کایا پلٹ گئی

سلمی دور بیٹھی مومو کو کھلونوں سے کھیلتا دیکھ کر حسرت بھری نگاہوں سے تک رہی تھی کہ اچانک ناز بیگم کی کرخت آواز کانوں میں سے ٹکرائی اور وہ اچھل پڑی۔ اے نگوڑی!کیسے اپنی غلیظ نظروں سے ہماری مومو کو گھورے جارہی ہے۔ کھائے گی کیا ہماری بٹیا کو؟؟ ناز بیگم نے مومو کو اپنے سینے سے لگاتے ہوئے کہا۔ نہیں بیگم صاحبہ وہ میں۔۔۔۔۔۔۔وہ۔۔۔۔ کیا وہ وہ لگا رکھی ہے۔ جا اور جاکر اپنی ماں کے ساتھ گھر کے کام کروا۔ تیری اوقات نہیں کہ تو ان کھلونوں کی طرف نظر اٹھا کر بھی دیکھے۔ ادھر بشیراں اپنی بیٹی کی بے عزتی دیکھ کر دل ہی دل میں کڑھ رہی تھی جیسے ہی سلمی اپنی امی کے پاس آئی اس کے رکے آنسو جاری ہوگئے۔۔۔ امی۔۔۔امی جی میں نے کچھ نہیں کہا تھا۔ میں تو کھلونوں کو دیکھ رہی تھی۔ امی جی میں۔۔۔ اچھا بس کر جا، دیکھ اس دفعہ پیسے ہاتھ آئیں گے تو تجھے بھی اچھے اچھے کھلونے لے کر دوں گی۔ ماں نے اسے تھپکی دیتے ہوئے کہا۔ اور امی جی عید بھی قریب ہے۔۔۔ مجھے نئے کپڑے اور نئے جوتے بھی لینے ہیں۔ سلمی نے ایک اور فرمائش کا اظہار کردیا جسے بشیراں سنتے ہی خیالوں میں کھو گئی۔ گھر کا راشن، بجلی گیس کے بل۔۔۔ سب اخراجات اس کے سامنے گھومنے لگے۔ وہ اکیلی عورت تھی اور چار بچے تھے۔ ان بچوں کے ابو جان تو تین سال بیمار رہنے کے بعد پچھلے سال وفات پا چکے تھے۔ اب مجبورا ًبشیراں ساتھ والے محلے کے ایک گھر میں کام کرکے کچھ روزی روٹی کا بندوبست کرتی تھی۔ امی جی آپ مجھے لے کر دیں گی نا۔ سلمی نے اپنی ماں کو دوبارہ متوجہ کیا۔ ہاں بیٹی اگر اﷲ نے چاہا تو ضرور لی کر دوں گی۔ چل اب جلدی جلدی کام کرکے واپس گھر چلتے ہیں۔ کل سے رمضان بھی شروع ہو رہا ہے۔اس کی تیاری بھی کرنی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رمضان شروع ہوچکا تھا۔ بیگم صاحبہ سحری اور افطاری بڑے ہی شاہانہ انداز میں تیار کرواتی تھیں۔ مگر مجال ہے کہ کبھی بشیراں یا سلمی کو بھی بلایا ہو۔ آئے روز ناز بیگم مومو کے ساتھ بازار جاتیں، رنگا رنگ کی شاپنگ کرتیں، لیکن بشیراں کے ہاتھ پر چند روپے رکھتے ہوئے ان کی جان نکلتی تھی۔ وہ تو اس کی تنخواہ بھی رورو کر دیتی تھیں۔ ناز بیگم کے گھر عید کی شاپنگ دیکھ کر سلمی کا دل بھی للچاتا تھا اور وہ اپنی ماں سے بھی عید کی شاپنگ کے لیے اصرار کرتی رہتی۔ بشیراں کا دل کرتا تھا کہ میرے بچے بھی عید پر نئے کپڑے اور جوتے پہنیں، لیکن ان کے پاس پیسے نہیں تھے اس لیے وہ صرف اپنے بچوں کو جھوٹے دلاسے دینے کے سوا کچھ نھیں کر سکتی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عید میں دو دن باقی تھے، باقی بچے چھوٹے تھے لیکن سلمی تھوڑی بڑی تھی اس لیے نئے کپڑوں کے لیے ابھی تک بضد تھی۔ بشیراں کافی اداس دکھائی دے رہی تھی۔۔۔ ناز بیگم نے جب بشیراں کی یہ حالت دیکھی تو بلایا اور پوچھا، بشیراں تو اتنی اداس دکھائی دے رہی ہے، کیا ہوا ہے تجھے؟ پہلی بار ناز بیگم کا نرم لہجہ دل کو چھو کر گزرا، آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے۔ وہ۔۔۔ وہ بیگم صاحبہ ایک تو گھر کے اخراجات اور دوسرا سلمی نے۔۔۔۔۔۔
بشیراں نے آخر ساری داستاں سنا دی۔ بس۔۔۔۔!دیکھ بشیراں تو سلمی کو سمجھا کہ تم غریب اور یتیم ہو اور دوسروں کی اوڑھنیاں پہن کر گزارا کرتے ہو۔ تمہاری اوقات نہیں نئے سوٹ پہننے کی۔ ناز بیگم نے طنزا کہا۔ بشیراں یک دم بدلتا رویہ دیکھ کر حیرت کا بت بنے بیگم صاحبہ کو تکنے لگی۔ مومو اپنے کام میں مصروف ہونے کے باوجود ماں اور بشیراں کی باتوں کو بخوبی سن رہی تھی۔ بشیراں چپ کرکے باہر اٹھ آئی۔ وہ کام نمٹا کر جلد از جلد گھر جانا چاہتی تھی۔ تاکہ سلمی کے لیے کچھ کرسکے۔ گھر آتے ہی کیا دیکھتی ہے کہ سلمی رو رو کر خود کو ہلکان کیے ہوئے ہے۔ ماں کو دیکھتے ہی شروع ہوگئی۔ ماں اس دفعہ بھی پرانا سوٹ پہنوں گی کیا۔۔؟

