یہود کی خفیہ دستاویزات اور اس کے تاریخی شواہد
(Allah Bakhash Fareedi, faisalabad)
یہود کے اجداد نے 929ء قبل مسیح یہ سوچا کہ دنیا پر حکمرانی کا حق صرف یہود کو ہے اور ہمیں ایسی مربوط منصوبہ بندی کرنی چاہیے کہ ہم زیر ز مین سرگرمیوں سے لمحہ بہ لمحہ منزل سے قریب ہوتے ہوئے اپنی ایک ایسی مملکت وجود میں لائیں جو اس عالمی حکمرانی کیلئے ہمارا پایہ تخت ہو ۔‘‘ انہیں مکمل شعور وادارک تھاکہ یہ کام ما ہ و سال کا نہیں بلکہ صدیوں پر محیط ہے اس لیے انہوں نے طویل المعیاد منصوبہ بندی کی ۔ |
|
|
تحریر : اللہ بخش فریدی |
|
یہود کی خفیہ دستاویز کانام ’’ وثائق
یہودیت ‘‘ یا ’’ صہیونیت کے دانا بزرگوں کی دستاویزات
’’ The Protocols of the Learned Elders of Zion‘‘ تسخیر عالم کا عالمی
یہودی منصوبہ ہے۔ یہ دستاویزات بہت سے حقائق سے پردہ اٹھاتی ہیں۔ عام آدمی
کیلئے یہ ایک بے ربط سا کتابچہ ہے مگربین الاقوامی صہیونی تنظیم ’’ فری
میسن ‘‘اور’’ ایلیومیٹینسILLUMINATIS‘‘ کیلئے یہ ایک مقدس دستاویزہے جس پر
عمل کرنا ان کیلئے فرض عین ہے۔اس خطرناک تنظیم کی جڑیں سرطان کی طرح ملکوں
کی انتظامیہ میں پھیلی ہوئی ہیں اور اس کا اصل مقصد مختلف ممالک میں
بالعموم اور بالخصوص ملت اسلامیہ میں سازش اور جاسوسی کرانا ہے۔
ان تعلیمات کے پس منظر میں تھیورڈ ہرزل کے مرتب کردہ پروٹوکولز کا مطالعہ
کیا جائے تو دہشت گردی کے حوالے سے یہود کے ماضی اور حال کی سرگرمیاں واضح
ہو جاتی ہیں اور ان کے مستقبل کے عزائم بے نقاب ہو جاتے ہیں۔ یہود کے دجل و
فریب پر مبنی ہر منصوبے کا مقصد عالمی اقتدار کا حصول ہے اور وہ اپنے طے
کردہ منصوبوں پر خود سامنے آنے کی بجائے اپنے ہداف کی تکمیل اپنے زر خرید
ایجنٹوں اور مہروں وغیرہ سے کرواتے ہیں، بعض محض اقتدار کے حصول یااستحکام
اقتدار کی خاطر ان کے کام سر انجام دیتے ہیں ۔
میں یہ بات کسی مفروضے کی بنیاد پر نہیں کہہ رہا بلکہ یہ صہیونیت کے ان
بڑوں کی اتھارٹی پر کہہ رہا ہوں جنہوں نے یہود کی راہنمائی کیلئے پروٹوکولز
(Protocols)جیسی مربوط منصوبہ بندی کی۔ پروٹوکولز ( جس کی منصوبہ بندی کو
ہر دور کے سیانے بدلتے ہوئے عالمی حالات سے ہم آئنگ کرتے آئے )کو یہود کے
اجداد نے 929ء قبل مسیح یہ سوچا کہ دنیا پر حکمرانی کا حق صرف یہود کو ہے
اور ہمیں ایسی مربوط منصوبہ بندی کرنی چاہیے کہ ہم زیر ز مین سرگرمیوں سے
لمحہ بہ لمحہ منزل سے قریب ہوتے ہوئے اپنی ایک ایسی مملکت وجود میں لائیں
جو اس عالمی حکمرانی کیلئے ہمارا پایہ تخت ہو ۔‘‘ انہیں مکمل شعور وادارک
تھاکہ یہ کام ما ہ و سال کا نہیں بلکہ صدیوں پر محیط ہے اس لیے انہوں نے
طویل المعیاد منصوبہ بندی کی ۔
صہیونیت کے خفیہ تاریخی شواہد کے مطابق حضرت سلیمان علیہ السلام اور دوسرے
یہودی بزرگوں نے 929ء قبل مسیح میں ہی تسخیر عالم کا ایک تصوراتی خاکہ مرتب
کر لیا تھا۔ جوں جوں تاریخ کے اوراق پلٹتے گئے، اس منصوبے کی جزئیات واضح
ہوتی گئیں اور آئندہ آنے والی نسلوں میں سے ان لوگوں نے (جنہیں ان خفیہ
رازوں میں شریک کیا گیا تھا)اس منصوبے کے خدوخال واضح کر کے اسے پایہ تکمیل
تک پہنچایا۔ان داناؤں نے سانپ (جو صہیونیت کا علامتی نشان ہے) کی روایتی
عیاری اور مکاری کے ساتھ پرامن ذرائع استعمال کرتے ہوئے ساری دنیا پر
صہیونی تسلط کا منصوبہ بنایا۔
صہیونیت کے ان بڑوں نے بڑی عرق ریزی سے عملی زندگی کے ہر شعبے میں منصوبہ
بندی کی اور یہ طے پایا کہ اسے ہر دور کے چند مخصوص و معتمد لوگوں کے علاوہ
کسی عام شخص تک نہیں پہنچنے دیا جائے گا اوران حضرات کی یہ ذمہ داری ہوگی
کہ وہ اسے ہر زمانے کے بدلتے ہوئے عالمی حالات کے ساتھ ہم آئنگ کرتے آئیں
گے اور بلا شبہ ہر دور کے سیانوں نے یہ فرض نبھایا بھی ہے۔ قرآن مجید بھی
ان (یہود و نصاریٰ )کے اس فعل ، رویے پر دلالت کرتا ہے کہ انہوں نے ہر دور
میں اللہ تعالیٰ کے حکم ( تورت و انجیل ) میں من مانیاں کیں اور انہیں اپنی
سوچ ، خواہش اور تمنا کے مطابق ڈھالا اور ترتیب دیا تا کہ اپنے مقاصد حاصل
کیے جا سکیں۔
یہ دستاویزات (Protocols) کیا ہیں؟ عوام الناس کو ان سے آگاہی دلانے کیلئے
ذیل میں ان سب سے مختصر اقتباس (Hit Point ) لیا گیا ہے ۔ ملاحظہ فرمائیں
