ہم اکثر و بیشتر فروعی اور اجتہادی اختلافات والی سنتوں
پر بحث و مباحثہ کرنے میں اس قدر ڈوب جاتے ہیں کہ ہماری نشست و برخواست کا
مرکز و محور ایک مخصوص دائرے میں محدود ہو کر رہ جاتا ہے۔ ہم یہ بھول جاتے
ہیں کہ ہم سے ہر روز بے شمار غیر اختلافی سنتیں چھوٹ رہی ہیں۔ ہم بحث و
مباحثہ میں پڑ کر دانستہ یا غیر دانستہ طور پر دلآزاری جیسے بدترین گناہ کے
مرتکب ہو بیٹھتے ہیں۔رسول اکرم ﷺ کی واضح حدیث ہے کہ ’’ایک مسلمان کا دوسرے
مسلمان پر اس کا خون، مال اور اس کی آبرو پر حملہ کرنا حرام
ہے‘‘(مسلم)۔مشاہدہ بتاتا ہے کہ جو لوگ اختلافی مسائل میں حد سے زیادہ
دلچسپی لیتے ہیں ان کے مزاج میں غصہ، چڑچڑاپن، انانیت اور تعصب جیسی بری
خصلتیں داخل ہو جاتی ہیں۔ لہجے سے نرمی جاتی رہتی ہے۔ اپنی بات منوانے کے
لیے آواز کو بلند کرنا، چیخنا، مخاطب کو زیر کرنے کے لیے طنز و تمسخر کا
سہارا لینا ان کی مجبوری بن جاتی ہے۔ وہ اپنے ’’غیر ضروری‘‘ مشن کی تکمیل
میں یہ بھی یا دنہیں رکھتے کہ وہ قرآنی آیات اور متعدد غیر اختلافی احادیث
کی رو سے گناہ کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ قرآن میں بہت ہی دو ٹوک انداز میں
فرمایا گیا ہے کہ ’’ائے ایمان والو! نہ مردوں کی کوئی جماعت دوسرے مردوں کا
مذاق اڑائے ممکن ہے وہ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق
اڑائیں ہو سکتا ہے وہ ان سے بہتر ہوں۔‘‘(سورۃ الحجرات)۔ رسول رحمت ﷺ کا
ارشاد گرامی ہے ’’جو کوئی کسی مسلمان کی آبرو ریزی کرے گا تو اس پر اﷲ،
فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہوتی ہے، اس کی نفل اور فرض عبادت قبول نہیں
ہوگی۔‘‘(صحیح بخاری)۔اکثر دفعہ مسلکی اور اختلافی موضوعات پر گفتگو کرتے
ہوئے بدکلامی کی تمام حدیں پار کر دی جاتی ہیں۔ سوشل میڈیا پر اچھے خاصے
پڑھے لکھے لوگ گالی گلوج کرتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ ایک موقع پر نبی اکرمﷺ نے
حضرت عائشہؓ سے فرمایا کہ قیامت کے دن اﷲ تعالی کے نزدیک سب سے برا شخص وہ
ہوگا جس کی بدزبانی کی وجہ سے لوگ اس سے ملنا ترک کر دیں۔(مسلم)۔ مسلم شریف
کی ہی ایک روایت کے مطابق آپﷺ نے فرمایا کہ جو آدمی نرمی اختیار کرنے سے
محروم رہا وہ آدمی بھلائی سے محروم رہا۔
اختلافی مسائل میں دلچسپی لینا اور سنت رسولﷺ پر صحیح طریقے سے عمل کرنے کی
کوشش کرنا یقینا کوئی بری بات نہیں۔بلکہ ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ ہم قرآن و
احادیث کو ترجمے سے اوپر اٹھ کر ان کے حقیقی روپ میں سمجھنے کی کوشش کریں
لیکن افسوس کہ اس کوشش میں ہم دین کے دوسرے اہم ترین تقاضوں کو پس پشت ڈال
دیتے ہیں۔ اپنے مسلک اور نظریے کی بالادستی ثابت کرنے میں اگر قرآن و حدیث
کے اصولوں کی خلاف ورزی بھی ہو تو ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس ضمن میں ایک
واقعہ یاد آ رہا ہے۔
کچھ روز قبل ایک محفل میں میرے دو شناسا رفع الیدین کے معاملہ پر الجھ پڑے۔
