اور اس کا رسول خوب جانتا
ہے۔فرمایا ھٰذا جبریل یہ جبریل امین تھا اور تمہیں تمہارا دین سِکھانے کے
لیے آیا تھا۔ جبریل نے جب امت کو دین سکھایا تو سب سے پہلے یہ بات سکھائی
کہ حضور کی چوکھٹ پہ بیٹھنے کا ادب کیا ہے؟ دونوں گٹھنے بچھا کر وہ اس طرح
حضور کی چوکھٹ پہ ادب کے ساتھ بیٹھا اور اس کے بعد حضور سے اس نے سوالات
کیے۔ تو حضور نے فرمایا کہ یہ جبریل امین تھے جو تمہیں تمہارا دین سکھانے
کے لیے آئے تھے۔ تو جبریل امین نے جو دین سکھایا جو چیزیں پوچھیں وہ تین
چیزیں تھیں؛ ایمان کیا ہے؟ اسلام کیا ہے؟ اور احسان کیا ہے؟تو احسان تیسری
چیز ہے جس کو ہم اپنی زبان کے اندر’’ تصوف‘‘ کہتے ہیں۔ جس کو ہم ’’ طریقت‘‘
کا نام دیتے ہیں۔ اس کو درجۂ احسان یا مرتبۂ احسان کہا جاتا ہے اور یہ دین
کی روح ہے۔
جو لوگ طریقت کا انکار کرتے ہیں۔ وہ دین کی روح کا انکار کرتے ہیں۔ تو حضور
علیہ السلام نے جو طریقت بیان فرمائی ؛وہ یہ تھی کہ اﷲ کی عبادت تو اس طرح
کرے کہ جس طرح تُو اسے دیکھتا ہے۔ اگر یہ کیفت مل جائے تو سبحان اﷲ ! لیکن
اگر یہ کیفیت نہیں ملی تو کم از کم یہ کیفیت تو ملے کہ وہ اﷲ مجھے دیکھ رہا
ہے۔ اور اگر یہ کیفیت بھی مل جائے کہ وہ مجھے دیکھ رہا ہے تو بتائیے! کہ
پھر انسان کی زندگی میں کتنا سرور آجائے گا کہ جب وہ نماز کے لیے کھڑا ہو
تو اس تصور میں ڈوب جائے کہ میرا مالک تو مجھے دیکھ رہا ہے۔تو پھر نماز کا
کتنا سُرور آجائے گا اس کو۔ اور جب کوئی اور نیک عمل کررہا ہو تواس تصور
میں ڈوب جائے کہ میرا مالک میرے اوپر نگاہِ لطف فرما رہا ہے؛ تو پھر اس کی
کیفیت کا عالم کیا ہوگا؟ تو پہلی کیفیت کہ تُو اسے دیکھ رہا ہے؛ حضرت علی
المرتضیٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے کسی نے پوچھا کہ جس رب کی عبادت کرتے ہو؛
کیا اُس کو کبھی دیکھا بھی ہے؟ تو حضرت علی المرتضیٰ نے جواباً کہا لم اعبد
رباً لم اراہٗ اے صاحب! کبھی کبھی کی بات کیا کرتا ہے علی اتنی دیر تک سجدے
سے سر ہی نہیں اُٹھاتا جب تک اس کے جمالِ جہاں آرا سے فیضیاب نہیں ہوجاتا۔
حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری علیہ الرحمۃ کشف المحجوب کے اندر ایک حدیث
نقل کرتے ہیں کہ حضور علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ فاقہ کشی اختیار کرو
اور بھوک اور پیاس برداشت کرو ممکن ہے کہ اس دنیا کے اندر تم اپنے دل کی
آنکھوں سے اپنے رب کا مشاہدہ کر لو۔
تو یہ جو مرتبۂ احسان ہے؛ جو مومن کا مقصود ہے، وہ اس کو حاصل ہوگا روزہ
رکھنے سے۔ اور اگر چلو! کسی روزہ دار کو یہ کیفیت نہ ملے کہ وہ اپنے رب کے