1۔ سیاست کے میدان میں دوسروں کا اپنا محکوم بنانے اور اپنی مطلق العنانی
قائم کرنے کے لئے دوسروں کی املاک پر بلا ترود قبضہ کر لینا بالکل جائز
ہیں۔اس عمل پر مہر ثبت کرنے کے لیے ہمارے پاس دو چیزیں ہیں۔ طاقت اور عوام
فریبی۔کامیابی حاصل کرنے کیلئے ہمیں تشدد اور عوام فریبی کے لائحہ کار پر
عمل کرنا ہے۔ تشدد کے اصول کے پیش نظر، ذرائع سے صرفِ نظر کرتے ہوئے ہم
ضرور کامیاب ہوں گے اور تمام حکومتوں کو اپنی سپر گورنمنٹ کے تابع کر لیں
گے۔ انہیں صرف یہ اندازہ کرانے کی ضرورت ہے کہ حکم عدولی کی صورت میں ہم
کتنے بے رحم اور سفاک ہوتے ہیں۔ اس کے بعد وہ ہماری حکم عدولی کی جرات نہیں
کر سکیں گے۔ ( Protocols # 1 بنیادی اصول طاقت، سیاسیات بمقابلہ اخلاقیات،
نتائج ذرائع کو حق بجانب بناتے ہیں۔ ’’آزادی، مساوات اور اخوت‘‘ نئی
اشرافیہ)
2۔ ہمارے مقاصد کے حصول کیلئے یہ اشد ضروری ہے کہ جنگوں کے نتیجہ میں علاقے
فتح نہ ہونے دئیے جائیں اور جنگ کا رخ معاشی میدان کی طرف موڑ دیا جائے۔
متحارب ملکوں کو جو امداد فراہم کی جائے گی وہ ان ملکوں سے ہماری طاقت کا
اعتراف کرائے بغیر نہیں رہے گی اور یہ صورت حال دونوں متحارب ملکوں کو
ہمارے بین الاقوامی گماشتوں کے رحم کرم پر ڈال دے گی۔ ان بین الاقوامی
گماشتوں کے پاس لاکھوں دیکھنے والی آنکھیں اور بیشمار وسائل ہیں ۔ اور اس
طرح ہم ان قوموں پر بالکل اسی طرح حکومت کریں گے جیسے کسی ملک کا دیوانی
قانون اس ملک میں ہونے والے مقدمات کا فیصلہ کرتا ہے۔ ( Protocols # 2 ۔
معاشی جنگیں۔دستوری حکومتیں۔ ڈارونیت۔ مارکسیت۔ نطشائیت۔ پریس سے متاشرہ
ذہنیت)
3۔ غیر یہود کی تعداد میں کمی اور ان کی نسل کشی سے ہمارا مفاد وابستہ
ہے۔ہم اپنی قوت، دائمی غذائی قلت اور مزدوروں کی جسمانی کمزوری سے حاصل
کرتے ہیں۔ کمزور ہونے کی وجہ سے مزدور ہماری مرضی کا غلام بنتا ہے۔ اس کے
اپنے ذی اقتدار افراد میں وہ قوت اور طاقت نہیں ہے کہ وہ مزدوروں کو ہماری
مرضی کے خلاف صف آراء کر سکیں۔ بھوک ، سرمایہ دار کو ، مزدور پر حکومت کرنے
کا اس سے زیادہ حق دیتی ہے جتنا شاہی اقتدار نے قانون کے ذریعہ اشرافیہ کو
دیا تھا۔ ہم احتیاج، نفرت اور حسد کے ذریعہ جو اس عمل سے وجود میں آتے ہیں،
عوام کو اکسائیں گے اور جب ہماری مطلق العنان حکمران عالم کی تاجپوشی کا
وقت آئے گاتو یہی لوگ ہوں گے جو ہمارے راستے میں حائل ہونے والی تمام
رکاوٹوں کو تہس نہس کریں گے۔۔۔۔۔ غیر یہود تفکر کی صلاحیت سے محروم ہیں اور
اس وقت تک نہیں سوچتے جب تک ہمارے ماہرین اپنی کوئی تجویز پیش کر کے ان کے
ذہنوں میں تحریک پیدا نہ کر دیں۔ ۔۔۔۔آزادی کا لفظ لوگوں کو ہر طاقت سے
نبردآزمائی پر اکساتا ہے۔ ہر قسم کے اقتدار کی نفی کرتا ہے۔یہاں تک کہ خدا
اور قانون قدرت سے بھی بغاوت کراتا ہے۔ اس لئے جب ہماری حکومت قائم ہو گی
تو ہم اس لفظ کو زندگی کی لغت سے یکسر خارج کر دیں گے۔ ہمارے ہاں یہ لفظ
ایک ظالم اور بے ضمیر طاقت کے مترادف ہو گا۔ ایسی طاقت جو انسانوں کو خون
آشام درندوں میں تبدیل کر دیتی ہے۔ ( Protocols # 3 ۔ تسخیر کا طریقہ
کار۔روایتی سانپ۔ عوام کے حقوق۔ غیر یہودیوں کی نسل کشی۔ دنیا کا مطلق
العنان فرمانروا۔عالمی معاشی بحران)
4۔ ایسی قوت جو نظر ہی نہ آتی ہو، اسے کون اور کس طرح شکست دے سکتا ہے۔
ہماری قوت بعینہ یہی ہے۔ فری میسن کے غیر یہودی افراد جنہیں علم ہی نہیں
ہوتا کہ وہ کس کے لئے کام کر رہے ہیں، اپنی لاعلمی کی وجہ سے، اندھوں کی
طرح ہماری اور ہمارے مقاصد کی پردہ پوشی کرتے ہیں۔ہماری تنظیم کے عملی
منصوبے، یہاں تک کہ تنظیم کے مستقر کا محل وقوع تک ان لوگوں کے لئے ایک
نامعلوم سربستہ معمہ ہی رہتا ہے۔۔۔۔۔ ہمارے لئے یہ اشد ضروری ہے کہ ہم تمام
مذاہب کو شبہ اور تذبذب کا شکار کر دیں اور غیر یہود کے دماغ سے خدا اور
روح کا تصور نوچ کر پھینک دیں اور اس کے بدلے ان کے دماغوں میں حساب کی جمع
تفریق اور مادی ضروریات کی خواہش بھر دیں۔ غیر یہود کو سوچنے سمجھنے کا وقت
نہ دینے کے لئے ان کے ذہنوں کا رخ صنعت اور تجارت کی طرف موڑ دینا چاہیے۔
اس طرح ساری قومیں مالی منفعت کی دوڑ میں مصروف ہو جائیں گی اور اس تگ ودو
میں لگ کر اپنے مشترکہ دشمن کو نظر انداز کر دیں گی۔ ( Protocols # 4 ۔
