یتیم کی کفالت ۔۔۔۔۔ جنت میں رفاقت رسول کا ذریعہ

ہم میں سے کون ہے جو نہیں چاہتا کہ اسے جنت الفردوس میں رسول امین حضرت محمد مصطفی،احمد مجتبی ﷺ کی رفاقت حاصل ہوجائے ؟ خواہش تو ہر صاحب مومن کی یہی ہوتی ہے ،مگر یہ نعمت اﷲ کے فضل و کرم سے جس کو حاصل ہوگی اس کے لئے کچھ شرائط بھی مقررکردی گئی ہیں ۔ان میں سے ایک یہ ہے کہ یتیم کے ساتھ حسن سلو ک کیا جائے ۔

جس بچے کے سرسے باپ کا سایہ اٹھ جائے وہ شریعت کی اصطلاح میں " یتیم " کہلاتا ہے ، اورچونکہ یتیم کی حفاظت کرنے والا،اس کی ضروریات پوری کرنے والا اوراسے کماکرکھلانے والا موجودنہیں ہوتا،اوریتیم کسی بھی معاشرے میں سب سے کمزوراوربے بس مخلوق ہوتی ہے ، اسی لئے سنجیدہ اورباشعور معاشرے اس کی فلاح وبہبود کے لئے خصوصی اقدامات کرتے ہیں ۔اس کمزورطبقے کے لئے سب سے پہلے کسی نظام حیات نے اگرکوئی مثبت اورٹھوس اقدامات کئے ہیں تو وہ دین اسلام ہے ۔اﷲ تعالیٰ نے اس کے خاص حقوق قائم کررکھے ہیں تاکہ اس کی زندگی میں جو محرومی آگئی ہے اس کی تلافی ہوسکے ۔یتیم ایک ایسی ہستی ہے جس کی کفالت کرنے والے ،نگرانی کرنے والے اوراس سے حسن سلوک کرنے والے کو بے پناہ اجرکی بشارت دی گئی ہے اوراس کے لئے بہت بڑے اجروثواب کا وعدہ کیا گیا ہے ۔یتیم کے نگران کو خاص ہدایات دی گئی ہیں کہ وہ اس کے بارے میں ایسا رویہ اختیار کرے جس میں یتیم کا فائدہ ہو۔

اﷲ تعالیٰ قرآن عظیم الشان کی سورۃ النساء میں ارشاد فرماتاہے کہ " اﷲ تمہیں ہدایت کرتاہے کہ یتیموں کے بارے میں انصاف پر قائم رہو ۔" ،سورۃ الدھر میں " ابرار" یعنی نیکوکاروں کی صفات بیان کی گئی ہیں کہ " وہ نذرپوری کرتے ہیں ، اوراس دن سے ڈرتے ہیں جس کی آفت ہرطرف پھیلی ہوئی ہوگی،اوراﷲ کی محبت میں مسکین اوریتیم اورقیدی کو کھانا کھلاتے ہیں " حضرت سہل ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول خداﷺ نے فرمایا کہ میں اوریتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے ،اورآ پ ﷺ نے شہادت کی انگلی اوردرمیان والی انگلی سے اشارہ کیا اوران کے درمیان کچھ کشادگی رکھی ۔(بخاری)

جنت میں حضورﷺ کا ساتھ حاصل ہوناحددرجہ اعزازکی بات ہوگی اوریہ اعزازاس شخص کو بھی حاصل ہوجائے گا جس نے زندگی میں کسی یتیم کی کفالت کی ہوگی۔حضرت عبداﷲ بن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایاکہ جس نے مسلمانوں میں سے کسی یتیم کو لے لیا اوراسے اپنے کھانے اورپینے میں شریک کرلیا،اﷲ تعالیٰ ضروربالضروراسے جنت میں داخل کرے گا،سوائے اس کے کہ اس نے کوئی ایسا جرم کیا ہوجو ناقابل معافی ہو۔"

حضرت ابوامامہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول مہربان ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص نے کسی یتیم کے سرپر ہاتھ پھیرا(اور)صرف اﷲ کی خوشنودی حاصل کرنے ہی کے لئے پھیرا توسرکے جتنے بالوں پراس کاہاتھ پھرا،ہرہربال کے بدلے اسے نیکیاں ملیں گی اورجس نے اپنے پاس رہنے والی کسی یتیم بچی یا بچے سے حسن سلوک کیا تو میں اوروہ جنت میں ان دوانگلیوں کی طرح (پاس پاس)ہوں گے اورآپ ﷺ نے اپنی دوانگلیوں کو ملایا۔(احمد۔ترمذی)

حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اﷲ ﷺ کے حضور میں اپنے دل کی سختی کی شکایت کی ۔حضور ﷺ نے(اسے دل کی سختی دورکرنے کا علاج یہ)بتایاکہ یتیم کے سرپر (شفقت سے) ہاتھ پھیراکر اورمسکین کو کھانا کھلایاکر۔(احمد) سورۃ النساء میں اﷲ کافرمان ہے کہ" جولوگ ظلم کے ساتھ یتیموں کے مال کھاتے ہیں درحقیقت وہ اپنے پیٹ آگ سے بھرتے ہیں اوروہ ضرورجہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ میں جھونکے جائیں گے ۔" سورۃ الانعام میں فرمایا" اوریتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ مگر ایسے طریقے سے جو بہترین ہو یہاں تک کہ وہ اپنے سن رشد کو پہنچ جائے ۔" حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ " سات ہلاک کردینے والی چیزوں سے بچو۔صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا کہ یارسول اﷲ ﷺ وہ کیا ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا" خداکے ساتھ شرک کرنا ،جادو،اس جان کو قتل کرناجسے خدانے محترم قراردیا ہوسوائے اس کے کہ اسے حق سے قتل کیا جائے ،سود کھانا،کافروں کے مقابلے میں جنگ کرتے ہوئے پیٹھ دکھانا اوریتیم کا مال کھانا۔" (بخاری ،مسلم)یہاں حضورﷺ نے یتیم کا مال کھانے کو ان سات چیزوں میں شمارکیا ہے جوہلاک کرنے والی ہیں ۔

اﷲ کے رسول ﷺ یتیموں سے خصوصی شفقت فرماتے تھے ۔عید کی نماز پر جاتے وقت گلی میں روتے یتیم بچے کے ساتھ شفقت کا واقعہ تو مشہورومعروف ہے ۔کہ جس کو اپنے گھر لے جاکر نئے کپڑے پہناکرعمدہ کھاناکھلاکر اسے خوشیاں عطاکیں تو اس کے ساتھ کے ہمجولی حیران ہوگئے کہ اس بچے کی حالت کیسے بدل گئی تو اس نے کہا کہ جس کے باپ رحمت للعالمین ﷺ ہوجائیں پھر اس کی خوش بختی کے کیا کہنے ۔ابوجہل ایک یتیم بچے کا وصی تھا ،وہ بچہ ایک روزاس حالت میں اس کے پاس آیا کہ اس کے بدن پر کپڑے تک نہ تھے اوراس نے التجا کی کہ اس کے باپ کے چھوڑے ہوئے مال میں سے وہ سے کچھ دے دے مگر اس ظالم نے اس کی طرف توجہ تک نہ کی ۔اوروہ کھڑے کھڑے آخرکارمایوس ہوکر لوٹ گیا ،قریش کے سرداروں نے ازراہ شرارت اس سے کہا کہ محمد(ﷺ) کے پاس جاکر شکایت کرو،وہ ابوجہل سے سفارش کرکے تجھے تیرامال دلوادیں گے ،بچہ تو بے چارہ ناواقف تھا کہ ابوجہل کا حضورﷺ سے کیا تعلق ہے اوریہ بدبخت کس لئے مشورہ دے رہے ہیں ۔وہ سیدھا حضورﷺ کے پاس پہنچا اوراپنا حال بتایا ،آپ ﷺ اسی وقت اٹھ کھڑے ہوئے اوراسے ساتھ لے کر اپنے بدترین دشمن ابوجہل کے ہاں تشریف لے گئے ،آپ کو دیکھ کر اس نے آپ کا استقبال کیا اورجب آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس یتیم کا حق اسے دے دوتو اس نے فوراََ اس کا مال لاکر اسے دیدیا، قریش کے سردار تو تاک میں تھے کہ دیکھیں کیا معاملہ پیش آتا ہے ،وہ کسی مزیدارجھڑپ کی امیدکررہے تھے ۔مگر انہوں نے یہ معاملہ دیکھا تو حیران رہ گئے ۔اس واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ رسول مہربان ﷺ یتیموں کے حقوق دلانے کے لئے اپنے بدترین دشمن تک سے ملنے سے گریزاں نہ ہوئے ۔اس حوالے سے آنحضرت ﷺ کی تعلیمات نے عرب کی فطرت بدل کر رکھ دی ۔وہی دل جو بے کس اورناتواں یتیموں کے لئے پتھر سے زیادہ سخت تھے ،موم سے زیادہ نرم ہوگئے ۔ہرصحابی کا گھر ایک یتیم خانہ بن گیا ،ایک ایک یتیم کے لطف وشفقت کے لئے کئی کئی ہاتھ آگے بڑھنے لگے۔اورہرایک اس کی پرورش وکفالت کے لئے اپنے آغوش محبت کو پیش کرنے لگا۔حضرت عبداﷲ بن عمر ؓ کا حال یہ تھا کہ وہ کسی یتیم بچے کو ساتھ لئے بغیر کھانا نہیں کھاتے تھے ۔حضرت عائشہ ؓ صدیقہ اپنے خاندان اورانصارکی یتیم لڑکیوں کواپنے گھرلے جاکر دل وجان سے پالتی تھیں ۔