جمالِ جہاں آرا کو دیکھ لے، اس کے جلوؤں کو دیکھ لے، اس کے دیدار کی دولت
سے مالامال ہوجائے ، اس کا دل اس کی محبت میں ایسا ڈوبے کہ وہ جدھر دیکھے
اسی کے جلوؤں کو ہی دیکھتا چلا جائے؛ اگر روزہ دار کو ایسی دولت نہ بھی
نصیب ہو؛ کم از کم روزہ دار کو یہ دولت تو ضرور ملے گی کہ وہ اس احساس میں
ڈوب جائے گا کہ میرا رب مجھے دیکھ رہا ہے۔ گناہ گار سے گناہ گار شخص بھی
کڑکتی ہوئی دو پہر میں ٹھنڈا پانی دستیاب ہونے کے باوجود ایک گھونٹ بھی حلق
سے نیچے نہیں اُتارتا؛ کیوں؟ اس لیے کہ میرا مالک تو مجھے دیکھ رہا ہے۔ یہ
احساس اُس کو آیا کہ نہ آیا؟ کاش! کہ رمضان میں جو یہ نور ہم کو نصیب ہوتا
ہے ؛ یہ رمضان کا خاص نور ہے؛ مرتبۂ احسان سے پھوٹتا ہوا یہ اجالا ؛ رمضان
میں ایک گناہ گار سے گناہ گار شخص بھی حاصل کرلیتا ہے کہ وہ اس احساس میں
ڈوب جاتا ہے کہ میرا مالک مجھے دیکھ رہا ہے۔ کاش! کہ وہ احساس کو اندر سمو
لے!! اور اس کو دل کی ایک ایک پرت پہ رکھ لے اور اس کو سجا لے اور اس دولت
کو پھر جانے نہ دے تو پھر اس کے لیے گناہ کرنا مشکل ہی نہیں محال ہوجائے
گا۔
اس احساس سے پانی نہیں پیتا کہ میرا اﷲ مجھے دیکھ رہا ہے؛ تو مجھے یہ بتاؤ!
کہ جب وہ دوکان پہ بیٹھ کے ڈنڈی مارتا ہے تو کیا اﷲ اس وقت نہیں دیکھتا؟ جب
وہ کسی کی جیب کاٹتا ہے؛ اﷲ اس وقت نہیں دیکھتا؟ جب وہ رشوت لے رہا ہوتا
ہے؛ اﷲ اس وقت نہیں دیکھتا؟ کیا اﷲ تعالیٰ صرف رمضان میں دیکھتا ہے؟ غیرِ
رمضان میں نہیں دیکھتا اﷲ؟ …… تو یہ احساس کاش کہ اس کے ساتھ لگ جائے کہ
میرا مالک مجھے دیکھ رہا ہے تو پھر گناہ کرنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہوجاتا
ہے۔ ……ساتویں کوٹھری میں جب سارے دروازے بند کرکے بُت کے اوپر موٹا کپڑا
ڈال کہ زلیخہ بولی ہَیْتَ لَک(سورۃ یوسف، آیت ۲۳) یوسف اب آجاؤ نا!اب تو
کوئی نہیں دیکھ رہا ہے ۔ تو یہی احساس تھا جس نے روشنی دی قال معاذ اللّٰہ
(سورۃ یوسف، آیت ۲۳)کہا اﷲ کی پناہ! تُو تو اپنے معبود سے موٹی چادر ڈال کر
چھپ گئی؛ لیکن میرا خدا تو ساتویں کوٹھری میں بھی دیکھ رہاہے۔ پھر اتنی
روشنی برسی ، اتنے اجالے اُترے کہ گناہ کیا گناہ کا تصور بھی محال ہوگیا۔
تو یہ یقین یہ اذعان کہ میرا مالک مجھ کو دیکھ رہا ہے انسان کے لیے گناہ کو
مشکل ہی نہیں نا ممکن بنا دیتا ہے۔ ……اور میرے اور آپ کے آقا و مولیٰ صلی
اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: سبعۃ یظلھم اللّٰہ تعالیٰ فی ظلہ لا ظل الا ظلہ:
الامام العادل، و شاب نشأۃ فی عباداللّٰہ ، و رجل قلبہ معلق فی المساجد،