مادیت مذہب کی جگہ لیتی ہے۔ عوامی حکومت کے مراحل۔ غیر یہود کی فری میسن
ایک نقاب۔صنعت میں بین الاقوامی قیاس اندازی ’’ SPECULTION‘‘ زرپرستی کا
مسلک)
5۔ اگر ساری دنیا کے غیر یہود جمع ہو جائیں تو شاید کچھ عرصہ کیلئے ہمارے
مقابلے میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔ لیکن اس خطرے سے ہم اس لئے محفوظ ہیں
کہ خود ان میں آپس میں شدید اختلافات ہیں اور ان اختلافات کی جڑیں اتنی
گہری ہیں کہ انہیں کبھی بھی ختم نہیں کیا جا سکتا۔ ہم نے گزشتہ بیس صدیوں
میں غیر یہود کے ذاتی اور قومی اختلافات کو اتنی ہوا دی ہے اور ان میں
عقائد کے اختلافات اور نسلی نفرتوں کو اتنا بھڑکادیا ہے کہ اب انہیں ختم
کرنا ممکن ہی نہیں رہا۔۔۔۔۔ ہم بے اندازہ قوت کے مالک ہیں۔ ہماری طاقت سے
صرفِ نظر کرنا ممکن ہی نہیں ہے اور جب تک اس میں ہمارا خفیہ ہاتھ نہ ہو
کوئی ملک کسی دوسرے ملک سے کوئی ادنیٰ سا بھی معاہدہ نہیں کر سکتا۔ ’’ PER
ME REGES REGNSNT ‘‘ ہمارے توسط سے ہی بادشاہ حکومت کرتے ہیں۔ انبیاء کے
قول کے موجب خدا نے ہمیں د نیا پر حکمرانی کرنے کے لئے خود منتخب کیا
ہے۔خدا نے ہمیں غیر معمولی ذہانت بھی اسی لئے بخشی ہیں تاکہ ہم اس منصب کے
اہل ہو سکیں جس کیلئے ہمارا انتخاب کیا گیا ہے۔اب اگر یہ دوسرے بھی اتنے ہی
ذی عقل ہو جائیں تو وہ ہمارے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے لیکن اگر ایسا ہوا بھی
تو ہم چونکہ پہلے ہی سے مستحکم ہو چکے ہیں، یہ نئے لوگ ہمارا مقابلہ نہیں
کر سکیں گے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ مقابلہ بڑا شدید ہو گا۔ یہ ایسی جنگ ہو گی
جو چشم فلک نے آج تک نہ دیکھی ہوگی۔۔۔۔۔دنیا کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا
کہ ان کاحکمران اعلیٰ کون ہے؟ اس کا تعلق رومن کیتھولک فرقے سے ہے یا وہ
صہیونی النسل ہے۔ لیکن ہم خدا کی منتخب کردہ امت ہیں اس بات سے لاتعلق نہیں
رہ سکتے ۔۔۔۔۔ تمام ملکوں کے نظام کے پہئیے ایک انجن کی طاقت کے گرد گھومتے
ہیں اور وہ انجن ہمارے قبضے میں ہے۔ وہ انجن جو ملکوں کی انتظامی مشین
چلاتا ہے وہ ہے سرمایہ۔ سیاسی اور معاشیات کا علم ہمارے دانا بزرگوں نے
ایجاد کیا تھا، مدت سے ہمارا سرمایہ شاہوں کو عظمتوں سے ہمکنار کر رہا
ہے۔۔۔۔۔ان تمام باتوں سے ہمارا مقصد یہ ہے کہ ہم غیر یہودیوں کو تھکا کر
اتنا مضمحل کر دیں کہ وہ آخر کار ہمیں اس قسم کی بین الاقوامی طاقت پیش
کرنے پر مجبور ہو جائیں جو ہمیں اس قابل کر دے کہ بغیر کوئی تشدد کئے ہم
دنیا کے ملکوں کی ساری طاقت رفتہ رفتہ چوس کر ایک سپر گورنمنٹ بنا سکیں۔
موجودہ حکمرانوں کی بجائے ہم ان پر ایک ایسا عفریت مسلط کر دیں گے جو اس
سپر گورنمنٹ کی انتظامیہ کہلائے گی۔ اس کے پنجے ہر سمت گڑے ہوئے ہوں گے اور
اس کی تنظیم اتنی وسیع و عریض ہو گی کہ ہمارے لئے ساری دنیا کی قوموں کی
تسخیر میں ناکامی، ناممکن ہو گی۔ ( Protocols # 5 ۔ مطلق العنانیت اور جدید
ترقی۔ حکومت کی مرکزیت۔ ملکوں کے درمیان خلیجیں۔ رائے عامہ کو ہموار کرنے
کیلئے لفاظی کا استعمال۔ سپر گورنمنٹ کا انتظامی ڈھانچہ)
6۔ عنقریب ہم بڑی بڑی اجارہ داریاں قائم کرنا شروع کریں گے۔ دولت کی کانیں
ہوں گی اور ان پر غیر یہودی سرمایہ کا اتنا انحصار ہو گا کہ سیاسی تباہی کے
اگلے دن ملکوں کے قرضوں کے ساتھ ساتھ ان کا سرمایہ بھی ڈوب جائے گا۔۔۔۔۔
غیر یہودی اشرافیہ کا بحیثیت ایک سیاسی قوت کے، جنازہ نکل چکا ہے۔ اب ہمیں
اس کی چنداں پرواہ نہیں کرنی چاہیے لیکن زمیندار چونکہ خود کفیل ہیں اس لئے
وہ ہمیں کسی حد تک نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ لہٰذا خواہ اس کی کوئی قیمت بھی
ادا کرنی پڑے، یہ انتہائی ضروری ہے کہ انہیں ان کی زمینوں سے محروم کر دیا
جائے۔ یہ مقصد آراضی کی ملکیت پر قرضوں کا بوجھ ڈال کر بہ آسانی حاصل کیا
جا سکتا ہے۔ قرضے آراضی کی ملکیت پر بند باندھیں گے اور ان کے ہاتھ میں
کاسہ گدائی دیکر ہم انہیں اپنی غیر مشروط اطاعت کی حالت میں رکھیں گے۔۔۔۔۔
ہمارا مقصد یہ ہے کہ محنت اور سرمایہ دونوں آراضی سے کھنچ کر صنعت میں آ
جائیں اور اس کے نتیجہ میں قیاس اندازی کے ذریعہ دنیا کی ساری دولت سمٹ کر
