اک بہادر آدمی کا نام پانے والا جاوید اختر ہاشمی اسلامیہ
کالج بوسن روڈ سے اٹھنے ولاہاشمی نواز شریف کے بیانئیے کے پاؤں میں کیوں
بیٹھ گیا۔کبھی کبھی سوچتا ہوں کیا میں ہی غلط تھا جو انہیں نہیں پہچان
سکا۔وہ سردیوں کے دن ڈاکٹر مشتاق منہاس ڈاکٹر قیوم نے جب دعوت شرکت دی تو
میں نے کہا میں چاہتا ہوں جمعیت جاوید ہاشمی بنے۔کدھر گیا وہ ہاشمی جسے میں
جانتا تھا؟
نون لیگ نے بڑی کوشش کی سیاسی شہادت پانے کی مگر ایسا ہونے نہیں دیا گیا
کہانی نون کے مالک اعلی سے شروع ہوتی ہے اس دوران لوہے کے چنے والے اور بہت
سے عقاب میدان میں آئے۔نہال ہاشمی نے تو حد کر دی۔میاں نواز شریف کے بیان
نے تو سب کو پیچھے چھوڑ دیا۔پاکستان کی فوج پر پے در پے حملے کئے گئے فوج
نے اس کا جواب دیتے ہوئے اپنی قربانیوں کے سلسلے طویل کر دئے۔ایک جانب اندر
سے ان پر حملے جاری تھے دوسری جانب پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کی پر وردہ
قوتیں کوئٹہ کے میدان میں ان پر گولیاں چلاتی رہیں۔جاوید ہاشمی کے تازہ
ترین بیان بھی اسی سلسلے کی کڑی ہیں ۔ میرا آج کا کالم اسی باغی کے گرد
گھومے گا یہ ہاشمی اپنے آپ کو باغی کہتے ہیں ۔شائد ان کی بغاوت کے نئے رخ
ہندوستان کے بیانئے کو گلے لگانے نکل پڑے ہیں ۔فوج کو سر عام للکارنا اور
منہ پھاڑ کر للکارنے کا صرف ایک ہی مطلب ہے کہ وہ مسلم لیگ نون کے ان حلقوں
کو بتانا چاہتے ہیں کہ آپ کی آواز کمزور تھی میں اس میں اپنی فکر اور سوچ
کو شامل کر کے دنیا کو بتاؤں گا کہ میں کل بھی باغی تھا اور آج بھی باغی
ہوں وہ شائد مریم بی بی کی رضا کے لئے یہ سب کچھ کر گئے۔جاوید اختر ہاشمی
زمانہ ء طالب علمی میں اسی نام سے جانے جاتے تھے آج تو ارب پتی ہیں لیکن جس
ہاشمی کو میں جانتا ہوں وہ پیر نوبہار شاہ کے چھوٹے بھائی ہیں جن کے پاس
اڑھائی سو ایکڑ اراضی تھی جو وسیب میں ایک بہت چھوٹے زمیندار کے پاس ہوتی
ہے۔انہوں نے اسلامی جمعیت طلبہ کے پلیٹ فارم سے سیاسی جد و جہد کا آغاز کیا
اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ چھا گئے۔ان کی نمو میں جناب مجیب شامی کے
رسالے زندگی کا بڑا ہاتھ ہے بلکہ یار لوگ کہتے ہیں یہ پروڈکٹ بھی انہی کی
ہے۔گورنمنٹ کالج بوسن روڈ کے سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے ان کی تصویر
دیکھی۔جماعت اسلامی کے دارلامطالعہ جو مدرسہ اشرف العلوم گجرانوالہ کی
دوکانوں میں قائم اس مدرسے میں ہم نے بھی تحریک ختم نبوت میں حصہ لیا۔جاوید
ہاشمی نے ذولفقار علی بھٹو کے دور میں ان کی حکومت کی مخالفت کا استعارہ بن
کر بڑی شہرت پائی۔انہوں نے اسلامی جمعیت طلبہ کے رفیق کے بطور اپنی سر
گرمیاں جاری رکھیں ۔جمعیت میں رفیق درمیانے درجے کے کارکن کو کہا جاتا ہے
پہلا حامی دوسرا رفیق تیسرا امیدوار رکنیت اور چوتھے درجے میں رکن جمعیت
بنایا جاتا ہے۔ہاشمی غالبا رفیق ہی رہے۔ اکہتر میں پاکستان ٹوٹا شیخ مجیب
بنگلہ دیش گئے بھٹو نے بنگلہ دیش منظور کرنے کی کوشش کی جاوید ہاشمی نے
