سورہ بقرہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْ اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًی لِّلنَّاسِ
وَبَيِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰی وَالْفُرْقَانِ.
’’رمضان کا مہینہ (وہ ہے) جس میں قرآن اتارا گیا ہے جو لوگوں کے لیے ہدایت
ہے اور (جس میں) رہنمائی کرنے والی اور (حق و باطل میں) امتیاز کرنے والی
واضح نشانیاں ہیں‘‘۔البقرة، 2: 185
اللہ تعالیٰ نے رمضان کا تعارف قرآن کے ساتھ کرایا ہے، یعنی رمضان کی عظمت
اور فضیلت اس وجہ سے ہے کہ اس میں قرآن نازل ہوا، ورنہ رمضان بھی باقی
مہینوں کی طرح ایک مہینہ ہے۔اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جس چیز نے رمضان کے
مہینے کو عظیم بنا دیا وہ قرآن ہے تو قرآن کیا ہے۔؟ چنانچہ آگے کے چند
الفاظ میں قرآن کا تعارف یوں کروایا کہ وہ انسانوں کو ہدایت دینے والی کتاب
ہے۔
یعنی اللہ تعالیٰ قرآن کا تعارف ہدایت کے ساتھ کروارہے ہیں کہ یہ ہدایت کی
کتاب ہے۔ قرآن کا یہ تعارف یعنی ہدایت کی کتاب ہونا صرف اسی مقام پر نہیں
بلکہ قرآن کی مختلف سورتوں میں کئی مقامات پر آیا ہے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا ہمیں قرآن کا یہ تعارف ہے۔؟؟ عام طور پر عوام
میں قرآن کوایصال ثواب کی کتاب سمجھا جاتا ہے۔ یا برکت کی کتاب سمجھا جاتا
ہے ، جب کوئی نئی دکان یا مکان بنایا جاتا ہے تو بچوں کو بلا کر ختم شریف
پڑھ لیا جاتا ہے تاکہ برکت حاصل ہوجائے، یا کسی کے انتقال کے بعد ختم کرلیا
جاتا ہے کہ ایصال ثواب ہوجائے۔یا پھر مختلف سورتوں کے من گھڑت فضائل کہ
فلاں سورت کو اتنی بار پڑھنے سے کاروبار تیز ہوجائے گا۔ فلاں سورت کو بوتل
میں بند کرکے کچن میں رکھنے سے کچن کبھی خالی نہیں ہوگا وغیرہ وغیرہ باتیں
مشہور ہوچکی ہیں۔اور عام عوام میں قران کا یہی تعارف مشہور و معروف ہے اور
لوگ قرآن کو اسی طرح کے کاموں کی کتاب سمجھتے ہیں۔حالانکہ اللہ تعالیٰ نے
قرآن میں قرآن کا یہ تعارف کہیں نہیں کروایا۔
ہمیں سوچنا چاہیے کہ جس سورت کو بوتل میں بند کرکے کچن میں رکھنے سے روزی
میں برکت کا عقیدہ ہم اختیار کیے ہوئے ہیں کیا وہ سورت اس وقت نازل ہوئی
تھی جب صحابہ کرام اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیٹ پر کھانا نہ ہونے کی
وجہ سے دو دو پتھر باندھے ہوئے تھے۔کیا جب حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور
دیگر اصحابہ صفہ کے طالبعلم بھوک سے بیہوش ہوجائے کرتے تھے، تو اللہ نے
کوئی آیت یا کوئی سورت اس بیہوشی کو دور کرنے کے لیے نازل فرمائی کہ اس آیت
کو اتنی بار ورد کرو، یا گلے میں لٹکاو تو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی بیہوشی
جسے لوگ مرگی سمجھتے تھے دور ہو جائے گی۔؟
اس آیہ کریمہ میں ’’ہدی للناس‘‘ کے الفاظ ہمیں پکار پکار کر یہ دعوت دے رہے
ہیں کہ قرآن کے نزول کا مقصد کیا ہے۔ قرآن ہمیں کیوں عطا کیا گیا اور قرآن
کو ہمارے لئے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے محفوظ کیوں کیا گیا۔ قرآن کے پڑھنے کی
ہمیں ترغیب کیوں دی گئی۔ قرآن کے ایک ایک حرف کو پڑھنے پر دس نیکیوں کا
وعدہ کیوں کیا گیا؟ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
من قرا حرفا من کتاب الله فله به حسنة والحسنة بعشر امثالها ولا اقول الم
حرف ولکن الف حرف و لام حرف و ميم حرف.