ہمارے قدموں تلے آ جائے اور یوں سارے غیر یہودیوں کو ادنیٰ طبقے میں دھکیلا
جا سکے۔ اس کے بعد سارے غیر یہود، اگر کسی وجہ سے نہیں تو صرف اپنے زندہ
رہنے کا حق لینے کے واسطے ہمارے سامنے سر بسجود ہوں گے۔
( Protocols # 6 ۔ جانشینی کا طریقہ۔ دولت کے انبار، غیر یہود ی اشرافیہ کا
خاتمہ، قیمتوں میں اضافے کا لامتناہی سلسلہ)
7۔ مذکورہ بالا منصوبوں کی تکمیل کیلئے ہتھیاروں کا پھیلاؤ اور پولیس کی
نفری میں اضافہ ناگزیر ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ تمام ملکوں میں ہمارے علاوہ صرف
ادنیٰ طبقے سے تعلق رکھنے والے عوام ہوں، ہمارے لئے کام کرنے والے چند کروڑ
پتی ہوں، پولیس ہو اور فوج ہو۔۔۔۔۔پورے یورپ میں اور یورپ کی وساطت سے
دوسرے براعظموں میں بھی ہمیں ہنگامہ، فساد، اختلافات اور باہمی عداوتوں کی
حوصلہ افزائی کرنی ہوگی۔ اس سے ہمیں دو فوائد حاصل ہوں گے۔ اول تو اس طرح
ہم تمام ملکوں کو اپنے قابو میں رکھ سکیں گے اور دوسرے ہم اپنی ریشہ
دوانیوں کے ذریعہ سے مختلف ملکوں کے گردسیاسی اور معاشی معاہدوں اور قرضوں
کے بوجھ کا تانا بانا بن سکیں گے۔اگر معاہدہ کرنے والے ملک کا کوئی پڑوسی
ملک ان معاہدوں میں ہماری مخالفت کی جرات کرے تو ہمیں اس قابل ہوناچاہیے کہ
بزور شمشیر اس مخالفت کی سزا دلوا سکیں اور اگر تمام پڑوسی ممالک ہمارے
خلاف ہوجائیں تو ہمیں عالمگیر جنگ چھیڑکر اس کی مزاحمت کرنی چاہیے۔
( Protocols # 7 ۔ عالمگیر جنگیں۔ ہتھیاروں کی دوڑ کی حوصلہ افزائی، غیر
یہودی مخالفت کے سد باب کیلئے عالمی جنگ، امریکہ ، چین اور جاپان کی عسکری
قوت)
8۔ ہمیں اپنے آپ کو ان تمام ہتھیاروں سے لیس کر لینا چاہیے جو ہمارے دشمن
ہمارے خلاف استعمال کر سکتے ہیں۔ ہمیں قانونی جوازی کی لغت کو کھنگال کر،
ان اقدامات کو درست ثابت کرنے کیلئے جو غیر ملکی بیباک اور غیر قانونی نظر
آتے ہوں، طرح طرح کے خوشنما الفاظ اور دقیق نکات تلاش کرنے چاہیں۔ یہ بات
بہت اہمیت رکھتی ہے کہ ان اقدامات کو الفاظ کا وہ جامہ پہنایا جائے جو
اعلیٰ ترین اخلاقی قدروں اور قانون کے قالب میں ڈھلے ہوئے ہوں۔۔۔۔۔ ہم اپنی
حکومت کے گرد ساری دنیا کے ماہرین معاشیات کو اکٹھا کر لیں گے۔ ہمارے گرد
بینکاری، صنعت، اور سرمایہ کاری کے درخشاں ستاروں کی کہکشاں ہو گی اور سب
سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ہمارے گرد کروڑ پتی ہوں گے چونکہ ہر چیز کا آخری
فیصلہ دولت ہی سے کیا جائے گا۔
(Protocols # 8 ۔ عارضی ہنگامی حکومت۔ بینکاروں، صنعت کاروں اور سرمایہ
داروں کو قابو میں رکھنا)
9۔ آزاد خیالوں کے اقوال یعنی ’’ آزادی ‘‘ ’’مساوات‘‘ اور ’’ اخوت‘‘ عملاً
ہمارے فری میسن ہی کے دئیے ہوئے نعرے ہیں۔ جب ہم اپنی بادشاہت قائم کریں گے
تو ان نعروں کی اتنی قلب ماہیت کر دیں گے کہ یہ ہمارے نعرے نہیں رہیں گے۔اس
کی بجائے یہ صرف خیالی تصور (IDELISM ) کا ذریعہ اظہار رہ جائیں گے۔یعنی ان
کے معنی بدل کر ’’ آزادی کا حق‘‘ مساوات کا فرض‘‘ اور ’’اخوت کا تصور‘‘ رہ
جائیں گے۔ یہ ہیں وہ معنی جو ہم ان الفاظ کو دیں گے اور اس طرح ہم ان
نظریات کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کریں گے۔۔۔۔۔یہ ہم ہی ہیں جو ہمہ
جہت دہشت گردی پھیلاتے ہیں۔ ہمارے تنخواہ داروں میں ہر مکتبہ فکر کے افراد
شامل ہیں۔ ہر مسلک سے تعلق رکھنے والے، شاہ پسند، شورش پسند، مجمع لگانے
والے تقریر باز، اشتراکی، اشتمالی اور خوابوں کی دنیا میں بسنے والے۔ ہم نے
سب کو کام پر لگایا ہوا ہے۔ ان میں سے ہر ایک اپنے طور پر اقتدار کی جڑوں
کو کھوکھلا کر رہا ہے۔ ہر مستحکم نظام کو تہ و بالا کرنے میں لگا ہوا ہے۔
(Protocols # 9 ۔ تعلیم کے بعد تعلیم، دہشت گردی کا منبع)
10۔ نادان عوام سیاستدانوں کی ذہانت اور فطانت کو بڑی عقیدت اور ا حترام کی
نظر سے دیکھتے ہیں اور ان کے تشدد تک کو مستحسن سمجھتے ہیں۔ یہ شیطانیت ہی
ہے لیکن ہے کتنی ذہانت کے ساتھ۔ آپ اگر چاہیں تو اسے ایک چال کہہ سکتے ہیں
لیکن ذرا سوچئے تو سہی یہ چال کتنی عیاری اورمکاری سے ساتھ چلی گئی۔اور
کتنے شاندار طریقے سے مکمل کی گئی ہے۔ کتنی دیدہ و دلیری اور بیباکی کے
ساتھ۔ ہمیں یقین ہے کہ تمام ممالک یہ جدید ڈھانچہ قائم کرنا چاہیں گے جس کا
