پاسپورٹ آفس کی سیر۔

یہ تحریر پاسپورٹ بنانے کے مراحل و آگاہی پر مشتمل ہے ، جوکہ تنزو مراح کے ساتھ ساتھ مقصد حقیقی کی طرف بھی توجہ مبزول کرواتی ہے۔
انسان اس دنیا میں بہت کچھ سیکھتاہے جس کے لئے تجربات کے میدان سے گزر ہوتا ہے،اس دوران تکالیف اور مشکلات سے بھی پالا پڑتا ہے ،جنہیں برداشت کر کے ہی کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔یہ راستہ نہ صرف کٹھن بلکہ صبر آزما بھی ہوتا ہے،نیز اس مشکل میں تب اور اضافہ ہوجاتا ہے جب کوئی رہنما ئی کرنے اور ساتھ چلنے والا نہ ہو، ایسے میں اکثر منزل تک رسائی آسان نہیں ہوتی ۔یہ تجربات بڑی سطحوں کے علاوہ چھوٹی سے چھوٹی سطح پر بھی حاصل ہوتے ہیں،ایک ایسا ہی تجربہ پیش خدمت ہے۔

راقم الحروف کو کسی وجہ سے اپنا پاسپورٹ بنوانے کی ضرورت پیش آئی لہذا پہلی مرتبہ پاسپورٹ آفس کی سیر کو نکل پڑا،جب وہاں پہنچا تو ایسا محسوس ہوا کہ میدانِ حشر میں داخل ہو گیا ہوں ،ہر طرف لوگوں کی لائنیں تھیں،کچھ لوگ پبلک کرسیوں پر بیٹھے غور و فکر کی دنیا میں مگن تھے تو کچھ تحریر میں مستغرق تھے تو کچھ باہم گفتگو میں محو تھے،گویا نفسی نفسی کا ماحول تھا،میں بھی جاکر ایک بینچ پر تشریف فرما ہو ا ،اورچند منٹ ارد گرد کا مشاہدہ کرنے کے بعد میں نے اپنے کزن سے رابطہ کیا جن کی رہنمائی میں آگے کا سفر طے کرنا تھا ،مگر ان کے آنے میں کچھ وقت ابھی باقی تھا، جب تک وہ آتے تب تک کچھ تو کرنا تھا اور ہم تو ٹھہرے طالب علم ،لہذا ایسے انتظار کے لمحات کے لئے اپنی ایک دوست کو ہمیشہ ساتھ رکھتے ہیں تاکہ وہ ہم سے باتیں کرے اور ہمیں بور ہونے نہ دے ،وہ کوئی اور نہیں بلکہ کوئی نہ کوئی کتاب ہوتی ہے،لہذا دنیا وما فیھاسے لاتعلق ہوکر ایسی ہی ایک کتاب کا مطالعہ شروع کردیا،یہاں تک کہ ایک محترمہ نے Excuse me کہہ کر اس تسلسل کو توڑ ڈالااور ہمارے لاڈلے قلم کا سوال کیا ،وہ تو ہم نے دے دیا مگر کیا خبر تھی کے قلم واپس ملنے کا امکان نہیں یا بہت کم ہے ،بہر کیف پھر سے کتاب کی طرف متوجہ ہوا ۔ کچھ دیر بعد کزن نے فون پر رہنمائی کرتے ہوئے کہا کہ جب تک وہ آئیں تب تک میں وہاں سے Ordinary Formلیکر فل کر دوں،فارم تو لے لیا اب جب فل کرنے لگا تو معلوم ہو ا کہ پین تو ایک محترمہ نے لے لیا تھا ،جب ان سے مانگا تو کہنے لگیں کہ واپس کردوں گی اور یہ کہہ کر وہاں سے جانے لگیں ،ہم بھی خاموش ہوگئے اور کرتے بھی کیا،آج کل خواتین کے اتنے حقوق ہو گئے ہیں کہ ان کے سامنے کوئی بیچارہ مرد چھینک بھی دے تو ،توہین نسواں کے زمرے میں آجاتا ہے۔ بہر کیف مسئلہ پین کا نہ تھا بلکہ ضرورت پین کا تھا، اِدھر اُدھر نظر دوڑائی تو ایک نیم بابا جی کو فارم فل کرتے ہوئے پایا لہذا انکی طرف لپک پڑا تاکہ ان سے قلم لے لیا جائے مگر موصوف اس قدر تحمل سے فارم فل کر رہے تھے گویا وصیت نامہ لکھ رہے ہوں اور فارم فل کر نے کے بعد بغور پروف ریڈنگ بھی کی ،تب جاکر پین ملا۔

