چند دن ہوئے سوشل میڈیا پر ایک تصویر وائرل کی گئی جس میں
آٹے کا ایک بوراکسی غریب خاتون کو دیا جارہا تھا، اس ایک آٹے کے بورے کو اس
غریب عورت کے گرد جمع مرد حضرات اس طرح ہاتھ لگا رہے تھے کہ جیسے اس تھیلے
کو ہاتھ لگا نا باعث ثواب ہے یا وہ اسے اپنی مردانگی اور فخر محوس کر رہے
ہوں۔ یہ تصویر دیکھ کر انتہائی دکھ اور تکلیف ہوئی۔ کیا ہمارے اللہ نے،
ہمارے بنی ﷺ نے غریبوں کی مدد کر نے کا یہی طریقہ بتا یا ہے؟ ہم نے تو یہ
پڑھا اور سنا کہ ا س طرح دو کے ایک ہاتھ دے تو دوسرے ہاتھ کو خبر نہ ہو۔
یہاں تو سینہ تان کر، اعلان عام کر کے، فخریہ انداز سے بورے کو اس طرح ہاتھ
لگا یا جارہا تھا کہ جیسے انہوں نہ معلوم کیا کچھ فتح کر لیا۔ جی چاہتا ہے
کہ وہ تصویر بھی لگا دوں لیکن حیا آتی ہے، دکھ ہوتا ہے ، وہ آٹے کا بورا
لینے والی بھی کسی کی ماں تھی، کسی کی بیوی تھی، کسی کی بہن تھی، کسی کی
بیٹی تھی۔ اس ایک آٹے کے تھیلے پر اس طرح تذلیل ، اللہ معاف کرے، جن جن
بہادروں نے اپنے ہاتھ اس تھیلے کو چھوکر تصویربنوائی انہیں اپنے اللہ سے اس
فعل پر معافی طلب کرنی چاہیے، چند ہاتھ تو ایسے تھے کہ وہ دور سے اپنا ہاتھ
دراز کر کے اپنی صرف دو انگلیاں سے ہی تھیلے کو چھو ررہے تھے۔ہمیں یہ معلوم
ہوناچا ہیے کہ مستحق کی مدد میں نمائش کا پہلو ثواب کو ضائع کردیتاہے،
ہمارا سارا عمل اکارت ہوکر رہ جاتا ہے، دکھاوا ، نمائش ، شیخی تو ویسے بھی
اچھائی کو کھا جاتی ہیں۔ مستحق کی مددجس طرح بھی کی جائے اس میں دکھاوے،
نمائش، شیخی کا پہلو ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔ نمائش اپنی جگہ نیک کام کر کے،
کسی کی مدد کر کے اس کا ذکر دوسروں سے اس انداز سے کرنا جس سے یہ احساس ہو
کہ آپ سامنے والے کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ آپ نے فلاں کی اس طرح مدد کی
اسے بھی باپسند کیا گیا ہے۔ دوسری جانب ہمارے معاشرے میں صدقہ ، خیرات،
ذکوٰۃ ، فطرہ اور عطیات لینے والوں کا مینا بازار لگا ہوا ہے، جس طرف
دیکھیں، جہاں چلے جائیں کسی اور سے واسطہ پڑے یا نہ پڑے مرد و خواتین کے
علاوہ معصوم بچوں کے پھیلے ہوئے ہاتھ ہمارے سامنے ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی تو
انہیں دیکھ کر دل مَلُول، طبیعت بوجھل ہو کر رہ جاتی ہے لیکن کیا کیا جائے
پیشہ ور گدا گروں کا ایک طاقت ورمافیہ ہر شہر میں پایا جاتا ہے۔ چوراہے ،
سنگنل بکتے ہیں، ٹھیکے پر دئے جاتے ہیں ، طاقت ور ان پر قابض ہوتے ہیں۔ بعض
بعض چوراہے اور سنگنل ایسے ملتے ہیں کہ جہاں پر برسوں سے مخصوص گداگر ہی