منصوبہ ہم نے تیار کیا ہے۔۔۔۔۔ انتخابات، جنہیں ہم نے بڑی محنت اور
جانفشانی سے بنی نوع انسان کی چھوٹی چھوٹی اکائیوں میں جلسے کرا کرا کے اور
گروہوں کے درمیان معاہدے کرا کے ذہین نشین کروایا ہے یہی انتخابات دنیا کی
تخت نشینی کے حصول میں ہماری مدد کریں گے۔۔۔۔۔ دنیا کے عوام کو ان کی
حکومتوں کے خلاف صف آراء کیا جائے اور باہمی اختلافات، نفرت، جدوجہد،
جسمانی اذیت، بھوک، امراض و احتیاج اتنی بڑھا دی جائیں کہ انسانیت تھک کر
چور ہو جائے اور غیر یہودیوں کیلئے ہماری دولتمند اور وسائل سے مالا مال
حکومت کی محکومی کے علاوہ اور کوئی جائے قرار باقی نہ رہے۔
(Protocols # 10 ۔ اقتدار کی تیاری، عام رائے دہندگی)
11۔ خدانے ہمیں، جو اس کی منتخب امت ہیں۔ منتشر ہونے کی صلاحیت سے نوازا ہے
اور اس صلاحیت میں جو دوسروں کی نظر میں ہماری کمزوری ہے، اصل میں ہماری
طاقت مضمر ہے۔ ایسی طاقت جس نے ہمیں اب ساری دنیا کی مطلق العنان بادشاہت
کی دہلیز پر لاکھڑا کیا ہے۔ ہم نے جو بنیادیں استوار کی ہیں اس پر عمارت
تعمیر کرنا اب کوئی مشکل کام نہیں ہے۔
(Protocols # 11 ۔ مکمل مطلق العنان حکومت، نیا آئین،انسانی حقوق کا تعطل)
12۔ آزادی کے لفظ کی مختلف طرح سے تشریح کی جا سکتی ہے۔ ہم اس کی تعریف یوں
کریں گے کہ ’’آزادی وہ کام کرنے کا حق ہے جس کی قانون اجازت دے‘‘۔ آزادی کے
لفظ کی یہ تشریح مناسب وقت پر ہمارے کام آئے گی۔ ۔۔۔۔ ہم دنیا بھر کے پریس
میڈیا کو مکمل طور پر اپنے قابو میں لیں گے۔ ہماری اجازت کے بغیر کوئی خبر
عوام تک نہیں پہنچ پائے گی۔ آج کل بھی یہ مقصد اسی طرح حاصل ہو رہا ہے۔
چونکہ تمام خبریں چند خبر رساں اداروں کے ذریعہ سے ہی ملتی ہیں جن کے
دفتروں میں یہ ساری دنیا سے آکر جمع ہوتی ہیں۔ اس وقت یہ سارے خبر رساں
ادارے ہماری ملکیت ہوں گے اور صرف وہ خبر شائع کریں گے جن کے شائع کرنے کا
ہم حکم دیں گے۔۔۔۔۔ کچھ اخبار اور رسائل ہم بذات خود اپنی مخالفت یا تنقید
کرنے کے لئے جاری کریں گے جو بظاہر کلی طور پر ہماری حکمت عملی کی شدید
مخالفت کریں گے۔اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ ہمارے ازلی دشمن اس مصنوعی مخالفت
کو اپنی آواز سمجھ کر اپنا باطن ہمارے سامنے کھولتے رہیں گے۔
( Protocols # 12 ۔ پریس کو قابو میں لانا۔ ذرائع نشر و اشاعت پر قبضہ)
13۔ آزاد خیال اور خیالی پکاؤ پکانے والوں کا کردار اس ڈرامے میں اس وقت
ختم ہو جائے گا جب ہماری مطلق العنان حکومت کو تسلیم کر لیا جائے گا۔ وہ
وقت آنے تک یہ ہماری مفید خدمت انجام دیتے رہیں گے اور اس وقت تک ہم ان کی
فکر کا رخ بھانت بھانت کے سنکی نظریات کے موہوم تصورات کی طرف ، جو نئے اور
ترقی پسند کہلائیں گے، موڑتے رہیں گے۔۔۔۔۔ جب ہماری بادشاہت قائم ہو گی تو
ہمارے مقررنین ان اہم مسائل کی نشاندہی کریں گے جنہوں نے انسانیت کو تہ و
بالا کر کے رکھ دیا تھا اور یہ بتائیں گے کہ ہماری فلاحی اور کریم النفس
حکومت ان مسائل کا خاتمہ کرنے کیلئے وجودمیں آئی ہے۔ اس کے بعد اس پر کون
شبہ کرے گاکہ یہ تمام لوگ سیاسی حکمت عملی کے اسٹیج پر ہمارے سدھائے ہوئے
کردار تھے جن کا ان تمام پچھلی صدیوں میں کوئی اندازہ تک نہیں لگا سکا۔
(Protocols # 13 ۔ توجہ بھٹکانا۔ نان شبینہ، تفریحی مراکز، شبہ سے بالا تر
منصوبہ)
14۔ جب ہماری بادشاہت قائم ہو جائے گی تو ہمیں اپنے مذہب کے علاوہ کسی اور
مذہب کا وجود ناقابل قبول ہو گا۔ایک خدا، جس کے ساتھ ہماری تقدیر، منتخب
امت ہونے کی وجہ سے وابستہ ہے، اور اس کے توسط سے ہماری تقدیر دنیا کی
تقدیر سے وابستہ ہے۔ اس کے پیش نظر میں تمام عقائد کو حرف غلط کی طرح مٹانا
پڑے گا۔ (Protocols # 14 ۔ مذہب پر حملہ۔ موجودہ تمام مذاہب کو نیست و
نابود کرنا، غلامی کا نیا دور، ترقی پسند ممالک میں فحش نگاری کی ہمت
افزائی)
15۔ اگر کہیں کوئی منصوبہ بندی ہورہی ہو تو اس منصوبہ بندی میں اہم کردار
ادا کرنے والا ہمارا کوئی مخصوص اور قابل اعتبار بندہ ہونا چاہیے ۔فطر ی
بات یہ ہے کہ فری میسن کے علاوہ اور کون یہ حق رکھتا ہے کہ اہم معاملات کو
اپنے ہاتھوں میں رکھے کیونکہ یہ صرف ہم جانتے ہیں کہ معاملات کو کیا شکل
دینی ہے اور کس انجام تک پہنچنا ہے ۔ ۔۔۔۔ غیر یہود کا اجڈ دماغ تجربے اور