جس شخص نے قرآن حکیم کا ایک حرف پڑھا اس کے لئے نیکی ہے اور یہ ایک نیکی دس
نیکیوں کے برابر ہے میں یہ نہیں کہتا الم ایک حرف ہے بلکہ اس میں الف الگ
حرف ہے لام الگ حرف ہے اور میم الگ حرف ہے۔ ہر ایک حرف پر ثواب دس نیکیوں
کا ہے۔
(جامع ترمذی، فضائل القرآن)
قرآن کے الفاظ و کلمات کو پڑھنے پر اتنا زیادہ اجر و ثواب عطا کرنے کا وعدہ
کیوں کیا گیا۔ ان ساری ترغیبات کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ ہم قرآن پڑھنے
کی طرف راغب ہوجائیں اور قرآن پڑھتے پڑھتے اس سے ہدایت اخذ کرنے کی طرف
متوجہ ہوجائیں۔ قرآن کے ذریعے ہم اپنے دین کو سیکھ لیں۔ قرآن کے ذریعے ہم
اپنے مولا کو پالیں اور قرآن کے ذریعے اس کی توحید کی معرفت حاصل کرلیں اور
قرآن کے ذریعے ہم اس کی بندگی کی حقیقت کو پالیں۔
یہ معاملہ صرف قرآن کا نہیں بلکہ اللہ کی جتنی بھی کتابیں ہیں ساری کی ساری
دراصل ہدایت کے لیے ہی نازل ہوئی ہیں، چنانچہ تورات کے بارے ارشاد باری
تعالیٰ ہے:
وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسَی الْکِتٰبَ لَعَلَّهُمْ يَهْتَدُوْنَ.
’’اور بے شک ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب عطا فرمائی تاکہ وہ لوگ
ہدایت پا جائیں‘‘۔المومنون، 23: 49
رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
ترکت فيکم امرين لن تضلوا ماتمسکتم بهما کتاب الله وسنة نبيه. (رواه مالک
والحاکم عن ابی هريره رضی الله عنه)
’’میں تمہارے پاس دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں اگر تم انہیں تھامے رکھو گے تو
کبھی گمراہ نہ ہوگے۔ ایک اللہ کی کتاب اور دوسری تمہارے نبی کی سنت‘‘۔
یہ حدیث مبارکہ بھی ہمیں اس حقیقت کی طرف متوجہ کرتی ہے کہ کتاب اللہ اور
سنت رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمسک میں ہی ہدایت ہے۔ جس نے کتاب
اللہ کو اور سنت رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سختی سے پکڑ لیا وہ کبھی
بھی گمراہ نہ ہوگا۔ وہ ہدایت پر ہی رہے گا۔
لیکن اب سوال یہ ہے کتاب اللہ یعنی قرآن کا تمسک کیسے کیا جائے، قرآن کو
مضبوطی سے کیسے پکڑا جائے۔؟ تو فرمایا:
وان تطيعوه تهتدوا.
’’اگر تم ان کی (رسول کی) اطاعت کرو تو ہدایت پاجاؤ گے‘‘۔النور،24: 54
گویا رسول کی اطاعت میں تمہارے لئے ہدایت کا سامان رکھ دیا گیا ہے۔اب رسول
کی اطاعت تمہیں کیسے اختیار کرنی ہے۔ اس اطاعت کی عملی صورت یہ ہے کہ تم
رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کہی ہوئی ہر بات کو، ہر حدیث کو، ہر
فرمان کو اپنا عمل بنالو۔
رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس سے ہدایت حاصل کرنے کی
پہلی صورت اطاعت رسول ہے ۔جبکہ دوسری صورت کا بھی قرآن ذکر کرتا ہے اور وہ
ہے اتباع رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَاتَّبِعُوْهُ لَعَلَّکُمْ تَهْتَدُوْنَ.
