کسی بھی معاشرے کی اصل پہچان یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے کمزور
ترین طبقات کے ساتھ کیسا سلوک رکھتا ہے۔ اگر ہم ایک "اسلامی فلاحی" ریاست
ہونے کے کھوکھلے دعووں سے نکل کر ایک حقیقی خدا ترس معاشرہ قائم کرنا چاہتے
ہیں تو ہمیں کئی دیگر کاموں کے ساتھ اپنے محنت کشوں کے حقوق پر بھی خاص
توجہ دینا ہو گی۔
۱۔ اُجرت
اِس بات کا خاص خیال رکھیں کہ جو لوگ آپ کے لئے کام کرتے ہیں آپ اُن کی
منصفانہ اُجرت مقرر اور وقت پر ادا کریں۔ اگر آپ حکومت کے طے کردہ
"مِنِیمَم وَیج" (فی گھنٹہ اُجرت کی کم سے کم حد) سے کم اُجرت مقرر کرتے
ہیں یا بروقت ادائیگی نہیں کرتے تو آپ خدا اور قانون دونوں کے سامنے جوابدہ
ہیں۔
۲۔ عزت
یاد رکھیں کہ آپ کے لئے محنت مزدوری کرنے والا آپ کا غلام نہیں ہے اور نہ
ہی اُس کی عزت اور اُس کے وقار پر خدا نہ آپ کو کسی قسم کی چھوٹ دی ہے۔ عام
مشاہدہ ہے کہ ہم اپنے ماتحتوں کے لئے ایک الگ لہجہ رکھتے ہیں۔ مگر ایک نفیس
اور شریف الطبع انسان کسی سے بھی بدتمیزانہ لہجے میں گفتگو نہیں کرتا اور
نہ اپنے سے معاشی طور پر کمزور پر آواز کا زور آزماتا ہے۔ اگر آپ یہ دیکھیں
کہ آپ کے دو لہجے ہیں، ایک طاقتور یا برابر کے لئے، اور ایک ماتحتوں کے
لئے، تو جان لیں کہ آپ کی ذات میں تکبر کا عنصر ابھی باقی ہے۔
۳۔ حفاظت
محنت کش طبقہ بالعموم کمزور ہوتا ہے۔ تمامتر محنت کش طبقے کی حفاظت تو
حکومت اور قانون ہی کر سکتے ہیں، البتہ معاشرے کا حصہ ہوتے ہوئے ہم پر لازم
ہے کہ ہم اپنی سوچ، اپنی فکر، اپنی گفتگو، اپنی تحریروں، اپنے احتجاج، اپنے
عوامی دباؤ، اور اپنے ووٹ میں اِس حفاظت کی اہمیت کو سامنے رکھیں اور حکومت
اور قانون سے حقیقی حفاظت کا مطالبہ کرتے رہیں۔ اِس حفاظت کے چند اہم اجزا:
- غلامی سے حفاظت
کسی جاگیردار، سرمایہ دار، یا قرضخواہ کو یہ ہمت نہیں ہونی چاہیے کہ وہ کسی
محنت کش کو اپنا غلام بنا سکے۔
- استحصال سے حفاظت
محنت کشوں کی تربیت اور قانون تک آسان رسائی کے ذریعے اُن کے حقوق کی حفاظت
کو یقینی بنانا ہو گا۔
- مستقبل کی حفاظت
حکومت کی ذمہ داری ہے کہ تعلیم اور صحت تک آسان اور یکساں رسائی کے ذریعے
محنت کشوں کی اگلی نسلوں کو پھلنے پھولنے اور اپنی صلاحیتوں اور دلچسپیوں
کے مطابق پیشے اختیار کرنے کا موقع فراہم کرے۔ |