کچھ دیر بعد میرے کزن (ماموں ذاد بھائی ) غلام مصطفی صاحب بھی تشریف لے آئے اور انکے ہمراہ خاندان کی چند خواتین بھی تھیں جن کے پاسپورٹ بنوانے کی ڈیوٹی بھی موصوف کی تھی۔کیونکہ غلام مصطفی صاحب اس طرح کے دفاتر اور ہسپتالوں کے چکر لگا لگا کر خوب ایکسپرٹ ہوچکے ہیں،گاؤں کے اکثر احباب ایسے کاموں کے لئے انہیں ہی زحمت دیتے ہیں۔موصوف بھی خدمت خلق کے جذبے کے تحت فری آف کاسٹ اپنی خدمات سرانجام دیتے رہتے ہیں ،اللہ انہیں خوش رکھے اور جزائے خیر دے اور مجھے امید ہے کہ وہ یہ سارے کام (میار )سے بچنے کے لئے نہیں کرتے ہونگے بلکہ رضائے الہی اِن کے پیش نظر ہوگی۔آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ (میار) کیا بلا ہے؟ دراصل یہ ایک اصطلاح اور رسم ہے جو بعض علاقوں میں بے حد استعمال ہوتی ہے ،اسکا مطلب کسی فرد کا دوسرے فرد سے اظہارِ ناراضگی ہے جوفرد ِ اول کے کہے ہوئے کام نہ کرنے ،شادی اور غمی میں شرکت نہ ہونے کی وجہ سے دوسرے فرد پرعائد ہوتی ہے۔اکثر لوگ اس (میار) سے بہت ڈرتے ہیں (اتنا اگر اللہ سے دڑیں تو سیدھے جنت میں جائیں خصوصاً خواتین تو جنت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہو جائیں)،اسی لئے ثواب کی نیت کئے بغیر دوسروں کے کام بھی کر دیتے ہیں،ہر میت میں کندھا دینے بھی پہنچ جاتے ہیں اور وارثوں کو اپنا چہرہ دکھا نا بھی فرض سمجھتے ہیں،پھر ہر کسی کو بتاتے بھی ہیں کہ ہم جنازے میں پہنچ گئے تھے تو اس طرح وہ (میار) سے بچ جاتے ہیں اور پھر گھروں کو اس طرح واپس لوٹتے ہیں کہ گویا کوئی بہت بڑا قلعہ فتح کر لیا ہو۔میری اس تنقید کا مقصد صرف یہ ہے کہ اس رسم(میار) نے لوگوں کو خلوص اور ثواب سے دور کردیا ہے۔کیونکہ اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہوتا ہے اور یہاں نیت کچھ اور ہی ہوتی ہے۔

خیر بات کہاں سے کہاں چلی گئی، فارم فل کرنے کے بعد اگلا مرحلہ وہاں موجود بینک میں فیس جمع کروانے کا ہوتا ہے،پانچ سال والے پاسپورٹ کی فیس 3000اور دس سال والے کی پانچ ہزار چار سو ،ساتھ میں 25روپے بینک چارجز بھی جمع کروانے ہوتے ہیں۔ یہاں لمبی قطار ہوتی ہے لیکن جس کاونٹر پر میری فیس جمع ہونی تھی ،وہاں اتفاق سے رش کم تھا ،لہذا جلدی کام ہوگیا۔

