سلسہ وار ناول رازی قسط نمبر١١

ایسا لگتا تھا کہ اب رازی کے آرام کے دن ختم ہو گئے تھے۔ پہلے ایس ون کی ٹیم والا ہنگامہ ۔ اب سپر مین کی ٹیم کی آمد ۔ حالات بہت تیزی سے بدل رہے تھے ۔ پھر احمد یسٰین نے عامل بابا کا پتہ بھی بتا دیا تھا۔ اگر وہ ٹیم اس بابا تک پہنچ جاتی اور حقائق جان لیتی ہے تو اس سے ایس ون مشکوک ہو جائے گا اور اسے پتہ چل جائے گا کہ اس کے آدمی پھنس چکے ہیں ۔ اگر وہ سپرمین کی ٹیم سے وہاں مڈ بھیڑ کرتے ہیں تو سارے وہاں سے نکل بھی سکتے ہیں اور منصوبہ ناکام ہو سکتا ہے ۔ ہو سکتا ہے سپرمین کی ٹیم کسی طرح کا ایکشن لینے سے پہلے اس بابا کی تحقیق کرے اور زیادہ صائب بات بھی یہی تھی۔ اس لئے یہ ضروری ہو گیا تھاکہ اس بابا کو وہاں سے اٹھایا جائے تاکہ کہانی آگے چلتی رہے۔
اس کام کے لئے وقت بھی بہت محدود تھا ۔ کیونکہ اس وقت تک یہ انفارمیشن ایس ون اور سپر مین سارے حلقوں میں پہنچ چکی ہو گی اور وہ بہت تیزی سے متحرک بھی ہو چکے ہوں گے ۔ احمد یسیٰن نے کمپیوٹر بند کیا ۔ اور ریاض علوی کو لے تیزی سے باہر نکل گیا۔ کیوں کہ ان کے پاس صرف دو گھنٹے وقت تھا۔
*****
رئیس برابر اس معاملے کو سپر وائز کر رہا تھا۔ وہ چونکہ رازی تنظیم کا امیر تھا اس لئے ہر کام کی اطلاع فوراً دی جاتی ۔ اس نے احمد یسیٰن اور ریاض علوی کے ذمہ جے جے اور ویلنٹینا والا معاملہ لگایا تھا اور خود وہ نسوا ر خان کو ڈیل کر رہا تھا ۔ نسوار خان کو قابو میں رکھنا کہ وہ جے جے اور ویلنٹینا کے بارے میں شیر ون کو کوئی اطلاع نہ دے بہت ضروری تھا۔
اس نے نسوار خان کے دفتر کا نمبر ملایا تو اسکی پی اے نے فون اٹھایا ۔ رئیس نے کہا کہ وہ افغانستان سے آیا ہے اور حکومت نے اسے نسوار خان سے رابطے کے لئے کہا ہے ۔ ایک یورپی ملک افغانیوں کو کوئی ریلیف کا سامان دینا چاہتا ہے ۔ اس کا تعلق ایک افغانی قبیلے
سے ہے ۔ وہ چاہتا ہے کہ یہ سامان وہ سلطنت اسلامیہ سے نسوار خان کے ذریعے وہاں منگوائے۔
آپ ہولڈر کریں میں ابھی بات کرواتی ہوں ۔
یہ سنتے ہی پی اے نے نسوار خان سے رابطہ کیا اور اسے سارا معاملہ بتایا ۔ نسوار خان نے فوراً رابطہ کیا ۔ اس کے پاس نازیہ بھی بیٹھی تھی۔
رئیس نے وہی بات نسوار خان سے کہی اور ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا ۔
نسوار خان نے کہا کہ وہ اس کا انتظار کر رہا ہے ۔
رئیس نے نسوار خان کی لوکیشن ڈھونڈنے کے لئے اسے فون کیا تاکہ اس کا پتہ چل سکے کہ وہ کہاں ہے ۔
اس نے یقین ہوتے ہی اپنے ساتھ چار آدمیوں کو لیا اور اس کے دفتر کی طرف ہو لیا ۔ رئیس احمد ناصر ایک افغانی کے روپ میں تھا اور اس کے ساتھ جانے والے لو گ بھی افغانی ہی تھے۔
نسوار خان کے دفتر تک پہنچنے میں انہیں آدھا گھنٹہ لگ گیا ۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب ریاض علوی اور احمد یسیٰن یاسرجمال کے ساٹھ مل کر ایس ون کے بارے میں معلومات اکٹھی کر رہے تھے۔ رئیس اپنے مشن پر گامزن تھا۔
دفتر پہنچتے ہی اس نے پی اے سے اپنا تعارف کروایا اور اپنے ساتھیوں کے بارے میں بتایا۔ پی اے سے نسوار خان کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہا کہ وہ اندر موجود ہے ۔
رئیس نے اپنے ساتھیوں کو اشارہ کیا اور وہ وہ خود پی اے کے پاس ٹھر گیا ۔ ارجمند خان نے نسوار خان کو قابو میں کیا اور شیر خان نے نازیہ کو۔ باقی دونوں ان کے پیچھے ہو لئے۔ رئیس نے یہ کوڈ دیا تھا کہ جب ان پر قابو پا لیا جائے تو وہ انٹر کام پر اطلاع دیں۔
انٹر کام کی بیل ہوئی ۔ پی اے نے سنا اور رئیس کی طرف کر دیا ۔
ارجمند نے کہا سر اندر تشریف لے آئیں۔
کام ہو گیا ہے ۔
