حضور اکرم سید الانبیاء صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کے مقدس شہزادے ،نواسہ اکبر حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ
عنہ کی زندگی کا ہر لمحہ ہر عمل کرامت ہے کیونکہ دین اسلام پر استقامت اور
شریعت پر بطور کامل قائم رہنے کا نام دراصل کرامت ہے، حضرت امام حسن رضی
اللہ عنہ کی سیرت طیبہ کا مطالعہ کرنے سے آپ کی استقامت فی الدین کا پتہ
چلتا ہے، آپ نے اسلام کی سربلندی کے لئے ایسی قربانیاں دی کہ زمانہ میں
اسکی مثال نہیں ملتی، اور آپ کی تواضع وجذبہ ایثار کا نتیجہ ہے کہ اُس
زمانہ میں مسلمانوں کی دو بڑی جماعتوں میں اتحاد قائم ہوا اور لاکھوں کا
خون بہنے سے رہ گیا ،یہاں آپ کی چند کرامات کا ذکر کیا جاتا ہے۔
بے ادبی کی سزا
کرامت : حضرت علامہ یوسف نبہانی رحمۃ اللہ علیہ (وصال 1350ھ)جو مصر کے
بلند پایہ عالم گزرے ہیں اپنی کتاب ’’جامع کرامات اولیاء‘‘میں کتاب طبقات
مناوی اور ابو نعیم سے نقل فرماتے ہیں: عن الا عمش قال خری رجل علی قبر
الحسن فجن فجعل ینبح کما تنبح الکلاب قال فمات فسمع من قبرہ یعوی ویصیح۔
ترجمہ: حضرت اعمش نے فرمایا کہ ایک بدبخت شخص نے سیدنا امام حسن رضی اللہ
عنہ کے مزار مبارک پر (بدبختی سے) ضرورت کردیا تو وہ اسی وقت پاگل اور
مجنون ہوگیا اور مرتے دم تک کتوں کی طرح بھونکتا رہا ، پھر مرنے کے بعد
اسکی قبر سے کتے بھونکنے کی آواز سنی جاتی تھی ۔
(جامع کرامات اولیاء ،ج1،ص 131،تاریخ دمشق لابن عساکر ،ج 13 ص305 ،الحسن بن
علی رضي اللہ عنہما)
معلوم ہوا کہ مقربین کے مزار کی بے ادبی کی جائے تو ایسی سزاد ی جاتی ہے
جسکو اہل زمانہ،زمانۂ دراز تک یاد رکھتے ہیں، یہ واقعہ امت مسلمہ کے لئے
بڑی عبرت ونصیحت ہے ، اگر کسی کو بے ادبی کا صلہ دنیا میں دکھائی نہ دے تو
وہ آخرت میں سخت ترین سزا کیلئے تیار رہے۔
دعاء کی برکت سے حبشی کو لڑکا پیدا ہوا
کرامت : حج کے موقعہ پر آپ مکہ معظمہ پیدل تشریف لے جارہے تھے تو آپ کے قدم
مبارک میں ورم آگیا، آپ کے غلام نے عرض کیا کہ آپ کسی سواری پر سوار
ہوجائیں تاکہ قدموں کی سوج کم ہوجائے ، حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے اس
کی درخواست قبول نہ فرمائی اور فرمایا: جب اپنی منزل پر پہنچو تو تمہیں ایک
حبشی ملے گا، اس سے تیل خرید لینا ، آپ کے غلام نے کہا: ہم نے کسی بھی جگہ
کوئی دوا نہ پائی اور جب اپنی منزل پر پہنچے تو حضرت نے فرمایا یہ وہ غلام
ہے جس کے بارے میں تم سے کہا گیا، جاؤ،اس سے تیل خریدو اور قیمت ادا کردو!
