از افادات: حضرت مولانا پیرزادہ محمد رضاثاقب مصطفائی
نقشبندی (بانی ادارۃ المصطفیٰ انٹرنیشنل)
قرآن مجیدمیں اﷲ تعالیٰ جل شانہٗ نے ارشاد فرمایا یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ
آمَنُواْ کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِن
قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ (سورۃ البقرۃ ۱۸۳)’’اے ایمان والو!
تمہارے اوپر روزے فرض کر دیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلوں پہ فرض کیے گئے
تھے۔ تاکہ تمہیں تقویٰ ملے۔‘‘ ألصوم فی اللغت ألامساک۔ روزہ لغت میں رک
جانے کو کہتے ہیں۔ جب ہوا کے تیز جھکڑ چلتے چلتے رک جاتے تو اہلِ عرب کہتے
صامت الریح کہ ہوا رک گئی۔ تیز دوڑتا ہوا گھوڑا جب اچانک ٹھہر جاتا تو کہتے
صام الخیل منہ زور گھوڑا رک گیا۔ روزے کو بھی روزہ اس لیے کہا جاتا ہے کہ
نفس کا سر کش اور منہ زور گھوڑا رمضان میں رک جاتا ہے۔ اور جو اﷲ کے حکموں
کو ڈھٹائی سے توڑتے ہیں؛ رمضان میں ان کے سر بھی سجدوں میں دیکھیں۔ اس لیے
صوم کو ’صوم‘ کہا جاتا ہے کہ اس میں انسان گناہ سے رک جاتا ہے۔
شریعتِ اسلامیہ میں طلوعِ فجرِ ثانی سے غروب آفتاب تک اَکل و شرب اور جماع
سے قصداً رُکے رہنے کو روزہ کہا جاتا ہے۔ روزے کی تاریخ کے حوالے سے علامہ
اسماعیل حقی علیہ الرحمۃ تفسیر روح البیان میں لکھتے ہیں کہ ملکطمہورث ثالث
کے دور میں قحط پڑا یہ حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد سے تیسرا بادشاہ ہوا
ہے۔ تواس نے اپنی قوم کو حکم دیا کہ وہ ایک وقت کا کھانا کھائیں اور ایک
وقت کا کھانا بچا کر قحط زدہ علاقوں میں بھیجیں تاکہ دکھیوں اور مجبوروں کی
مدد ہوسکے۔ ملک طمہورث الثالث کے اس حکم کو قوم نے قبول کیا اور ایک وقت کا
کھانا بچا کرکے قحط زدہ علاقوں میں بھیجا۔ اس قوم کی یہ ادا اﷲ کو پسند
آگئی تو اﷲ نے اس کو عبادت قرار دے دیا۔ پھر اس کے بعد ہر نبی پر روزہ فرض
ہوا۔ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِن قَبْلِکُمْ اس پہ شاہدِ عادل ہے۔
حضور علیہ السلام فرضیت روزہ سے قبل ایام بیض کے روزے رکھا کرتے تھے۔ ہر
ماہ کی ۱۳؍، ۱۴؍ اور ۱۵؍ تاریخ کو قمری تقویم کے حساب سے جو روزے رکھے جاتے
ہیں؛ ان کو ایام بیض کے روزے کہا جاتا ہے۔ لیکن اس کے بعد پھر عاشورہ کا
روزہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے معمول بنایا اور اس کو کسی صورت بھی حضور
اور صحابہ ترک نہیں کرتے تھے۔ فصام رسول اللّٰہ و امر بصیامہ۔(صحیح مسلم،
باب صوم یوم عاشورہ) حضور نے خود بھی روزہ رکھا اور صحابہ کو بھی حکم دیا