رئیس نے ریسیور رکھ دیا اور دفتر کے اندر چلا گیا ۔ اس نے نسوار خان سے کہا کہ وہ انٹر کام پر اپنے پی اے سے کہہ کہ وہ چلی جائے۔ کیونکہ وہ دفتر میں دیر تک موجود رہے گا ۔ ویسے بھی چھٹی کا وقت ہو چکا تھا ۔ وہ اسی کے لئے بیٹھی تھی ۔
نسوار خان نے ایسا ہی کیا
ایک آدمی نے باہر جا کر دیکھا تو اس کی پی اے جا چکی تھی اور دفتر خالی تھا ۔
وہ دو گاڑیوں میں آئے تھے ۔ اس لئے رئیس والی گاڑی میں ارجمند اور شیر خان نسوار اور نازیہ کو لے کر آ گئے اور دوسری گاڑی دو لوگوں نے پیچھے پیچھے چلائی ۔
رئیس نسوار خان کو اپنی رہائش گاہ کے تہہ خانے میں لے آیا۔
*****
سپر مین نے صرف اپنے آدمی بھیجنے پر ہی اکتفا نہ کیا تھا بلکہ اس نے رازی کو ختم کرنے کی لانگ ٹرم پلاننگ بھی کر لی تھی۔ اس کے جاسوس کہہ لیں یا ایجنٹ پوری دنیا میں بڑے بڑے عہدوں پر فائز تھے۔ اکثر ممالک تو ایسے تھے کہ ان میں حکومت بھی اس کے اشارہ ابرو پر بنتی اور بگڑتی تھی۔ اس نے کسی بھی غیر معمولی صورتحال سے بچنے کے لئے عالمی سطح پر پروپیگنڈہ کا پروگرام بنایا کہ ایک تنظیم رازی دہشت گردوں کی پشت پناہی کر رہی ہے۔ اور پوری دنیا میں دہشت گردی کی کاروائیوں میں ملوث ہے ۔ اس نے اس پروپیگنڈہ کا مرکز خصوصی طور پر مسلمان ممالک کو بنایا تاکہ وہاں پر موجود لوگوں میں یہ تاثر عام ہو جائے کہ رازی کوئی دہشت گرد تنظیم ہے ۔ یہ کام اس نے اپنے ہم خیال لوگوں سے لینے کا منصوبہ بنایا اور اس نے رابطہ کرنا شروع کیا۔ رازی کے بارے میں چونکہ یہ بات مشہور ہو رہی تھی کہ وہ سلطنت اسلامیہ کی تنظیم ہے اس لئے سپر مین نے یہاں پر بہت سے ایسے لوگوں سے رابطہ بڑھایا جو اس کے فلسفہ اور نظریہ سے متفق تھے اور جن کا مقصد مال کمانا اور عیش کرنا تھا۔ یہ وہ لوگ تھے جو اسی دنیا کی زندگی کو سب کچھ سمجھتے تھے سیکولرذہن رکھنے والے ۔ سیکولر سے مراد لادینیت ہے ۔ ان میں اس کے کام کے لوگ نام نہاد صحافی تھے جو یہ بات مشہور کر سکتے تھے کہ اسلام کو بنیاد پرستوں سے خطرہ لاحق ہے ۔ ساتھ ہی سپر مین نے ہندوستان کی خفیہ اداروں سے تعاون بڑھایا اور ان سے بھی مدد لینے کا پروگرام بنا ڈالا ۔ انڈین ادارہ اس سلسلے میں جیسے پہلے ہی تیار بیٹھا تھا۔ سپر مین کی آفر سے ایک پنتھ دو کاج والی مثال صادق آئی تھی۔ وہ ایک تیر سے ہمیشہ دو شکار کرتا تھا۔ اپنا ہی آدمی مار کر دنیا میں واویلا کر دینا کہ یہ مسلمان مجاہدوں کی دہشت گردی کی کاروائی ہے اس کا پرانا شیوہ تھا۔ اب سپر مین اس کی مدد کو آ پہنچا تھا ۔ تمام سہولیتں مہیا کرنے والا تھا۔ اس سے ہندوستان حکومت بہت خوش ہوئی اور انہوں نے سپر مین کا شکریہ ادا کر دیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انڈین میڈیا تک سپر مین کی اس اطلاع کا پہنچنا تھا کہ اس نے اپنی افواہوں اور ڈس انفارمیشن کی توپوں کا منہ رازی کی طرف کھول دیا ۔ ہر انڈین اخبار، ریڈیو اور ٹی وی چینل پوری دنیا میں ہونے والی دہشت گردی کی کاروائیوں کے پیچھے رازی کا ہاتھ تلاش کر رہا تھا ۔ ہندوستانی مقولہ ہے کہ مخالف کے تن پر اتنا کیچڑ اچھالو کہ کچھ نہ کچھ چمٹ ہی جائے گا ۔
اسی نظریے پر انڈین انٹیلی جنس کے پروپیگنڈہ کی بنیاد تھی۔ بعض اوقات ایسا ہوتاکہ خاندانی دشمنی کی وجہ سے قتل ہو جائے ۔ انڈین انٹیلی جنس اس کو فوراً رازی کی کاروائی قرار دے دیتی۔ بعد میں معلوم بھی ہو جاتا کہ یہ محض عداوت تھی مگر ہندوستانی میڈیا کوّ ے کو سفیدہی کہتا رہتا۔

 

akramsaqib
About the Author: akramsaqib Read More Articles by akramsaqib: 76 Articles with 58847 views I am a poet,writer and dramatist. In search of a channel which could bear me... View More