روزہ اور تقویٰ کا حصول

از افادات: حضرت مولانا پیرزادہ محمد رضاثاقب مصطفائی نقشبندی (بانی ادارۃ المصطفیٰ انٹرنیشنل)

روزے کا ایک ثمر اور ایک پھل یہ ہے کہ بندے کو تقویٰ کا نور نصیب ہوتا ہے۔اﷲ تعالیٰ نے کہا قرآن مجید میں جہاں روزے کی فرضیت کا حکم ارشاد فرمایا وہاں ساتھ ہی یہ بات فرمائی کہ اس لیے تمہارے اوپر روزہ فرض کیا گیا ہے تاکہ تم متقی بن جاؤ۔یہ مقصدِ روزہ ہے۔ اﷲ یہ چاہتا ہے ورنہ اس کو کیا ضرورت ہے کہ بندے کو بھوکا اور پیاسا رکھے۔ وہ تو چاہتا ہے کہ یہ بُرائیوں سے باز آجائے۔ بلکہ بخاری شرف کی حدیث ہے؛ حضور علیہ السلام نے ارشاد فرمایا من لم یدع قول الزور و العمل بہ فلیس للّٰہ حاجۃ فی ان یدع طعامہ و شرابہ۔ جو شخص جھوٹ اور جھوٹے کام نہیں چھوڑتا اﷲ کو اس کے بھوکا اور پیاسا رہنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اﷲ نہیں چاہتا کہ وہ بھوک اور پیاس کی مشقت گوارا کرے۔ اس کا تو مقصود یہ ہے کہ اِس کے دل کے اندر اُس کی خشیت پیدا ہوجائے۔ اسی لیے اُس نے روزہ ہمارے اوپر فرض کیا ہے۔ ورنہ وہ کیسے چاہتا ہے کہ میرا بندہ بھوکا رہے۔ ایک ماں نہیں چاہتی کہ میرا بیٹا بھوکا رہے۔ اور جو ستّر ماؤں سے زیادہ پیار کرتاہے؛ اس نے کیسے چاہ لیا کہ میرا بندہ بھوکا رہے؟ ماں کے پیار کو دنیا کے کسی ترازو پہ نہیں تولہ جاسکتا۔ اور جو مالک ہے! …… ماں کو اپنی اولاد سے اتنا پیار کیوں ہے؟ اس لیے کہ اس نے اسے جنم دیا۔ جس نے جنم دیا اس کو اتنا پیار ہے تو جس نے تخلیق کیا ہے اس کو کتنا پیار ہوگا؟تو ماں نہیں چاہتی کہ میرا بیٹا بھوکا رہے تو مالک نے کیسے چاہ لیا؟

چلو آؤ! پھرماں کی گود میں آجاؤ۔ ماں بیٹے کی آنکھ میں ایک آنسو بھی گوارا نہیں کرتی۔ بیٹا ہوگیا بیمار؛ ماں لے گئی ڈاکٹر کے پاس۔ اس نے جو دوا تجویز کی وہ کڑوی تھی۔ ماں نے زبردستی لِٹا لیا؛ بیٹا پیتا نہیں؛ ماں نے منہ کھولا اور کڑوے سیرپ کے قطرے اس کی حلق میں ٹپکا رہی ہے۔ اور بچہ چیختا ہے اور جوں جوں سیرپ کے قطرے اس کی حلق سے نیچے اترتے چلے جاتے ہیں؛ ماں کو قرار آتا جاتا ہے۔ اس کو طمانیت ملتی جاتی ہے۔ ماں کیا سفاک ہوگئی ہے؟ نہیں ۔ اس کا پیار چھِن گیا ہے؟ نہیں۔ اس کی ممتا رُخصت ہوگئی ہے؟ نہیں۔ وہ تو بیٹے کی آنکھ میں ایک آنسو بھی گوارا نہیں کرتی۔ اور اب تڑپتا ہوا بیٹا لیکن ماں کے چہرے پہ طمانیت کا نورہے۔ اصل بات یہ کہ ماں جانتی ہے بیٹا نہیں جانتا۔ ماں جانتی ہے چند لمحوں کی تکلیف ہے لیکن نتیجہ شفا کی صورت میں برآمد ہوگا۔ اس لیے ماں کی نظر اس تڑپنے پہ نہیں ہے؛ ماں کی نظر اس نتیجے پہ ہے۔ مالک جو ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے۔ وہ بھی نہیں چاہتا کہ میرا بندہ بھوکا اور پیاسا رہے لیکن مالک کہتا ہے اس کے باوجود تُو بھوکا اور پیاسا رہے گا ۔ کیوں؟ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ میرے بندے تجھے تقوے کی بہاریں نصیب ہوں گی۔ تیرے من کو روشنی اور تیرے من کو اجالا نصیب ہوجائے گا۔

