تحریر ۔۔۔ مہوش احسن
یہ وہ مسئلہ جس پہ ہم چاہ کر بھی غور نہیں کر رہے درحقیقت ہم غور کرنا ہی
نہیں چاہتے ہمارا مسئلہ ملک یا حکمران نہیں ہیں ہمارا سب سے سنگین خطرناک
مسئلہ ہم خود ہیں جس کی ایک مثال میں پیش کرنا چاہوں گی جب ہم اپنے محلے کی
دوکان سے نمک چینی یا آٹا خریدتے ہیں اور ریٹ حکومت کے طے کیے ریٹ سے زیادہ
ہوتا ہے تب ہم دوکان والے سے مخاطب ہوتے ہیں میاں خدا کا خوف کھاؤ فلاں کہ
پاس تو اس سے آدھی قیمت پہ مل رہا ہے تم کیا کسی خاص گندم کا آٹا بیچ رہے
ہودو باتیں سنا کر چل پڑتے ہیں کسی اور کی طرف اور اس بیچ کا جو سفر ہم طے
کرتے ہیں وہ حکمرانوں کو گالیاں دینے میں گزر جاتا ہے ۔وہ حکمران جنھیں علم
تک نہیں ہوتا کہ کونسے شہر کے کس محلے میں کونسا دوکان والا کیا دام لگائے
بیٹھا ہے اور ہم سا مظلوم تو زمانے میں کوئی نا ہوگاہم وہ مظلوم قوم ہیں جو
برا کرنے والے کو برا بولتی ہے۔ برائی کی روک تھام میں ہمیں کوئی دلچسپی
نہیں ہے۔ جب ہم اپنے ہی محلے کے فرد کو غلط دام لگانے سے نہیں روک سکتے اور
اپنی زبان تک پہ ہمارا اختیار نہیں تو حکمرانوں پہ کیا ہوگا ہم کیا خاک
تبدیلی لائیں گے جس تبدیلی کی جنگ ہم لوگ لڑ رہے ہیں نا گھر بیٹھے آپس میں
درحقیقت وہ تبدیلی ہمیں اپنے اندر لانے کی ضرورت ہے اور وہ تبدیلی ہے
حکمران نہیں سوچ بدلیں،سیاست کی کرسی میاں جی کے حصے آئے یا خان صاحب کے
ہمیں کسی سے کوئی غرض نہیں ہمیں غرض خود سے ہے ہم بدلیں گے تو معاشرہ بدلے
گا معاشرہ بدلا تو نظام خود بخود ٹھیک ہو جائے گاخدارا اپنے آپ کو بدلیں یہ
حکومت پہ دن رات کے تبصرے چھوڑیں اور اپنے اردگرد نظر ڈالیں بہت سے پریشان
حال بہن بھائی آپکو ملیں گے بھائی چارہ نبھائیں سب سے بڑی تبدیلی یہی ہوگی۔
دن رات کیبل فیسبک ٹوئیٹر پہ چل رہا ہے یہ وہ شوشے ہیں جن کو ہم نے زندگی
کا سب سے اہم حصہ بنا لیا ہے زرا غور کریں یہ بد مزگی جو دن بہ دن عروج
پکڑتی جا رہی ہے ہم اسکا پورا پورا مزا لے رہے ہیں تبصرے فلسفے جھاڑ رہے
ہیں میاں جی کبھی ہمیں لطف اندوز کر رہے ہیں کبھی بلاول بھٹو تو کبھی خان
صاحب ہر نیوز چینل اخبارات ہر جگہ بس ایک دوسرے پہ کچڑ اچھالا جا رہا ہے۔
قارئین !ہم سب یہ کیسے بھول گئے ہیں جب کسی کی خامی ہمیں نظر آتی ہے اس وقت
درحقیقت ہماری خوبی کا امتحان ہوتا ہے اور جہاں تک میرا خیال ہے یہ ملت
ہاری ہوئی ملت ہے یہ امتحان ہم بہت پہلے ہار چکے ہیں اگر ماتم کرنا بھی ہے
تو اپنی ہار کاماتم کریں تبصرہ کرنا بھی ہے تو خود پہ کریں حکمران بدلنے سے
کچھ نہیں ہوگاجب تک ہم اپنی بے حسی کی بیڑیوں سے باہر نکل کر اپنی سوچ نہیں
بدلیں گے ہم مکمل طور پر نفسیاتی ہیں دوغلے پن کا شکار ہیں ہم لوگ مٹھائی
کسی کی کھاتے ہیں اور وٹ کسی اور کو دیتے ہیں یہ ہے ہماری زہنیت ہمارا
معیارمیری بات شاید چند ایک لوگوں کو بری بھی لگے لیکن حقیقت پر مبنی ہے
میاں جی کو جوتا لگنے پہ سب نے مزاحمت کی بہت سی باتیں ہوئی بہت سے لوگ خوش
ہوئے کچھ بھڑکے بھی میڈیا والوں نے ہم سب نے اسکو اخلاقیات کہ خلاف کہالیکن
وہ کلپ بار بار ٹی وی پر بار بار دیکھایا گیا یہ ہے ہمارا سچ جس کو سیاست
