پچھلے چند دن سے وہ میرے حواس پر سوار تھی۔ اٹھتے ،بیٹھتے
، سوتے، جاگتے مجھے یوں لگتا جیسے مجھے بلا رہی ہو،
’’صاحب آپ میری طرف آرہے ہیں نا۔ میرے بچے آپ کو بہت یاد کرتے ہیں۔ ضرور ٓائیں،آپ
کو آنا ہے۔ مہربانی ہو گی‘‘۔خصوصاً ’’آپ کو آنا ہے‘‘ کی رٹ نے تو مجھے حد
سے زیادہ پریشان کر دیا تھا۔
میں گھر جاتے ہوئے جب بھی اس چوک سے گزرتا جہاں سے راستہ اس کے گھر کو مڑتا
تھا، یہ الفاظ بار بار میرے ذہن میں ابھرتے۔ میں سر کو زور سے جھٹکتا کہ
کیا مصیبت ہے ۔میں کیوں اس کی طرف جاؤں۔ میرا اور اس کا کیا جوڑ۔ میں ایک
فیکٹری مالک اور وہ ایک معمولی مزدور۔ میرا اور اس کی عمر کا پندرہ بیس سال
کا فرق، کوئی مشترکہ بات نہیں مگر اس کی وہ اک صدا کہ میرا پیچھا ہی نہیں
چھوڑتی تھی۔مجھے لگتا تھا میں اس مغنیہ کی پکار ’’آپ کو آنا ہے ‘‘کے سحر
میں گرفتا ر تھا۔
میں فیکٹری کے دفتر میں بیٹھااخبار کا مطالعہ کر رہا تھا۔ کہ آواز آئی ،’’
میں اندر آ سکتی ہوں‘‘۔ یوں لگا جیسے گھنٹیاں بج گئی ہوں ۔ کسی چنچل الہڑ
دوشیزہ نے اپنی خوبصورت آواز میں مجھے پکارا ہو۔ بڑے اشتیاق سے میں نے
دروازے کی طرف دیکھا۔بڑھاپے کو چھوتی ایک سانولی اور بھدی سی عورت کھڑی تھی۔
میں نے سر کو جھٹک کر حیرانی سے پوچھا، ’’آپ نے کچھ کہا ہے۔‘‘
وہ مسکراتی ہوئی آگے بڑھی۔ ’’مجھے آپ سے ایک کام ہے ، ملنا چاہتی تھی ۔
اجازت لے رہی تھی‘‘۔ وہی آواز ، وہی دل موہ لینے والا لہجہ۔ فطرت بھی کمال
ہے ، کالی کلوٹی کوئل کو مغنی بنا دیتی ہے ۔ اس کی آواز کا بھی اس کے حلئے
سے کوئی میل نہ تھا۔ سانولا رنگ، موٹا اور بھدا جسم، درمیانہ قد۔ بڑھاپا
شروع تھا۔مجھ سے کوئی پندرہ بیس سال بڑی ہو گی مگر آواز میں بلا کی کھنک
اور شہد کی شیرینی تھی۔ میرے اشارے پر وہ آکر میرے سامنے بیٹھ گئی۔
بیٹھ کر اس نے حواس مجتمع کئے اورمسکراتی ہوئی کہنے لگی۔ ’’صاحب گھر کے
حالات اچھے نہیں۔ میرے میاں روزانہ کی بنیاد پر مزدوری کرتے ہیں۔ان کا کام
چھوٹ گیا ہے ۔بے روز گاری سے گھر کی حالت خراب ہے۔ میرے چھوٹے چھوٹے بچے
ہیں ،وہ بھی گھر کی حالت سے پریشان ہیں۔ نوکری دے دیں۔ پوری محنت سے کام
کروں گی ۔ میرے بچے بھی آپ کو دعا دیں گے۔کام نہ ملا تو ہم بھوکے مر جائیں
گے‘‘۔ایک ہی منٹ میں اس نے بہت کچھ کہہ دیا۔ اس کی شکل اور جسم جس قدر بھدے
تھے لہجہ اسی قدر خوبصورت تھا۔ میں جانتا تھا ا یسی موٹی عورت کام نہیں کر
سکتی، اسلئے جیب سے کچھ روپے نکالے اور اسے دے کر رخصت کرنے کی کوشش کی مگر
اس نے کچھ بھی لینے سے انکار کر دیا۔
’’صاحب ایک دفعہ پیسے لے کر کیا کروں گی ۔ پتہ نہیں میرے میاں کو کب کام
ملے ، اتنے دن میں کیا کروں گی‘‘
