سانحہ سیالکوٹ اور سیاسی جماعتوں کا کردار

سیالکوٹ میں جماعت احمدیہ کی قدیمی عبادت گاہ مذہبی جوش وجذبے کے ساتھ اس طرح مسمارکردی ہے۔ جس طرح بدبخت ہندوؤں نے بابری مسجد کو شہید کردیا تھا اور ملبے پرکھڑے ہوکر فتح کا اعلان بھی کرتے ہوئے نظرآتے تھے۔سیالکوٹ میں بھی ایسا ہی منظر دیکھا گیا ۔ملبے پر کھڑے سیاسی جماعتوں کے رہنما وں نے فاتحانہ خطاب کیا اور بار بارسرکاری انتظامیہ کے تعاون پر اظہار تشکر کرتے ہوئے نظر آئے۔ایسے ظاہر ہوتا ہے یہ عمل ریاستی سطح پر کیا گیا ہے۔اگر نہیں تو پھر ڈی سی سیالکوٹ،ڈی پی او سیالکوٹ نے مداخلت سے کنارہ کشی کیوں کی اور دانستہ چشم پوشی کا مظاہرہ کیوں کیا گیا۔دوسری جانب جن مذہبی اور سیاسی جماعتوں کے مقامی رہنماوں کی قیادت میں جماعت احمدیہ کی عبادت گاہ اور مقدس عمارت پر حملہ کرکے بے حرمتی کی گئی۔ان سیاسی و مذہبی جماعتوں کی اعلیٰ قیادتوں اورسربراہان نے اپنے کارکنان اور مقامی رہنماوں کے مذہبی جذبات ٹھنڈے کیوں نہیں کیے۔اگر یہ شرمناک عمل بلوا کرتا یا عام لوگ کیسی مدمخالف فرقے کی کیسی حرکت سے مشتعل ہوکر تے تو اور بات تھی۔یہ غیراسلامی ،غیراخلاقی اور غیرقانونی اقدام ان لوگوں کی قیادت میں ہوا ہے جو پارلیمنٹ کے ممبر رہ چکے ہیں اور آئندہ پارلیمنٹ میں جانے کے امیدوار ہیں۔یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔احمدی کمیونٹی سمیت پاکستان کی تمام اقلیتیں ان مذہبی تشدد پسند اور شدت پسند عناصر سے غیر محفوظ ہیں۔لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو مذہبی اور سیاسی جماعتیں قومی دھارے میں شامل ہونے کیلئے میدان عمل میں اور ملکی بھاگ ڈور سنبھالنے کی آرزو مند ہیں۔خدا نخواستہ اگر انہیں اقتدار مل جاتا ہے تو ان کا ملک و قوم کے ساتھ کیا سلوک ہوگا بلخصوص اقلیتیں اور غیر مسلموں کے بارے میں ان کا رویہ کیا یہی ہوگا کہ ان پر عرصہ حیات تنگ کردیا جائے گا۔یہ انتہائی سنجیدہ سوال ہے۔جس پر ریاستی پالیسی ساز اداروں،پارلیمان،الیکشن کمیشن ،اعلیٰ عدلیہ سمیت بڑی سیاسی جماعتوں کو سوچنے کی اشد ضرورت ہے کہ کون لوگ سیاسی جماعت بنا سکتے ہیں۔کون لوگ عام انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں۔آئین پاکستان کی شقیں 62-63کو تبدیل کر کے اس کی جگہ انسانی حقوق ،اقلیتی حقوق ،عورتوں اور بچوں کے حقوق سمیت ایسے آرٹیکلز شامل کیے جائیں جو سماجی،مذہبی رواداری،امن اورانسانی مذہبی اخترام پر مشتمل ہوں۔جس کی حلاف ورزی کا مرتکب کوئی بھی شخص پارلمان کاممبر بننے سمیت کیسی بھی سیاسی و سماجی عہدے اور مرتبے کیلئے نااہل قرار پائے۔اگر کوئی منتخب ہونے کے بعد خلاف ورزی کرے تو اسے اس کے منصب سے برطرف کردیاجائے۔سیاسی جماعتوں پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ کرپشن چھپانے کیلئے قانوں سازی کی بجائے سماج سدھار کیلئے قانون بنانے کیلئے کام کریں۔راقم اپنے گزشتہ مضامین میں بھی سیاسی جماعتوں کے فرائض اور کردار پر کئی لکھ چکا ہے کہ سیاسی جماعتوں کا مقصد محض اقتدار کا حصول نہیں ہوتا ہے بلکہ سیاسی جماعتیں اور لیڈر سماج کی تشکیل اور تعمیر کرتے ہیں۔ سانحہ سیالکوٹ تحریک انصاف کے چیئرمین اور تحریک لیبک کے سربراہ خادم رضوی کیلئے باعث ندامت ہونا چاہیے کہ ایک کے ہاتھ میں انصاف کی فراہمی کا جھنڈا ہے اور دوسرا رحمت دوجہاں کے دین اسلام کے نفاد کا نعرہ بلند کررہا ہے۔مگر دونوں کے وابستگان مذہبی منافرت،شدت ،تشدد اور نقص امن کے راستے پر گامزن ہیں۔حرف عمران خان اور خادم رضوی پر آتا ہے جنہوں نے اپنی جماعتوں میں سیاسی و سماجی اور مذہبی رواداری کا کلچر نہیں دیا ہے اور کارکنان کی تربیت نہیں کی ہے جو کیسی بھی جذبات کی رو میں بہہ کر اپنے تہی اپنی راہ متعین کرلیتے ہیں۔یہ سیاسی و سماجی بے راہ روی کا عنصر یقینی طور پر قیادت کی سنگین غلطی کا نتیجہ ہے۔دونوں قائدین کو اس امر پر سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنے کارکنوں کو کیا سوچ دے رہے ہیں اور ان کی کیسی سیاسی تربیت کر رہے ہیں ۔
 

Arshad Sulahri
About the Author: Arshad Sulahri Read More Articles by Arshad Sulahri: 139 Articles with 103752 views I am Human Rights Activist ,writer,Journalist , columnist ,unionist ,Songwriter .Author .. View More