آج پاکستان جیسے ملک میں کہ جس کی بنیاد کلمہ طیبہ پررکھی گئی تھی۔جس میں رسول اکرم ﷺ کے نام لیوااورعاشق بستے ہیں اورجو دنیا میں سب سے زیادہ رقوم خیروفلاح کے کاموں پر صرف کرتے ہیں مگر اس کے باوجود اس دھرتی پر لاکھوں یتیم بچے بے بس، بے سہارا،بے آسراہیں جن کی کفالت کرنے والا کوئی نہیں ۔ ایسے حالات میں الخدمت فاؤنڈیشن پاکستان میدان عمل میں آئی اورگزشتہ ایک عشرے سے یتیم بچوں کی کفالت کے میدان کی سرخیل ہے ۔پاکستان بھر میں ہزاروں بچوں کی کفالت کا فریضہ ملک کی خداترس اورہمدردہستیوں کے تعاون سے انجام دے رہی ہے ۔اور یتیموں کی کفالت کے لئے دوطرح کے پراجیکٹس پر کام کررہی ہے ۔ایک منصوبہ جس میں یتیم بچے اپنے گھروں پر اپنی ماؤں یا نانا،نانی ،یادادا،دادی کے پاس رکھ کر ہی پرورش کیاجاتاہے،اوراس کی تعلیم وصحت کے اخراجات برداشت کئے جاتے ہیں ۔دوسرے پراجیکٹ کے تحت مختلف شہروں میں آغوش سنٹر قائم کئے گئے ہیں جہاں ماں اورباپ دونوں سے محروم یتیم بچو ں کورہائش،تعلیم ،صحت اوردیگر معاملات کے اخراجات برداشت کئے جاتے ہیں ۔جہاں بچوں کو عالمی معیار کی بہترین سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں ۔ 15 رمضان المبارک کو اسلامی ممالک کی تنظیم اوراین جی اوز نے مل کرعالمی یوم یتیم مقررکیا ہے ،جس میں یتامیٰ کی کفالت کے لئے خصوصی طورپر اقدامات کئے جاتے ہیں تاکہ عالم اسلام کے یتیم بچوں کی کفالت وپرورش میں آسانی ہوسکے اورانہیں عالم اسلام کا مفید شہری بنایاجاسکے ۔اس حوالے سے الخدمت فاؤنڈیشن ضلع میانوالی بھی میدان عمل میں ہے اور23 یتیم بچوں کی کفالت کا فریضہ سرانجام دے رہی ہے ،جب کہ اصل ہدف 100بچوں کاہے ،اس حوالے سے تمام اہل خیر،درددل رکھنے والے صاحب حیثیت حضرات سے گزارش ہے کہ الخدمت فاؤنڈیشن کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر ایک ایک یتیم بچے کی کفالت کا باراٹھا لیاجائے تو میانوالی کے سینکڑوں نہیں ہزاروں یتیم طلبہ وطالبات کو تعلیم وصحت کی ضروریات پوری کی جاسکتی ہیں ۔توقع ہے کہ جس طرح الخدمت فاؤنڈیشن جس طرح بغیر کسی تعصب وامتیازکے بچوں کی کفالت کرتی ہے اسی طرح تمام مکتبہ فکر کے لوگ آگے آئیں گے اورجنت الفردوس میں رفاقت رسول ﷺ کے لئے اپنا بھرپورکرداراداکرکے یتیموں کو معاشرے کا بہترین مفید شہری بنانے میں اپنا حصہ ڈالیں گے ۔ایک یتیم بچے کا ماہانہ خرچ صرف 3500/- روپے ہے، اس معمولی رقم سے ایک ہونہار یتیم بچے کا مستقبل سنورسکتا ہے ،اس عظیم مقصد کے لئیفنڈز الخدمت فاؤنڈیشن کے اکاؤنٹ میں براہ راست بھی جمع کرائے جاسکتے ہیں( ایم سی بی بنک شاہراہ فضائیہ میانوالی میں اکاؤنٹ نمبر 0085487991002454 اوردرج ذیل موبائل نمبر(03046113626 ) پر رابطہ کرکے بھی دیئے جاسکتے ہیں ۔
 

Aamir Farooq Anjm
About the Author: Aamir Farooq Anjm Read More Articles by Aamir Farooq Anjm: 11 Articles with 11577 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.