تحریر : ساحر مرزا
مجھے کچھ یاد نہیں ……؟
کچھ بھی نہیں، پرانی باتیں مجھے کچھ زیادہ یاد نہیں رہتیں ……
اتنا سننا تھا کہ عبدالمنان کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے اور درد کے دریا کے
سارے بند ٹوٹتے گئے، وہ بہت مشکل سے خود کو گھسیٹتے ہوئے اپنے آنسو چھپاتا
اس قبرستان سے نکل آیا۔
18 سال قبل کی بات اسے یا آگئی تھی۔ گھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی، جب بابا
جان نے گھر آکر بتایا کہ آج عبدالہادی بھائی آرہے ہیں۔
یوں تو وہ اک چچا زاد تھا، مگر وہ اس گھر کے بچوں کا ماموں زاد، چچا زاد
ہونے کے علاوہ اک بڑا بھائی بھی تھا، اور بچے اس کے آنے کی خوشی میں پھولے
نہ سما رہے تھے جبکہ بابا جان بھی خوش تھے کے ہزار اختلافات و ناراضگی کے
باعث میرے اپنے بھائی کا بیٹا، وہ بچہ جسے بچپن سے اپنے بچوں سے زیادہ چاہا
تھا، وہ آج بھرے شہر میں بہترین ہوٹلوں کی رہائش کو ٹھکرا کر ان کے ہاں
رہنے آرہا ہے۔
ان سے ملنے کیلئے ان کے پاس آنے کیلئے شام مغرب کے بعد عبدالہادی گھر پہنچا،
اپنے تایا اور بڑے خالو کے رشتے کے علاوہ وہ بابا جان کو بڑے پیار سے بڑے
ابا کہا کرتا تھا۔
اس نے بڑے احترام سے کہا۔
السلام علیکم بڑے ابا ……!!
کیسے ہیں آپ ……؟
الحمد ﷲ …… بیٹا ……تم سناؤ …… کیسے ہو؟
دیکھو تو ماشاء اﷲ …… اب تو ہمارا عبدالہادی باریش ہوگیا۔
بابا جان نے اسکا چہرہ بہت پیار سے چومتے ہوئے ’’ بے جی ‘‘ سے کہا۔
’’بے جی ‘‘ نے اپنی سگی بہن اور دیور کے بیٹے کو بیٹوں کی طرح جانا تھا، تو
اسی پیار سے انہوں نے اسے پیار دیا اور ماتھا چوم کر کہا۔
عبدالہادی بیٹا …… سفر سے تھک گئے ہوگے۔
منہ ہاتھ دھولو …… فریش ہولو، پھر میں کھانا لگاتی ہوں، عبدالہادی مسکراتے
ہوئے بابا جان کے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔ ہمیشہ بابا جان اپنے رشتہ داروں سے
خاص انداز میں پیش آتے، انہیں اپنا بستر، اپنا کمرہ پیش کیا کرتے۔
اور خود مہمان خانے میں سویا کرتے۔
عبدالہادی بھی فریش ہوکر دستر خوان پر پہنچ گیا۔ کھانے کے دوران بابا جان
اس سے اپنے بھائی بھاوج اور بچوں کے احوال کے علاوہ اپنے آبائی محلے کے نئے
قصے سن رہے تھے جبکہ بے جی کبھی کبھی اس سے اپنی بہن اور اس کی بہنوں کا
احوال اور ان کی مصروفیات پر کوئی مختصر سا سوال کرلیتیں۔
عبدالمنان گھر میں سب سے چھوٹا تھا، کچھ کچھ لاڈلہ بھی تھا، عبدالہادی اس
کیلئے بہت خاص تھا، چونکہ عبدالہادی اسے بہت پیار اور شفقت سے پیش آتا اور
پھر عبدالہادی کا لیپ ٹاپ اس کیلئے سب سے دلچسپ چیز تھی۔
عبدالمنان کا تو بس نہ چلتا کہ بس عبدالہادی کی گود سے ہی نہ اُترے۔
عبدالہادی اپنے چھوٹے بھائیوں سے عبدالمنان کو اپنے لیپ ٹاپ پر چھوٹی چھوٹی
گیمز کھلاتا اور خود بھی خوب انجوائے کرتا۔
عبدالمنان اکثر اس کو کام کرتے دیکھتا، لیپ ٹاپ پر عجیب وغریب بڑی بڑی
مشینوں کی تصویروں کو دیکھتے اور پھر بہت کچھ سا لکھتے دیکھتا، اس وقت اسے
پتا ہی نہ چلا کہ یہ کیا ہے ؟ وہ کبھی کبھی سوچتا اور پھر نہ سمجھ پانے کے
باعث ذہن سے جھٹک دیتا۔
