یار کو ہم نے جا بجا دیکھا - 11 قسط نمبر

دیپ بیٹا اٹھ بھی جاؤ کب تک سوتے رہو گے آخر؟؟؟
ماں اسے کافی دیر سے جگا رہی تھی لیکن وہ تھا کہ گدھے گھوڑے سب بیچ کے سو رہا تھا۔ماں نے پیار سے اس کے بال سہلاۓ اس نے آنکھیں کھول دیں اوران کا ہاتھ پکڑ کر پیار سے چوم کرمسکرا دیا۔ماں نے اسے بہت عرصہ بعد یوں مطمئن اور خوش دیکھا تھا اسی لیے وہ بھی بہت خوش تھیں
آج میرا بیٹا بہت خوش لگ رہا ہے۔ ماں اس کے بال سہلاتے ہوۓ مسکرا کر پوچھا جواباً وہ بھی مسکرا دیا
اچھا ماں کو نہیں بتاؤ گے اپنی خوشی کی وجہ؟؟ ماں نے مسکراتے ہوۓ پوچھا
پتا نہیں مما آج میرا دل بہت پرسکون ہے بس اسی وجہ سے۔اس نے ایک لمبی سی انگڑائی لیتے ہوۓ کہا اور اٹھ کر بیٹھ گیا
اچھا چلو اب جلدی سے اٹھ جاؤ شاباش بریک فاسٹ ریڈی ہے میں ٹیبل پر لگا رہی ہوں تم ٹھیک پانچ منٹ میں مجھے ٹیبل پہ نظر آؤ۔ اچھا؟؟؟؟؟ ماں نے کمرے سے نکلتے ہوۓ کہا
آرہا ہوں۔ اس نے سیڈ فیس بناتے ہوۓ کہا اور پھر سے لیٹ گیا
جلدی اٹھو پھر تمہیں بابا جی کی طرف بھی جانا ابھی۔ ماں نے واپس آ کر اسے بازو سے پکڑ کر اٹھاتے ہوۓ کہا
بابا جی کی طرف؟؟؟ وہ کیوں؟؟؟ اس نے حیرانی سے پوچھا کیونکہ اس کی ماں نے آج پہلی بار اسے خود دادا کے گھر جانے کا کہا تھاورنہ وہ ہمیشہ اپنی مرضی اور ضد سے ہی جاتا تھا
ہاں ان کا فون آیا تھا تمہیں بلا رہے تھے۔انہیں کوئی ضروری کام ہے ایسا بولا انہوں نے۔ ماں کے بتانے پہ وہ حیران بھی ہوا پر پھر فوراًہی اٹھ کر واش روم چلا گیا تا کہ جلدی ناشتہ کر کے دادا کی طرف جا سکے۔ناشتے سے فارغ ہو کر وہ دادا کے گھر پہنچا تو کیا دیکھتا ہے کہ وہاں لوگوں کا اس قدرھجوم ہے کہ تل دھرنے کو جگہ نہیں۔
ہے بھگوان یہ کیا چکر ہے؟پہلے بھی تو دادا جی کے پاس لوگ آتے تھے پرنتو ایسا میلہ تو پہلی بار دیکھ رہا ہوں۔وہ اسی حیرانی میں ڈوبا اندر داخل ہی ہوا تھا کہ ایک طرف سے آواز آئی
ارے وہ رہے دیپ سرکار۔اس آواز کہ آنے کی دیر تھی لوگ اس پر لپک پڑے۔کیا ہندو کیا سکھ اور کیا مسلمان سب ہی اس سے تعویذ کے طلبگار تھے
سرکار میرا دھندا ٹھپ ہو گیا کوئی تعویج میرے کو بھی دیو۔سرکار میرا آدمی مجھ سے بہت لڑتا ہے مجھے بھی تعویذ دے دو۔سرکار میری کڑی دا بیاہ نئیں ہو رہیا اوہدے سوہرے داج بوہت منگدے ہا جی کجھ کرو سرکار۔جب ہندو مسلمان اور سکھ بالترتیب بول لیے تو تب جا کے اسے یہ معاملہ سمجھ میں آیا۔وہ خود کو بچاتا دادا تک پہنچا تو دادا کو سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا۔دادا نے اسے کہا کہ یہ سب تمہارے دیے ہوۓ اس تعویذ کا اثر ہے جو تم نے بچے کی آنکھ پہ لگانے کو دیا تھا
لیکن بابا میں کوئی فقیر تو کونی جو یہ سب اِیسے پاگل ہو رہے ہیں؟اور پھر میں تو مسلمان بھی کونی۔ وہ بہت حیران تھا اسے اندازہ ہی نہیں تھا کہ لوگ اسےیوں پیر فقیر ماننے لگیں گے