اس کے بعد تیسرا مرحلہ وہاں موجود اپنے ضلع سے متعلقہ دفتر کے باہر لگی لائن میں کھڑا ہونا ہوتا ہے،تاکہ فوٹو بن سکے اور آگے کے مراحل طے ہو سکیں ۔میں بھی جاکر لائن میں کھڑا ہواتو وہاں مجھ سے آگے عکاظ نامی نوجوان کھڑے تھے، دعا سلام کے بعد ان سے کافی باتیں ہوئیں (جوکہ انکے نام ، تعلیم اور سیرو سیاحت کے متعلق تھیں)، اس دوران ہمارا نمبر بھی آہی گیا،جب میری باری آئی تو یاد آیا کہ میں تو جلدی میں اپنا اوریجنل شناختی کارڈ بھول آیا ہوں،اس چھوٹی سی غلطی کی وجہ سے اب ٹوکن ملنا ناممکن تھا،اس بھولنے میں بھی ضرور کوئی بہتری ہی تھی،(بعد میں جب اس بات پر غور کیا تو معلوم ہو ا کہ بروز حشر بھی ایک معمولی غلطی کی بنا پر جنت کا ٹوکن نہیں مل پائے گا اور عین اس وقت جنت کے دروازے سے واپس کر دیا جائے گا،جب ایک قدم کا فاصلہ رہ چکا ہوگا۔اللہ ہم سب کو محفوظ رکھے۔آمین)چنانچہ چند لمحے وہاں کھڑے ہوکر سوچا تو میرے سامنے اب دو راستے تھے، ایک کہ اس معاملے کو کل تک موقوف کیا جائے اور دوسرا یہ کہ ہمت کی جائے اور جاکر ابھی کارڈ لیکر آیا جائے،بہر کیف میں نے دوسرا راستہ اختیار کرتے ہوئے خود سے کہا کہ ابھی نہیں تو کبھی نہیں ،جب ارادہ کیا ہے تو تکمیل بھی کر کے چھوڑیں گے،اپنے احباب سے الوداع ہوکر باہر پارکنگ میں کھڑی اپنی اکلوتی گاڑی(بائیک) اسٹارٹ کی، جو کہ yamaha100کی صورت میں میری راہ تک رہی تھی،کیونکہ یہی میری مہران،کلٹس،ٹوڈی اور لینڈ کلوزر ہے اور ایک وفادار گھوڑے کی طرح دوران سفر ساتھ دیتی ہے ۔ وہ الگ بات ہے کہ میرے ایک ماموں اکرم کو اس کے نام سے ہی شدید نفرت ہے اور اکثر لوگ اسے حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے اس پر سفر کرنا پسند نہیں کرتے لیکن اس نے ہی میرا ساتھ دیا اور کچھ ہی دیر میں شناختی کارڈ والا قلعہ فتح کر کے واپس پاسپورٹ آفس آپہنچا ، اب چونکہ رش بڑھ چکا تھا لہذا مجھے ٹوکن نمبر258ملا۔
اگلا چوتھا مرحلہ ڈیٹا انٹری کا تھا ،جوکہ بڑا صبر آزما اور انتظار پر مشتمل ہوتا ہے جس میں ٹوکن نمبر کے آنے کا انتظار کرنا پڑتا ہے،جب نمبر ز پر نظر ڈالی تو ابھی تقریباًایک سو بیسواں نمبر چل رہا تھا۔ اس کا مطلب دو گھنٹے کا انتظار، لیکن عملے کی سستی کی وجہ سے یہ انتظار تین گھنٹے سے بھی زیادہ کرنا پڑا تھا،اس انتظار کے دوران کچھ جاننے والوں سے بھی ملاقات کا اتفاق ہوا ، تو کچھ انتظار اس طرح کٹ گیا ۔لیکن پھر بھی انتظار تو انتظار ہی ہوتا ہے۔

دوران انتظار مجھے میدان حشر کی یا د بھی آئی کہ وہاں بھی لوگ اس انتظار میں ہونگے کہ کب حساب شروع ہوگا،یہ چند گھنٹے گزارنا مشکل تھا تو وہاں کا اتنا طویل وقت کیسے گزرے گا ؟؟؟ لوگ کہتے پھریں گے کہ جیسا بھی حساب ہو لیکن کم سے کم شروع تو ہو، تاکہ اس انتظار سے تو جان چھوٹ جائے یا تو پھر موت آجائے،۔ اسی لئے تو مشہور ہے کہ( الانتظار اشد من الموت)انتظار موت سے زیادہ کٹھن ہے۔

خیر وہ وقت بھی آہی گیا جس کا انتظار تھا کیونکہ انتظار کتنا ہی طویل کیوں نہ ہو ایک نہ ایک دن ضرور ختم ہو ہی جاتا ہے،کبھی تو منتظَر(جسکا انتظار ہو)مل جاتا ہے اور کبھی منتظِر (انتظار کرنے والا) ہی چل بستا ہے ،لیکن دونوں صورتوں میں انتظار کو ختم ہونا ہوتا ہے۔ مجھے جیسے ہی258نمبر نظر آیا تو Entry Dataکے کاؤنٹر پر پہنچا اور ضروری ڈاکو مینٹس چیک کروائے،(جن میں والدین کے اصل شناختی کارڈز، میٹرک کی سنداور بینک کی رسید شامل تھیں)اور ایڈریس اور موبائل نمبر کی انٹری کر وائی ،وہاں سے ایک کمپیوٹرائز فارم دیا گیا جسے چیک کرنے کا کہا گیااور پھر بائیں طرف کاؤنٹر پر موجود افسر سے اسٹیمپ لگوائی۔

