اسلام کے جن پانچ بنیادی ارکان کو حدیث شریف میں عمارت
کے پانچ ستونوں کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے اُن میں سے تیسرا سب سے بڑا اور
اہم ترین رکن ’’رمضان المبارک کے روزے‘‘ ہیں، جن کی فرضیت و حکمیت قرآن و
حدیث ، اجماعِ اُمت اور دیگر کئی براہین بینہ ، حجج قطعیہ اور دلائل عقلیہ
سے ثابت ہے ۔ اور اِس کا انکار کرنے والا کافر اور دائرۂ اسلام سے خارج ہے۔
رمضان المبارک کے مکمل روزے رکھنا ہر مسلمان عاقل و بالغ مرد و عورت پر فرض
عین ہیں، اور بغیر کسی شرعی عذر کے اِن کا چھوڑنے والا فاسق و فاجر اور سخت
گناہ گارہے۔ (الاختیار لتعلیل المختار: ۱۲۵/۱)
امام ابن جریر طبری اور حافظ عماد الدین ابن کثیر کی تحقیق کے مطابق رمضان
المبارک کے روزے غزوۂ بدر سے ایک ماہ اور سات دن پہلے اور ہجرت نبویہ ؐکے
ڈیڑھ سال بعد مؤرخہ 10 شعبان المعظم سنہ 2 ہجری میں فرض ہوئے ۔ (البدایہ
والنہایہ: ۳۱۱/۳) اِس سے پہلے لوگ فقہائے احناف کی تحقیق کے مطابق عاشوراء
(یعنی 10 محرم الحرام) کا روزہ بطورِ فرض کے رکھتے تھے، پھر سنہ 2 ہجری میں
جب رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت کا حکم آگیا تو عاشوراء (یعنی 10 محرم
الحرام ) کے روزے کی فرضیت کا حکم ساقط ہوگیا۔(صحیح بخاری)
چنانچہ قرآنِ مجید میں اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’ترجمہ:اے ایمان والو! تم پر
روزے فرض کردیئے گئے ہیں، جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے،
تاکہ تمہارے اندر تقویٰ پیدا ہو۔‘‘ یہاں روزے کی فرضیت کا حکم مسلمانوں کو
ایک خاص مثال سے دیا گیا ہے، اور اِس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ذکر فرمایا گیا
ہے کہ یہ روزے کی فرضیت کچھ تمہارے ساتھ ہی خاص نہیں ، بلکہ پچھلی اُمتوں
پر بھی روزے فرض کئے گئے تھے، اِس سے روزے کی خاص اہمیت بھی معلوم ہوئی اور
مسلمانوں کی دل جوئی کا بھی انتظام کیا گیا۔ آگے اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’
گنتی کے چند دن روزے رکھنے ہیں۔‘‘ اِس لئے اِنہیں اِن کے پورے حقوق و آداب
کی رعایت کے ساتھ رکھنے کا اہتمام کرنا چاہیے تاکہ اِن کے مکمل اجر و ثواب
کا کوئی پہلو مفقود نہ ہووسکے اورپورا پورا ثواب حصے میں آئے۔ اِس کے بعد
تھوڑا آگے چل کر اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’ اور اگر تم کو سمجھ ہو تو روزے
رکھنے میں تمہارے لئے زیادہ بہتری ہے۔‘‘ یعنی تمہارے لئے بہتر یہی ہے کہ تم
روزے رکھو۔ یہ حکم شروع اسلام میں تھاجب لوگوں کا روزے کا خوگر کرنا مقصود
تھا۔ اِس کے بعد جو آیت ہے یعنی: ’’ رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن نازل
کیا گیا…… لہٰذا تم میں سے جو شخص بھی یہ مہینہ پائے وہ اس میں ضرور روزہ
رکھے۔‘‘ اِس سے یہ حکم عام لوگوں کے حق میں منسوخ کردیا گیا، صرف ایسے
لوگوں کے حق میں باجماعِ اُمت باقی رہ گیا جو بہت بوڑھے ہوں، یا ایسے بیمار
ہوں کہ اب صحت و تندرستی کی اُمید ہی نہ رہی ہو، اُمت کے مشہور صحابہ و
تابعین کا یہی مسلک ہے۔ (احکام القرآن للجصاص، تفسیر مظہریؒ)
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ میں تشریف لائے تو ہر مہینہ میں
تین روزے اور ایک روزہ یوم عاشوراء (یعنی دسویں محرم) کا رکھتے تھے، پھر
رمضان کی فرضیت نازل ہوگئی کہ: ’’تم پر (رمضان المبارک کا) روزہ فرض کردیا
گیا۔‘‘ اُس وقت حکم یہ تھا کہ ہر شخص کو اختیار ہے کہ روزہ رکھ لے یا فدیہ
دے دے اور روزہ رکھنا بہتر اور افضل ہے۔ پھر اﷲ تعالیٰ نے دوسری آیت :
’’ترجمہ: لہٰذا تم میں سے جو شخص بھی یہ مہینہ پائے وہ اِس میں ضرور روزہ
رکھے۔‘‘ نازل فرمادی، تو اِس آیت نے تندرست، قوی کے لئے یہ اختیار کرکے صرف
روزہ رکھنا لازم کردیا، مگر بہت بوڑھے آدمی کے لئے یہ حکم باقی رہا کہ وہ
اگر چاہے تو فدیہ بھی ادا کرسکتا ہے۔
اِن دو تبدیلیوں کے علاوہ ایک تیسری تبدیلی یہ ہوئی کہ شروع اسلام میں
افطار کے بعد کھانے پینے اور اپنی خواہش پوری کرنے کی اجازت صرف اُس وقت تک
