ملک کا نام یاد نہیں رہا لیکن بات ہے بالکل سچ ،ایک
سرکاری ٹی وی پر نیوز کاسٹر حکومت کے حق میں زمین و آسمان کے فلابے ملاتے
ملاتے اچانک اٹھ کھڑی ہوئی اور رو دینے والے انداز میں بولی معاف کرنا
ناظرین میں اس سے زیادہ اور جھوٹ نہیں بول سکتی۔نیوز کاسٹر نے تو اخلاقی
جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے لوگوں کو سچ بتادیا لیکن لگتاہے تین بار وزیر ِ
اعظم بننے والے کو خدانے اتنی بھی توفیق نہیں موصوف کاہر بیان پہلے سے
مختلف ہوتا ہے جس سے ان شکوک و شبہات کو تقویت ملی کہ دال میں واقعی کچھ
کالا کالا ہے یا پوری دال ہی کالی ہے ۔میاں صاحب نے تازہ ترین پریس کانفرنس
میں جوکچھ ارشادفرمایاہے میں نے ایک ٹی سٹال پر بیٹھے کچھ لوگوں کو آنکھوں
ہی آنکھوں میں ایک دوسرے سے سوال کرتے اپنی گناہگار آنکھوں سے خوددیکھا ہے
یار اتنا جھوٹا بھی دنیامیں کوئی ہوسکتاہے احتساب عدالت میں انہوں نے سارا
ملبہ اپنے بیٹوں پر ڈال دیا تھا اور اب پاکستان مسلم لیگ(ن) کے تاحیات قائد
میاں محمد نوازشریف نے ایک مرتبہ پھر ملک کے معتبر اداروں کو آڑے ہاتھوں
لیتے ہوئے الزام لگایا ہے کہ میرے اور میرے خاندان کے اردگرد تمام تر مسائل
کی جڑ سابق صدر پرویز مشرف ہیں،جب ان کے گردن پر جمہوری حکومت نے قانون کے
پنجے گاڑے تو اس وقت پاک فوج اور سیکورٹی اداروں کے اعلیٰ افسران نے مجھے
دھمکایا کہ اس پتھر کو نہ چھیڑو بصورت دیگر خود ملیامیٹ ہوجاؤ گے،علاوہ
ازیں سابق صدر آصف علی زرداری نے بھی مجھے پرویز مشرف کے تمام تر اقدامات
کو قومی اسمبلی سے توثیق کرانے کا مشورہ دیا تھا لیکن میں نہیں مانا۔دھرنے
کے دوران مجھے کہا گیا کہ طویل رخصت پر چلا جاؤں یا استعفیٰ دے دوں،مجھ
پرالزام لگانے والے اپنے ارادوں میں کمی نہ کریں اور میں نے بھی قسم اٹھا
رکھی ہے کہ ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹوں گا۔ نواز شریف نے کہا کہ کاش آج آپ
یہاں لیاقت علی خان اور ذوالفقار علی بھٹو کی روح کو طلب کرسکتے اور ان سے
پوچھ سکتے کہ آپ کے ساتھ کیا ہوا؟ کاش آج آپ ایک زندہ جرنیل کو بلاکر پوچھ
سکتے کہ اس نے آئین کے ساتھ کھلواڑ کیوں کیا؟ سارے ہتھیار اہل سیاست کے لیے
بنے ہیں، جب بات فوجی آمروں کے خلاف آئے تو فولاد موم بن جاتا ہے۔نواز شریف
کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ شروع ہوتے ہی اندازہ ہوگیا کہ آمر
کو کٹہرے میں لانا کتنا مشکل ہوتا ہے، انصاف کے منصب پر جج پرویز مشرف کو
ایک گھنٹے کے لئے بھی جیل نہ بھجواسکے، وہ پراسرار بیماری کا بہانہ بناکر
دور بیٹھا رہا، جنوری 2014 میں وہ عدالت کے لیے نکلے تو طے شدہ منصوبے کے
تحت ہسپتال پہنچ گئے۔سابق وزیر اعظم کا یہ بھی کہنا تھا کہ مجھے کبھی آئینی
مدت پوری کرنے نہیں دی گئی، مجھے جلاوطن کردیا گیا، میری جائیدادیں ضبط
کرلی گئیں، واپس آیا تو ہوائی اڈے سے پھرجلاوطن کردیا گیا، میں اس وقت بھی
حقیقی جمہوریت کی بات کررہاتھا، فیصلے وہی کریں جنہیں عوام نے اختیار دیاہے،
داخلی اور خارجی پالیسیوں کی باگ دوڑ منتخب نمائندوں کے پاس ہی ہو۔نواز