بنگلہ دیش نا منظور کی تحریک چلائی۔جمعیت جماعت اسلامی کی طلباء تنظیم تھی
جس کا تعلق سید مودودی کی فکر سے ہے۔جمعیت اور جماعت کے دفاتر بھی اچھرہ
میں آمنے سامنے تھے۔یوں تو جناب بارک اﷲ خان مرحوم اور ہاشمی سے پہلے حفیظ
خان نے بھی پنجاب یونیورسٹی میں طلباء کی قیادت کی۔ان دنوں یونیورسٹی کی
سیاست انتہائی اہم سیاست گردانی جاتی تھی۔بارک اﷲ فنا فالجماعت تھے شکر گڑھ
بارہ منگا سے پٹھان خاندان سے تعلق تھا ارشد خان مرحوم صدر مسلم لیگ سعودی
عرب کے عزیز تھے۔حفیظ خان تحریک انصاف کے ان پانچ اراکین میں تھے جنہوں نے
تحریک انصاف کی بنیاد رکھی۔پی ٹی آئی کہ ان پانچ پیاروں میں مرحوم احسن
رشید جناب نعیم الحق خود عمران خان شامل تھے ایک کا نام بھول رہا ہوں۔جاوید
اختر ہاشمی نے جمعیت کی سیاست میں نئی روح پھونکی بلا کے مقرر تھے۔بنگلہ
دیش نامنظور موومنٹ کے شروع کر نے سے پہلے انہوں نے پنجاب اسٹوڈنٹس کونسل
کی بنیاد رکھی جس میں پنجاب کے سارے کالجوں کے صدور اور جنرل سیکرٹری رکن
بنے۔ٹیکنیکل کالجز کو بھی نمائیندگی دی گئی ایک نائب صدر کی پوزیشن میرے
حصے آئی۔پاکستان دو لخت ہو چکا تھا جناب ذولفقارر علی بھٹو اسلامی کانفرنس
کے لاہور اجلاس کی تیاریوں میں مصروف ہو گئے۔یہاں یہ ایک اہم بات اپنے معزز
قارئین کے لئے لکھنا چاہتا ہوں وہ یہ غلط فہمی ہے کہ لاہور کی اسلامی
کانفرنس بھٹو نے کرائی۔یہ ایسا ہی ہے کہ ایک کام کسی کے عہد میں شروع کیا
ہو اور تکمیل کسی اور نے۔اس میں کوئی شک نہیں ۱۹۷۴ کی اسلامی کانفرنس کی
میزبانی ذوالفقار علی بھٹو نے کی لیکن اس سے پہلے ایک کانفرنس ہو چکی تھی
جو رباط مراکش میں ہوئی تھی اسے پہلی اسلامی کانفرنس کہتے ہیں وہاں انڈیا
بھی یہ کہہ کر شریک ہوا کہ ہمارے ہاں بھی بہت مسلمان ہیں ۔پاکستان کے جنرل
یحی خان کا یہ کارنامہ اوجھل ہے کہ انہوں نے وہاں اس کانفرنس کا بائیکاٹ
کیا کہ انڈیا مسلم اسٹیٹ نہیں ہے لہذہ اس کا مندوب یہاں نہیں بیٹھے گا جس
میں انہیں کامیابی ملی اوریہ کامیابی سعودی عرب کے شاہ فیصل کی مدد سے ملی
اور وہاں طے ہوا کہ اگلی کانفرنس کی میزبانی پاکستان کرے گا۔۱۹۶۹ میں یہ
اعلان رباط میں کیا گیا کہ مسلمان سربراہ لاہور میں ملیں گے ۱۹۷۴ میں ایک
عظیم الشان کانفرنس لاہور میں منعقد ہوئی جس میں شاہ فیصل،حافظ الاسد،یاسر
عرفات ،کرنل قذافی الجزائر کے حواری بومدین اور مسلم دنیا کے نامور
سربراہان نے شرکت کی۔یہ موقع پوری پاکستانی قوم کے مسرت کا موقع
تھا۔پاکستان دو لخت ہو چکا تھا شیخ مجیب الرحمن بنگلہ دیش جا چکے تھے۔ پہلی
کانفرنس کا انعقاد مشرق وسطی میں جنگ کے شعلے بھڑک جانے اور مسجد اقصی پر
قبضے کے بعد ہوا تھا اس دوسری کانفرنس کا مقصد بھی اسلامی ممالک کے اتحاد
کی خاطر کیا گیا تھا۔جماعت اسلامی سمجھتی تھی کہ ستر کے انتحابات میں واضح
شکست کھانے کے بعد بھٹو نے مجیب کی قوت کو تسلیم نہیں کیا جس کی وجہ سے ملک
ٹوٹا۔پاکستان کی دیگر سیاسی قوتیں بھی پیپلز پارٹی کی اس سوچ کی مخالف
