معاشرہ : تعاون و عدم تعاون

مشہور فلسفی ارسطو کا قول ہے کہ ’’ انسان ایک معاشرتی حیوان ہے‘‘۔ اس سے مراد یہ ہے کہ افراد ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر زندگی بسر کرنا پسند کرتے ہیں۔یعنی انسان بنیادی طور پر مدنی الطبع واقع ہوا ہے چنانچہ الگ تھلگ رہنا اور دوسرے افراد کا تعاون و اشتراک حاصل کئے بغیر کسی فرد کا زندگی بسر کرنا نہایت مشکل ہے۔ اسی تعاون کی بدولت معاشرتی تعلقات جنم لیتے ہیں اور جہاں بھی دو یا دو سے زیادہ افراد زندگی بسر کرتے ہیں وہاں ایک معاشرہ وجود میں آجاتا ہے۔ بقول شاعر۔
قطع کیجئے نہ تعلق ہم سے !
کچھ نہیں ہے تو عداوت ہی سہی

یہاں دوستی اور دشمنی سے قطع نظر ہمارے لئے اہم ترین تعلق وہ ہے ۔ جس میں ایک دوسرے کی موجودگی کے متعلق آگاہی ہو اور ان کے احساسات مشترکہ ہوں۔ اسی معاشری تعلق سے معاشرہ بنتا ہے۔خیال رہے کہ معاشرہ افراد کا ایک ایسا گروہ نہیں جو محض اتفاقاً یا حادثاتی طورپر خارجی حالات یا محرکات کے تحت کچھ دیر کے لئے اکٹھا ہوجاتا ہے۔ جیسے لوگ میلوں ، ٹھیلوں ، کھیل تماشوں اور سینما ہالوں کے سامنے جمع ہوجاتے ہیں۔ یہ لوگ جس طرح عارضی طور پر اکھٹے ہوتے ہیں، ویسے ہی جلد منتشر ہوجاتے ہیں۔ ان میں کوئی مستقل تعلق پیدا نہیں ہوتا۔ اس کے بر عکس معاشرہ ایک ایسے قائم و دائم گروہ کا نام ہے جس کے افراد ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہتے اور باہمی تعارن سے اس طر ح کام سر انجام دیتے ہیں کہ وہ گروہ زندہ رہے اور پھلے پھولے ۔

معاشرہ حشرات و حیوانات کا بھی ہوتا ہے اور نوع انسان کا بھی ۔ مختلف حشرات (مثلاً چیونٹیاں ، شہد کی مکھیاں، دیمک وغیرہ) اپنے جداگانہ معاشروں کے مالک ہیں۔ اسی طرح دوسرے حیوانوں کے بھی معاشرے ہوتے ہیں۔ بعض حشرا ت و حیوانات کی بہت نمایاں معاشری تنظیمیں ہوتی ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ جہاں زندگی ہے، وہاں معاشرہ ہے۔ زندگی توارث اور قیام و دوام چاہتی ہے۔ اور یہ معاشرے ہی کی صورت میں ممکن ہے۔ حیوانات بھی معاشرے کے بغیر اپنی نوع کو زندہ نہیں رکھ سکتے ۔حیوانی معاشرے اور انسانی معاشرے میں پہلا فرق تفاعل کا ہے جس کی نوعیت دونوں میں بہت مختلف ہے۔ انسان مضبوط زبان کا مالک ہے۔ حیوان باوجود یکہ ایک دوسرے تک اشاروں ، آوازوں یا دوسرے ذرائع سے (جن تک ہماری رسائی نہیں) اپنے خیالات پہنچاسکتے ہیں۔ لیکن انہیں انسانوں کی طرح نطق عطانہیں ہوا۔ دوم ان کی زندگی کے پست درجوں میں معاشرتی شعور نہایت مدھم اور غیر واضح ہے۔ علاوہ ازیں فطری فرق بھی بہت نمایاں ہے۔ ایک گائے تمام گایوں سے علیٰحدہ ایک ہی کھونٹے پر بندھی زندگی گزار سکتی ہے۔ لیکن انسانوں کے لئے یہ ممکن نہیں۔

انسانی معاشرے سے مراد انسان کا ایک نسبتاً بڑا گروہ ہے جس کی ا فراد کی ثقافت ،اعتقادات،خیالات عادات ،رویے اوراقدارمشترک ہوں اور جو ان کے حصول کے لئے ایک دوسرے سے تعاون کریں۔ نیز ان افراد میں اتحاد و یک جہتی کا احساس پایا جائے۔ ہر معاشرہ بعض اصول، قوانین اور معمولات کا پابند ہوتا ہے اور ان کو قبول کرتے ہوئے ان کی ترویج و اشاعت کے لئے بھی جدو جہد کرتا ہے۔ایک فلاسفر نے معاشرے کی تعریف یوں کی ہے کہ ’’ معاشرہ انسانوں کا ایک ایسا گروہ ہے جس کے افراد ایک خاص طرز معاشرت عمداً اپنا لیتے ہیں اور مشترکہ مقاصد اور اقدار کے ذریعے خود کو متحد رکھتے ہیں‘‘۔فرینکلن کے خیال میں معاشرہ ایسے ہم خیال افراد کا گروہ ہے جو مشترکہ مفاد کے لئے ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہوں۔یہ تعریف یک طرفہ معلوم ہوتی ہے۔ کیونکہ معاشرے میں صرف تعاون ہی نہیں بلکہ مسابقت اور تصادم بھی ہوتا ہے۔ تفاعل کی تمام صورتیں جو مختلف اقسام کے معاشری تعلقات پیدا کرنے کا باعث بنتی ہیں، معاشرے میں موجود ہوتی ہیں۔ لہٰذا یہ کہنا کہ معاشرے میں صرف تعاون ہی تعاون ہے درست نہیں۔ معاشرے میں اختلافات اور ایک دوسرے سے عدم تعاون بھی پایا جاتا ہے اور انہی سے معاشرے میں یہ ہنگامے اور رونقیں ہیں۔
 

Shoukat Ullah
About the Author: Shoukat Ullah Read More Articles by Shoukat Ullah: 226 Articles with 301459 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.