بات خوشگوار انداز میں شروع ہوئی اور تلخ کلامی تک پہنچ گئی۔دو عالموں کے
بیچ میں مداخلت کرنا مجھے مناسب معلوم نہیں ہو رہا تھا۔ جب مجھے زبردستی
بحث میں گھسیٹنے کی کوشش کی گئی تو میں نے دونوں فریق سے صرف ایک سوال
پوچھنے کی اجازت چاہی۔ جو صاحب رفع الیدین کا انکار کر رہے تھے میں نے اُن
سے صرف اتنا جاننا چاہا کہ کیا جو لوگ رفع الیدین کرتے ہیں وہ گنہگار ہیں
اور رفع الیدین کرنے کی وجہ سے جہنم میں جائیں گے؟ کیا رفع الیدین کرنے کی
وجہ سے ان کی نمازیں رد کر دی جائیں گی؟ اسی طرح جو صاحب رفع الیدین کے حق
میں اپنے علم کا مظاہرہ کر رہے تھے ان سے بھی جاننا چاہا کہ کیا جو لوگ رفع
الیدین نہیں کرتے وہ گنہگار ہیں، رفع الیدین کرنے کی وجہ سے جنہم میں جائیں
گے؟ کیا ان کی نمازیں رد کر دی جائیں گی؟ میرے سوال پر دونوں حضرات خاموش
رہ گئے۔
علماء کا اتفاق ہے کہ فقہی مسائل میں اختلاف ہونے کی صورت میں جو گروہ حق
پر ہوگا اسے اپنے عمل کو دو اجر ملے گا اور جس کے اجتہاد میں غلطی ہوگی اسے
ایک اجر ملے گا۔ گناہ کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہاں اس صورت میں گناہ
ضرور ہوگا کہ بحث و مباحثے کے نتیجے میں دو شخص یا گروہ کے بیچ رنجش، نفرت
اور دشمنی پیدا ہو جائے۔ کاش اتنی موٹی سی بات ہم سمجھ پاتے۔
اختلافی مسائل اور عنوانات پر قوم کی دلچسپی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ شہر،
گاؤں، قصبہ، مسجد ، مدرسہ ہر جگہ آپ کو اختلافی موضوعات پر جلسے جلوس،
سمینار ، کانفرنس وغیرہ ہوتے نظر آجائیں گے لیکن دوسرے ہزاراہا ایسے
موضوعات اور عنوانات جس پر تمام مسالک و مکاتب کا اتفاق ہے پر ہماری نظر
نہیں جاتی۔ اسلام میں پڑوسیوں کا کس قدر حق ہے اس کا اندازہ اس بات سے
لگایا جا سکتا ہے کہ ایک موقع پر رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ ’’جبریل مجھے
پڑوسی کے حق کے بارے میں اس قدر وصیت کرتے رہے کہ مجھے خیال ہونے لگا کہ وہ
پڑوسی کو وارث بنا دیں گے۔‘‘ صحیح بخاری کی ایک روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے
فرمایا کہ وہ شخص مومن نہیں جو خود پیٹ بھر کر کھائے اور اُس کا پڑوسی اس
کے پہلو میں بھوکا ہو۔‘‘
ذرا تھنڈے دل سے سوچیے کہ کیا ہم اپنے پڑوسیوں کے تعلق سے اتنے حساس ہیں کہ
اپنے گھروں سے نکل کر یہ جاننے کی زحمت کریں کہ ہمارے گھر کے آس پاس کوئی
ایسا گھر تو نہیں جہاں کسی وجہ سے چولہا نہ جلا ہو؟یہ تو صرف ایک مثال ہے
ورنہ ایسی بے شمار غیر اختلافی سنتیں ہیں جن پر عمل کرنے پر بے شمار اجر ا
کا وعدہ اور چھوڑنے پر سخت تنبیہ کی گئی ہے لیکن ایسی سنتوں پر عمل کر کے
ہمیں اپنی قابلیت کا مظاہرہ کرنے کا موقع نہیں ملتا۔ ذرا سوچیے کہ اختلافی
مسائل میں الجھنے والے لوگ دوسروں کا دکھ درد دور کرنے کے معاملہ میں ایک
دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟ |