شاہ جی
شاہ جی کا شمار ہمارے پرانے دوستوں میں ہوتا ہے ۔شاہ جی نے ہمیں بتایا ہے
کہ انہیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ جو معلومات ان کے پاس ہیں وہ کسی کے پاس نہیں
ہیں۔مثال کے طور پر پاناما کیس کی بات کرتے ہوئے وہ والیم’’10‘‘ کا ذکر
کرتے ہیں جوابھی تک کھولا نہیں گیا،اس والیم کی ساری معلومات شاہ جی اپنے
دوستوں کی محفلوں میں سرگوشیوں کی صورت میں سناتے ہیں اور ساتھ ہی تاکید
کرتے ہیں کہ ’’کسی نوں دسیں نا‘‘۔ظاہری بات ہے دوست بھی شاہ جی جتنے ذمہ
دار ہیں ۔انہوں نے بھی اپنے سارے محلے والوں،رشتہ داروں،عزیزوں کے علاوہ یہ
بات کسی کو آج تک نہیں بتائی۔شاہ جی کا کہنا ہے کہ جس دن اس والیم کا دسواں
حصہ سامنے آگیا تو ان کی جان خطرے میں پڑجائے گی کیونکہ وہ واحدآدمی ہیں جس
کو ان ساری معلومات کاعلم ہے۔اسی طرح شاہ جی بتاتے ہیں کہ انہیں یہ بھی پتا
ہے کہ نگران وزیراعظم کون ہوگا،مگر وہ یہ بات کسی کو بتا نہیں سکتے کیونکہ
یہ معاملہ ملکی مفاد کا ہے۔دوستوں کے زیادہ اصرار پر وہ ’’کسی نوں دسیں نا‘‘
کے حکم کے ساتھ دس نام بتاتے ہیں انہیں یقین ہے نگران وزیراعظم انہی میں سے
ایک ہوگا۔اسی طرح شاہ جی کا کہنا ہے یہ خبر بھی صرف ان کے پاس ہے کہ ملک کے
کس سیاستدان،صحافی،بزنس مین کے پاس اربوں روپوں کی ناجائز کمائی ہے۔دوست
پیچھے پڑجائیں تو کوئی پچاس نام بتاتے ہیں۔میں نے ایک دن اپنے جاننے والے
ڈائریکٹر نیوز کو شاہ جی کی عظمت اور معلومات سے متعلق آگاہ کیا۔ڈائریکٹر
صاحب نے مجھے کہا آپ شاہ صاحب سے کہیں وہ ہمارے چینل کے پلیٹ فارم سے ان سب
کو بے نقاب کردیں۔مجھے آئیڈیا اچھا لگا میں نے جھٹ سے شاہ جی کو آگاہ
کیا،شاہ جی نے منہ بسورتے ہوئے کہا ’’ او وڑائچ صاحب میں درویش ہوں ،درویش
اور درویش لوگ کسی کی پگڑی نہیں اچھالتے‘‘ ۔میں نے کہا ‘‘تو شاہ جی یہ کام
مجھے کرنے دیں ۔شاہ جی نے یہ کہہ کر مجھے چپ کروادیا ’’کچھ تو خیال کرو
لوگوں کے عیب اس طرح سے ساری دنیا کو نہیں بتائے جاتے‘‘۔شاہ جی ہمیشہ اپنے
دوستوں اور اردگرد رہنے والوں کا خیال رکھتے ہیں(کہ کہیں کوئی آرام سے
زندگی تو نہیں گزار رہا)۔شاہ جی اتنے درد مند ہیں کہ ان کے آس پاس کے لوگوں
کوخوامخواہ کا’’سر دردر‘‘ لگا رہتا ہے۔شاہ جی کسی دن موڈ میں ہوں تو بڑے
بڑے راز آسانی سے شئیر کرلیتے ہیں۔کسی سہانی شام میں شاہ جی کہنے لگے لو
تمہیں آج بتاتا ہوں کہ نواز شریف نے ایٹمی دھماکے کس کے پریشر پر کیے
تھے۔میں شاہ جی کے قریب ہوگیا،مجھے یقین ہو گیا تھا کہ اپنی زندگی کی سب سے
بڑی ایکسکلیوسو خبر مجھے ملنے والی ہے اس کے بعد مجھے راتوں رات مشہور ہونے