یہ تقویٰ نصیب ہوتا ہے روزے سے۔ یہ بات ذہن میں رکھیں کہ ہمارے دو دشمن ہیں۔جو ہمیں نیکی کے راستے سے روک رہے ہیں۔ (بات لمبی ہو رہی ہے اختصار کرہا ہوں۔) ہمارے دو دشمن ہیں؛ جو ہر وقت ہمارے ساتھ لگے ہوئے ہیں۔ ایک شیطان اور دوسرا نفس ۔ جو شیطان ہے ؛ وہ بڑ دشمن ہے یا نفس بڑا دشمن ہے؟ اور اس بات پہ کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ سب کَہ رہے ہیں کہ ’نفس‘۔اور سادی سی بات ہے کہ شیطان آدمی کو بہکاتا ہے۔لیکن شیطان جب خود بہکا؛ اس نے انکارِ سجدہ کیا ۔ اس وقت کوئی دوسرا شیطان تو تھا نہیں۔ شیطان کو شیطان بنانے والا نفس ہے۔ یہ نفس شیطان سے بھی بڑا دشمن ہے۔ اکیلی جان؛ دو دشمنوں کے نرغے میں۔ لیکن جب ماہِ صیام آیا سُلسِلت الشیاطین۔ حدیث میں آتا ہے شیاطین جکڑ دیے گئے۔ دو دشمنوں میں سے ایک دشمن ہمارا جکڑ دیا گیا۔ اب ایک دشمن ہمارا باقی ہے ’نفس‘۔ اب نفس کا مقابلہ کرلیں گے تو شیطان چُھٹ کر ہمارا کچھ نہیں کر سکے گا۔ لیکن اگر ہم نے اس موسم میں اپنے نفس کا مقابلہ نہ کیا تو پھر ہم اس نفس کی شہوت سے شیطان کے ہتھّے بھی چڑھ جائیں گے۔

اب نفس کی تربیت کیسے کریں؟ اس کی تربیت بھی روزے سے ہوتی ہے۔ آپ کہیں گے وہ کیسے؟ تو شیخ فرید الدین عطارؔ علیہ الرحمۃ کا قول سناتا ہوں۔ شیخ فرید الدین عطارؔ کون شخص ہے؟ کسی معمولی شخص کا نام شیخ فرید الدین عطارؔ نہیں ہے۔ ڈاکٹر اقبالؔ کے روحانی پیشوا؛ جن کو وہ مرشدِ رومیؔ کہتے ہیں اور اپنے آپ کو مریدِ ہندی کہتے ہیں۔ اور یہ بات بھی ذہن میں رکھیں کہ اقبالؔ نے رومیؔ کو ویسے ہی پیر نہیں مان لیا؛ بڑا چُن کے پیر تلاش کیا ہے اقبالؔ نے۔ بلکہ جب پیٖر دو ہوں اور دونوں ہی بڑے قابل ہوں اور مرید کے لیے مصیبت بن جائے کہ اِدھر جاؤں یا اُدھر جاؤں؛ کدھر جاؤں؟ امتحان تو اس وقت ہوتا ہے۔ اب اقبالؔ کے لیے دو چیزیں تھیں؛ ایک رازیؔ اور ایک رومیؔ۔اقبالؔ کہتا تھا کہ مَیں رومیؔ کو پیر مانوں؟ یا رازیؔ کو پیر مانوں؟ چوں کہ رازیؔ استدلال کا شہنشاہ ہے اور اقبالؔ فلسفے کا امام ہے۔ فلسفی کا مزاج یہی چاہتا ہے کہ جو استدلال کا بادشاہ ہو اس کو اپنا شیخ مانا جائے۔ لیکن جو رومیؔ ہے وہ دل کا شہنشاہ ہے۔ اقبالؔ شاعر ہے۔ اور اقبالؔ کا مزاج تھا کہ جو میرے دل کا بھی امام ہو وہی میرا شیخ ہو اور وہ ہی میری رہبری کرے۔ اقبالؔ اس معاملے میں الجھا رہا کہ کیا کروں۔ وہ خود کہتا ہے ؂
اسی کشمکش میں گزریں مری زندگی کی راتیں
کبھی سوز و سازِ رومیؔ کبھی پیچ و تابِ رازیؔ

کبھی رومیؔ کا سوز و سازمجھے پسند آتا تھا، کبھی رازیؔ کا پیچ و تاب پسند آتا تھا۔ پھر اقبالؔ نے زندگی کی کئی بہاریں مرشدکے انتخاب میں گزاردیں۔ کہ مَیں رومیؔ کے ہاتھ پہ بیعت کروں کہ رازیؔ کے ہاتھ پہ بیعت کروں۔ پھر ایک وقت آیا کہ اقبالؔ نے خود کہا ؂
نَے مہرہ باقی نَے مہرہ بازی
جیتا ہے رومیؔ ہارا ہے رازیؔ