ورجلان تحابا فی اللّٰہ اجتمعا علیہ و تفرقا علیہ۔ و رجل دعتہ امرأۃ ذات
منصب و جمال، فقال انی اخاف اللّٰہ۔ و رجل تصدق بصدقۃ فأخفاھا حتیٰ لا تعلم
شمالہ ماتنفق یمینہ، و رجل ذکراللّٰہ خالیا ففاضت عیناہ۔او کما قال۔ حضور
علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں: کل قیامت کے دن جب کوئی سایہ نہیں ہوگا ؛
سات اشخاص ایسے ہیں اﷲ تعالیٰ جنہیں اپنے عرش کا ٹھنڈا سایہ نصیب فرمائے
گا۔حدیث طویل ہے اور مجھے وقت کے گذرنے کا شدت سے احساس ہے۔ مَیں اپنا
مقصود آپ کے سامنے رکھوں گا۔ چوتھا شخص وہ ہوگا و رجل دعتہ امرأۃ ذات منصب
و جمال، فقال انی اخاف اللّٰہ۔ فرمایا چوتھا شخص وہ ہوگا جس کو کسی عورت نے
دعوتِ گناہ دی۔ اور وہ عورت کوئی معمولی عورت نہیں تھی؛ ذات منصب و جمال
اور ایک روایت میں ہے کہذات حسب و جمال؛ یعنی منصب و جمال کی مالکہ تھی یا
حسب و نصب اور جمال کی مالکہ تھی۔ اور اس نے نوجوان کو دعوتِ گناہ دی۔ اب
قدموں میں حُسن خود بخود بچھنے کے لیے بے تاب ہے؛ جب جذبات انگڑایاں لے رہے
ہوں ، جوانی جوبن پہ ہو ، اور آرزوئیں مچل رہی ہوں، اور حُسن خود قدموں میں
بچھنے کے لیے بے تاب ہو۔ تو پھر اپنی خواہشات کو لگام کون دے گا؟ لیکن اگر
کسی نے اس وقت یہ کَہ کے اس کی پیش کش کو ٹھکرا دیاانی اخاف اللّٰہ مَیں
تیری بات کیسے مان لوں؟ مجھے رب سے بڑا ڈر لگتا ہے۔
حضورصلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں جب کسی عورت نے اسے دعوت گناہ دی ؛ یا
کوئی مردکسی عورت کو دعوتِ گناہ دینے لگا ہو تو اُس نے کہا انی اخاف اللّٰہ
مَیں تیری بات نہیں مان سکتا کیوں کہ مجھے اﷲ سے ڈر لگتا ہے۔ حضور صلی اﷲ
علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ کل قیامت کے دن جب سورج سوا میل پہ ہوگا۔ اور زمین
تانبے کی ہوگی، لوگ پسینے میں شرابور ہوں گے ، اﷲ پورے قہر و غضب اور جلال
میں ہوگا۔ لوگ برہنہ اُٹھائے جائیں گے ، ندامت ان کے چہرے پہ چڑھی ہوئی
ہوگی؛لیکن سات اشخاص میں سے ایک شخص یہ ہے کہ قیامت کے دن جب کوئی سایہ نہ
ہوگا؛ اﷲ اسے اپنے عرش کا ٹھنڈا سایہ نصیب فرمادے گا۔ کہ جس نے برائی کو یہ
کَہ کر ٹھکرا دیا کہ میرا رب مجھے دیکھ رہا ہے۔ اور مَیں اس سے خوف کھاتا
ہوں۔ امام یافعی نے ’روض الریاحین‘ کے اندر یہ واقعہ لکھا ہے کہ ایک نوجوان
کپڑے کی دکان پہ کام کرتا تھا۔ ایک عورت آئی اُس کا اس جوان پہ دل آگیا۔ اس
نے کپڑا ضرورت سے زیادہ خرید لیا۔ اور مالک دکان سے کہنے لگی کہ اس نوجوان
کو میرے ساتھ بھیج دو؛میری گٹھری بھاری ہے؛ گھر چھوڑ آئے۔مالک دکان اُس کی