مشاہدے کی صلاحیت سے عاری ہے اور اس سیاق و سباق میں پیش بینی کا تو بالکل
ہی اہل نہیں ہے۔ ہم میں اور غیر یہود میں فکری استعداد کا یہ فرق ہمارے
منتخب امت ہونے پر مہر تصدیق ثبت کرنے کیلئے کافی ہے۔ اعلیٰ انسانی صفات
اگر ہمارہ وطرہ امتیاز ہیں تو غیر یہود اپنے اجڈ دماغ کی وجہ سے پہچانے
جاتے ہیں۔ ان کی آنکھیں کھلی ہوئی ہیں لیکن سامنے کی چیز نظر نہیںآتی۔ وہ
کوئی اختراع نہیں کر سکتے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ خود قدرت نے ہمارے لئے
قیادت کرنا اور دنیا پر حکومت کرنا مقدر کر دیا ہے۔ (Protocols # 15 ۔
استیصال۔ بیک وقت عالمی انقلاب، فری میسن کا مقصد ، منتخب امت، طاقتور کا
غیر استدلالی حق، اسرائیل کا بادشاہ)
16۔ تمام اجتماعی قوتوں کا (سوائے اپنے آپ کے) استعمال کرنے کیلئے ہم سب سے
پہلے اجتماعیت کے پہلے مرحلے یعنی تعلیمی درسگاہوں کو خصی کریں گے۔ ہم
تعلیم کے شعبے میں ہر قسم کی آزادی کو ختم کر دیں گے۔ ہر شعبہ زندگی کیلئے
ایک علیحدہ منصوبہ ترتیب دیا جائے گا اور ہر ایک کو یکساں تعلیم نہیں دی
جائے گی۔ فکر کو لگام دینے کا طریقہ، معروضی سبق پڑھانے کے نام نہاد طریقے
کے ذریعہ پہلے ہی سے کام کر رہا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ غیر یہودیوں کو
تفکر سے عاری اجڈ اطاعت شعاروں میں تبدیل کر دیا جائے۔ (Protocols # 16 ۔
ذہنی تطہیر)
17۔ دنیا بھر میں مذہب کے تبلیغی مراکز کو تباہ کرنے کیلئے جو اس زمانے میں
بھی ہماری راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ہیں، ہم عرصہ دراز سے کوشش کر رہے ہیں کہ
عوام کے دل سے علماء کا احترام ختم کر دیا جائے۔ اب روز بروز عوام میں ان
کا اثر ختم ہو رہا ہے۔ ہر جگہ ضمیر کی آزادی کو قبول عام حاصل ہورہا ہے اور
اب چند سالوں کی بات ہے کہ نصرانی مذہب صفحہ ہستی سے بالکل نیست و نابود
ہوجائے گا۔ جہاں تک دوسرے مذاہب کا تعلق ہے انہیں ختم کرنے میں ہمیں اتنی
دشواری نہیں ہو گی۔ تمام مذاہب کو تہہ و بالاکرنے کے بعد یہودی بادشاہ ساری
دنیا کا پاپائے اعظم ہو گااور اسی کا طریقہ دنیا میں راج ہو گا۔ ہم اپنی
مطلق العنان حکومت کے خلاف اٹھنے والی ہر تحریک اور آواز کو کچلنے اور خفیہ
معلومات اکٹھی کرنے کیلئے پولیس میں خفیہ مخبروں کی بھرتی کریں گے۔
(Protocols # 17 ۔ اختیارات کا ناجائز استعمال۔ انصاف سے بد دلی، نصرانی
مذہب کا استیصال، یہودی سردار ساری دنیا کا پاپائے اعظم، خفیہ پولیس میں
مخبروں کی بھرتی)
18۔ ہم نے اپنے گماشتوں کے ذریعہ جو ہمارے ریوڑ کی نابینا بھیڑیں ہیں، غیر
یہودی بادشاہوں پر بار بار حملے کروا کر ان کے وقار کے پندار کو توڑ دیا
ہے۔ یہ بھیڑیں آزاد خیالی کے چند نعروں کے فریب میں آسانی سے پھنس جاتی
ہیں۔ بس شرط یہ ہے کہ اسے سیاسی رنگ دے دیا جائے۔ ہم نے حکمرانوں کی خفیہ
حفاظت کے اقدامات کو طشت ازبام کر کے حکمرانوں کو اپنی کمزوری تسلیم کرنے
پر مجبور کر دیا ہے اور بالآخر اسی طرح ہم ان کے اقتدار کو بالکل تباہ کر
دیں گے۔ (Protocols # 18 ۔ سیاسی حریفوں کی گرفتاری، خفیہ حفاظتی اقدامات،
اقتدار کو کمزور کرنا)
19۔ سیاسی و قومی ہیروز، الوالعزموں کے وقار اور مقبولیت کا جنازہ نکالنے
کیلئے ہم ان پر چوری، قتل، زنا اور اس قسم کے دوسرے مکروہ اور گندے الزامات
کے مقدمات چلائیں گے۔ ان مقدموں کے چلنے کے بعد رائے عامہ انتشار کا شکار
ہو کران مجرموں کو اسی طرح دیکھے گی جیسے دوسرے جرائم میں ملوث افراد کو
دیکھا جاتا ہے۔اور ان کی اتنی ہی بے عزتی ہو گی جتنی کہ عام مجرموں کی ہوتی
ہے۔ ہم اپنا کام جتنا بہتر طریقہ سے کر سکتے تھے، کر چکے ہیں اور ہمیں قوی
امید ہے کہ ہم غیر یہودیوں کو بغاوت کا حربہ استعمال کرنے سے باز رکھنے میں
کامیاب ہو رہیں گے۔ صرف اسی وجہ سے ہم نے پریس و الیکٹرونک میڈیا پر
بالواسطہ تقریروں اور تاریخ کے موضوع پر عیاری سے لکھی ہوئی کتابوں کے
ذریعہ اتنا مشتہر کیاکہ اس سے آزاد خیالوں کی تعداد میں کافی اضافہ ہوا ہے
اور ہزاروں غیر یہودی جوق در جوق ہمارے ریوڑ میں شامل ہو گئے۔ (Protocols #
19 ۔ حکمران اور عوام۔ الوالعزمی (HEROSM)کی تذلیل، باغیوں کی شہادت)