میرا جی چاہا اسے جواب دے دوں مگر اس کی آوازکے طلسم نے مجھے جواب دینے سے
روکے رکھا۔ میں نے انچارج کو بلایا اور ہدایت کی کہ اس بزرگ عورت کو کسی
آسان سے کام پر لگا دو۔شکریہ ادا کرتے وہ مسکراتی انچارج کے ساتھ چلی
گئی۔اگلے دنوں میں روزانہ کسی وقفے کے دوران وہ میرے دفتر کادروازہ کھولتی
۔ تشکر کے کچھ کلمات کہتی، دعائیں دیتی اور وہیں سے اسی طرح دروازہ بند کر
کے پلٹ جاتی اور میں دیر تک اس کوئل کو فطرت کو عطا کی ہوئی نغمگی پر غور
کرتا رہتا۔
چند دن بعد انچارج میرے پاس آیا اور بتانے لگا کہ موٹاپے کے باعث اٹھنا ،
بیٹھنا اور بھاگ دوڑ کرنا اس کے بس کی بات نہیں ، کوشش کے باوجود وہ دوسرے
کا ساتھ نہیں دے سکتی۔ کوئی اس کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار نہیں ہوتا ۔
وہ مجھ سے پوچھنا چاہتا تھا کہ اس صورت حال میں وہ کیا کرے۔میں نے کہا کہ
بتاتا ہوں۔جانے کیوں مجھ میں اسے جواب دینے کی ہمت نہ تھی۔
چھٹی کے وقت وہ مسکراتی ہوئی میرے پاس موجود تھی۔بتانے لگی کہ اس کے میاں
کو کام مل گیا ہے۔اگر میں برا نہ مانوں تو وہ اگلے دن سے فیکٹری نہ آئے۔
میں ہنسنے لگا کہ اس نے میری مشکل آسان کر دی تھی ۔ میں نے اکاؤنٹنٹ کو
ہدایت کی کہ اس نے جتنے دن کام کیا ہے اس کا معاوضہ اسے دے دے۔ پیسے وصول
کرنے کے بعد وہ دوبارہ آئی۔
’’صاحب، آپ کی مہربانی، ہماری مشکل میں آپ نے ہمارا ساتھ دیا۔میرے بچے آپ
کو دعائیں دیتے ہیں۔ وہ آپ سے ملنا بھی چاہتے ہیں۔ ہم غریب لوگ ہیں۔ اگر آپ
کو برا نہ لگے تو کبھی میرے گھر آئیں۔ آئیں گے ناں‘‘۔’’ ٹھیک ہے آؤں
گا‘‘۔میں نے جواب دیا۔وہ خوش ہو گئی اور کہنے لگی۔’’ آپ کا گھر فلاں علاقے
میں ہے۔ گھر جاتے ہوئے آپ فلاں چوک سے دائیں مڑ جائیں۔ بس ایک فرلانگ
پردائیں طرف ہماری کالونی کا ایک بڑا سا بورڈ لگا ہوا ہے۔ بڑی چوڑی گلی ہے۔
تھوڑا سا اندر آئیں گے تو قبرستان شروع ہو جائے گا۔ گاڑی کھڑی کرکے نیچے
اتریں ۔ سامنے قبرستان کے آخر میں دیوار میں ایک بڑا دروازہ ہے ۔ اس دروازے
کے اندر ہماری بستی ہے۔ دروازے سے گزر کر بستی میں آ جائیں ۔ بائیں طرف
تیسری گلی میں داخل ہوں۔ گلی میں بائیں طرف والا پہلا مکان ہمارا ہے۔ مشکل
ہو تو کسی سے پوچھ لیں ، خالہ صفو کا گھر کونسا ہے۔ سب جانتے اور عزت کرتے
ہیں۔ آپ کو گھر پہنچا دیں گے ، ہم انتظار کریں گے، صاحب جی ! آپ کو آنا ہے
‘‘۔ــ’’ہاں ہاں آؤں گا‘‘۔ میں نے جان چھڑانے کے لئے کہہ دیا اور وہ دعائیں
دیتی چلی گئی۔
پچھلے دو تین سال میں وہ تقریباً ہر مہینے کسی نہ کسی دن فیکٹری آتی۔چند دن
کام کرنے کے دوران فیکٹری میں کام کرنے والی دوسری عورتیں جو اس کی واقف ہو
گئی تھیں ان سے گپ شپ کرتی اور جاتے ہوئے مجھے ملتی ۔ دروازہ کھولتی اور