نیت سے آگاہ نہ ہوسکا؛ اس نے اس نوجوان کو ساتھ بھیج دیا۔ جب وہ اس کو گھر
لے گئی اندر داخل کرکے دروازہ بند کردیا اور دعوت گناہ دینے لگی۔ اس نوجوان
نے کہاانی اخاف اللّٰہ! مَیں اﷲ سے ڈرتا ہوں! …… لیکن نوجوان ڈرتا تھا وہ
عورت تو نہیں ڈرتی تھی۔ اس نے ہر قسم کا ڈورا پھینکا،ہر جتن کیا ،ہر حیلہ
آزمایا، لیکن وہ نوجوان قابو میں نہ ہوا۔ کیوں کہ وہ صرف حسین ہی نہیں؛ اﷲ
کا ولی بھی تھا۔ صرف اس کا چہرہ ہی روشن نہیں تھا ؛ اس کے من میں بھی اجالے
تھے۔ اس عورت نے بڑی کوششیں کیں؛ لیکن نور کو رسیوں میں جکڑا تو نہیں
جاسکتا۔ خیر! اس نوجوان کے دل میں آیا کہ یہ شیطان کا خطرناک روپ ہے۔ کہیں
ایسا نہ ہو کہ مَیں اس کے پنجے میں پھنس جاؤں۔ اس نے ایک بہانہ کیا اور
باتھ روم میں چلا گیا۔ جو پاخانہ کیا اس کو اپنے بدن پہ مَل لیا۔ اور اسی
حالت میں باہر آگیا۔ جب اس عورت نے دیکھا تو اس کا نشہ غارت ہوگیا۔ اس نے
دروازہ کھول دیا ۔ اس نے کہا یہ تو مجون ہے، یہ تو پاگل ہے۔ اس نوجوان نے
دل ہی دل میں اﷲ کا شکر ادا کیا کہ میرا بدن گندہ ہوگیا لیکن میرا من تو
ستھرا رہا۔
کائنات کا سب سے حَسیں چہرہ وہ ہے جو جنسی کالک سے محفوظ ہو۔ وہ نوجوان
باہر گیا ۔ باہر ایک چشمہ اُبل رہا تھا؛ وہاں جاکے اس نے غسل کیا۔ امام
یافعی لکھتے ہیں: جب تک وہ زندہ رہا اس کے جسم سے مشک و عنبر کی خوش بو آیا
کرتی تھی۔ اور جب وہ مر گیا؛ لوگوں نے اس کو دفن کردیا؛ یہ خوش بو اس کی
قبر کی مٹی سے بھی آیا کرتی تھی۔
تو جو اﷲ سے ڈرا کہ میرا مالک مجھے دیکھ رہا ہے تو اﷲ تعالیٰ اس کی کیسی
ناز برداریاں فرماتا ہے۔ اس کے اوپر کتنے کرم اس کے اترتے ہیں۔ تو کہا کہ
وہ شخص؛ جس نے اﷲ سے ڈر کر گناہ کو چھوڑا ؛ کل قیامت کے دن جب کوئی سایہ
نہیں ہوگا اﷲ اسے اپنے عرش کاٹھنڈا سایہ نصیب فرمادے گا۔
یہ رمضان کا فیض ہے۔کہ انسان بے شمار گناہوں کے باوجود بھی تڑکتی کڑکتی
دوپہر کے اندر بھی ٹھنڈا پانی اپنے منہ کے قریب بھی نہیں لاتا۔ وضو کرتے
ہوئے بھی احتیاط کرتا ہے۔ غسل کرتے ہوئے بھی احتیاط کرتا ہے کہ کوئی قطرہ
حلق سے نیچے اتر نہ جائے؛ اس احساس میں کہ میرا رب مجھے دیکھ رہا ہے۔ یار!
روزے کا اور کیا ثمرہ چاہیے کہ وہ جس دولت کے لیے صوفیہ نے زندگیاں کھپا
دیں؛ اس دولت کو حاصل کرنے کے لیے، مرتبۂ احسان کو پانے کے لیے ؛ روزے دار
نے سحری کھائی، ابھی سحری کا وقت ختم ہوا تھا کہ یہ احساس اس کے ساتھ لگ
گیا اور اب تنہائی کے اندر بھی اﷲ سے ڈرتا ہے اور کھانے پینے سے باز رہتا
ہے۔ اس تصور کے ساتھ کہ میرا مالک مجھے دیکھ رہا ہے۔
٭٭٭ |