تھی جب تک آدمی سوئے نہیں، جب سو گیا تو دوسرا روزہ شروع ہوگیا، کھانا،
پینا وغیرہ ممنوع ہوگیا، پھر اﷲ تعالیٰ نے یہ آیت: ’’تمہارے لئے حلال کردیا
گیا روزوں کی رات میں تم اپنی بیویوں سے بے تکلف صحبت کرو!۔‘‘ نازل فرماکر
یہ آسانی عطاء فرمادی کہ اگلے دن کی صبح صادق تک کھانا، پینا وغیرہ سب جائز
ہیں۔‘‘
چنانچہ صحیح بخاری وغیرہ میں بروایت حضرت براء بن عازب رضی اﷲ عنہ مذکور ہے
کہ ابتداء میں جب رمضان المبارک کے روزے فرض کیے گئے تو افطار کے بعد کھانے
پینے اور بیویوں کے ساتھ اختلاط کی صرف اُس وقت تک اجازت تھی جب تک سو نہ
جائے، سو جانے کے بعد یہ سب چیزیں حرام ہوجاتی تھیں، بعض صحابہ کرام رضی اﷲ
عنہم کو اِس میں مشکلات میں پیش آئیں، حضرت قیس بن صرمہ انصاری رضی اﷲ عنہ
دن بھر مزدوری کرکے افطار کے وقت گھر پہنچے تو گھر میں کھانے کے لئے کچھ نہ
تھا ، بیوی نے کہا کہ میں کہیں سے کچھ انتظام کرکے لاتی ہوں ، جب وہ واپس
آء۷ تو دن بھر کے تکان کی وجہ سے اُن کی آنکھ لگ گئی، اب بیدار ہوئے تو
کھانا حرام ہوچکا تھا، اگلے دن اسی طرح روزہ رکھا، دوپہر کو ضعف سے بے ہوش
ہوگئے۔ (البدایہ والنہایہ) اسی طرح بعض صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم سونے کے بعد
اپنی بیویوں کے ساتھ اختلاط میں مبتلا ہوکر پریشان ہوئے، اِن واقعات کے بعد
اﷲ تعالیٰ نے پہلا حکم منسوخ کرکے غروبِ آفتاب کے بعد سے طلوعِ صبحِ صادق
تک پوری رات میں کھانے پینے اور مباشرت کی اجازت دے دی، اگرچہ سوکر اُٹھنے
کے بعد ہو، بلکہ سو کر اُٹھنے کے بعد تو آخر شب میں سحری کھانا سنت قرار
دیا گیا۔
چنانچہ قرآنِ مجید میں اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ’’ترجمہ: تمہارے لئے
حلال کردیا گیا ہے روزوں کی رات میں تم اپنی بیویوں سے بے تکلف صحبت کرو!
وہ تمہارے لئے لباس ہیں اور تم اُن کے لئے لباس ہو، اﷲ کو علم تھا کہ تم
اپنے آپ سے خیانت کر رہے تھے، پھر اُس نے تم عنایت کی اور تمہاری غلطی معاف
فرمادی، چنانچہ اب تم اِن سے صحبت کرلیا کرو!۔‘‘ (البقرہ)
حضرت عدی بن حاتم رضی اﷲ عنہ کا یہ واقعہ کتب احادیث میں موجود ہے کہ جب
سورہ بقرہ کی یہ آیت ’’ترجمہ: اور اُس وقت تک کھاؤ بیؤ جب تک صبح کی سفید
دھاری سیاہ دھاری سے ممتاز ہوکر تم پر واضح (نہ) ہوجائے۔‘‘
(البقرہ:۱۸۷/۲)نازل ہوئی تو اُنہوں نے ایک سیاہ دھاگہ اور ایک سفید دھاگہ
رکھ لیااور دونوں کو دیکھنا شروع کیااور جب رات کی تاریکی میں دونوں میں
کچھ فرق معلوم نہ ہوا تو اُنہوں نے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر
ہوکر واقعہ عرض کیا، تو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قرآنِ مجید کی
اِس آیت میں جو سیاہ اور سفید دھاگہ بیان کیا گیا اُس سے رات کا اندھیرا
اور دن کی رُوشنی مراد ہے۔( بخاری، مسلم، ابو داؤد، نسائی)
قرآنِ مجید کی طرح احادیث نبویہؐ سے بھی رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت
کا ثبوت ملتا ہے۔چنانچہ حضرت سلمان فارسی رضی اﷲ عنہ سے ایک طویل حدیث مروی
ہے جس میں حضرت سلمان فارسی رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اﷲ علیہ
وسلم نے شعبان کی آخری تاریخ میں ہم لوگوں کو وعظ فرمایاکہ اے لوگو! تمہارے
اوپر ایک مہینہ آرہا ہین جو بہت بڑا اور مبارک مہینہ ہے، اُس میں ایک رات(
شبِ قدر) ہے جو ہزار مہینوں سے بڑھ کر ہے، اﷲ تعالیٰ نے اُس کے روزے کو فرض
فرمایا ہے اور اُس کے رات کے قیام (یعنی تراویح) کو ثواب کی چیز بنایا
ہے……الخ۔‘‘(صحیح ابن خزیمہ)
مذکورہ بالا تمام نصوص اور تصریحات سے یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہوگئی
کہ رمضان المبارک کے روزے ہر مسلمان، عاقل، بالغ، مقیم مرد و عورت پر یکساں
فرض ہیں اور اُن کو جان بوجھ کر بغیر کسی شرعی ضرورت اور مجبوری کے چھوڑنے
والا شریعت اسلام میں فاسق ،فاجر اور بڑا گناہ گار ہے اور اِن کی فرضیت کا
انکار کرنے والا کافر اور دائرۂ اسلام سے خارج ہے۔ |