عبدالہادی کا وہ دو ہفتوں کو قیام عبدالمنان کیلئے یادگار اور تفریح سے
بھرپور تھا ۔
ایک رات عبدالمنان کو بابا جان کے کمرے سے ’’ بے جی‘‘، بابا جان اور
عبدالہادی بھائی کی باتوں کی آواز سنائی دی۔
عبدالہادی بھائی کا لہجہ کسی قدر احترام لئے گستاخانہ تھا، بابا جان اسے
کچھ سمجھا رہے تھے مگر وہ بار بار کہتا کہ بڑے ابا؟ میرے بابا یہ صدمہ
برداشت نہیں کر پائیں گے، آپ آئندہ ایسی بات مت کہیے گا۔
بے جی بھی کچھ کہہ رہی تھیں۔
مگر وہ ان چاہتوں سے بھرپور رشتوں کی رنجشیں و ناچاقیاں نہ سمجھ سکتی، نہ
ہی اسے ان سے آگہی تھی۔
عبدالمنان پھر سے اپنے بستر خواب پر سوچتے سوچتے سوگیا، اگلی صبح عبدالہادی
بھائی …… زبردستی کی مسکراہٹ لبوں پر سجائے الوداع کہتے ہوئے چلے گئے۔
عبدالمنان کی زندگی کی ڈگر پھر سے واپس اسی ترتیب سے گزرنے لگی، اس نے
آہستہ آہستہ میٹرک پاس کرلیا اور پھر اسے کچھ خاندانی معاملات کی بھنک پڑنے
لگی۔
چچا، خالہ اور پھپھو الغرض ددھیال اور ان سے جڑے ننھیالی رشتوں کی اک جنگ
تھی، جس کی بنیاد پر نہ جانے کیا وجوہات تھیں۔
مگر عبدالمنان کو تو یہ انا، بغض و عناد اور حسد کی جنگ لگتی تھی، مگر وہ
ان تمام معاملات سے دور رہا اور پڑھائی کرتا رہا۔
پھر ایک روز جب وہ اپنی ایک کتاب پڑھ رہا تھا، اس میں ایک تصویر دیکھی۔ وہ
چونک گیا کہ یہ تصویر تو بالکل اسی تصویر کی طرح ہے جیسی عبدالہادی بھائی
کے لیپ ٹاپ میں تھی۔
اس نے یاد ہونے کے باوجود کتاب کا سرورق دیکھا تو سمجھ آئی کہ عبدالہادی
بھائی بھی انجینئر تھے اور وہ بھی میکینکل کی ایک خاص شاخ ’’مشین ٹیکنیکل
سروس‘‘ میں ڈگری یافتہ …… وہ بہت حیران ہوا۔
الغرض زندگی چلتی گئی۔
اسے رشتوں میں غلط فہمیاں بالکل پسند نہیں تھیں مگر وہ بڑوں کے معاملات کو
نظر انداز کرتے ہوئے اپنے ہم عمر، پھپھو زاد، ماموں زاد اور تمام کزنز سے
اسی چاہت سے ملتا۔
ایک روز بابا جان نے بتایا کہ چچا کی جانب سے مکمل لاتعلقی ظاہر کی گئی ہے
تو عبدالمنان گویا ہوا۔
بابا جان …… ؟ رہیں گے تو وہ ہمارے چچا ہی، پھر یہ لاتعلقی کیسی؟ رشتے تعلق
کے محتاج نہیں، رشتے تو رشتے ہوتے ہیں اور وہ بھی خونی، خونی رشتے تو اٹوٹ
ہوتے ہیں۔
ابھی عبدالمنان کچھ کہنا چاہ رہا تھا کہ بابا جان نے اسے ٹوک دیا، بیٹا تم
ابھی چھوٹے ہو، ایسی باتیں مت سوچا کرو، یہ سب بڑوں کے معاملات ہیں، تم ان
سے دور رہو اور اپنی پڑھائی پر توجہ دو۔
اسے بہت افسوس ہوا، اسے آج بچپن میں سنی وہ تمام باتیں یاد آئیں جو
عبدالہادی بھائی نے اس گھر میں گزرنے والے آخری رات بابا جان اور بے جی سے
کی تھیں۔
اسے آج بھی ان باتوں کا معنی و مفہوم سمجھ نہیں آیا تھا، وہ غصے میں اُٹھا
اور گھر سے باہر نکل گیا۔
یوں 18 سال بیت گئے۔ ایک رات عبدالمنان اپنی نوکری سے چھٹی لے کر گھر آیا
ہوا تھا۔ وہ ایک جانی پہچانی فرم میں میکینکل انجینئرنگ کی ایک شاخ مشین
ٹیسٹنگ سروس‘‘ کے شعبے سے منسلک تھا۔
صبح ناشتے کے بعد بے جی اس سے باتوں میں مصروف تھیں کہ عبدالمنان کا فون
بجنے لگا۔
السلام علیکم …… عبدالمنان نے فون اُٹھایا اور سنتے سنتے خاموشی سے اُٹھ کر