20۔ ہماری مطلق العنان حکومت، جس میں ملک کی ہر چیز بادشاہ کی ملکیت تصور
کی جائے گی ( جسے بعد میں آسانی سے حقیقت میں بدل دیا جائے گا)۔ بادشاہ کو
یہ اختیار ہو گا کہ وہ تمام سرمایہ ضبط کر کے اسے ملک میں گردش دینے کے لئے
استعمال کرے۔ (Protocols # 20 ۔ مالیاتی لائحہ کار، جامد سرمایہ، سونے کا
تباہ کن معیار)
21۔ جب ساری دنیا پر ہماری حکمرانی قائم ہوجائے گی تو تمام مالی اور اس قسم
کی دوسری چال بازیاں جو ہمارے مفاد میں نہیں ہوں گی اس طرح ختم کر دی جائیں
گی کہ ان کا نام و نشان تک باقی نہ رہے گا۔ اور اس کے ساتھ ہی سارے بازارِ
زر (MONEY MARKETS ) بھی بند کر دی جائیں گی۔ چونکہ ہم ہرگز اس بات کی
اجازت نہیں دے سکتے کہ ہماری مقرر کردہ قدروں کی قیمتوں کے ردوبدل سے ہماری
قوت کا وقار مجروع ہو۔ (Protocols # 21 ۔ قرض کا لین دین۔ دیوالیہ ہونا،
بازارِ زر (MONEY MARKETS )کا خاتمہ)
22۔ ہمارے ہاتھوں میں اس وقت دنیا کی عظیم ترین قوت ہے اور وہ قوت ہے سونا۔
دو دن کی قلیل مدت میں ہم اپنے ذخیروں سے جتنا چاہیں سونا حاصل کر سکتے
ہیں۔ اس کے بعد یقیناًاب کوئی مزید ثبوت پیش کرنے کی ضرورت نہیں کہ ہم خد
کی منتخب کردہ امت ہیں اور خدا نے اقتدار اعلیٰ ہمارے لئے طے کر دیا ہے
،ہماری ملکیت میں بے بہا سونا یہ ثابت کرنے کیلئے کافی ہے کہ صدیوں پر محیط
ماضی سے حال تک ہم سے جو خباثتیں اور خرابیاں سرزد ہوئیں ان میں فلاح
وبہبود کا راز پنہاں تھا اورہر چیز کو ایک نظم کی لڑی میں پرونے کیلئے تھا
،اب ناگزیر تشدد بھی قیام حکومت کی خا طر ہو گا ۔
(Protocols # 22 ۔ سونے کی قوت )
23۔ جب ہماری مطلق العنان بادشاہت قائم ہو گی تو موجودہ بادشاہوں کا کھیل
ختم ہو جائے گا اور یہ ضروری ہو گا کہ یہودیوں کا بادشاہ انہیں اپنے راستے
سے بالکل صاف کر دے تاکہ اس کی راہ میں کوئی رکاوٹ اور اس پرانے نظام کا
کوئی بچا کچھا روڑا تک باقی نہ رہے۔
(Protocols # 23 ۔ دلوں میں اطاعت شعاری کا جذبہ پیدا کرنا، اشیائے تعیش
میں کمی، موجودہ حکمرانوں کی بجائے ایک حکمران اعلیٰ)
Protocols # 24 ۔ مطلق العنان بادشاہی کیلئے آل داؤد میں سے ایک فرد کا
انتخاب اور اس کی تربیت۔ طریقہ کار یہ ہو گا کہ دنیا کے آخری طبقے تک آل
داؤد کی نسل کی تصدیق کی جائے گی۔ سب سے پہلے اور سب سے زیادہ اہم تصدیق وہ
ہے جس کے ذریعہ ہمارے دانا برزگوں نے آج تک دنیا کے امور چلانے اور بنی نوع
انسان کی فکری تربیت اور رہنمائی کرنے کیلئے قدامت پرستی کی قوت قائم رکھی
ہے۔
یہ یہود کی انتہائی اہم خفیہ دستاویزات میں اہم انتباس آپ کی خدمت میں پیش
کیا ۔ اب آپ کو یہ بتاتے ہیں یہود کی یہ اہم خفیہ معلومات لیک کیسے ہوئیں
اور کب منظر عام پے آئیں۔
وہ کتاب جس کے ذریعہ یہ دستاویزات سب سے پہلے منظر عام پر آئیں۔
پروفیسرسرجی نیلس (NILUS)نے 1905۱ء کو روس میں شائع کی تھی۔اس کتاب کا ایک
نسخہ10اگست 1906ء کو برٹش میوزیم سے موصول ہوا۔پروفیسر نیلس کا اس کتاب کو
چھاپنے کا مقصد یہ تھا کہ اس بھیانک سازش کو بے نقاب کیا جائے جو دنیا کا
امن تباہ کرنے کیلئے تیار کی گئی تھی۔ اس کتاب کی اشاعت سے پہلے اگست اور
ستمبر1903ء میں روسی اخبار سنامیا (SNAMIA) یہ دستاویزات شائع کر چکا
تھا۔روس کی باہر کی دنیا کو ان دستاویزات کا علم اس وقت ہوا جب بالشویک
انقلاب کے بعد روسی تارکین وطن پروفیسر نیلس کی کتاب اپنے ساتھ شمالی
امریکہ اور جرمنی لائے۔کتاب کی اشاعت کے وقت تواسے کوئی خاص اہمیت نہیں دی
گئی تھی لیکن جب بالشویک دور میں واقعات بالکل اسی طرح پیش آتے گئے جیسے کہ
اس کتاب میں پیش گوئی کی گئی تھی تو یہ دستاویزات جو اب تک بالکل غیر اہم
اور معمولی سمجھی جا رہی تھیں یکایک ساری دنیا میں اہمیت اختیار کر گئیں۔
ڈسرائیلی(وزیر اعظم برطانیہ) کی کتاب ’’دی لائف آف جارج بنئک‘‘ میں جو1852ء
میں لکھی گئی تھی، ان صیہونی دستاویزات کی طرف مندرجہ ذیل حوالہ محل نظر
ہے۔
’’یورپ کو تباہ کرنے کی پچھلی سازش میں یہودی ہاتھ واضح طور پر کارفرما نظر
آتا ہے۔ یہ بغاوت، روایت، اشرافیت، مذہب اور حق ملکیت کے خلاف تھی۔ اس کا
مقصد یہ تھا کہ سامی وسیب کے تمام نقوش کو صفحہ ہستی سے نیست ونابود کر
دیاجائے خواہ وہ موسوی شریعت کی شکل میں ہوں یا عیسیٰ کی۔ خفیہ تنظیمیں،