کہ یہ روزہ رکھیں۔ لیکن جب سن ۲؍ ہجری کو واقعۂ بدر سے ایک مہینہ قبل ۱۷؍
شعبان المعظم کو روزہ فرض کیا گیا تو پھر حکم دے دیا گیا۔ حضرت عائشہ صدیقہ
رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ فرمایا اب جس کا جی چاہیے عاشورے کا
روزہ رکھیں اور جس کا جی چاہے ترک کردے۔ لیکن اس سے قبل وہ روزہ رکھنا امت
پر ضروری تھا۔
اب ایامِ معدودۃ یعنی گنتی کے دن اور وہ ۲۹؍ یا ۳۰؍ دن ہیں؛ ان کے روزے امت
پر فرض کر دیے گئے ۔ سن ۲؍ ہجری میں روزہ فرض ہوا۔ حضور نے ۱۱؍ ہجری کو
رمضان سے قبل ہی ربیع الاول شریف کے مہینے میں انتقال فرمایا۔ اس طرح
حضورعلیہ السلام کی (ظاہری)زندگی میں کل ۹؍ رمضان آئے۔۲؍ ہجری کو شامل کرکے
۹؍ رمضان زندگی میں کل آئے۔ جس میں ۲؍ رمضان ۳۰؍ کے تھے اور باقی ۷؍ رمضان
۲۹؍ کے تھے۔ اور یہ بات ذہن میں رہے کہ کہ روزے ۲۹؍ ہوں یا ۳۰؍ ہوں؛ اﷲ
ثواب ۳۰؍ کا ہی عطا فرماتا ہے۔ جس طرح کوئی شخص بھول کر کھالے ؛ حدیث میں
آتا ہے کہ اس کو اﷲ نے کھلایا اس کو اﷲ نے پلایا ۔ اس نے کھا بھی لیا اس نے
پی لیا لیکن اس کا روزہ بھی باقی رہا۔ اسی طرح اگر چاند ۲۹؍ کا نظر آجائے
تو ثواب اﷲ ۳۰؍ کا ہی عطا فرماتا ہے۔ یہ اس کی کرم نوازی ہے اپنے بندوں پہ۔
روزہ ڈھال ہے اور جہنم سے آزادی کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ روزہ اﷲ اور بندے کے
مابین ایک راز ہے۔ روزہ نور ہے؛ ضیاء اور روشنی ہے۔ اور آقا کریم ﷺ نے روزے
کی فضیلت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ہر شئے کی کوئی زکوٰۃ ہوتی ہے
انسان کے جسم کی زکوٰۃ روزہ ہے۔ اگر روزہ رکھے گا تو جسم زکوٰۃ ادا کرے گا۔
جس طرح زکوٰۃ سے مال پاک ہوتا ہے؛ روزے سے جسم پاک ہوجاتا ہے اور روزہ ویسے
بھی انسان کے لیے شفا کا پیام ہے۔ فرمایا کہ سحری کھایا کرو! کیوں کے سحری
کے کھانے کے اندر بھی اﷲ نے برکت رکھی ہے۔
یہ ماہِ صیام اپنے دامن میں برکتیں لے کر رحمتیں لے کر نازل ہوتا ہے۔ اس کا
پہلا حصہ رحمت، درمیانی حصہ مغفرت اور آخری حصہ جہنم سے آزادی کا مژدۂ جاں
فزاں ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ اﷲ نے میری امت کو رمضان المبارک کے روزے کے
حوالے سے پانچ چیزیں ایسی عطا کی ہیں؛ جو اس سے قبل کسی امت کو نصیب نہیں
ہوئیں۔ ایک تو یہ کہ رمضان المبارک کے اندر روزہ رکھنے والے کے میدے سے جو
بو نکلتی ہے؛ اﷲ کو وہ مشک سے زیادہ محبوب ہے۔ دوسری بات کہ جب ماہ صیام
آتا ہے تو شیاطین کو جکڑ دیا جاتا ہے۔ تیسری بات کہ روزے دار جب تک روزے
میں رہتا ہے فرشتے اس کے لیے مغفرت کی دعائیں کرتے رہتے ہیں اور چوتھی بات