تھیں۔جماعت اسلامی کے پاس سب سے مضبوط قوت طلباء کی قوت تھی۔یونیورسٹی
پنجاب ،کراچی اور پنجاب کے دیگر بڑے اداروں میں جمعیت چھائی ہوئی تھی۔جاوید
ہاشمی کو یہ ٹاسک ملا کہ بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے کی مخالفت کرنی چاہئے۔اس
کے لئے بنگلہ دیش نامنظور تحریک کا آغاز کیا گیا۔پنجاب کے شہروں میں یہ
تحریک بڑی کامیابی سے چلی۔ادھر اسلامی کانفرنس کا انعقاد ہونے جا رہا تھا
دوسری جانب ییہ تحریک چلائی گئی۔لاہور گجرانوالہ اس کے مرکز بن گئے۔میں
لاہور میں پڑھتا تھا شام کو گھر آ جاتا تھا انہی دنوں طلبہ کی طاقت اسلامی
جمعیت طلبہ تھی۔اس کا مقابلہ پی ایس ایف سے تھا جو کمیونسٹ قوتوں کے ہاتھوں
تقسیم تھی چائینہ اور روس اس تنظیموں کی سر پرستی کرتے تھے۔میں نے اپنے
کالج میں اپنے گروپ کو کامیاب کرایا تھا میں کالج کا بنیادی ناظم بھی تھا ۔ہمارے
کالج میں کھر اور حنیف رامے کو دو گروپ تھے جن سے ہمارا مقابلہ تھا جنہیں
۱۹۷۴ میں بڑے مارجن سے شکست دی۔غلام مصطفی کھر جو خیر سے اب پی ٹی آئی میں
ہیں ان کے خلاف جد و جہد میں ہم اسلامی جمیعت والے بہت آگے گئے۔پی ٹی آئی
کے سینئر راہنما اعجاز چودھری انہی دنوں گورنمنٹ کالج لاہور کے جنرل
سیکرٹری منتحب ہوئے۔ایم اے او کالج میں بشیر بھٹہ،دیگر اداروں میں سلمان بٹ
سکندر ظفر گجر ہم سب لوگ کھر کے خلاف تھے ۔جاوید ہاشمی پنجاب اسٹوڈنٹس
کونسل کے چیئر مین۔بنگلہ دیش نامنظور موومنٹ واحد تحریک ہے جس کی قیادت
طالب علموں نے کی۔اپنی مالی مشکلات کی وجہ سے میں روزانہ لاہور گاڑی پر
جاتا اور شام کو واپس آ جاتا۔۔گجرانوالہ کا اسٹیشن جو شہر کے اندر واقع ہے
اسے کوئی متین مسلم لیگیا کھانے جا رہا تھا ہمارے دوست ایس اے حمید نے ایک
رٹ کے نتیجے میں اسے بچا لیا ہے یہ اسٹیشن باغبانپورے سے دو کلو میٹر دور
تھا۔دن بھر لاہور میں اور چھٹی کی دنوں میں گجرانوالہ جمعیت کا ناظم مکتب
بن کر طلاباء سیاست میں حصہ لیا
وہ دن میری زندگی کا یاد گار دن تھا جب شیرانوالہ باغ میں جاوید ہاشمی آئے
پورا شہر امڈ آیا تھا۔نا منظور نا منظور بنگلہ دیش نا منظور کے نعرے تھے۔ہم
وہ لوگ تھے جو جلسے کے منتظمین تھے۔ہاشمی بلا کے مقرر تھے۔انتہائی خوبصورت
لمبے بال اور لفظ جوڑنے کا فن آتا تھا ۔میرے ساتھ جناب عبدالرزاق،مجیب
بٹ،خواجہ عماد الدی،نسیم بٹر اشفاق حجازی،منیر تبسم،عنائت اﷲ،ندیم ریاض
سیٹھی اور بہت سے دوست تھے ہاں حمید الدین اعوان کا نام بھول رہا ہوں ہم
دوستوں نے وہ شاندار جلسہ اور کامیاب جلسہ منعقد کیا یہ دن ۱۹۷۳ کے
تھے۔کانفرنس ہوئی اس کا مقصد ہی بنگلہ دیش تسلیم کروانا تھا۔کہا گیا کہ شاہ
فیصل چاہتے تھے کہ سب مسلمان مل کر چلیں۔یہ وہی شاہ فیصل تھے جو زندگی میں
پہلی بار روئے اور یہ رونا اس دن ہوا جس دن پاکستان ٹوٹا۔بنگلہ دیش منظور
کر لیا گیا لیکن اس روز ہاشمی سڑک پر نکلے چند طلباء ان کے ساتھ تھے ہمیں
پہلے ہی گرفتار کر کے گجرانوالہ بھیج دیا گیا تھا۔قارئین میں یہ ساری باتیں