سے کوئی نہیں روک سکتا۔رازداری سے پوچھا شاہ جی کس کے کہنے پر؟ انہوں نے
کمرے کے دونوں طرف دیکھا،آنکھیں کچھ دیر بند کرنے کے بعدکھولیں اپنے ہاتھ
کی درمیانی انگلی ہوا میں بلند کرتے ہوئے آہستگی سے کہا’’ضمیر کے پریشر پر‘‘۔
گجر صاحب
گجرصاحب بہت اچھے انسان ہیں یہ بات کچھ دن پہلے گجر صاحب نے مجھے خود بتائی
ہے۔گجر صاحب کے پاس اﷲ کا دیا ہوا سب کچھ ہے اگر کچھ نہیں ہے تو وہ ہے
عزت۔گجر صاحب ذات پات۔حسب نسب پر یقین نہیں رکھتے وہ کہتے ہیں سب برابر ہیں،
ان چیزوں میں کیا رکھاہے یہ کوئی اتنی بڑی بات نہیں کہ بندہ ذات برادری کی
برتری کے احساس میں اپنے آپ میں اتراتا پھرے۔گجر صاحب ابھی تک کنوارے ہیں
اس کی وجہ بقول گجر صاحب یہی ہے کہ وہ اپنے رشتے داروں میں شادی نہیں کرنا
چاہتے(رشتے داروں کی دلی خواہش بھی یہی ہے)۔گجر صاحب چاہتے ہیں کہ کوئی ہم
ذات خوبصورت لڑکی مل جائے تو وہ بھی اپنا گھر بسالیں(مگر لڑکیاں ایسا نہیں
چاہتیں)۔گجر صاحب کہتے ہیں کہ ان کی شخصیت میں خدا جانے کیا کشش ہے کہ لوگ
ان کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں،ان کا یہ بھی دعوی ہے جو انسان ان کے ساتھ کچھ
وقت گزار لے وہ ان کو ساری زندگی نہیں بھول سکتا(ظاہری بات ہے ایسا واقعہ
کوئی کیسے بھول سکتا ہے)۔گجر صاحب کو اپنی تاریخ اورثقافت سے اتنا لگاؤ ہے
کہ انہوں نے اپنے موبائل وال پیپر پر اپنی ’’بھوری مج‘‘ کی تصویر لگائی
ہوئی ہے،گجر صاحب کے ذوق کا اندازہ یہاں سے لگا سکتے ہیں کہ گجروں پر بنائی
گئیں تمام فلمیں اور گانے ان کے موبائل میں محفوظ ہیں۔گجر صاحب دوستوں کے
اتنے ہمدرد ہیں کہ بعض دفعہ دوست بھی تلملا اٹھتے ہیں کہ کیوں آخرآپ ہمارے
اتنے ہمدرد کیوں ہیں؟گجر صاحب چونکہ ایک بہادر انسان واقع ہوئے ہیں اور ان
کی پہچان حق کا ساتھ دینے کی ہے یہی وجہ ہے کہ وہ ہر مرتبہ انتخابات کے بعد
جیتے ہوئے امیدوار کے ساتھ کھڑے ہوئے نظر آتے ہیں۔اگر کبھی ہم دوست اکٹھے
کھانا کھائیں تو گجر صاحب دوستوں کا اتنا خیال رکھتے ہیں کہ ہمیشہ سالن کے
ڈونگے میں سے اچھی اچھی بوٹیاں اپنی پلیٹ میں ڈال لیتے ہیں۔اسی طرح گجر
صاحب جب بھی شاپنگ کے لیے بازار جاتے ہیں دوستوں سے پوچھ لیتے ہیں انہیں کس
برینڈ کے جوتے اور کپڑے پسند ہیں۔پھردوستوں کی مرضی سے اس برینڈ کی بہترین
چیزیں اپنے لیے خرید لیتے ہیں۔مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی کہ آخر لوگ کیوں
کہتے ہیں کہ اچھے دوست نایاب ہوگئے،اب مخلص دوست نہیں ملتے۔میرا خیال ہے
دوست صرف ُبرے نہیں اچھے بھی ہوتے ہیں۔ابھی بھی سچے جذبے اور اخلاص والے
دوست اس دنیا میں موجود ہیں۔آپ کو ملیں تو مجھے بھی بتائیے گا۔۔! |