جب ماہ صیام کی آخری کی رات آتی ہے تو اس کے سارے گناہوں کو بخش دیا جاتا
ہے اوراس کو جہنم سے آزادی کا پروانہ مل جاتا ہے۔ بلکہ ایک صحابی نے حضور
سے عرض کی کہ آقا کریم! جو یہ جہنم سے آزادی کاپروانہ مومن کو ملتا ہے تو
کیا یہ لیلۃ القدر کی رات ہے؟ تو آقا کریم نے فرمایا نہیں؛ جب مزدور اپنی
مزدوری مکمل کرتا ہے، جب اس کی دہاڑی پوری ہوجاتی ہے جب پھر اس کو اس کا
مالک کچھ دیتا ہے۔ تو یہ جواس کو بخشش اور مغفرت کا مژدۂ جاں فزاں دیا جاتا
ہے یہ اس کی مزدوری ہے۔ اور فرمایا جو لیلۃ القدر کی برکتیں اسے حاصل ہوتی
ہے یہ اُس کے علاوہ ہے۔ اور یہ اﷲ تعالیٰ جل شانہٗ نے خاص کرم نوازی فرمائی
بندۂ مومن پر کہ اس کو یہ بابرکت رات عطا فرمائی ۔ اور پانچویں فضیلت جو اس
روزہ دار کو دی گئی؛ اور حضور سے قبل جو لوگ روزہ رکھتے تھے یہ فضیلتیں ان
کو نہیں عطا کی گئیں ؛ جنت کو پورا ماہ مومن کے لیے آراستہ و پیراستہ کیا
جاتا ہے۔
حضرت ابو ہریرۃ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے ایک روایت مروی ہے جس کو امام بخاری و
امام مسلم نے روایت کیا کہ آقا کریم علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ قال
اللّٰہ عز و جل اﷲ جل شانہٗ ارشاد فرماتا ہے: کل عمل ابن آدم لہ ابن آدم کا
ہر عمل اسی کے لیے ہے ۔ الا الصوم، فانہ لی ہاں! روزہ ہے؛ جو وہ میرے لیے
رکھتا ہے۔ و انا اجزی بہٖ اور اس کی جزامَیں اسے انہیں دوں گا۔ والصیام جنۃ
اور روزہ ڈھال ہے، فاذا کان یوم صوم احدکم فلا یرفث ولا یفسق ولا یصخب۔ فان
سابہ احد او قاتلہ، فلیقل انی صائم۔ والذی نفس محمد بیدہ لخلوف فم الصائم
اطیب عنداللّٰہ من ریح المسک۔ للصائم فرحتان یفرحھما: اذاافطر فرح بصومہ، و
اذا لقی ربہ فرح بصومہ۔فرمایا جب کوئی شخص روزہ رکھتا ہے تو اس کا یہ عمل
اﷲ کے لیے ہے۔ اور اﷲ تعالیٰ اس کی جزا دے گا۔ روزہ ڈھال ہے۔ جب کوئی شخص
روزہ رکھے؛ تو وہ اس کے اندر اﷲ کی کوئی نا فرمانی نہ کریں۔ یہاں تک کہ اگر
اس کو کوئی شخص گالی بھی دے تو وہ یہ کہے کہ میرا روزہ ہے۔ مَیں صائم ہوں۔
مَیں نے روزہ رکھا ہوا ہے۔ یہ کَہ کے لڑنے والے کو الجھنے والے کو ٹال دے۔
حضور نے ارشاد فرمایا مجھے قسم ہے اس رب کی جس کے قبضے میں محمد کی جان ہے؛
کہ روزہ دار کے میدے سے جو بو نکلتی ہے اﷲ کو وہ مشک یعنی کستوری کی خوش بو
سے زیادہ محبوب ہے۔ اور روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں؛ ایک خوشی اس کو اُس
وقت ملتی ہے جب وہ روزہ افطار کرتا ہے۔ اور دوسری خوشی اُس کو اُس وقت ملتی
ہے کہ جب اِس روزے کے صلے میں اسے اپنے رب کا دیدار نصیب ہوگا۔