وہیں کھڑے کھڑے اپنے گھر آنے کی دعوت دیتی اور اسی پرانے انداز میں وعدہ
لیتی’’آپ آئیں گے نا، آپ کو آ نا ہے‘‘۔میں ’’اچھا آؤں گا‘‘کہتا۔ وہ دوبارہ
گھر کا راستہ پوری طرح بیان کرتی ، کچھ دعائیں دیتی اور پھر مہینے ڈیڑھ کے
لئے غائب۔ میرا اس سے سے ایسا کیا رشتہ تھا کہ میں وہاں جاتا۔ پھر ایسی
چھوٹی سی بستی میں میرا جانا ،کسی جاننے والے نے دیکھ لیا توخوامخواہ لوگ
افسانے بنا لیتے۔اس لئے میں نہ گیا اور نہ ہی کبھی جانے کا سوچا۔
آج صبح صبح میں اپنے معمول کے مطابق فیکٹری کی طرف رواں دواں تھا۔ اس چوک
کے قریب ،جہاں سے اس کے گھر کا راستہ مڑتا تھا، یوں لگا جیسے ذہن میں ’’ آپ
کو آناہے ‘‘کی آوازشدت کے ساتھ ابھر آئی اور مجھے جیسے کوئی واقعی بلا رہا
ہے۔ چوک میں پہنچا تو جیسے کوئی غیر مرئی قوت میری گاڑی موڑنے کی کوشش میں
ہے۔ میں نے گاڑی آہستہ کی ،خود کو سنبھالا اور تیزی سے چوک عبور کر گیا
۔فیکٹری عام طور پر میرے آنے سے پہلے کوئی نہ کوئی شخص کسی کاروباری سلسلے
میں میرا انتظار کر رہا ہوتا ہے۔ آج مگراتفاق سے کوئی بھی موجود نہ تھا۔
دفتر میں جا بیٹھا مگر یوں لگا جیسے کسی ویران سی جگہ آ بیٹھا ہوں۔ ذہن پر
ہتھوڑے سے بجنے لگنے’’آپ کو آنا ہے‘‘۔
اف کیا مصیبت ہے ، میں نے سوچا۔ مگر ایک عجیب بے چینی تھی کہ کم ہونے میں
نہیں آ رہی تھی۔’’آپ کو آنا ہے ‘‘ کی تکرار ذہن سے ختم ہی نہیں ہو رہی
تھی۔بے چینی بڑھتی جا رہی تھی ، سر میں درد محسوس ہونے لگا۔ گھر جا کر آرام
کرنے کا فیصلہ کرکے میں اٹھا اور گاڑی واپس گھر کی طرف چلا دی۔سوچنے لگا
گھر میں معمول سے ہٹ کر جلدی آنے کی وجہ سے سب پریشان ہوں گے کہ شاید طبیعت
زیادہ خراب ہے۔خود تو پریشان ہوں انہیں کیوں کروں ۔ بڑاسوچ کر فیصلہ کیا کہ
قریب ہی ایک دوست ہے اس سے ملاقات کی جائے۔ اس دوست کا گھرصفو کے گھر والی
سڑک پر تھوڑا آگے تھا۔چوک میں گاڑی اسی سڑک پر موڑ دی۔صبح سے ہر چوک پر
گاڑی مڑتے یا آگے بڑھتے مجھے لگتا تھا کہ گاڑی میرے ارادے کا ساتھ نہیں دے
رہی ، کوئی قوت اسے روک رہی ہے مگر اب یوں لگا جیسے گاڑی خوش خوش خود ہی مڑ
گئی ہے۔
جا تومیں اپنے دوست کی طرف رہا تھا مگر غیر شعوری طور پر میری آنکھیں سڑک
پر اس بستی کا بورڈ تلاش کر رہی تھیں جس کا پتہ صفو نے بتایا تھا۔ جلد بورڈ
نظر آگیا۔ میں نے گاڑی روک دی ۔ بورڈ کے ساتھ چوڑی سی گلی دورتک جا رہی تھی
۔ میں نے جائزہ لیا۔ کچھ دیر سوچتا رہا شدت سے جی چاہا کہ بستی کی طرف مڑ
جاؤں مگر نہیں اور زبر دست ذہنی کشمکش میں، میں نے گاڑی آگے بڑھا دی۔جوں
جوں گاڑی آگے بڑھ رہی تھی ،’’آپ کو آنا ہے ‘‘ کی گردان میرے اندر شدت
اختیار کرتی جا رہی تھی۔
