میری اور ضمیر صاحب کی اکثر لڑائی رہتی ہے، دلائل دیئے
جاتے ہیں تو کبھی میں دنیا کے رنگ میں جیت جاتا ہوں اور کبھی ضمیر مجھے
ہرانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔دونوں میں مکالمہ بازی شروع ہوتی ہے کہ افطار
افطار اور افطار پارٹیاں، افطار دسترخواں کیا واقعی برائے ایصال ثواب لگائے
جاتے ہیں یا فوٹو سیشن اور دنیاوی رنگ میں ایک دوسرے کو مات کرنے کا دوسرا
نام ہے۔ میں نے کہا عین ممکن ہے یہ سب کچھ یعنی ہزاروں لاکھوں روزانہ خرچ
کرنا کوئی آسان کام نہیں ظاہری بات ہے برائے ایصال ثواب ہی ہو سکتا ہے۔
ضمیر صاحب بولے کیا آپ بتا سکتے ہو اس میں روزہ دار کتنے تھے اور دوسرے
اللے تللے کتنے تھے؟ میں نے کہا نہیں اس کا کوئی جواب نہیں۔ ضمیر صاحب نے
دوسرا سوال کیا کیا ان دسترخوانوں، افطار پارٹیوں میں کوئی سفید پوش بھی
جاتا ہے؟ میں نے بغیر سوچے سمجھے کہا بالکل جاتے ہوں گے۔ ضمیر نے پھر پوچھا
یہ بتاؤ اگر سفید پوش افطار پارٹی یا افطار دسترخوان میں شریک ہو کر روزہ
افطار کرتا ہے، کبھی سوچا ہے اس کے گھر والے کیسے روزہ افطار کر رہے ہونگے؟
کیا وہ سفید پوش اپنے بچوں کے لیے اس دسترخوان سے کچھ چیزیں چورا کر،آنکھ
بچا کر اپنی جیب میں اپنے بچوں کے لیے ڈال سکتا ہے؟ اگر ڈالتا ہے تو پھر
چور ہے، تو پھر اس کے روزے کا کیا فائدہ ہوا؟ اگر اس نے ایسا کیا تو کس نے
ایسا کرنے پر مجبور کیا؟ کیاایسے افطار دسترخوان کا کوئی فائدہ؟ میرے پاس
کوئی جواب نہیں تھا۔ ضمیر نے پھر سوال کیا، پہلے تو سو فیصد یقین ہے کہ ایک
ضرورت مند، بے حال اپنے معصوم بچوں کو اور گھر میں روزہ داروں کوچھوڑ کر
اپناروزہ افطار کرنے کے لیے کم از کم اس افطار یا دسترخوان میں نہیں آتے۔
پھر مجھے بتاؤاس فی سبیل اللہ افطار یا دسترخوان کا کس کو فائدہ پہنچتا ہے
یا کونسے لوگ اس میں شامل ہوتے ہیں؟ میں خاموش ہو گیا۔ میں نے کہا چھو ڑکس
چکر میں مجھے پاگل کر رہے ہو، ضمیر بولا نہیں کچھ تو کلیئر کرو یہ اتنی بڑی
افطار کے نام پر رقم خرچ کی جارہی ہے، یہ خالی تشہیر ہی ہے یا صدقہ جاریہ
ہے؟ میں نے تنگ آکر کہا جاؤان لوگوں سے پوچھوجو یہ کا م کر رہے ہیں۔ضمیر نے
کہا نہیں تو بھی ایک معاشرے کے فرد ہو، رب کائنات نے عقل و دانائی سے نواز
ا ہے۔ کچھ تو بتاؤ۔ میں خاموش ہو گیا ضمیر کہنے لگا سنو! اگر یہی لوگ جو
ماہ رمضان میں لاکھوں روپے خرچ کرکے روزہ داروں کے لیے افطار دسترخوان کا
بندوبست کرتے ہیں کم و بیش 15لاکھ کو پہنچ جاتے ہیں، اگر یہی مخیر حضرات
ماہ رمضان سے ایک ماہ پہلے اپنے مخلص ورکرز کو بھیج کر انڈر گراؤنڈ ایک
سروے کروائیں کہ کون کس حال میں رہ رہا ہے، جو اپنی سفید پوشی کے پیچھے
چھپا بیٹھا اللہ کریم سے رو رو کر دعائیں مانگتا ہے یا اپنے خالق سے گلا
کرتا ہے، اس سروے کے بعد یہ مخیر صاحب اگر ہر گھرمیں 7000 روپے کا افطاری
پیک تیار کرکے خاموشی سے پہنچا دیں۔ یہ افطاری پیک کم ازکم 214گھرانوں کے
لیے افطاری دسترخوان ثابت ہوگا۔ سب سے بڑھ کر اس میں معصوم بچے بھی ہوں جن
کی دعائیں کتنی پر اثر ہونگی۔ اس طرح لوگوں کا بھر م اور سفید پوشی بھی رہ
گئی اور خرچ کیا ہوا روپیہ صدقہ جاریہ بھی بن گیا اور ساتھ سب سے بڑھ کر یہ
کہ ایک ہاتھ سے اس طرح دیا گیا کہ دوسرے ہاتھ کو خبر تک نہ ہوئی اس کا کتنا
بڑا اجر ہوگا، کتنے نامعلوم افراد اس سے استفادہ حاصل کریں گے۔ کتنے گمنام
ہاتھ آسمان کی طرف اس کی صحت و تندرستی اور ترقی کے لیے اٹھیں گے۔ ضمیر نے
کہا کہ آپ کو علم ہونا چاہئے وہ دعا زیادہ قبول ہوتی ہے جو کسی کے لیے
علیحدگی میں اس کے لیے مانگی جاتی ہے۔ میں خاموش ہوگیا ضمیر میری طرف
گھورگھور کر دیکھتا رہا، میں سکتے میں آگیا، ضمیر نے مجھے جھنجوڑا اور
پوچھا کیا ہوا؟ لیکن اس وقت میں اندر اندر ہی مر چکا تھا۔(آخرمیں ان تمام
دوستوں سے درخواست کروں گا کہ مخیر حضرات افطار دسترخوان کا شوق رکھتے ہیں
اس پر ضرور غور کریں اور سوچیں کیا ایسا ممکن ہے، تشہیر بھی نہ ہو، افطار ی
بھی ہو جائے اور صدقہ جاریہ بن کر عاقبت بھی سنور جائے)۔ اللہ کریم ہمیں
صحیح معنوں میں افطار پارٹی اور صدقہ جاریہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔
|