کمرے سے باہر چلا گیا۔
کچھ دیر بعد آیا تو چہرے پر سختی اور سنجیدگی رقم تھی۔
بے جی ذرا میرے ساتھ آیئے گا۔
اس نے بے جی سے ذرا دھیمی آواز میں کہا اور خاموشی سے اپنے کمرے کی جانب
قدم بڑھا دیئے۔
بے جی بھی فکر مندی سے اس کی سنجیدگی کو سوچتے ہوئے اندر کی جانب چل پڑیں۔
کچھ دیر بعد بے جی بھی فکر مندی سے باہر آئیں اور بہو کو آوازیں دیتے کہیں
جانے کی تیاری کرنے لگیں۔
بہو زرینہ، بے جی بھانجی اور عبدالمنان کی سب سے چھوٹی خالہ کی بیٹی تھی۔
عبدالمنان بھابھی اور والدہ کو لے کر گھر سے نکلا اور جب سب سے چھوٹی خالہ
کے دروازے پر پہنچا تو زرینہ کو پتا چلا کہ اس کے والد کا انتقال ہوچکا ہے۔
زرینہ پر تو غشی طاری ہوگئی۔
عبدالمنان اور بے جی، زرینہ کو سنبھالتے ہوئے اندر لے گئے، کچھ وقت
انتظامات تکفین و تدفین میں گزرا۔ عصر کے بعد نمازِ جنازہ پڑھ کر جب قبر کے
قریب کھڑے عبدالہادی بھائی پر عبدالمنان کی نظر پڑی تو اسے حیرت و استعجاب
کے ساتھ خوشی کا احساس بھی ہوا کہ اتنے عرصے کے بعد وہ عبدالہادی بھائی سے
مل رہا تھا۔
تدفین کے بعد دعا مانگ کر جب اس نے عبدالہادی بھائی کا ہاتھ پکڑا، وہ حیران
ہوکر مڑے، چہرے پر ایک رنگ شناسائی آکر گزر گیا۔
وہ بہت ہی اجنبی لہجے سے بولے ……
جی ……؟
عبدالمنان کو ایک دھچکا لگا۔
اس نے بڑی حیرت سے انہیں دیکھا۔
میں عبدالمنان …… ؟ عبدالہادی بھائی آپ نے پہچانا نہیں۔
اس نے ذرا توقف کے بعد کہا۔
تو! عبدالہادی نے اجنبیت سے کہا۔
عبدالمنان کو سمجھ آگئی کہ یہ رنجشوں کا زہر اب اس کی زندگی میں شامل ہوچکا
اور اب وہ اس کی تاثیر بھی محسوس کررہا تھا۔
مگر اس نے اُمید کا دامن نہ چھوڑا۔
عبدالہادی بھائی ……؟ میں عبدالمنان …… آپکا چھوٹا بھائی، آپکا گڈا، آپ بھول
گئے ……؟
گزرتے وقت کے ساتھ یادیں دُھند لا جاتی ہیں، عمر کے ساتھ ساتھ انسان بہت
کچھ بھول جاتا ہے۔مجھے کچھ یاد نہیں۔ کچھ بھی نہیں، یوں بھی اب پرانی باتیں
مجھے کچھ زیادہ یاد نہیں رہتیں۔وہ انتہائی اجنبی اور کھوکھلے لہجے میں کہے
جارہے تھے اور اسے اپنی سماعت پر یقین نہیں آرہا تھا۔
اس نے تو پڑھا تھا کہ بچپن اور نوجوانی کی باتیں انسان کا دماغ کبھی نہیں
بھول پاتا، حتی کہ بڑھاپے میں بھی دماغ کا وہ حصہ پوری طرح جاگتا ہے، جس
میں بچپن اور جوانی کے لمحات محفوظ ہوتے ہیں۔انسان کی یاد داشت اور دماغ کا
سب سے مضبوط اور قوی دور ہی بچپن اور نوجوانی کا ہوتا ہے، اس دورانیے کی
کوئی بات کبھی بھی نہیں بھولی جاتی، وہ تو یادداشت میں راسخ و پیوست ہوجاتی
ہے۔مگر یہ کیا ……؟اسے یاد آیا، وہ صبح جب عبدالہادی بھائی آخری مرتبہ گھر
سے الوداع ہورہے تھے۔بابا جان کے چہرے پر اِک کرب تھا، آنکھوں میں نمی، وہ
اس دن نہیں سمجھ پایا تھا۔آج محسوس ہورہا تھا۔وہ اپنے من من بھر وزنی قدم
بڑی مشکل سے گھسیٹتے قبرستان کے بیرونی راستے پر چلنے لگا۔آنکھوں سے آنسوؤں
کی روانی تیز ہوتی چلی گئی۔ درد بڑھتا گیا۔ رشتے بے مول ہوچکے تھے۔
آج بے نام، تنہا، اُداس ہوا ہوں
مجھ سے چھین لیا ہے میرا نسب کس نے |