کسی گاؤں میں اللہ رکھا نامی گوالا رہتا تھا اس کے پا س
چھ عدد بھینسیں اور تھوڑی سی زرعی زمین تھی جس سے وہ اپنے خاندان کی کفالت
کررہا تھا اللہ رکھا ایک گوالا ہونے کی وجہ سے قریبی علاقوں میں بہت مشہور
تھااس کی وجہ شہرت اس کی سادگی،میٹھی گفتگو (لطیفے سناتا اور لوگ لطف اندوز
ہوتے) اور اس کی بھینسوں کا دودھ تھاانہی دنوں الیکشن کا دور شروع
ہوگیابرادری میں چند لوگوں نے اللہ رکھاکو مشورہ دیاکہ تم بھی اس بار ایم
پی اے کی سیٹ کے لیے الیکشن لڑو کیونکہ تم جہاں گفتگو کرتے ہولوگوں کا مجمع
لگ جاتا ہے مگر اللہ رکھا نے کہا بھئی میں تو عام آدمی ہوں ،ناخواندہ ہوں
اور میں تو کبھی کونسلر کا الیکشن تک نہیں لڑا آپ لوگ ایم پی اے کی بات کر
رہے ہو؟ لیکن برادری کے کچھ لوگوں کے بار بار اصرار پر اللہ رکھا نے پہلے
قریبی علاقوں میں صلاح مشورہ کیا اور الیکشن کمیشن آف پاکستان میں اپنے
کاغذات جمع کروا دیے اور آزاد امیدوار کی حیثیت سے میدان میں اتر ا اور
بھرپور انداز میں الیکشن مہم شروع کردی اب صورتحال کچھ اس طرح سے تھی کہ ا
للہ رکھا حلقے میں جہاں کہیں بھی جلسے کا انعقاد کرتا وہاں عوام کے لیے
بریانی کی دیگوں کا بھی اہتمام کرواتا ہزاروں کی تعداد میں لوگ جلسے میں
شرکت کرتے اللہ رکھا کی باتوں سے محظوظ ہوتے اور ساتھ میں جی بھر کے کھانا
بھی کھاتے اس کے بر عکس مخالف پارٹی کے امیدوار انتہائی ٹینشن میں تھے اور
انہوں نے اندر کھاتہ اللہ رکھاکو لاکھوں کی آفر بھی دی کہ وہ ان کے حق میں
دستبرار ہو جائے مگر اللہ رکھانے تمام آفرز کو اس بناء پر ٹھکرا دیا کہ اس
کے ساتھ ساری عوام ہے اور کامیاب جلسوں کی بدولت اللہ رکھا کا
کونفیڈنس(Confidence)بہت ہو گیا تھا ایک طر ح سے وہ خود کو کنفرم ایم پی اے
مان چکا تھاپھر الیکشن والا دن بھی آگیا اللہ رکھاکی گاڑیوں میں عوام دھڑ
ادھڑ پولنگ اسٹیشن جا رہی تھی پر جب شام کو رزلٹ اناؤنس ہوا تو اللہ رکھا
سکتے میں آگیا اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ایسا رزلٹ آئے گا کہ خود کو
کنفرم ایم پی اے ماننے والے کے سارے خواب چکناچور ہوجائیں گے کیونکہ اللہ
رکھا کوصرف چند سو ووٹ پڑے اوروہ بُری طرح ہار گیاتصویر کا دوسرا رخ کچھ اس
طر ح سے تھا کہ جن لوگوں نے اللہ رکھاکو الیکشن لڑنے کا مشورہ دیا وہ غائب
ہوگئے، اللہ رکھاکی بھینسیں بک گئیں، قرضی ہو گیا ، زمین اور گھر فروخت
ہوگیا اور اللہ رکھادربہ در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوگیا۔
پاکستان میں اس وقت 2018 کے الیکشن کا جادو سر چڑ کر بول رہا ہے مسلم لیگ
(ن)،پیپلز پارٹی ،پی ٹی آئی،مسلم لیگ (ق)، ایم کیو ایم،پی ایس پی،ایم ایم