بروز حشر بھی ہمارے ساتھ ایسا ہی ہوگا،جس طرح یہاں ڈاکومینٹس چیک ہوئے اسی طرح وہاں پر بھی اعمال چیک کئے جائیں گے اور اس کی بنیاد پر فیصلہ ہو گا کہ جنت کا پاسپورٹ دیا جائے یا کہ نااہل قرار دے کر جہنم میں داخل کیا جائے۔جیسے اس دنیا میں پاسپورٹ کے حصول کے لئے اوریجنلNICاور والدین کے اصل کارڈز کے ساتھ ساتھ تعلیمی اسناد اور بینک کی رسید ضروری ہے اسی طرح آخرت میں بھی کامیابی کے لئے اوریجنل ایمان اور سالت کا NIC، نیک اعمال کا سر ٹیفکیٹ اور اللہ کی راہ میں خرچ کئے گئے مال کی رسید درکار ہوگی۔( اللہ ہمیں ان کاغذات کو جمع کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین)

اب صرف آخری مرحلہ(Assistant Director) کے انٹرویو کا رہ گیا تھا گویا یہ آخری چیک پوسٹ تھی ،جس کے لئے مختصر انتظار ابھی باقی تھا۔ لیکن اس مرحلے کے متعلق میرے کزن خدشات کا اظہار کر گئے تھے کہ وہاں موجود افسران میں سے ایک ذرا زیادہ سخت ہے ،چھوٹی بات پر بھی فارم کینسل کر دیتا ہے، دوسرے کے پاس نمبر آئے تو آسانی ہوگی،اسی پس منظر میں جب میرا نمبر قریب آنے لگا تو میں بھی دل ہی دل میں دعا کرنے لگا کہ یہاں نمبر نہ آئے، نہ آئے اور جب نمبر آیا تو اتفاق سے اسی کے پاس آیا ،گویا میری دعا قبول نہ ہوئی تھی ۔ لیکن بعض اوقات بلکہ اکثر دعا قبول نہ ہونے میں ہی بہتری ہوتی ہے ، لہذا میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا،جب میں آفیسر کے پاس گیا تو بغیر کسی پریشانی کے میرا فارم قبول کر لیا گیا ، گویا اب مجھے دس دنوں بعد پاسپورٹ مل جائے گا۔اس طرح میں اس محاذ سے کامیاب ہوکر لوٹا اور واپس آکر اپنے کزن کو اپنے ایک استاد کا مقولہ بھی SMSکیا کہ (جان چھوٹی لاکھوں پائے،لوٹ کے بدھو گھر کو آئے )

واضح رہے کہ پاسپورٹ بنانے کا طریقہ نہایت آسان ہے اس کے لئے کسی بھی شخص کو پیسے دینے کی ضرورت نہیں بلکہ وہاں لگے ہوئے بورڈز اور عام لوگوں سے بآسانی رہنمائی لی جاسکتی ہے۔ جہاں تک بات ہے انتظار کی تو وہ ہر صورت کرنا ہی پڑے گا کیونکہ کچھ پانےکے لئے کچھ کھونا تو پڑتا ہی ہے۔

اسی طرح آخرت میں کامیابی کے لئے دنیا کی محبت اور لذتوں کو قربان کرنا پڑتا ہے،زندگی کے دکھوں پر صبر اور سکھوں پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے زندگی گزارنی پڑتی ہے،تب ہی تو اللہ کی رضا حاصل ہوتی ہے اور اس کے نتیجے میں جنت کا پاسپورٹ حاصل کیا جاسکتا ہے۔اگر آپ بھی یہ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اپنے ڈاکومینٹس مکمل رکھیں اور اپنی باری کا انتظار کریں تاکہ جب موت کا آفیسر فرشتہ چیک کرے تو پریشانی نہ ہو!!!

 
M.Siddique Tahiri
About the Author: M.Siddique Tahiri Read More Articles by M.Siddique Tahiri: 4 Articles with 3325 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.