اس لئے لکھ رہا ہوں کہ آپ کو بتاؤں کہ ہاشمی کیا تھے اور کیا بن گئے۔بھٹو
کا ڈٹ کے مقابلہ کرنے والا ہاشمی ہم طالب علموں کا آئیڈیل تھا میں نے تو
سچی بات ہے اسلامی جمعیت طلبہ میں شمولیت ہی جاوید ہاشمی کو دیکھ کر کی۔
وقت آگے بڑھتا ہے ہاشمی صاحب کو جنرل ضیاء کے اقتتدار سنبھالتے ہی مجیب
شامی صاحب ان کے پاس لے گئے۔جنرل ضیاء کا دور دوسرے معنوں میں جماعت اسلامی
اور ارائیوں کا دور تھا۔جنرل ضیاء نے ہر دو کو نوازا اور خوب نوازا۔میاں
طفیل نے تو سر عام کہا کہ ہمارے پاس ہزاروں تربیت یافتہ لوگ ہیں جو آپ کا
ساتھ دیں گے البتہ بعد میں امیر العظیم جیسے اسٹوڈنٹس لیڈر سے نہیں بنی۔اور
انہیں بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔جاوید ہاشمی کو جب جنرل ضیاء کے سامنے
پیش کیا گیا تو شنید ہے جناب مجیب شامی نے کہا انہیں ساتھ لے لیجئے کوئی
وزارت دے دیجئے ضیاء الحق نے کہا کہ کس وزارت کے یہ وزیر ہوں گے تو امور
نوجواناں کی وزارت تخلیق کی گئی۔جاوید ہاشمی سے بڑا تعلق رہا بعد میں ان کی
جد وجہد کہاں تک پہنچی وہ آپ کے علم میں ہے وہ بہت سے گھاٹوں کا پانی پیتے
پیتے پی ٹی آئی تک پہنچے۔سعودی عرب میں قیام کے دوران میں انہیں پی ٹی آئی
میں شمولیت کی دعوت دیتا رہا عزیزم طارق عزیزکے ذریعے باتیں ہوتی رہیں جیل
میں بار ہا گفتگو رہی لانگ مارچ میں دعوت دی۔فیصلہ ان کا تھا وہ آئے اور آ
کر چلے گئے ایک بہادر ہاشمی ایک باغی داغی بن گیا؟اس پر ایک کتاب لکھی جا
سکتی ہے۔ہاشمی کا المیہ دیکھئے وہ کہاں تھے اور کہاں آن پہنچے۔جس فوج کی
نرسری میں پلے بڑھے اسے گالیاں دینا شروع کر دیں۔میرا آئیڈیل ہاشمی اتنا
چھوٹا نہ تھا وہ یقین کریں وہ نفیس شخص نواز شریف کے ساتھ مل کر گندا
ہوا۔اسے روپوں کی لالچ پڑ گئی اس نے ۲۰۱۳ میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ بیچے میں نے
اس بات کا سر عام اظہار کیا۔ عمران خان انہیں بہت عزت دیتے تھے وہ انہیں اس
وقت چھوڑ گئے جب میدان سجا تھا ۔ہاشمی لالچ کی دلدل میں پھنس کر بکتا رہا
اور گھنگرو کی طرح کبھی اس پگ میں اور کبھی اس پگ میں بجتا رہا۔اس نے عمر
کے حصے میں بہت بڑی غلطی کی۔سوال یہ نہیں کہ فوج پاک ہے صاف ہے سوال یہ ہے
کہ فوج کو کس کے کہنے پر گالیاں دیں؟جس وقت کرنل سہیل عابد عباسی اپنی جان
دے رہے تھے اس سمے ہاشمی فوج کو آڑے ہاتھوں لے رہے تھے۔میں جس ہاشمی اور جس
باغی کو جانتا ہوں وہ رائے ونڈ کی منڈی میں بک گیا۔جو بھٹو جیسے فسطائی
حکمران سے نہیں دبا چونہ منڈی میں ظلم سہے وہ نوٹوں کے چکر میں اس نتیجے پر
پہنچ گیا۔اک بہادر آدمی کا نام پانے والا جاوید اختر ہاشمی اسلامیہ کالج
بوسن روڈ سے اٹھنے ولاہاشمی نواز شریف کے بیانئیے کے پاؤں میں کیوں بیٹھ
گیا۔کبھی کبھی سوچتا ہوں کیا میں ہی غلط تھا جو انہیں نہیں پہچان سکا۔وہ
سردیوں کے دن ڈاکٹر مشتاق منہاس ڈاکٹر قیوم نے جب دعوت شرکت دی تو میں نے
کہا میں چاہتا ہوں جمعیت جاوید ہاشمی بنے۔کدھر گیا وہ ہاشمی جسے میں جانتا
تھا؟ |