ہاتھ پھیلائے آپ کی گاڑی کے شیسے پر دستک دیتے نظرآتے ہیں۔کوئی نیا گدا گر
وہاں پھٹک نہیں سکتا۔ بعض شہر پیشہ ور گَد اگروں کے لیے چاندی اور سونا ہیں
جیسے کراچی شہر ، ابھی رمضان کی آمد سے قبل اندرون ملک سے ٹرینوں کی ٹرینیں
گدا گر و ں سے بھری کراچی آچکی ہیں، رمضان میں سال بھر کی کمائی کریں گے
اور عید پر عیدی بٹوریں گے اور واپس چلتے بنے گے۔ یہ تو حال ہے انفرادی یا
خاندانی بھکاریوں کا ۔ عطیات کے حصول میں بڑے بڑے ادارے سرگرم نظر آتے ہیں۔
فلاحی ادارے جو صدقہ، زکوٰۃ، خیرات اور قربانی کی کھالیں جمع کرتے ہیں اور
بے شمار لوگ انہیں یہ سب کچھ دے بھی رہے ہیں ، کبھی ہم نے سوچا کہ ہمارے یہ
عطیات درست جگہ جارہے ہیں، ان کا مصرف درست ہورہا ہے، مسلمان کی حیثیت سے
جو احکامات ہمیں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی جانب سے دئے گئے ، ہم اپنے عطیات
اس کے مطابق دے رہے ہیں اور ان احکامات کے مطابق ان لوگوں تک پہنچ رہے ہیں
جس کا حکم ہمیں بہت واضح طور پر قرآن اور احادیثِ مبارکہ میں ملتا ہے۔ اگر
نہیں۔۔۔ تو اب اس جانب توجہ کیجئے ، پہلے تحقیق کیجئے، معلومات حاصل کیجئے
اور یہ کوئی مشکل اور نہ ہونے والی بات نہیں ،کسی ادارے کے بارے میں ہم
انٹر نیٹ کے توسط سے ایک کلک کے ذریعہ آگہی حاصل کرسکتے ہیں۔ عطیات ضرور
دیں لیکن دیکھ بھال کر، آپ کی دی ہوئی رقم کسی غلط جگہ یا اس کا غیر ضروری
مصرف تو نہیں ہورہا، جس ادارے کو ، جس شخص کو ہم اپنے عطیات دے رہے ہیں وہ
اس کا استعمال اسلام کے بتائے ہوئے اور قانون کے مطابق کررہا ہے۔ کہیں رقم
کسی ذریعے سے ملک سے باہر تو نہیں لے جائی جارہی، وہ ادارہ اس رقم کو سیاسی
مقاصد کے لیے تو استعمال نہیں کر رہا ۔ آج کل مذہب کے نام پر عطیات جمع
کرنے کا رواج عام ہے، دینی تعلیم کے بیشتر ادارے عطیات کی بنیاد پر ہی چل
رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دینی تعلیم کے ادارے صدقہ، خیرات، زکوٰۃ
کا بہترین مصرف ہیں لیکن فی زمانہ ان کے بارے میں بھی چھان بین ضروری ہے۔
پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں۔ دیکھ بھال کر لینا ، اطمینان کر لینے میں
کوئی مزائقہ نہیں۔
صدقہ ، خیرات، ذکوٰۃ ، فطرہ، قربانی کی کھالیں عطیات کے زمرے میں آتے
ہیں۔عطیات دینا مسلم معاشرے کا ایک اہم دینی ، اخلاقی اور معاشرتی فریضوں
میں سے ایک ہے۔ اسلام میں عطیات یعنی ذکوۃ، خیرات، صدقہ، فطرانہ اور غریب و
مستحق لوگوں کی مدد کرنے کی نہ صرف تاکید ہے بلکہ واضح طور پر بتا دیا گیا
کہ ذکوٰۃ کن پراور کس نصاب سے فرض ہے، خیرات کس کو دینی ہے، کون مستحق ہیں،