بیٹا اﷲ وسیلہ بنائے گا تو چپ ہوجا۔ دیکھ مجھے تیرا رونا برداشت نہیں ہوتا۔ ابھی ماں بیٹی کی باتوں کو کچھ ہی دیر گزری تھی کہ اچانک دروازے پر دستک ہوئی۔ دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ بشیراں دروازہ کھولنے آگے بڑھی۔ سامنے سے آتی شخصیت دیکھ کر منہ حیرت کے مارے کھلے کا کھلا رہ گیا۔ بیگم صاحبہ آپ۔۔۔۔۔۔!!!

بشیراں کے منہ سے بے اختیار نکلا۔۔۔ ہاں بشیراں۔۔۔!یہ سوٹ اور کچھ تحائف آپ لوگوں کے لیے۔ اور یہ۔۔۔ ناز بیگم نے دو بڑے شاپر اور لفافہ بشیراں کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ بیگم صاحبہ اس کی کیا ضرورت تھی؟ بشیراں یہ تمہارا حق ہے۔ بشیراں مجھے معاف کردو۔ میں نے تمہیں بہت نیچ اور گھٹیا سمجھا۔ ہر وقت تمہارے ساتھ تلخ لہجے میں بات کرتی تھی۔ پلیز مجھے معاف کردینا۔۔۔ ناز بیگم نے بشیراں کے ہاتھوں کو پکڑتے ہوئے کہا۔ ارے نہیں بیگم صاحبہ کوئی بات نہیں۔ ہم غریب لوگ ہیں، اس طرح کی باتیں تو پھر سننے کو ملتی ہی ہیں نا۔۔۔۔!نہیں بشیراں تم مجھے معاف کردو خدا کا واسطہ۔۔۔۔۔ ناز بیگم کے رویے میں بلا کی شرمندگی تھی اور اسے اپنی غلطی کا احساس ہوگیا تھا۔۔۔۔ ناز بیگم نے آگے بڑھ کر بشیراں کو گلے لگا لیا۔۔۔ بشیراں کی آنکھوں میں بھی آنسو رواں ہوگئے تھے۔ ابھی تک اسے اس صورت حال کا یقین نہیں آرہا تھا۔ ناز بیگم کہنے لگیں آج اگر میں درس قرآن میں نہ جاتی تو میری تو ساری زندگی گناہوں میں گزرجاتی، وہ تو بھلا ہو آنٹی سکینہ کا وہ مجھے اپنے ساتھ زبردستی ساتھ والے مدرسے میں لے گئی جہاں پر قرآن پاک کا درس دیا جا رہا تھا، ایک عورت بیان فرمارہی تھی کہ ہمیں اپنے ملازمین اور غریب لوگوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا چاہیے۔۔۔ ان کو اپنی خوشیوں میں برابر کا شریک رکھیں اور ان کے دکھ درد کے ساتھی بنیں۔ کیونکہ یہ حقوق العباد ہیں اور قرآن پاک میں اﷲ پاک نے حقوق العباد پورے کرنے کا حکم دیا ہے اور سلمی تو یتیم بھی ہے۔

ارشاد باری تعالی ہے۔۔۔"تم یتیم پر دباؤ نہ ڈالو۔" ایک میں ہوں کہ تمھارا خون تک پی جاتی ہوں۔اور دکھ درد میں آپ کے کام تو کیا آنا، تمہاری تنخواہ بھی وقت پر ادا نہیں کرتی تھی۔۔۔ اب بہت ہوگیا بیگم صاحبہ آپ ہمارے گھر میں پہلی بار آئی ہیں۔ تشریف رکھیے میں آپ کے لیے پانی لاتی ہوں۔۔۔ تھوڑی دیر بعد بیگم صاحبہ واپس چلی گئی تھیں۔۔۔ بشیراں اپنے رب کا شکر ادا کرتے ہوئے سر بسجود ہو گئی تھی۔۔۔ اس کے دل میں اور زبان پر بیگم صاحبہ کی درازیِ عمر اور خوشیوں کی دعائیں تھیں۔۔۔ اس کی وجہ سے آج ناز کے بچے بھی عید کی خوشیوں میں حقیقی طور پر شریک ہوئے تھے۔

Aisha Siddiqui
About the Author: Aisha Siddiqui Read More Articles by Aisha Siddiqui: 12 Articles with 18562 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.