غلام جب تیل خرید نے کے لئے حبشی کے پاس گیا اور تیل پوچھا تو حبشی نے کہا:
کس کیلئے خرید رہے ہو؟ غلام نے کہا: حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کے لئے تو
حبشی نے کہا: مجھے آپ کے پاس لے چلو،میں آپ کا غلام ہوں ، جب حبشی حضرت کے
پاس آیا تو عرض کیا میں آپ کا غلام ہوں تیل کی قیمت نہیں لونگا، بس میری
بیوی کیلئے دعا فرمائیے کہ وہ دردِزِہْ میں مبتلا ہے اور دعا فرمائیے کہ
اللہ تعالیٰ صحیح الاعضاء بچہ عطا فرمائے، حضرت نے فرمایا :گھر جاؤ!اللہ
تعالیٰ تمہیں ویسا ہی بچہ عطا فرمائیگا جیسا تم چاہتے ہو اور وہ ہمارا
پیروکار رہے گا، حبشی گھر پہنچا تو گھر کی حالت ویسی ہی پائی جیسی سنی تھی
(شواہد النبوۃ ،ص302، حضرت عبدالرحمن حسین جامی رحمۃ اللہ علیہ، وصال898ھ)
اس واقعہ میں حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کی تین کرامات مذکور ہیں: پہلی یہ
کہ آپ پیدل حج کو تشریف لے گئے پاؤں میں سوجن آنے کے باوجود سوار نہ ہوئے،
یہ جُہد ومحنت ہر عامی شخص کے بس کی بات نہیں ، دوسری یہ کہ سوج کم ہونے کی
دوا کہاں اور کس کے پاس ملیگی؟ آپ نے پہلے ہی بتایا، تیسری یہ کہ حبشی کو
صحیح وسالم لڑکا ہونے کی دعاء فرمائی اور دعاء کی برکت کا ویسا ہی ظہور ہوا
،پھر وہ لڑکا کیسا ہوگا یہ بھی خبر عطافرمائی کہ وہ تابعدارو فرمانبردار
ہوگا ۔
کرامات امام حسین رضی اللہ عنہ
سید الشہداء امام حسین رضی اللہ عنہ کی ولادت 4ھ 5 شعبان المعظم کو ہوئی،
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنفس نفیس اپنے لعاب مبارک سے تحنیک
فرمائی اور آپ کے منہ میں لعاب دہن ڈالا ، کان میں کلمات اذان ارشاد فرماکر
نام مبارک حسین رکھا، آپ کیلئے برکت کی دعا فرمائی اور ساتویں دن آپ کا
عقیقہ فرمایا، یوم عاشوراء 10محرم60ھ میں آپ کو میدان کربلا میں ظالم
یزیدیوں نے شہید کیا، حضرت امام عالی مقام کی بڑی شان اور بے شمار فضائل
ہیں، آپ کی شان وعظمت اور اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم
کے پاس محبوبیت واقربیت کا علم آپ کی کرامات سے ہوتا ہے، آپ کی ذات پاک
سراپا کرامات ہے ،مختصر طور پر یہاں چند کرامات سپرد قلم کئے جاتے ہیں۔
لعاب دہن کی برکت
کرامت
حدثنی عبد اللہ بن جعفر عن أبی عون قال: لما خرج حسین بن علی من المدینۃ
یرید مکۃ مر بابن مطیع وہو یحفر بئرہ، فقال لہ:أین، فداک أبی وأمی؟قال:
أردت مکۃ وذکر لہ أنہ کتب إلیہ شیعتہ بہا فقال لہ بن مطیع:إنی فداک أبی
وأمی، متعنا بنفسک ولا تسر إلیہم. فأبی حسین فقال لہ بن مطیع:إن بئری ہذہ
قد رشحتہا وہذا الیوم أوان ما خرج إلینا فی الدلو شیء من ماء ، فلو دعوت
اللہ لنا فیہا بالبرکۃ.قال: ہات من مائہا، فأتی من مائہا فشرب منہ ثم مضمض
ثم ردہ فی البئر فأعذب وأمہی.