کون مستحق نہیں، صدقہ کیا ہے ؟ اس کی اہمیت کیا ہے،یہ کب اور کس طرح دیا
جائے، فطرہ رمضان المبارک میں عید کی نماز سے قبل ادا کرنے کا حکم ہے۔
سورۃ البقرہ کی آیت 215میں بہت واضح الفاظ میں بتا یا گیا کہ خیرات کس کو
دی جائے۔ ترجمہ ’اے محمد ﷺ لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ (اللہ کی راہ میں ) کس
طرح کا مال خرچ کریں۔ کہہ دو کہ (جو چاہو خرچ کرو لیکن ) جو مال خرچ کرنا
چاہو وہ(درجہ بدرجہ اہلِ استحقاق یعنی، ماں، باپ کو اور قریب کے رشتہ داروں
کو، یتیموں کو اور محتاجوں کو اور مسافروں کو (سب کو دو) اور جو بھلائی تم
کروگے اللہ اُ س کو جانتا ہے‘۔اسی سورۃ کی آیات 219میں پروردگار اپنے محبوب
سے مخاطب ہوتے ہوئے کہتا ہے کہ ’اور یہ بھی تم سے پوچھتے ہیں کہ (اللہ کی
راہ میں ) کونسا مال خرچ کریں کہہ دو کہ جو ضرورت سے زیادہ ہو۔ اس طرح اللہ
تمہارے لیے اپنے احکام کھول کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم سوچو‘۔ اللہ نے
سورۃ اللیل میں فرمایا ’اور اس آتش و دوزخ سے نہایت متقی بندہ دور رکھا
جائے گا جو اپنا مال راہ خدا میں اس لیے دیتا ہو کہ اس کی روح اور اس کے دل
کو پاکیزگی حاصل ہو‘۔ مولانا محمد منظور نعمانی نے ’معارف الحدیث‘ میں لکھا
ہے کہ ’ ذکوٰۃ کانام غالباً اسی پہلو سے ذکوٰۃ رکھا گیا ہے ، کیونکہ ذکوٰۃ
کے اصل معنی ہی پاکیزگی کے ہیں‘۔ قرآن مجید میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے 70
سے زیادہ مقامات پر اقامت صلوٰۃ اور ذکوٰۃ ادا کرنے کا ذکر کیا ہے۔ نماز
اور ذکوٰۃ کاذکر کلام مجید میں اس طرح ساتھ ساتھ تاکید اور وضاحت کے ساتھ
آیا ہے کہ محسوس ہوتا ہے کہ دونوں کا درجہ قریب قریب ایک ہی ہے۔ ذکوٰۃ کی
اہمیت اس سے اورزیادہ واضح ہوکر سامنے آجاتی ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے
مختلف پیغمبروں کی شریعتوں میں بھی نماز کے ساتھ ذکوٰۃ کا ذکر کیا سورۃ
انبیاء میں حضرت ابراہیم ان کے بیٹے حضرت اسحٰق اور پھر ان کے بیٹے حضرت
یعقوب علیہم السلام کا ذکر کرتے ہوئے نماز قائم کرنے اور ذکوٰۃ ادا کرنے کا
کہا گیا، حضرت عیسیٰ بن مریم ؑ نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ مجھے اللہ نے
نماز اور ذکوٰۃ کی وصیت کی ہے۔ ہمارا پر وردگار ہمیں عطیات یعنی صدقہ،
خیرات ، ذکوٰۃ دینے کی تاکید کر رہا ہے ،اس نے یہ بھی بتا یا کہ صرف وہی
ایسا کرے جو دینے کی استطاعت رکھتا ہو ، جو صاحب استطاعت نہ ہو اس پر ذکوٰۃ
فرض نہیں۔ اس نے یہ بھی بتا یا کہ کس قسم کا مال یا اشیاء سے مدد کی جائے
یعنی جو خود کھاؤں وہ دوسروں کو کھلاؤ ، یہ نہیں کہ خود تو روسٹ، بریانی