وہ کہتا ہے رومیؔ جیت گیا اور رازیؔ ہارگیا۔ پھر اس نے رومی ؔکو اپنا شیخ اور مقتدا مانا۔ اقبالؔ جس کو اپنا مقتدا مانتا ہے ، جس کو اپنا امام مانتا ہے؛ اب اُس رومیؔ کی سُنیے؛ وہ کہتے ہیں ؂
ہفت شہرِ عشق را عطارؔ گشت
ما ہنوز اندر خم یک کوچہ ایم

عشق کے ساتوں شہر حضرت شیخ فرید الدین عطارؔ گھوم چکے ہیں۔ اور ہم پہلے شہر کی پہلی گلی کے کونے پہ کھڑے ہیں۔ یہ رومیؔ کہہ رہے ہیں؛ جن کو اقبالؔ نے بڑی چھان پھٹک کے بعد اپنا پیر مانا ہے۔ وہ فرید الدین عطارؔ جو معرفت کا امام ہے اور اﷲ کے رازوں کا امین ہے۔ حضرت شیخ فرید الدین عطارؔ فرماتے ہیں کہ ؂
نفس نتواں کش الا با سہ چیز
بات گویم یاد گیرش اے عزیز!

کہا کہ نفس نہیں مرتا اگر تین اسلحے اگر تیرے پاس ہوں توتُو نفس پر قابو پالے گا۔ وہ تین اسلحے کون سے ہیں ؛ کہا ؂
خنجرِ خاموشی و شمشیرِ جو
نیزۂ تنہائی و ترکِ ہجوم

ایک خاموشی کا خنجر ، ایک بھوک کی تلوار اور ایک تنہائی کا نیزہ؛ اگر یہ تین اسلحے تیرے پاس ہیں ؛ تُو نفس پہ ٹوٹ پڑے ان اسلحوں کو لے کر تو تیرا نفس تیرے قابو میں آئے گا۔ اس کے علاوہ کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ اس نفس کو قابو کرنے کا۔ حضرت سلطان باہوؔ جیسے بھی بول پڑے ؂
باجھ فقیراں کِسے نئیں ماریاں
باہوؔ ظالم چور اندر دا ہُو

یہ جو اندر کا چور ہے اس کو پکڑ لینا اور اس کو قابو میں کرلینا اور اپنے دل کی حفاظت کرلینا؛ یہ ہی بڑی دولت ہے۔ فرماتے ہیں کہ تین اسلحے ہیں؛ ایک خاموشی کا خنجر، اور ایک بھوک کی تلوار، اور تیسرا تنہائی کا نیزہ۔ کہا ان تین اسلحوں سے اگر تم قابو پانا چاہو تو پا سکتے ہو اس کے علاوہ کوئی اور اسلحہ نہیں ہے کہ تمہارے نفس کو تمہارے قابو میں لے آئے۔

بھوک کی تلوار ایسا اسلحہ ہے؛ جو نفس کا سر کاٹ دیتی ہے۔ اور میرے اور آپ کے آقا و مولا قلب و نگاہ کے مرشدِ اولین حضور نبیِ رحمت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:یا معشرالشباب! من استطاع منکم الباء فلیتزوج فانہ اغض للبصر، و احصن للفرج، ومن لم یستطع فعلیہ بالصوم فانہ لہ وجاء۔ اے جوانوں کے گروہ! تم میں سے اگر کوئی شخص نکاح کی طاقت رکھتا ہے تو وہ نکاح کرلے۔ یہ نظر اور شرم گاہ کا محافظ ہے۔ اور اگر تم میں سے کوئی نکاح کرنے کی فی الحال طاقت نہیں رکھتا تو وہ روزے رکھیں روزے شہوات کو توڑتے ہیں۔ تو نفس کی تہذیب بھوک سے ہوتی ہے اور بھوک ایک ایسا اسلحہ ہے کہ جس سے ہم اپنے نفس کو قابو میں لا سکتے ہیں۔ حضرت نظام الدین اولیا علیہ الرحمۃ؛ جو تصوف کے سرخیل اور امام ہیں ؛ آپ فرماتے ہیں کہ آدھی فقیری روزہ ہے اور آدھی فقیری باقی سب کچھ ہے۔ تو روزہ اگر نصیب ہوگیا تو پھر مالک کا قرب مل گیا اور یہ تقوے کا نور ہمیں روزے سے حاصل ہوگا۔
٭٭٭

Waseem Ahmad Razvi
About the Author: Waseem Ahmad Razvi Read More Articles by Waseem Ahmad Razvi: 86 Articles with 134657 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.