ترجمہ :حضرت محمد بن سعد معروف بہ ابن سعد (وصال230ھ) اپنے طبقات میں حضرت
عبداللہ بن مطیع کی حکایت نقل فرماتے ہیں: حضرت ابوعون رحمۃ اللہ تعالی
علیہ نے فرمایا: سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ جب مدینہ شریف سے مکہ معظمہ
جارہے تھے تو ابن مطیع کے پاس سے گزرہوا ،وہ کنواں کھدوا رہے تھے، عرض کیا:
آپ پر میرے ماں باپ قربان! کہاں کا ارادہ ہے ؟ امام عالی مقام نے فرمایا
مکہ شریف کا ارادہ ہماں باپ آپ پر فدا ہوں آپ کی ذات پاک سے ہماری فیض بخشی
فرمائیے، ان کے پا س نہ جائے ، امام حسین رضی اللہ عنہ نے انکار کیا تو ابن
مطیع نے عرض کیا :میں نے یہ کنواں کھدوایا ہے اور آج ڈول میں تھوڑا سا پانی
نکلا ہے، آپ اس میں برکت کیلئے اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے ، امام حسین رضی
اللہ عنہ نے فرمایا: اس کا تھوڑا پانی لاؤ جب پانی حاضر خدمت کیا گیا تو
اسے نوش فرماکر آپ نے کلی کی پھر اس پانی کو کنویں میں ڈال دیا تو پانی نے
کنویں کو میٹھا اور جاری کردیا۔ (طبقات ابن سعد ، باب ابوسعید ، ج5، ص145)
امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کی زبان اور دہن کو یہ تقدس حاصل ہے کہ سید
کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپکی زبان چوس لیا کرتے تھے اور آپ کے منہ
میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا لعاب اقدس ڈالا تھا، چنانچہ اس کی
تاثیر امام حسین رضی اللہ عنہ کی زبان ولعاب میں آچکی تھی کھارے پانی کو آپ
کا لعاب میٹھا بنا دیتا اور سوکھے کنویں سے پانی جاری کردیتا ۔
پانی نہ دینے والے کو پیاس نے مار دیا
کرامت :
وروی ابن أبی الدنیا عن العباس بن ہشام بن محمد الکوفی عن أبیہ عن جدہ،
قال:کان رجل یقال لہ زرعۃ شہد قتل الحسین رضی اللہ تعالی عنہ- فرمی الحسین-
رضی اللہ تعالی عنہ- بسہم فأصاب حنکہ، وذلک أن الحسین- رضی اللہ تعالی عنہ-
دعا بماء لیشرب، فرماہ فحال بینہ وبین الماء فقال- رضی اللہ تعالی عنہ-:
اللہم ظمہ، فحدثنی من شہد موتہ، وہو یصیح من الحر فی بطنہ، ومن البرد فی
ظہرہ وبین یدیہ الثلج والمراوح، وخلفہ، الکانون، وہو یقول: اسقونی، أہلکنی
العطش، فیؤتی بالعسل العظیم، فیہ السویق والماء واللبن، لو شربہ خسمۃ
لکفاہم، فیشربہ فیعود، ثم یقول: اسقونی أہلکنی العطش فانقد بطنہ کانقداد
البعیر.
ترجمہ :علامہ محمد بن یوسف صالحی رحمۃ اللہ علیہ ’’سبل الہدی والرشاد‘‘ میں
ابن ابی الدنیا کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ زرعۃ نامی ایک شخص میدان کربلا
میں تھا، امام حسین رضی اللہ عنہ پر اس وقت ایک تیر پھینکا، جب آپ نے پینے
کیلئے پانی طلب فرمایا اور نوش فرمانا چاہا، وہ تیر آپ کے اور پانی کے
درمیان حائل ہوکر حلق میں پیوست ہوگیا، امام عالی مقام نے دعا کی مولیٰ اس
کو پیاسا کردے، راوی نے کہا وہاں موجود شاہد عینی نے کہا اس شخص کے پیٹ میں
گرمی ، پیٹھ میں سردی ہونے لگی جس کے سبب وہ چیخنے اور چلانے لگا، جبکہ اس
کے سامنے برف اور پنکھا اور پیچھے انگیٹھی موجود تھی، وہ کہتا رہا مجھے
پانی پلاؤ پیاس نے مجھے ہلاک کردیا، تو اسکے پاس ستو، پانی ،دودھ ملا ہوا
اتنا شہد لایا جاتا جو پانچ آدمی کو کافی ہوتا تو وہ سب کچھ کھا لیتا پھر
یہی کہتا مجھے سیراب کرو، پیاس نے مجھے ہلاک کردیا پھر اس کا پیٹ اونٹ کے
پیٹ کی طرح چِر گیا۔(سبل الہدی والرشاد ،الباب الثانی عشرفی کرامات حصلت لہ
، ج 11ص79 |