شریف نے کہا کہ مجھے بے دخل کرنے اور نااہل قرار دینے والے کچھ لوگوں کو
تسکین مل گئی ہوگی، مجھے سیسلین مافیا، گارڈ فادر، وطن دشمن اور غدار کہنے
سے کوئی فرق نہیں پڑتا، میرے آباواجداد ہجرت کرکے یہاں آئے، میں پاکستان کا
بیٹا ہوں مجھے اس مٹی کا ایک ایک ذرہ پیارا ہے، میں کسی سے حب الوطنی کا
سرٹیفکیٹ لینا اپنی توہین سمجھتاہوں۔نواز شریف نے کہا کہ میری نااہلی اور
پارٹی صدارت سے ہٹانے کے اسباب و محرکات کو قوم بھی اچھی طرح جانتی ہے، کیا
میرے خلاف فیصلہ دینے والے ججوں کو مانیٹرنگ جج لگایا جا سکتا ہے؟ کیا کسی
لفظ کی تشریح کے لیئے گمنام ڈکشنری استعمال کی جاتی ہے؟ کیا کسی سپریم کورٹ
کے بینچ نے جے آئی ٹی کی نگرانی کی؟ کیا کسی نے اقامے پر مجھے نااہل کرنے
کی درخواست دی تھی؟، یہاں جتنے گواہان پیش ہوئے کسی نے گواہی نہیں دی کہ
میں نے کوئی جرم کیا، آپ اورمجھ سمیت سب کو اﷲ کی عدالت میں پیش ہوناہے،
ریفرنس کا فیصلہ آپ پر چھوڑ رہا ہوں۔ میاں صاحب نے جو کچھ کہا اس کا صاف
صاف مطلب یہ ہے کہ استعفیٰ دینے سے انکار پر ایون فیلڈ کیس بنایا گیا،تاریخ
کے ہر جرم کا ارتکاب پاک فوج نے کیاہے ۔اسے کہتے ہیں جو بات کی خداکی قسم
لاجواب کی۔میاں صاحب کئی ماہ سے قوم کو الف لیلیٰ کی کہانیاں سناکر ان کا
دل بہلانے کی کوشش کررہے ہیں کبھی وہ علی بابا چالیس چوروں کی وارداتیں
چٹخارے لے کر بیان کرتے ہیں تو کبھی ڈکٹیٹر جنوں کے حکومت پر قبضہ تذکرہ
آنسو بہا بہا کرکرتے رہتے ہیں تو کبھی وہ دیومالائی کرداروں کی باتیں کرتے
نہیں تھکتے۔ حالانکہ موصوف بقلم خود اس طلسم ِ ہوشربا کے جیتے جاگتے کردار
رہے ہیں ایسے کردار کہ ایک ڈکٹیٹرجن نے ان کو اپنی زندگی دان کرنے کی دعا
مانگی تھی ۔جو باتیں آج تواترسے لوگوں کو متاثر کرنے کیلئے کی جارہی ہیں
شایدانہیں یہ بھی یاد نہیں رہا ان میں بیشتر باتیں توقوم کو پہلے ہی معلوم
ہیں انہیں یادبھی کیونکرہوسکتاہے کہ برے وقت میں اکثر حواس باختہ ہوجاتے
ہیں اور اﷲ مت مار دیتاہے۔ اﷲ ہم سب پر اپنا رحم کرے۔سابق وزیر ِ اعظم کے
بیانیہ پر یہی کہاجاسکتاہے سوال گندم جواب چنا ۔ انہیں چاہیے تھا کہ کم از
کم دو بنیادی سوالات کا جواب عدالت کو دیتے اور بتاتے کہ بچوں کی 16
کمپنیوں میں 3 سو ارب روپیہ کہاں سے آیا؟ نواز شریف بتاتے کہ ایون فیلڈ
جائیدادیں کس سرمائے سے خریدی گئیں۔عدالت کچھ پوچھتی رہی میاں صاحب طوطا
مینا کی وہی گھسی پٹی کہانیاں سناتے رہے۔ یہی بات شیدے نے میدے کے گوش
گذارکی تو اس نے ترت جواب دیا اب تلک جو کچھ میاں صاحب قوم کو جو کہانیاں
سناتے رہے ہیں اسے ہم سیاسی طلسم ہوشربا بھی کہہ سکتے ہیں شیدے نے اس کے
کندھے پر جو زور سے ہاتھ مارا اور کہا کم بخت میاں صاحب کے بیانات کو سیاسی
ہوئے اس طلسم ہوشربا میں طلسم کیاہے؟
میدے ،’’تم طلسم کا مطلب سمجھتے ہو ؟
‘‘میں اتنا بھی گھامڑ نہیں جانتاہوں طلسم کا مطلب جادو ہوتاہے
’’اس سے بڑا جادوکیاہوگا ایک شخص کے نابالغ بچے لندن میں اربوں کھربوں کے
مالک بن گئے اور انہوں نے اپنے باپ کو یہ بھی پتہ نہ چلنے دیا کہ ان کے پاس
اتنی دولت کہاں سے کیسے آئی؟ ارے بدھو اسے کہتے ہیں
کچھ نہ سمجھے خداکرے کوئی |