کی لڑی پہ پرو کر اپنی نااہلی کو صیح قابل غور ثابت کرنے پہ تلے ہیں ہم ،
چند دن پہلے ہی کی بات ہے کہ میرا خیابان اقبال اشارے پہ رکنا ہوامیں نے
اردگر گہما گہمی پہ غور کیا تو ہر چھوٹا بڑا فرد اس فراق میں تھا کہ کیسے
ٹریفک نظام کو بحال کرنے والے اس شخص کی آنکھوں میں دھول ڈال کے نکلا جا
سکے مجھے کوئی حیرانی نہیں ہوئی کیوں کہ یہ ہی ہے ہماری اصلیت ایسے ہی ہیں
ہم، ہر پہلو میں ہماری چھوٹی بڑی بات میں سفاکی والا جھوٹ ہے ہم اندر سے
کچھ اور باہر سے کچھ اور ہیں اور ایسے میں کوئی شخص حادثے کا شکار ہو کہ
موت کی منہ میں چلا جائے ہم انصاف کے لیے کھڑے ہو جاتے ہیں فلاں کہ ساتھ یہ
ہوا فلاں کا بچہ اغوا ہو گیا اور اب تک نہیں ملا پولیس حکمران تو اب سو رہے
ہیں قانون نام کی تو کوئی چیز ہی نہیں ہے پاکستان میں یہ بھی کوئی ملک ہے
بھلا؟ وغیرہ وغیرہاور جب خیر سے چودہ اگست آتا ہے تو پھر دل دل پاکستان جان
جان پاکستان ۔
ارے بھئی سعودیہ کا قانون اور اپنے قانون پہ نظر ڈالیں تقریباً مماثلت پائی
جاتی لیکن فرق عمل در آمد کا ہے وہاں سختی سے عمل درآمد کرایا جاتا ہے اور
یہاں کوئی عمل نہیں قانون موجود ہے لیکن لا قانونیت نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں
اگر قانون پہ عملدرآمد ہو تو بگاڑ ہی پیدا نہ ہو اور عمل درآمد کس نے
کروانا ہے سٹیٹ نے اور سٹیٹ کے مائی باپ یہی سیاستدان ہیں...جی نہیں...یہ
عمل ہم نے کرنا ہے خود کرنا ہے اور جب تک ہم پہ تشدد نا ہو ہم سنتے کہاں
ہیں ہم کوئی لڑائی کوئی موت دیکھ لیں تو ہمارے انصاف کی شروعات ہمارے ہر
دلِ عزیز موبائل فون سے ہوتی ہے فون نکالا ویڈیو بنائی فیسبک پہ اپلوڈ کرکے
اپنا افسوس ظاہر کرکے لوگوں کی رائے کم لائکس اور کمنٹس کی بڑھتی تعداد سے
خوش ہو جاتے ہیں اور لو جی ہوگیا ہمارا فرض پورا مل گیا انصاف یہ ہیں ہم
احساس سے عاری لوگ کیا میں غلط کہہ رہی ہوں ؟ حوصلہ رکھیے ابھی اور بھی بہت
کچھ ہے۔
ایک فقیر گھر پہ بھیک مانگنے آجائے تو ہمارے اشتیال کی کوئی حد نہیں ہوتی
ہم ٹھیک ٹھاک اسے ذلیل کر کے باہر گیٹ پہ کھڑا کرتے ہیں پھر ترس کھاتے ہوئے
چند ایک سکے اس کی جھولی میں پھینک دیتے ہیں اور جب سوشل میڈیا پہ غربا کہ
حقوق کی بات ہوتی ہے ہم میں ایک دم ایک نیا جذبہ امڈآتا ہے ایسی ایسی دلائل
پیش کرتے ہیں کہ مانو ہم سے بڑا دانشور کوئی نہیں ہے۔ہمیں کوئی بھوکا ننگا
مل جائے تو ہم اپنے بچوں کو ایسے چھپاتے ہیں جیسے وہ ان کو لے اڑے گا ، اور
جب اپنے بچے کو کچھ ہو جائے بھاگتے ہیں درباروں پہ چادر چڑھاتے ہیں گڑگڑاتے
ہیں خلقِ خدا کو دکھ دے کر خالق کو راضی کرنے کے چکروں میں بیٹھی ہم مفاد
پرست قوم ہیں ،جو خدا کو بھی صرف اپنے مفاد کے لیے یاد کرتی ہے خدارا ہم نے
تو اسلام کو بھی نہیں بخشا اس میں بھی اپنی سوچ اپنے اصول تھوپ رہے ہیں
کوئی تو سمجھے اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات دین ہے اس میں کسی بھی طرح کی
تبدیلی تنگ نظری کی گنجائش ہی نہیں تبدیلی لانی ہی ہے تو زبان سے نہیں عمل
سے لائیں ورنہ بہت ہی خوب بات کی گئی ہے کہ تب تک نہیں بدل سکتی اس قوم کی
حالت جب تک خیال نہ ہو خود اسے اپنی حالت کے بدلنے کا۔ |