اور قورمہ اڑاؤ اور صبح اپنی ماسیوں اور نوکروں کو بچا کچا، رات کا باسی،
کھانا کھلا ؤ۔ عطیات یعنی ذکوٰۃ ، خیرات ، صدقہ کس کو دیا جائے؟ان عطیات کے
کون حق دار ہیں؟ اس کی وضاحت بہت صاف الفاظ میں کردی گئی ہے۔ گویا حق دار
کو اس کا حق ادا کرنے کی تاکید آئی ہے۔ عربی قول ہے کہ ’زکوٰۃ بہترین خیرات
ہے‘۔اسے اسلام کا خزانہ بھی کہا گیا ہے۔
زکوٰۃ ، خیرات اور صدقہ کے بارے میں اللہ کے فرمان کے بعد یہ جاننا ضروری
ہے کہ احادیثِ مبارکہ اس حوالے سے ہماری کیا رہنمائی کرتی ہیں۔ اس لیے کہ
اللہ پر ایمان ، اس کے رسول ﷺ کو آخری نبی ماننے اس کی رسالت پر لبیک کہنے
کے بعد اقامت صلوٰۃ یعنی نماز کی پابندی کے بعد ذکوٰۃ اسلام کا تیسرا رکن
ہے۔ نماز اور ذکوٰۃ کا حکم ساتھ ساتھ اس طرح آیا کہ دونوں کا مقام و مرتبہ
ایک سا معلوم ہوتا ہے۔ گویا جس قدر اہمیت نماز کی ہے اتنی ہی ذکوٰۃ کی ہے۔
صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی حدیث ہے آپﷺ نے فرمایا ’خدا کی قسم نماز اور
ذکوٰۃ کے درمیان جو لوگ تفریق کریں گے ، میں ضرور ان کے خلاف جہاد کروں
گا‘۔ خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں کے خلاف جو بہ
ظاہر اسلام قبول کر چکے تھے اورتوحید و رسالت کا اقرار کرتے اور نمازیں
پڑھتے لیکن ذکوٰۃ سے انکاری تھے جہاد کا فیصلہ کیا تھا۔ ذکوٰۃ کی ادائیگی
اسلام میں سب سے بڑا عطیہ تصور کیا جاسکتا ہے۔صدقہ کی صورت کچھ اور ہے یہ
کسی بھی وقت دیا جاسکتا ہے اس کے بارے میں یہ بھی پابندی نہیں کہ کس قدر
صدقہ کیا جائے،صدقے کے بارے میں فارسی مقولہ ہے کہ’ صدقہ آفت کو دور اور
عمر میں اضافہ کرتا ہے‘۔خیرات کی بھی یہی صورت ہے جو بھی استطاعت ہو خیرات
کردیا جائے۔خیرات کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ’خیرات دے تاکہ تیری اولاد
خیرات نہ مانگے‘۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’اگر دُنیا میں ایک حصہ راہ خدا میں
دو گے تو آخرت میں ستر گنا زیادہ پاؤ گے‘۔ یہ تو بات طے ہے کہ ’خدا کی راہ
میں دینا جان و مال کی حفاظت کرتا ہے‘۔ البتہ ذکوٰۃ کی ادائیگی میں مرضی کا
دخل نہیں ، اس کا نصاب مقرر، اس کے احکامات اور ضوابط موجود ہیں، کم سے کم
کتنے مال پر زکوٰۃ فرض ہے، تجارت پر ذکوٰۃ، زیور پر زکوٰۃ، نقد رقم پر
ذکوٰۃ،جائیداد پر ذکوٰۃ تمام چیزوں کی وضاحت و مقدار مقرر ہے۔ یہی نہیں
بلکہ سال گزرنے کے بعد ذکوٰۃ واجب ہوتی ہے۔ ذکوٰۃ ایک ساتھ بھی دی جاسکتی
ہے ، اسے پیشگی بھی ادا کیا جاسکتا ہے اور یہ تھوڑی تھوڑی کر کے بھی دی
جاسکتی ہے۔ |