اے اور دیگر جماعتوں کے اراکین بڑی تیزی سے اپنی وفاداریاں تبدیل کررہے ہیں
چند ایک تو ایسی شخصیات ہیں جن کی اپنی پارٹی سے صدیوں سے وابستگی تھی ان
کا جینا مر نا ان کا قائد اور پارٹی تھی اس دوڑمیں پی ٹی آئی سب سے بڑھ گئی
ہے کیونکہ عمران خان صاحب اپنی دھویں دار بولنگ سے دھڑ ادھڑ مخالفین کی
وکٹیں اڑائی جا رہے ہیں اور پارٹی میں اضافہ کر رہے ہیں لیکن میں یہ خان
صاحب کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں کہ یہ وہی لوگ ہیں جو مشرف حکومت کا بھی
حصہ تھے ،یہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کا بھی حصے رہے ہیں اورجب ان
لوگوں کو باقی جماعتوں کی ناؤ ڈوبتی نظر آرہی ہے تو انہوں نے پی ٹی آئی کے
ٹائی ٹینک پر سوار ہونا شروع کر دیا ہے اور اگر خان صاحب نے ان لوگوں کے
ساتھ سفر کرنا ہے تو پھر پی ٹی آئی کے ٹائی ٹینک کا خداحافظ۔خان صاحب کو اب
جو لوگ مشورہ دے رہے کہ ان ارکان کوپارٹی میں شامل کر لیں اُن لوگوں نے بعد
میں دور دور تک نظر بھی نہیں آنا، خان صاحب ایک ذہین اور سمجھدارانسان ہیں
،ملک کے ساتھ وفاداراور مخلص بھی ہیں، خان صاحب نے پاکستان کی تاریخ میں
پہلی بار ایک سیٹنگ پرائم منسٹر کوکرپشن کے الزام میں گھر بھجواویا،الیکشن
میں دھاندلی والے حلقوں میں دھاندلی کو ثابت کروایا،پاکستان کی تاریخ کا سب
سے لمبا احتجاج کیا جبکہ کے پی کے میں خان صاحب کی حکومت رہی ہے مگر انہوں
نے کو ئی خاص کارگردگی نہیں دکھائی میں جب بھی کسی کے پی کے سے تعلق رکھنے
والے فرد سے بات کرتا ہوں تو وہ انتہائی مایوس کن صورت حا ل بیان کرتا ہے
اور میں خود بھی دو بار جا چکاہوں اور میں نے دیکھا ہے کہ پی ٹی آئی کی
تبدیلی صرف نعروں تک محدود ہے عملی طور پر کہیں نظر نہیں آتی ہے زندگی کے
ہر شعبے مثلاََ ہیلتھ،ایجوکیشن ، بجلی، ذرائعے رسل ورسیل(ٹریفک) ،سکیورٹی ،
سیروسیاحت ،عدالتی نظام وغیرہ کا کوئی پرسان حال نہیں ہے اور دوسری طرف خان
صاحب نے سو روز کا پلان پیش کیا ہے پانچ سال میں ایک صوبے میں تو کوئی
پلاننگ پر عمل درآمد نہیں ہوا سو دن میں پورے ملک میں کیسے ہوگا؟ فوزیہ
قصوری کے مطابق جوکہ خان صاحب کی بہت پرانی ساتھی تھیں کہتی ہیں کہ پی ٹی
آئی میں منافق لوگ شامل ہوگئے ہیں اور یہ وہی لوگ ہیں جن کے ساتھ کئی سالوں
سے جنگ لڑ رہے تھے خان صاحب وفادار اور پرانے ساتھیوں کو چھوڑ کر نئے لوگوں
کے پروٹوکول میں مصروف ہیں آخر میں میری خان صاحب سے التماس ہے کہ آپ وقت
کی نزاکت کو سمجھیں اور خوش آمدیوں سے اجتناب کریں ورنہ اللہ رکھا جیسی
حالت ہو جائے گی ، آپ اپنی پرانی ٹیم کو لے کر میدان میں اتریں ،الیکشن مہم
کے دوران وہ وعدے کریں جو آپ پورے کر سکیں۔ |