میرے دوست کا گھر آ گیا۔ وہ گھر پر موجود نہیں تھا۔ یقیناً اسے کام پر جانا
ہوتا ہے اور وہ گیا ہو گا۔ یہ جانتے ہوئے بھی میں اس کی طرف کیوں آ گیا۔
گھر ہی جانے کا سوچ کر میں مڑا۔ راستے میں جوں جوں اس کی بستی قریب آ رہی
تھی مجھے صفو کی باتیں اور اس کا خوبصورت لہجہ یاد آ رہا تھا۔مجھے پتہ ہی
نہیں چلا کہ کب اس کی بستی کا وہ بورڈ آیا اور کب میری گاڑی اس گلی میں
داخل ہوئی۔ قبرستان آ گیا تھا۔ میں نے گاڑی گلی سے تھوڑی ہٹا کر قبرستان کی
کچی زمین پر کھڑی کی۔ باہر نکلا۔سامنے دور تک قبرستان پھیلا ہوا تھا۔ ایک
طرف ایک لمبی دیوار تھی۔ میں دیوار میں دروازہ تلاش کرنے لگا۔ دروازہ نظر
نہیں آ رہا تھا۔دیوار سے ذرہ پہلے بہت سے لوگ موجود تھے۔ کوئی تازہ قبر
تیار ہو رہی تھی۔ کوئی دنیا چھوڑ کر جا رہا تھا اور اس کے پیارے، اس کے
عزیز اور محلے دار اسے رخصت کر رہے تھے۔مجھے لگا ان لوگوں کی اوٹ میں
دروازہ ہے۔ میں ہجوم کی طرف چل پڑااور پھرمیں وہاں پہنچ کر سب سے آخر میں
ہجوم میں ہی شامل ہو گیا۔
دروازے تک لوگ ہی لوگ تھے اور ان کے بیچ میں سے گزرنا مشکل تھا۔اتنے میں
لوگ میت کو دفنا کر فارغ ہو گئے تھے اور واپس جانے لگے تھے۔ ایک آواز آئی
’’دعا پڑھیں جی‘‘۔ میں چونکہ ہجوم کے آخرمیں کھڑا ، ہجوم ہی کا حصہ تھا۔ اس
لئے سب کے ساتھ میں نے بھی دعا کے لئے ہاتھ اٹھا دئیے۔ جانے کون تھا،مگر
کسی کے لئے دعا پڑھنے میں تو کوئی حرج نہیں۔دعا پڑھنے کے بعد لوگ دروازے
میں داخل ہو گئے۔ میں مجبور تھا کہ ان کے پیچھے پیچھے چلوں۔ صرف تھوڑا سا
فاصلہ تھا۔ سوچاہجوم تیسری گلی سی گزر جائے تو میں گلی کے اندر اس کے گھر
کے سامنے ہوں گا۔ ہجوم میں سے بار بار آواز آتی ، ’’دعا پڑھیں ‘‘ ۔میرے
سمیت سب مڑتے، دعا پڑھتے اور پھر چلنا شروع ہو جاتے۔گو میں سب سے پیچھے تھا
مگر دعا پڑھتے سب سے آگے ہوتا۔ تیسری گلی آ ہی نہیں رہی تھی۔ مگر ایک بات
میں نے محسوس کی کہ ہر دعا کے بعد میری بے کلی اور ذہنی کشمکش کم ہوتی جا
رہی تھی۔ ذہن میں ہتھوڑے کی طرح بجنے والی آواز ’’آپ کو آنا ہے‘‘اب بند
ہوتی جا رہی تھی۔
تیسری گلی آ گئی تھی۔ لوگ سیدھا جانے کی بجائے اسی گلی میں مڑنے لگے۔تھوڑی
دیر میں آدھا ہجوم گلی کے اندر تھا اور آدھا باہر۔میں سوچنے لگا کہ کس غلط
وقت آ گیا ہوں ۔ اب یہ لوگ پتہ نہیں کب یہاں سے جائیں اور میں صفو سے
ملوں۔اب میں مکمل پر سکون تھا،تھوڑی انتظار کے بعد واپس فیکٹری چلنے کا
سوچاکیونکہ اب ذہنی بے چینی ختم ہو چکی تھی۔ ’’آپ کو آنا ہے‘‘ کے ہتھوڑے
غائب تھے ۔ بڑا مطمن میں مڑا۔ چھوٹے چھوٹے بچے کھیل رہے تھے۔ ایک بچے سے
میں نے پوچھا، ’’بیٹا یہاں کون فوت ہوا ہے‘‘۔
بچے نے زور سے جواب دیا، ’’خالہ صفو فوت ہو گئی ہے‘‘۔
تنویر صادق
|