مساوات کے نام پر انفرادی حق ملکیت کے خلاف اعلان جنگ کر رہی ہیں۔ان خفیہ
تنظیموں کے اوپر ایک یہودی النسل سربراہ بیٹھا ہوا ہے۔ خدا کو ماننے والے
بے دینوں سے تعاون کر رہے ہیں۔ جن لوگوں نے انتہائی عیاری سے دولت سمیٹی ہے
اور جائیدادیں بنائی ہیں وہ اشتمالیوں (کمیونسٹوں) کا ساتھ دیتے ہوئے نظر
آتے ہیں۔ وہ قوم جو اپنے آپ کو خدا کی افضل ترین امت ہونے کا دعویٰ کرتی ہے
یورپ کی پست ترین اقوام کے ساتھ شیر و شکر ہو رہی ہے۔‘‘
ہنری فورڈ سینئر (فورڈ موٹر کمپنی کے بانی) نے مندرجہ ذیل الفاظ میں اختصار
سے بیان کیا ہے۔ 17 فروری 1921ء کو انہوں نے نیویارک کے اخبار ’’ورلڈ‘‘
کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا:
’’ان دستاویزات کے بارے میں ، میں صرف ایک بیان دینا چاہتا ہوں کہ یہ
دستاویزات صد سالہ پرانی ہیں لیکن واقعات من و عن اسی طرح رونما ہو رہے ہیں
جیسے کہ ان دستاویزات میں منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ آج کے حالات بھی ان کے
عین مطابق ہیں۔‘‘
والٹر ریتھنو (Walter Rethenau) یہودی بینکار ، قیصر جرمنی کا پشت پناہ
تھا، اس کا ایک جرمن اخبار (Weiner Frei Prdsse)میں24 دسمبر 1912ء میں یہ
بیان شائع ہوا۔
’’صرف تین سو افراد جن میں سے ہر ایک دوسروں سے بخوبی واقف ہے، یورپ کی
قسمت کا فیصلہ کرتے ہیں اور وہ اپنے جانشینوں کا انتخاب اپنے ساتھیوں میں
سے کرتے ہیں۔‘‘
ریتھنو کے اس قول کی تصدیق بیس سال بعد 1931ء میں اس وقت ہوئی جب ژاں
ازولے(Jean Izoulet) نے ، جو عالمی اسرائیلی گروہ (Israelite Uninerselle
Alliance)کا ایک سرگرم رکن تھا۔ اپنی کتاب ’’پیرس ، مذاہب کا پایہ تخت
(Parisla Capital Des Religions)میں لکھا:
’’ پچھلی صدی کی تاریخ کا ماحصل یہ ہے کہ تین سو یہودی سرمایہ کار جو فری
میسن لاجوں کے ماسٹر ہیں، ساری دنیا پر حکومت کرتے رہے ہے۔‘‘
1934ء میں برطانیہ کی لیبر پارٹی کے لیڈر ( کلیمنٹ ایٹلی)نے جب پارٹی کی
سالانہ کانفرنس کو بتایا تھا کہ ’’ ہم دانستہ طور پر اپنی وفاداری اپنے ملک
کی بجائے ایک عالمی تنظیم کو منتقل کر رہے ہیں ۔‘‘
تو بیشتر لوگوں نے بڑے بُرے بُرے منہ بنائے تھے۔تےئس سال کا مستقل
پروپیگنڈا بہر حال اپنا رنگ لائے بغیر نہ رہ سکا اور جب 1957ء میں
برطانیہ کے ایک قدامت پسند وزیر اعظم (Conservative) نے برطانوی عوام کو
بتایا کہ انہیں اپنی خود مختاری کی تھوڑی سی قربانی ایک نامعلوم بین
الاقوامی ٹولے کو دینی پڑے گی تو اس وقت احتجاج کی ایک آواز بھی نہ اٹھ
سکی۔
میکس نورد (Max Nordau) نامی ایک یہودی نے اگست 1903ء میں باسل (Basle)
میں صہیونی کانگریس میں تقریر کرتے ہوئے یہ حیرت انگیز پیش گوئی کی تھی:
’’مجھے یہ الفاظ کہنے کی اجازت دیجئے کہ میں آپ کو وہ زینہ دکھاؤں جس کی
سیڑھیاں صرف اوپر کی طرف اٹھتی چلی جا رہی ہیں۔ ہرٹزل صیہونی کانگریس منعقد
ہو چکی ہے۔ اب برطانوی یوگنڈا کی تجویز پیش کی جائے گی، پھر جنگ عظیم ہو
گی۔ اس کے بعد امن کانفرنس ہوگی جس میں انگلستان کی مدد سے فلسطین میں ایک
آزاد یہودی ریاست وجود میں آئے گی۔‘‘
1957ء کے اختتام پر برطانوی حکومت نے ایک ایسے منصوبے کا سرکاری اعلان
کیا جس کی پیش گوئی ساٹھ سال قبل کی صیہونی دستاویزات میں کی گئی تھی۔ ارل
آف گاسفورڈ، جوائنٹ پارلیمنٹری انڈر سیکرٹری آف اسٹیٹ برائے امور خارجہ نے
7 نومبر 1957ء کو برطانیہ کے دار الامراء میں اعلان کیا:
’’مکہ معظمہ کی حکومت عالمی حکومت کے قیام کے منصوبے کی مکمل حمایت کرتی
ہے۔ ہم اسے اپنی منزل مقصود تصور کرتے ہیں اور اس منزل پر پہنچنے کیلئے ہر
امکانی کوشش جو ہمارے بس میں ہے، کریں گے۔‘‘
آج ان دستاویزات کے متعلق بتایا جا رہا ہے کہ یہ جعلی ہیں۔ یہ بات محض ہمیں
دھوکہ دینے اور ہماری آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔کیا یہ سب
اتفاقی حادثات ہو سکتے ہیں؟ کیا کسی جعلساز کے لئے اتنی بیش بینی ممکن تھی؟
یہ دستاویزات اس عالمی سازش کا خاکہ ہیں جس کے متعلق پروفیسر نیلس(NILUS)
اور دوسرے لوگوں کو یقین تھا کہ یہ سامی وسیب و مذاہب کو تباہ و برباد کر
کے دنیا پر ایک چھوٹے سے مخصوص ٹولے کی حکمرانی اور تسلط قائم کرنے کے لئے
تیار کی گئی ہیں۔ |
|