’’اور تم انہی کی پیروی کرو تاکہ تم ہدایت پاسکو‘‘۔الاعراف، 7: 158
یعنی جو خودکو اتباع رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیکر بنائے گا وہ
ہدایت یافتہ ہوگا۔
اطاعت اور اتباع میں معمولی سا فرق بھی ملاحظہ فرمالیں۔ اطاعت رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل پر چلنا ہے۔ جبکہ اتباع رسول صلیٰ اللہ
علیہ وآلہ وسلم کے نقش قدم پر چلنا ہے۔ اطاعت میں عقل کا غلبہ ہوتا ہےاور
اتباع میں دل کا غلبہ ہوتا ہے ۔اطاعت، رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے
قول و فعل کی وجہ جانتی ہے۔جبکہ اتباع، رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے
قول فعل کی وجہ بھی نہیں جانتی۔
اطاعت میں محبت رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا غلبہ ہوتا ہے اور اتباع
میں عشق رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا غلبہ ہوتا ہے۔ اطاعت، رسول اللہ
صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شرعی اداؤں کو اختیار کرنے کا نام ہے اور
اتباع، رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہر ادا کو اختیار کرنے کا
نام ہے۔ اطاعت میں اپنی شخصیت کا احساس رہتا ہے اور اتباع میں رسول صلیٰ
اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت ہی باقی رہ جاتی ہے۔ اطاعت میں اپنے وجود کا
خیال رہتا ہے۔ اتباع میں اپنا وجود بھی وجود مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ
وسلم میں فنا کردیا جاتا ہے۔
رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع ہی انسان کو ’’لعلکم تهتدون‘‘ کا
اعزاز بھی دیتی ہے اور ’’يحببکم الله‘‘ کا بلند مقام بھی دیتی ہے۔ اس لئے
ارشاد فرمایا:
قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اﷲَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْکُمُ اﷲُ
وَيَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ.
’’ اے حبیب!) آپ فرما دیں: اگر تم اﷲ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تب
اﷲ تمہیں (اپنا) محبوب بنا لے گا اور تمہارے لیے تمہارے گناہ معاف فرما دے
گا‘‘۔آل عمران، 3: 31
پھر قرآن نے جو دعویٰ اور چیلنج کیا ہے دنیا کی کوئی کتاب نہ اس طرح کا
دعویٰ کرسکتی ہے اور نہ اس طرح کا چیلنج کرسکتی ہے۔ قرآن کا اعلان ہے:
اِنَّ هٰذَا الْقُرْاٰنَ يَهْدِيْ لِلَّتِيْ هِيَ اَقْوَمُ.
’’بے شک یہ قرآن درست منزل کی طرف ہدایت کرتا ہے۔بنی اسرائيل،17: 9
چنانچہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم میرے بعد ہدایت پر
ہی رہو گے۔ جب تک تم ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے ہاتھ میں میری سنت و حدیث
کو تھامے رہو گے۔
قرآن سے تعلق توڑنا ہدایت سے تعلق توڑنا ہے۔ آج کے مسلمانوں نے قرآن کو
قلباً اور ذہناً نہیں چھوڑا ہے بلکہ عملاً چھوڑا ہے۔ اسی کا شکوہ قیامت کے
روز رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم امت کی بابت اللہ رب العزت کی
بارگاہ میں یوں کریں گے۔
وَقَالَ الرَّسُوْلُ يٰـرَبِّ اِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوْا هٰذَا الْقُرْاٰنَ
مَهْجُوْرًا.
