سعودی عرب میں شاہ عبداللہ کی وفات کے بعد کے غیرمعمولی
تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں شاہ سلمان کے اقتدار سنبھالنے اور اپنے بیٹے کو
اختیارات کی منتقلی کے بعد ۳۲ سالہ محمد بن سلمان نے سعودی عرب کو ایک
بالکل نئے راستے پر ڈال دیا ہے محمد بن سلمان نے سعودی عرب کو معاشی حوالے
سے آگے بڑھانے کے لئے ویژن ۲۰۳۰ دیا جس میں ہر میدان میں انقلابی تبدیلیاں
لائی گئیں ان اصلاحات اور تبدیلیوں کا سلسلہ ھنوز جاری ہے اس بات میں کوئی
شک نہیں ہے کہ داخلی سطح پر بعض اصلاحات کا مقامی باشندوں کو معاشی حوالے
سے فائدہ پہنچے لیکن ان اصلاحات کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ جس سے ناصرف
سعودی شہریوں کی مذھبی آزادی سلب ہو گی بلکہ دنیا بھر کے مسلمان بھی بعض
منفی اصلاحات کے اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکیں گے۔
ایسی ہی اصلاحات میں سے ایک اسلامی آثار کے معاشرے میں کردار کو ختم کر کے
پورے ملک میں لبرل ازم کا فروغ ہے اس صورت حال میں یورپ سعودی عرب کی طرف
ملتفانہ نگاہوں سے دیکھ رہا ہے لیکن خدانخواستہ اگر ۲۰۳۰ ویژن کے تمام
منصوبوں پر عمل ہوتا ہے تو دنیا بھر کے مسلمانوں کو نا قابل تلافی نقصان
پہنچے گا۔
بعض امریکی،یورپی اور بعض لوکل پاکستانی اخبارات میں ایک ایسے ہی شرمناک
منصوبے کی خبریں آ رہی ہیں جس کے مطابق سعودی حکومت نے ۱۵۰ کے قریب مقامی
علما سے رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے جسد مبارک کو ایک جگہ سے دوسری
جگہ منتقل کرنے کی اجازت طلب کی ہے جواب میں علما نے بعض شرائط کی موجودگی
میں ایسا کرنے کی اجازت دی ہے۔
منصوبے کے مطابق مسحد نبوی کو توسیع دی جائے گی اور رسول اللہ ص کے جسد
مبارک کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جائے گا۔لیکن سعودی حکومت کا اصل
ہدف و مقصد رسول اللہ ص کی قبر کےمرکز کو ختم کرنا ہے۔اس حوالے سے سعودی
شدت پسند علما تو کئی بار یہ فتاوی بھی دے چکے ہیں کہ رسول اللہ صلی اﷲ
علیہ وآلہ وسلم کے روضہ اقدس پر بدعتیں ہوتی ہیں اس لئِے نعوذ باللہ روضہ
مبارک کو گرادیا جائے۔اسی سوچ کی پیروی کرتے ہوئے سعودی حکومت رسول اللہ ص
کے روضہ اقدس کے روحانی اور معنوی پہلوؤں کو ختم کرنا چاہتی ہے اس لئے کہ
اگر رسول اللہ ص کے روضہ اقدس کا موجودہ مقام و مرتبہ قائم رہتا ہے تو
معاشرے کو لبرل ازم کی طرف نہیں ہانکا جا سکتا اس لئے کہ روضہ رسول ص ناصرف
مقامی مسلمانون بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے لئے روحانی ومعنوی مرکز ہے اس
مرکز کے ہوتے ہوئے لبرل ازم کو فروغ دینا تقریبا نا ممکن ہے اسی بات کے پیش
نظر سعود حکومت توسیع کے نام پر قبرمبارک کو کسی ایسی جگہ منتقل کرے گی
جہاں مرکزیت ختم ہو کر رہ جائے گی۔اس کے بعد مسجد نبوی کو صرف ایک پرانی
تاریخی عمارت کے طور پر پیش کیا جائے گا۔
سعودی عرب میں شاہی خاندان کی حکومت سے لے کر آج تک عجیب و غریب افکار نے
سعودی معاشرے میں پنپ کر تباہی پھیلائی ہے ایک وقت وہ تھا جب اسلامی تاریخ
کے آثار کی زیارت کو بدعت قرار دے کر حکومتی سطح پر کمپین چلائی گئی اور
آہستہ آہستہ اسلامی تاریخی آثار اور مقدس مقامات فائو سٹار ہوٹلوں کی بلند
و بالا عمارتوں میں دبنے لگے گو کہ ان اقدامات پر دنیا بھر کے مسلمانون نے
احتجاج کیا لیکن یہ احتجاج مقدس مقامات کو محو ہونے سے نہ بچا سکا آج سعودی
عرب میں حالات ایک بار پھر بڑی تبدیلیوں کا اشار دے رہے ہیں کل اگر اسلام
کے نام پر سعودی عرب میں شدت پسند سوچ کو پروان چڑھایا گیا تو آج لبرل ازم
کا راستہ ہموار کرنے کے لئے خونخوار آنکھیں روضہ رسول ص کی طر اٹھ رہی ہیں
خدا نہ کرے کہ وہ دن آئے جب سعودی حکمران روضہ اقدس کے حوالے سے کوئی منفی
قدم اٹھائیں لیکن اس سے پہلے ہر مسلمان کا فرض ہے کہ سعودی حکومت کے اس
شرمناک اور اسلام دشمن منصوبے پر احتجاج کرے تا کہ کسی کو بھی رسول اللہ
صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے روضہ اقدس کا تقدس پامال کرنے کا موقع نہ مل سکے۔ |