یہ بات ذہن میں رکھیں کہ اس دنیا پر سب سے بڑی دولت جو حضرت انسان کو دی
گئی ہے وہ دولت ایمان ہے۔ اور قیامت کے دن سب سے بڑی دولت جو اہلِ ایمان کو
دی جائے گی؛ وہ اﷲ تعالیٰ کا دیدار ہوگا۔ جنت کے حور و قصور، جنت کے محلات؛
جنت کی عالی نسب نعمتیں، دنیا کی کوئی دولت اور دنیا کی کوئی نعمت ؛جنت کی
اس نعمت کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ لیکن جنت والے جنت میں جاکر جس نعمت کو سب
سے بڑا سمجھیں گے اور وہ ہوگی بھی حقیقت میں سب سے نعمت؛ ایسی نعمت کہ اس
نعمت کے ملنے پہ باقی ساری نعمتوں کو بھول جائیں گے۔ وہ یہ ہے کہ رب اپنے
رُخِ کرم سے پردے ہٹا دے گا۔ اور ان کو اپنا دیدار عطا فرمادے گا۔ تو یہ سب
سے بڑی دولت جو مومن کو آخرت میں نصیب ہوگی یہ روزے کے صلے میں نصیب ہوگی۔
یہ روزے کا وہ ثمر ہے ، یہ روزے کا وہ پھل ہے جو اﷲ اہلِ ایمان کو قیامت کے
د ن عطا فرمائے گا۔ اجزی بہ اس کا معنی ہے کہ مَیں جزا دوں گا۔
ایک روایت میں آتا ہے کہ جو اعمال ہیں وہ سات طرح کے ہیں۔ دو اعمال ایسے
ہیں کہ جو واجب کرتے ہیں۔ دو اعمال ایسے ہیں کہ جن کی جزا ان کی مثل ہے۔اور
ایک عمل ایسا ہے کہ جس کی جزا دس گنا ہے۔ اور ایک عمل ایسا ہے کہ جس کی جزا
سات سو گنا ہے۔ اور ایک عمل ایسا ہے جس کی جزا بے حساب ہے۔ فرمایا وہ دو
عمل جو واجب کرتے ہیں؛وہ یہ ہیں کہ اگر کسی شخص نے اﷲ کی عبادت کی اور اس
کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا تو جنت کو یہ اعمال واجب کردیتے ہیں۔کہ اس
کو جنت کا ملنا لازم ہے ضروری ہے واجب ہے اس کے لیے۔ اور دوسرا وہ شخص؛ جس
نے اپنے رب کے حقوق کو توڑا؛ یہاں تک کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا
؛اس کے اوپر جہنم واجب ہے۔ اور دو وہ عمل جن کی جزا ان کی مثل ملے گی۔ ایک
وہ گناہ جو اس نے کیا۔ تو اس کی سزا اس کے مثل دی جائے گی۔ اور دوسری وہ
نیکی جو اس نے کی نہیں ہے لیکن اس کا عزم کیا تھا تو اس کو بھی ایک نیکی کا
ثواب دے دیا جائے گا۔ایک عمل وہ ہے جس کے بدلے کے اندر دس گنا اس کو اجر
دیا جاتا ہے ۔ اور فرمایا اِس سے اُس کے نیک اعمال مراد ہیں۔ اور فرمایا کہ
جو اس کا چھٹا عمل ہے وہ ایسا ہے جس کے بدلے کے اندر اس کو سات سو گنا اجر
دیا جاتا ہے؛ اور وہ راہِ خدا میں اس کا صدقہ کرنا ہے۔ اور فرمایا ایک عمل
ایسا ہے جس کی جزا کا دنیا پر کوئی حساب ہی نہیں ہے۔ اور وہ بندے کا اﷲ کے
حضور اپنے روزے کے ساتھ پیش ہونا ہے۔
تو روزہ ایک ایسا عمل ہے کہ جس کی جزا کا کوئی حساب ہی نہیں ہے۔ یہ اﷲ کے
علم میں ہے کہ وہ اپنے بندے کو اُس کی کتنی جزا اور اُس کا کتنا صلا عطا
فرمادیتا ہے۔
٭٭٭
|