تیرے بن کیا جینا - قسط نمبر 6

تحریر۔۔۔۔۔نرجس بتول علوی
بی اے وفا کی جدائی میں بہت بے قرار ہے نا ہی اس کو دن میں سکون ملتا ہے اور نا ہی رات میں چین بی اے کی پھوپھو سے بی اے کی یہ حالت دیکھی نہیں جاتی بی اے کی پھوپھو نے باتوں باتوں میں بہت کوشش کی کہ اس کی بے چینی کی وجہ جان پاے لیکن بی اے نے ایک ہی چپ رکھی ہوء ہے بی اے کی پھوپھو نے راشد سے مشورہ کر تے ہوے یہ فیصلہ کیا کہ بی اے کی جلد از جلد شادی کی جاے شاید اس کی اداسی ختم ہو سکے اب بی اے کی پھوپھو نے بی اے سے پوچھے بغیر ہی اپنے خاندان یعنی بی اے کے ماموں کے گھر بی اے کا رشتہ کر دیا بی اے پڑھا لکھا اور خوبصورت نوجوان ہے اس لیے بی اے کے ماموں کے پاس انکار کی کوء وجہ نہ تھی اس لیے بی اے کے ماموں نے اپنی بیٹی عظمی کے لیے بی اے کا رشتہ قبول کر لیا اب اک شام بی اے کی پھوپھو نے بی اے کو اپنے پاس بلایا اور پیار سے اپنے پاس بٹھایا اور کہنے لگی دیکھو بیٹا تمھارے ماں باپ کے بعد میں نے تمھیں بہت پیار اور لاڈ سے پالا ہے اور اپنی حسیت کے مطابق تمھاری ہر خوا ہش پوری کرنے کی کوشش کی اور اب بیٹا اب تمھاری باری ہے ہماری اک چھوٹی سی خواہش پوری کردو اور میں امید کرتی ہوں کہ تم کبھی بھی ہمارا مان نہیں توڑو گے بی اے بہت معصومانہ انداز میں جی پھوپھو آپ حکم کریں بی اے کی پھوپھو بی اے میں اور تمھارے انکل نے تمھاری شادی کا فیصلہ کیا ہے بی اے بہت ہی پریشان ہو کر اپنی کرسی سے اٹھ کر پھوپھو میری شادی اور کس سے پھوپھو بی اے تمھارے ماموں کے گھر عظمی سے تمھارا رشتہ طے کر لیا ہے اور تمھارے ماموں بھی بہت خوش ہیں رشتے سے اور امید کرتے ہیں کہ تمہیں بھی کوئی اعتراز نہیں ہو گا بیٹا زندگی بہت لمبی ہوتی ہے اس میں جیون ساتھی کا ہونا ضروری ہے ورنہ یہ زندگی نا مکمل ہے بی اے کو نا جانے کیا ہو گیا تھا کہ یہ پھوپھو کی فرمابنداری میں سر جھکانے پر مجبور ہو گیا اور اس کو اپنی محبت کھونی پڑی دنیا میں کوئی انسان بھی بے وفا نہیں ہوتا بس کچھ مجبوریاں اور رشتے اتنے مضبوط ہوتے ہیں کہ انھیں راستے سے ہٹانا بہت مشکل بلکہ نا ممکن ہو جاتا جیسے جیسے شادی کے دن قریب آتے جارہے تھے بی اے اپنی نظروں میں گرتا جا رہا تھا نا جانے اس کو چپ سی لگ گئی دل ہی دل میں یہ سوچ رہا تھا کہ میں نے تو وفا سے وعدہ کیا تھا کہ میں تمھارا انتظار کرو گا یہ کیسے ہو سکتا ہے وفا کی جگہ میں کسی اور کو کیسے دے سکتا ہوں، دوسری جانب وفا اپنی امی کی گود میں سر رکھ کر امی آج دل بہت اداس ہے اور ایسے لگ رہا ہے جیسے اپنا سا کوئی بہت دور جانے والا ہے امی اسے جی چاہا رہا ہے کہ اڑ کر اس کے پاس چلی جاؤں امی یہ دل بھی کتنا عجیب ہوتا ہے رہتا ہمارے سینے میں ہے اور دھڑکتا کسی اور کے لیے ہے وفا کی امی نے وفا کے ماتھے پر پیار کرتے ہوئے کہا آج کیا بات ہے میری بیٹی کی آنکھوں میں آنسو وفا امی ایک بات تو بتا ئے ہمیں یہ محبت کیوں برباد کر دیتی ہے وفا کی امی وفا سے بیٹی محبت ہمیں برباد نہیں بلکہ آباد کرتی ہے ہمارے کچھ فیصلے ہمیں برباد کر دیتے ہیں اب بی اے کی پھوپھو بی اے کی شادی کی شوپنگ میں بہت مصروف ہیں اور بہت خوش بھی ہے آج بی اے کی پھوپھو جو لہنگا عظمی کے لیے لائی وہ بہت ہی خوبصورت تھا ، بی اے کو آواز دے کر بلواتی ہیں بیڈ پر لہنگا پھیلا کر بی اے کو دیکھا رہی ہے عظمی پر لال رنگ بہت سجے گا یہ خوبصورت گول چہرہ گلابی ہونٹ موٹی آنکھیں لمبی پلکیں آبشار کی طرح کمر پر پھیلے بال جس دن عظمی یہ لہنگا پہنے گی چاند کا ٹکڑا لگے گی بی اے پر پھوپھو کی باتوں کا کوئی اثر نہیں ہو رہا تھا وہ گم سم کھڑا تھا جیسے وہ کچھ بھی نہ سن رہا ہو بی اے کی آنکھوں کے سامنے وفا کی تصویر اور کانوں میں اس کے قہقوں کی آوازیں گونج رہی تھیں آخر وہ دن بھی آ ہی گیا جس دن بی اے جو عظمی کا ہونا پڑا بی اے کا دل ودماغ عظمی کو قبول نہ کر پایا بس وہ اپنی پھوپھو کے حکم اور خوا ہش پر سر جھکا چکا تھا پھوپھو بڑی دھوم دھام سے عظمی کو بی اے کی دلہن بنا کر لے آئی عظمی اپنی سیج پر بیٹھ کر پھولوں کے درمیان ایسے لگ رہی تھی جیسے چاند آج زمین پر آ گیا ہو ۔
جاری ہے
 

Dr B.A Khurram
About the Author: Dr B.A Khurram Read More Articles by Dr B.A Khurram: 606 Articles with 468784 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.