’’اور رسولِ (اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) عرض کریں گے: اے رب! بے شک
میری قوم نے اس قرآن کو بالکل ہی چھوڑ رکھا تھا‘‘۔فرقان، 25: 30
قرآن سے ہدایت لینے کے لیے مسلسل اس کی تلاوت جاری رکھنا نہایت ضروری ہے
اور قرآن ہی اس کا حکم دیتا ہے چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَاتْلُ مَآ اُوْحِيَ اِلَيْکَ مِنْ کِتَابِ رَبِّکَ
اس قرآن کی تلاوت کیا کرو۔’’جو آپ کے رب کی طرف وحی کیا گیا ہے‘‘۔الکهف،
18: 27
قرآن کی تلاوت اس لیے ضروری ہے کہ یہ انسانوں کو ہدایت کی طرف لے جاتی ہے،
انسانوں کو بندگی اور اطاعت پر چلاتی ہے، اور اللہ کی طرف سے انعامات کا
مستحق بناتی ہے۔ فرمایا:
وَّاُمِرْتُ اَنْ اَکُوْنَ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ. وَ اَنْ اَتْلُوَا
الْقُرْاٰنَ ج فَمَنِ اهْتَدٰی فَاِنَّمَا يَهْتَدِيْ لِنَفْسِهِ.
’’اور مجھے (یہ) حکم (بھی) دیا گیا ہے کہ میں (اللہ کے) فرمانبرداروں میں
رہوں۔ نیز یہ کہ میں قرآن پڑھ کر سناتا رہوں سو جس شخص نے ہدایت قبول کی تو
اس نے اپنے ہی فائدہ کے لیے راہِ راست اختیار کی‘‘۔النحل، 27: 91 تا 92
اسی طرح تلاوت قرآن میں تسلسل بھی ضروری ہے، ایسا نہیں کہ کبھی جوش آیا تو
تین سپارے پڑھ لیے اور پھر مہینہ بھر اٹھا کر دیکھا بھی نہیں، تلاوت تسلسل
کے ساتھ ہو اگرچہ تھوڑی مقدار میں ہو، اسی لیے فرمایا:
فَاقْرَءُ وْا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْاٰنِ.
’’پس جتنا آسانی سے ہو سکے قرآن پڑھ لیا کرو‘‘۔المزمل، 73: 20
پھر اس تلاوت کا مقصد بھی محض تلاوت ہی نہیں ہونا چاہیے، بلکہ تلاوت کا
مقصد حصول ہدایت اور احکامات کو سمجھ کر عمل کرنا ہونا چاہیے، اس بات کو
سمجھانے کے لیے فرمایا:
اِنَّآ اَنْزَلْنٰهُ قُرْئٰنًا عَرَبِيًّا لَّعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ.
’’بے شک ہم نے اس کتاب کو قرآن کی صورت میں بزبانِ عربی اتارا تاکہ تم (اسے
براہِ راست) سمجھ سکو۔‘‘يوسف، 12: 2
قرآن کی تلاوت اور قرآن کا مقصد بھی یہی ہے کہ لعلمکم تعقلون کہ قرآن کو
سمجھا جائے۔
دوسرے مقام پر فرمایا یہ قرآن اس لئے ہے تاکہ اس کے ذریعے لقوم يعلمون (حم
السجده/ فصلت41/ 3) علم حاصل کیا جائے۔ اس قرآن کے ذریعے نئے نئے حقائق
جانے جائیں۔
جولوگ اس قرآن کو بار بار پڑھتے ہیں اور اس قرآن کی کثرت کے ساتھ تلاوت
کرتے ہیں ہم نے ان لوگوں کے لئے قرآن سے نصیحت حاصل کرنا آسان کردیا ہے۔
ارشاد فرمایا:
وَ لَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّکْرِ فَهَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ.
