ہم شرمندہ ہیں!

پچھلے کئی دنوں سے یہ خبر گردش کر رہی ہے،کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی امریکی جیل میں موت واقع ہوچکی ہے،لیکن تاحال اسکی ابھی تک کوئی مصدقہ خبر نہیں مل سکی

بے دماغ

پچھلے کئی دنوں سے یہ خبر گردش کر رہی ہے،کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی امریکی جیل میں موت واقع ہوچکی ہے،لیکن تاحال اسکی ابھی تک کوئی مصدقہ خبر نہیں مل سکی۔ڈاکٹر عافیہ کی بہن ڈاکٹر فوذیہ کاکہنا ہے کہ ہم مسلسل رابطہ میں ہیں،لیکن نہ پاکستانی وزیر خارجہ اور نہ ہی امریکی حکام سے اس قسم کی ابھی تک کوئی تصدیق کی گئ ہے۔ڈاکٹر فوزیہ کا کہنا ہے کہ امریکہ میں قیدیوں کے آن لائن اسٹیٹس میں ابھی تک زندہ لکھا ہوا ہے۔اگر کو ئی موت کی خبر ہوتی تو اسٹیٹس تبدیل ہوتا ہے اور مطلع کیا جاتاہے۔

اﷲ کرے،خبر جھوٹی ہو اور ایسا کوئی بھی واقعہ رونما نہ ہوا ہو۔پر اگر خبر جھوٹی بھی ہو تو ایسے جینے سے مرنا اچھا،جس میں سانس بھی دوسروں کے کہنے پہ لیا جائےاور وہ بھی غیر مسلم کی گرفت میں،خیر یہ سہولت صرف پاکستانی شہریوں کے لئےامریکہ میں ہے،کیونکہ پاکستان میں امریکی شہریوں کے لئے اسکے برعکس ہوتا آرہا ہے۔امریکی شہری آتے ہیں آرام سے قتل کر کے یہاں سے پروٹوکول میں استشنی لے کے اپنے وطن میں چلے جاتے ہیں۔ابھی تازہ ترین واقعہ کرنل جوذف کا ہی دیکھ لیں، نشے میں دھت قتل کر کے آرام سے اپنے گھر بھی پہنچ گیا،پاکستانی عوام کی تسلی کے لئے یہی بول دیا گیا کہ سرکاری استشنئ حاصل ہے،اور کاروائی امریکہ میں ہو گی۔ہمارے لیڈران ہمیں بے وقوف ہی بناتے ہیں بس،اور عوام بھی آرام سے اب بھول جائے گی۔یہ تو چلو مان لیتے ہیں،کہ ڈرایئو اینڈ ڈرنک کیس تھا،لیکن جس نے جان بوجھ کے قتل کئے اسکا کون ذمہ دار ہے؟ریمنڈ ڈیوس صاحب جو صفارتکارنہیں تھا،صرف امریکی سیکورٹی کنٹریکٹر تھا،دو افراد کو گولی مار کے اور تیسرے کو گاڑی کے نیچے کچل کے مار ڈالا،ان بچاروں کا کیا قصور تھا؟لیکن اس وقت کے امریکی صدر اوباما نے ریمنڈڈیوس کو نہ ہی اپنا سفارتکار کہا بلکہ اسے سرکاری استشنئ دلوا کر وطن واپس بلوا کر آزاد کر دیا۔اور ادھر ہمارے اسوقت کے وزیراعظم گیلانی صاحب فرماتے ہیں،کہ اگر آزاد نہیں کرتے تو دنیا ناراض،اور اگر آزاد کرتے ہیں تو پاکستانی عوام ناراض۔پر پاکستانی عوام میں غیرت کہاں،کچھ عرصے بعد چپ کر جائیں گے،اور ہم اپنے آقاوں کو خوش کر کے اپنی اور اپنے بچوں کی سیفٹی لیں گے۔جس میں ڈالرز اور گرین کارڈ ہونگے۔چلیں یہ تو امریکہ کے حکومت کے نمائندہ تھے،اور اب ایک امریکی شہری کا حال بھی سن لیں جو2010 میں پاکستان آیا،اسامہ بن لادن کو مارنے کے لئے،اور پاکستان نےپکڑ کے اسے بھی باعزت واپس روانہ کیا۔مذید پچھلے دنوں میں جو امریکہ کی ریاست ٹیکساس کے اسکول میں حملہ ہوا؛جس میں ایک پاکستانی طالبہ جانبحق ہو گئی۔ مارنے والا زہنی مریض تھا کیونکہ وہ مسلمان نہیں تھا،اگر مسلمان ہوتا تو وہ دہشتگرد کہلاتا۔افسوس صد افسوس۔۔

کاش ہماری وفاداریاں اگر ہمارے دین اسلام کے لئے ہوتئیں تو آج مسلمانوں کو رسواء نا ہونا پڑتا۔اسوقت بھی یہی پاکستان تھا جب ایٹمی دھماکے کئے گئے،اور اسی امریکہ نے ہر قسم کی چال چل کر اسکو روکنے کی ناکام کوشش کی۔اور حتئ کہ دھمکی تک دی کہ جہاں دھماکے ہونے ہوئے وہاں ہم پہلے ہی انکو تباہ کر دیں گے۔لیکن کچھ بھی نہیں کر سکے اور پاکستان اللّل کی مدد سے سرخرو ہوا۔آخر میں اتنا ہی کہنا چاہوں گا۔۔۔
کہ
"خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی،نہ ہو جس کو خیال اپنی حالت بدلنے کا"
والسلام۔۔۔

 
Muhammad Zeshan Ali
About the Author: Muhammad Zeshan Ali Read More Articles by Muhammad Zeshan Ali: 3 Articles with 1442 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.