28 مئی یوم تکبیر کا مقصد

عبدالحنان
لاکھوں جانوں کا نذرانہ پیش کر کے 14 اگست 1947 ء 27 رمضان المبارک کو ایک آزاد ، خودمختار اسلامی ریاست نصیب ہوئی، جس کی بنیاد کلمہ طیبہ پر رکھی گئی تھی آزادی کا وہ دن دنیا بھر کے دیگر مسلمانوں کے لئے بھی بہت خوشی کا دن تھا کہ براعظم ایشیا میں اﷲ تعالیٰ کا انعام پاکستان کرہ ارض کے نقشے پر نمودار ہوا تھا اور اس کے بعد 28 مئی 1998 ء کا دن پوری دنیا کے مسلمانوں کے لئے باعث فخر کا دن تھاجب لاالہ اﷲ کا پاکستان دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت اور امت مسلمہ کے ممالک کی پہلی ایٹمی قوت بنا تھا-لاکھوں جانوں کا نذرانہ پیش کر کے کلمہ طیبہ کی بنیاد پر حاصل کئے گئے پاکستان کو ایٹمی قوت بنے 20 برس ہو گئے ہیں۔ایٹمی صلاحیت کا حصول اﷲ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت اور پاکستان کی بقا، سلامتی و استحکام کا ضامن ہے۔14اگست کو مسلمانوں کے لیے ایک الگ اسلامی اور فلاحی ریاست کا قیام عمل میں لایا گیا تھا اور 28مئی کو اسی اسلامی اور فلاحی ریاست نے اپنی بقا کی جنگ جیتی تھی۔یہ دونوں دن پاکستان کے سب سے تاریخی اور اہمیت کے حامل ہیں۔ اس وقت حالات ایسے ہیں کہ پاکستان اندرونی اور بیرونی سازشوں کا شکار ہے ہر کوئی اپنے مفادات کی خاطر اس ملک پاکستان کو کمزور اور غیر مستحکم کرنے کی کوشش کررہا ہے ان حالات میں ایٹمی طاقت کا سہرا نواز شریف کے سر پر باندھا جارہا ہے یہ عظیم کارنامہ مسلم لیگ ن کے قائد کا ہے جن کی وجہ سے پاکستان آج ایٹمی قوت بنا ہے اور اس کو بنیاد بنا کر سیاست کے میدان میں (مسلم لیگ ن) اپنے پتے پھینک رہی ہے ایٹمی دھماکوں کا مقصد یہ نہیں تھا کہ اس کو بنیاد بنا کر سیاست کی جائے جس جس نے اس کام میں اپنا کردار ادا کیا وہ چاہے مسلم لیگ ن پیپلز پارٹی یا کوئی اور ہو اس نے ملکی سلامتی اور بقاء کے لئے شاندار کردار ادا کیا تھا لیکن آج سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم آنے والی نوجوانوں نسل اپنے بچوں میں ان دو دنوں کی اہمیت کو اجاگر کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں کہ ان کا کیا مقصد تھا اور کن مقاصد کے لیے یہ دھماکے کیے گئے تھے تو قارئین یہاں تاریخ پر غور کرنا بہت ضروری ہے جب بھارت نے پہلا ایٹمی دھماکہ 18مئی 1974ء کو پاکستانی سرحد سے صرف 93میل کے فاصلے پر راجستھان کے علاقے پوکھران میں کیا تھا … یہ وہ وقت تھا جب پاکستان کو دولخت ہوئے تقریباً ڈھائی سال ہو چکے تھے ہمارا مشرقی پاکستان ہم علیحدہ ہو گیا تھا اور اندرا گاندھی اس فتح میں سرشار دوقومی نظریہ کو ہمیشہ کیلئے خلیج بنگال میں ڈبو دینے کا دعویٰ کر چکی تھیں۔ جب مشرقی پاکستان علیحدہ ہو چکا تو ایسے حالات میں یہ سوال بہت اہم تھا کہ بھارت نے ایٹمی دھماکہ کیوں اور کس لئے کیا…؟ اور بھارت اس دھماکہ سے کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتا تھا…؟ہمارا دشمن ملک بھارت شروع سے ہی توسیع پسندانہ اور جارحانہ عزائم کا حامل رہا ہے۔ بھارتی لیڈروں کے بد فعل ، عمل اور بدکردارسے بھی ان کے توسیع پسندانہ اور متشددانہ عزائم کی جلک صاف نظر آتی ہے۔ ان کی بہت ساری مثالیں موجود ہیں مثلاً حیدرآباد دکن، جوناگڑھ، مناوادر کے علاوہ ریاست جموں کشمیر کے ایک بڑے حصے پر قبضہ، پاکستان کے ساتھ تین جنگیں، مشرقی پاکستان میں کھلی مداخلت… یہ بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم کی صرف چند ایک مثالیں ہیں۔ 18مئی 1974ء ، 11مئی 1998ء کے ایٹمی دھماکے، ایٹمی میزائل سازی، مہنگے و تباہ کن اسلحہ کے انبار و ذخائر سب اسی سلسلہ کی کڑی ہیں۔ اسلحہ کے یہ انبار و ذخائر پاکستان سمیت پڑوسی ممالک کی خیرسگالی و خوشحالی کے لئے نہیں بلکہ ان کو بربادی سے دوچار کرنے کیلئے جمع کئے گئے ہیں اور دوسرا یہ پہلو کہ کیا پاکستان کی اسلحہ سازی اور ایٹمی پروگرام صرف اور صرف اپنی بقاو دفاع کیلئے ہے؟ یا کئی اور وجوہات بھی ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ بھارت ہمارا ازلی دشمن ہے جس نے پاکستان کو ابتک دل سے تسلیم نہیں کیا ہے اور وہ آج بھی پاکستان کو توڑنے کے ہر اوچھے ہتھکنڈے استعمال کررہا ہے اور بھارتی حکمرانوں کے پاکستان کے بارے میں آج بھی وہی عزائم و ارادے ہیں جو 1947ء یا 1971ء کے موقع پر تھے۔28مئی کا دن اس اعتبار سے بہت عظیم دن ہے کہ یہ یوم تکبیر کے نام سے مشہور ہے۔ تکبیر کا مطلب ہے’’ اﷲ اکبر‘‘ یعنی اﷲ سب سے بڑا ہے۔آج پھر پاکستان مشکلات سے دوچار اور مصائب کا شکار ہے۔ یوں لگتا ہے کہ 1998ء کے ایٹمی دھماکوں کی تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔ 1998ء میں جب ایٹمی دھماکے کئے گئے تو اس وقت وہاں بی جے پی اور پاکستان میں میاں نواز شریف کی حکومت تھی۔ اورآج بھی وہی منظر ہے۔ درمیان میں صرف 20 سال کا فاصلہ ہے۔ 20 سال کا وقفہ اتنا لمبا نہیں کہ ہمارے حکمران اسے بھول جائیں کہ انہیں ایٹمی دھماکے کیوں کرنے پڑے تھے اور انہیں یہ بھی یاد ہو گا کہ اس وقت بی جے پی کے پاکستان کے بارے میں کیا عزائم و ارادے تھے۔ اور آج بھی بھارت کی دہشت گرد تنظیم بی جے پی وہی عزائم اور ارادے لیے کھڑی ہے اگر ہمارے حکمران بھول گئے ہیں تو میں یاد کروا دیتا ہوں کہ جب بھارت نے ایٹمی دھماکے کئے تو اْس وقت کے بھارتی وزیراعظم واجپائی اور ان کے وزراء کا لب ولہجہ، گفتار اور کردار ہی بدل گیا تھا بھارتی حکمرانوں کے بیانات کا خلاصہ یہ تھا،بس! بہت ہو چکا اب پاکستان ہمارے غضب اور انتقام کا سامنا کرنے کیلئے تیار ہو جائے۔ اور آگ بگولہ ہو کر یہ بیان دینے لگے کہ. آزاد کشمیر ہمارا حصہ ہے ہم اس میں فوجیں داخل کرنے کا حق رکھتے ہیں اور پاکستان کیلئے بہتر ہے کہ وہ اپنی ان پالیسیوں کو تبدیل کرے جن کا تعلق ہم سے یا کشمیر سے ہے، ہمیں آزادکشمیر پر کنٹرول حاصل کرنے کیلئے فوراً حملہ کر دینا چاہئے۔ بھارتی حکمرانوں کا غیض وغضب اس حد تک بڑھا کہ سیاچن اور LOC پر بڑے پیمانے پر کارروائی کی خبریں آنے لگیں، یہاں تک کہ کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز جہاں ہمارا ایٹمی پلانٹ تھا اس پر بھارت اور اسرائیل کے مشترکہ حملہ کی خبریں بھی گردش کرنے لگی تھیں پاکستان کے نوجوانوں اور ہمارے ملک کے حکمرانوں یہ تھا 1998ء کے بی جے پی کے بھارت کا منظر، جو پاکستان دشمنی کے جذبات سے ابل رہا تھا۔مغربی ممالک بھی بھارت کو روکنے ٹوکنے اور جنگی جنون سے باز رکھنے کی بجائے پاکستان سے کہہ رہے تھے، نئے حالات میں سر جھکا کر جینا سیکھ لو۔ پاکستان نے عزت کے ساتھ زندہ رہنے کا فیصلہ کیا۔ اس ایک فیصلے نے پاکستان کا اور پاکستان کی قوم کا دھارا بدل کر رکھ دیا تھا جب 5ایٹمی ھماکے کر کے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا اور عالم اسلام کو شادمانی و کامرانی سے سرشار کر دیا۔ 30مئی کو مزید ایک اور دھماکہ کر کے بھارت پر اپنی برتری و بالادستی ثابت کر دی اور وہی بھارتی وزیراعظم واجپائی جن کا لب و لہجہ گفتار اور کردار تبدیل ہو گیا تھا اور وہ یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ ہم پاکستان کے ساتھ تمام مسائل بات چیت کے ذریعے حل کرنا چاہتے ہیں۔ اس 20 سال کے عرصہ میں بھارت کا پاکستان کے ساتھ کیا رویہ و برتاؤ رہا ہے،؟ ہمارے حکمرانوں نے بھارت کے ساتھ اعتماد سازی اور دوستی کی فضا قائم کرنے کیلئے اپنی آزادی اور خودمختاری تک کو داؤ پر لگا لیا، کشمیر پر اپنے دیرینہ موقف کو تبدیل کیا!قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے لیکن پاکستان کے حکمرانوں نے بھارت کے ساتھ دوستی کے لالچ میں کشمیریوں کی پیٹھ پر خنجر گھونپا ہے برہان وانی جیسے سینکڑوں نوجوان بھارت روزانہ شہید کررہا ہے لیکن ہمارے حکمران ابھی تک بھارت کے ایجنڈے پر کام کررہے ہیں کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ جواب میں پاکستان کو کیا ملا؟دشمنی، تخریب کاری، دہشت گردی، آبی جارحیت، نفرت، عداوت، ایل اوسی پر آئے روز فائرنگ روزانہ پاکستان کی سول آبادی بھارتی فوج کی جارحیت سے نقصانات اٹھا رہی ہے کبھی انسانی جان کی شکل میں کبھی مال و مویشی کی شکل میں۔یہ ہے بھارت کی طرف سے پاکستانی محبتوں کا جواب۔حقیقت یہ ہے کہ بھارت کے پاکستان کے ساتھ رویہ و سلوک میں نرمی کی بجائے سختی ، محبت کی بجائے نفرت اور دوستی کی بجائے دشمنی میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔لیکن ہمارے حکمران بیچارے غلام در غلام چلے آرہے ہیں۔خدارا پاکستان کے حکمرانوں رمضان المبارک کے مہینہ ہے اﷲ سے اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کی معافی مانگو اور حالات یہ تقاضہ کررہے ہیں حکمران خود کو پہچانیں کہ وہ لاالہ اﷲ کے نام پر بنے والے ملک کے ذمہ دار ہیں اور اپنے حقیقی اور ازلی دشمن کو پہچانیں اور ان کے ناپاک عزائم کو پہچانیں۔۔
 

Munzir Habib
About the Author: Munzir Habib Read More Articles by Munzir Habib: 193 Articles with 134560 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.