’’اور بے شک ہم نے قرآن کو نصیحت کے لیے آسان کر دیا ہے سو کیا کوئی نصیحت
حاصل کرنے والا ہے؟‘‘۔القمر، 54: 22
یہ قرآن ہماری انفرادی اجتماعی اور بین الاقوامی زندگی کے لئے بھی تذکرہ و
نصیحت ہے۔
انفرادی زندگی کے لئے اس طرح کہ ان ھذہ تذکرۃ (المزمل:19) یہ قرآن نصیحت
ہے۔
اور اجتماعی زندگی کے لئےاس طرح کہ انہ لذکر لک ولقومک۔ یہ قرآن آپ کے لئے
اور آپ کی پوری قوم کے لئے بھی نصیحت ہے ۔
اور بین الاقوامی زندگی کے لئے اس طرح کہ ان هوا الا ذکر للعلمين (انعام:
91) یہ قرآن تمام عالم کے لئے نصیحت و ہدایت ہے۔
قرآن محض تلاوت (بغیر سمجھے) کے بجائے تفکر اور تدبر پر زور دیتا ہے اور
جھنجھوڑتے ہوئے یوں بیان کرتا ہے:
اَفَـلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰی قُلُوْبٍ اَقْفَالُهَا.
’’کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر تالے (لگے ہوئے)
ہیں‘‘۔محمد، 47: 24
قرآن اپنے ماننے والوں کو جھنجھوڑتا ہے کہ قرآن کو سمجھنا ہے تو تفکر فی
القرآن کا عمل اختیار کرو۔ قرآن کو جاننا ہے تو تدبر فی القرآن کا وظیفہ
اپناو، قرآن میں فہم حاصل کرنا ہے تو تذکیر بالقرآن پر عمل کرو، قرآن سے
ہدایت لینی ہے تو تمسک بالقرآن پر کاربند ہوجاو۔ قرآن سے قول و فعل اور خلق
و سیرت کی خیرات اور روشنی لینی ہے تو تلاوت بالقرآن کو اپنا معمول بناو۔
اقوامِ عالم میں عزت اور رفعت کے ساتھ جینا ہے تو ہدیات بالقرآن کو اپنا
قومی وملی شعار بناو۔
قرآن یہ سبق بھی دیتا ہے کہ تم کلمہ پڑھنے کے بعد بھی قرآن کے بغیر کچھ
نہیں، ۔ تم سے پہلے یہود و نصاریٰ کی بھی ساری عظمتیں تورات اور انجیل پر
عمل کرنے سے وابستہ تھیں۔ اس حقیقت کو قرآن میں یوں فرمایا گیا:
قُلْ يٰـاَهْلَ الْکِتٰبِ لَسْتُمْ عَلٰی شَئٍ حَتّٰی تُقِيْمُوا
التَّوْرٰةَ وَالْاِنْجِيْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ.
’’فرما دیجیے: اے اہلِ کتاب! تم (دین میں سے) کسی شے پر بھی نہیں ہو، یہاں
تک کہ تم تورات اور انجیل اور جو کچھ تمہاری طرف تمہارے رب کی جانب سے نازل
کیا گیا ہے (نافذ اور) قائم کر دو‘‘۔المائدة، 5: 68
اس لئے تمہاری ساری عزتیں ، تمہاری ساری عظمتیں ، تمہاری ساری رفعتیں،
تمہاری ساری فضیلتیں اور بلندیاں قرآن سے ہیں۔
قرآن تمہاری شناخت ، تمہاری پہچان ، تمہارا عمل ، تمہارا قول ، تمہاری سیرت
ہے۔ اور قرآن سے تمہاری شخصیت ، تمہاری وحدت ، تمہاری اجتماعیت ،اور تمہاری
زندگی ہے ۔قرآن ہی میں تمہاری انفرادی اور اجتماعی زندگی کی عزت وابستہ ہے
بصورت دیگر تمہار اقبال کے اس شعر کا مصداق ہوگا۔
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہوکر
اور ہم خوار ہوئے تارک قرآن ہوکر
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم قرآن کی طرف لوٹنے کا عہد کریں، قرآن سے اپنا
اطہ مضبوط کریں۔ قرآن سے ہی فکر حاصل کریں، قرآن سےہی تزکیہ نفوس کریں،
قرآن کو کتاب ہدایت جانیں، قرآن سے اپنی انفرادی زندگی سنواریں اور قرآن سے
اپنی اجتماعی زندگی کی اصلاح کریں، قرآن کو رسول اللہ کا زندہ معجزہ جانیں
اور قرآن کی زندہ فکر کو اپنائیں۔
|