جیسے پیار کی کوئی زبان نئیں ہوندی نا پتری ویسے ای شفاء کا بھی کوئی مذہب کونی ہوندا۔ اللہ پاک جس کے چاہوے ہاتھ میں رکھ دیوے۔ تیں تعویذ لکھ۔ دادا نے اس کے ہاتھ میں کاغذ پینسل تھما دیا وہ تھوڑی دیر بیٹھا سوچتا رہا پھر پینسل اٹھا کر تعویذ لکھنے لگا دادا نے چپکے سے اس کے پیچھے جا کر دیکھنا چاہا۔ بابا جی کے ذہن میں یہ ہی تھا کہ وہ اس بار بھی مصطفٰی ہی لکھے گا لیکن یہ کیا کہ اس بار اس نے تعویذ میں جو لفظ لکھا تھا وہ تھا٠٠٠
"اللہ"
لوگوں کا ہجوم چھٹ جانے کے بعد دادا پوتا دونوں نے کھانا کھایا دادا نے مغرب کی نماز پڑھی اور دونوں باتیں کرنے لگے
ایک بات پچھوں بابا؟؟ اس نے باتوں ے دوران اچانک کہا
سو پچھ پتری۔ دادا نے پیار سے کہا
تیں ہندی کیوں نئیں بولدا؟؟؟ وہ سوال جو بہت عرصہ سے اس کے دل میں تھا آج اس نے پوچھ ہی لیا
یہ زبانیں تو لوگوں کی بنائی ہوئی ہیں پتری اللہ کے نزدیک تو صرف وہ زبان ہے جو دل کی زبان ہوتی ہے جو دل کے اندر سے نکلے اور سیدھی عرش تک جاۓ۔پھر چاہے وہ ہندی ہو یا گجراتی کوئی فرق نہیں پڑتا اور ویسے بھی اللہ زبان تھوڑی سنتا ہے وہ تو بات سنتا ہے اور نیت دیکھتا ہے۔ دادا نے مسکرا کر اس کا کندھا تھپتھپایا اورعشاء کی نماز کے لیے اٹھ گئے تھوڑی ہی دیر میں دیپ کی آنکھ لگ گئی
بہت اچھا لگا آپ کا یوں لوگوں کا احساس کرنا۔کمرے میں اچانک ایک روشنی سی ابھری اور وہی دشمنِ جاں سامنے کھڑی تھی
ضوفی تم؟؟؟ کہاں چلی گئی تھی تم؟؟؟ پتا ہے میں نے تمہیں کتنا تلاش کیا ہے؟؟؟ وہ اسکو سامنے پاتے ہی سوال پہ سوال پوچھنے لگا
میں طواف کرنے گئی تھی۔ نہایت تسلی سے جواب دیا گیا
طواف؟؟؟ وہ کیا ہوتا ہے؟؟؟ وہ حیرانی سے پوچھ رہا تھا
سب تفصیل بعد میں بتاؤں گی فی الحال آپ آئیں میرے ساتھ۔ وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے ایسی جگہ لے آئی جو اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھی وہ اس کا ہاتھ پکڑے کعبہ کا طواف کر رہی تھی اور ساتھ ساتھ کسی دعا کا ورد کرتی جا رہی تھی اسے صرف ایک لفظ ہی یاد ہو سکا اور وہ اسی کا ورد کرنے لگا
لبّیک لبّیک لبّیک۔ اسکی آواز اس قدر اونچی تھی کہ دادا جی اٹھ کر اسے دیکھنے آ گئے اور کیا دیکھتے ہیں کہ وہ کمرے میں پڑی ہوئی ایک میز کے گرد آنکھیں بند کیے چکر کاٹ رہا ہے اور اس کے پیچھے پیچھے ایک سانپ چکر کاٹ رہا ہے وہ جتنی دیر میں سانپ کو مارنے کے لیے کچھ ڈھونڈ کر لاۓ اتنی دیر میں سانپ غائب ہو چکا تھا اور دیپ کی آواز اور رفتار میں تیزی آ گئی تھی دادا نے اسے جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر روکا تو وہ پسینے سے شرابور نڈھال ہو کر گر گیا
کیا کر رہا تھا تو؟؟؟بول نا دیپ یہ کیا کر رہا تھا تو؟؟؟ دادا جی اس کا چہرہ تھام کر پوچھ رہے تھے
"طواف"
وہ آنکھیں کھول کر فقط اتنا ہی کہہ پایا اور پھر بیہوش ہو گیا
 
Adeela Chaudry
About the Author: Adeela Chaudry Read More Articles by Adeela Chaudry: 24 Articles with 51374 views I am sincere to all...!.. View More