رمضان المبارک اور ہم

سال کے بارہ مہینوں میں رمضان المبارک کو جو اہمیت نصیب ہوئی ہے وہ کسی اور ماہکونہیں ہوئی۔قرآن مجید کا نزول اس کا ایک اہم سبب ہے۔ارشاد باری تعالی ہوتاہے :’’شھر رمضان الذی انزل فیہ القرآن‘‘
ماہ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیاگیا ہے(سورہ بقرہ ۱۸۵)
اس کی عظمت کے بابت میں رسول اسلام کا ارشاد گرامی ہے:أَیُّهَا النَّاسُ إِنَّهُ قَدْ أَقْبَلَ إِلَیْكُمْ شَهْرُ اللَّهِ بِالْبَرَكَةِ وَ الرَّحْمَةِ وَ الْمَغْفِرَةِ شَهْرٌ هُوَ عِنْدَ اللَّهِ أَفْضَلُ الشُّهُورِ وَ أَیَّامُهُ أَفْضَلُ الْأَیَّامِ وَ لَیَالِیهِ أَفْضَلُ اللَّیَالِی وَ سَاعَاتُهُ أَفْضَلُ السَّاعَاتِ.
اے لوگو خدا کا برکت، رحمت اور مغفرت سے بھرپور مہینہ آرہا ہے .یہ ایک ایسا مہینہ ہے جو تمام مہینوں سے بہتر ہے اس کے دن تمام دنوں سے بہتر اور اس کی راتیں تمام راتوں سے بہتر ہیں اس کے ساعات ولحظات تمام ساعات ولحظات سے افضل ہیں ۔(خطبہ شعبانیہ)
اس کے ماہ کے ابتدائی دس ایام رحمت،درمیانی دس دن مغفرت اور آخری دس روز جہنم سے نجات کے ہیں ۔
یہ مقدس مہینہ ہماری اصلاح کے واسطے آیا ہے۔ اس میں ہمیں اپنے نفس کو طاعت و عبادت سے رام کر دینا چاہیئے تاکہ پورے سال شیطان اور اس کی شریر ٹولی ہم سے دور دور رہے۔
اس برس یہ بابرکت مہینہ موسم گرما میں واقع ہوا ہے ۔جس کے باعث بعض کوتاہ فہم اور ناپختہ مزاج اس مہینہ کی فضیلت کو نظر انداز کرتے نظر آئےہیں اور اس عظمتوں کے حامل ایام کو غیر مطلوبہ کاموں میں خرچ کردیا ہے جو کہ بہر صورت غلط ہے۔ ہم ایسے لوگوں کے سلسلے میں اللہ تبارک و تعالیٰ سے التجا کرتے ہیں کہ وہ انہیں توفیق عطافرمائے تاکہ وہ دین اور دینداری سے آشنائی حاصل کرنے کی جانب قدم بڑھائیںاور اس پر برکت ماہ سے فیضیاب ہوں!
اس مقد س ماہ کے حوالہ سے پیغمبر گرامی حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کا فرمان ہے :أَنْفَاسُكُمْ فِیهِ تَسْبِیحٌ وَ نَوْمُكُمْ فِیهِ عِبَادَةٌ وَ عَمَلُكُمْ فِیهِ مَقْبُولٌ وَ دُعَاؤُكُمْ فِیهِ مُسْتَجَابٌ
اس مہینے میں (تمہارا) سانس لیناتسبیح اور سونا عبادت ہے۔ اعمال مقبول اور دعائیں مستجاب ہیں ۔(خطبہ شعبانیہ)
اس ماہ کی فضیلت کے باب میں خاص بات جو بیان کی جاتی ہے وہ ہے مغفرت اور گناہوں سے پاک ہوجاناہے۔ چنانچہ ختم مرتبت کا ارشاد عالی اقدس ہے:فَإِنَّ الشَّقِیَّ مَنْ حُرِمَ غُفْرَانَ اللَّهِ فِی هَذَا الشَّهْرِ الْعَظِیمِ
بدبخت ہے وہ شخص جو اس بابرکت مہینے میں غفران الہیٰ سے محروم رہا ۔(خطبہ شعبانیہ)
ماہ رمضان کا رتبہ بہت بلند ہے ۔ رسول اللَّه ‏صلى الله علیه وآله وسلم ارشاد فرماتے ہیں :وَ مَنْ تَطَوَّعَ فِیهِ بِصَلَاةٍ كَتَبَ اللَّهُ لَهُ بَرَاءَةً مِنَ النَّارِ وَ مَنْ أَدَّى فِیهِ فَرْضاً كَانَ لَهُ ثَوَابُ مَنْ أَدَّى سَبْعِینَ فَرِیضَةً فِیمَا سِوَاهُ مِنَ الشُّهُورِ وَ مَنْ أَكْثَرَ فِیهِ مِنَ الصَّلَاةِ عَلَیَّ ثَقَّلَ اللَّهُ مِیزَانَهُیَوْمَ تَخِفُّ الْمَوَازِینُ وَ مَنْ تَلَا فِیهِ آیَةً مِنَ الْقُرْآنِ كَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِ مَنْ خَتَمَ الْقُرْآنَ فِی غَیْرِهِ مِنَ الشُّهُورِ.
جو کوئی اس مہینے میں مستحب نماز بجالائے گا تو خداوند اس کو جہنم سے نجات دے گا اور جو کوئی اس مہینے میں ایک واجب نماز پڑھے گا تو اس کے لئے دوسرے مہینوں میں سترنمازیں پڑھنے کا ثواب دے گا اور جوکوئی اس مہینے میں مجھ پر زیادہ سے زیادہ درود بھیجے گا خدا وند قیامت کے دن کہ جس دن لوگوں کے اعمال کا پلڑا بلکا ہوگا اس کے نیک اعمال کے پلڑے کو سنگین کرے گا اور جو کوئی اس مہینے میں قرآن مجید کی ایک آیت کی تلاوت کرے گا، اس کو دوسرے مہینوں میں ختم قرآن کرنے کا ثواب ملے گا ۔(خطبہ شعبانیہ)
اس مبارک ماہ کی قدر و منزلت کے بارے میں ارشاد ختم مرتبت ہورہاہے کہ اللہ باری تعالی ہے : ’’الصَّوْمُ لي و اَنا اجْزي به‘‘
روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا۔(بحارالانوار، ج 93، ص 256، باب 30، فصل الصوم)
ذکرشدہ حدیث کے متعلق چند باتیں پیش خدمت ہیں:
روزہ ایک ایسی عبادت ہے جس میں دکھاوا اورریا کاری کابہت ہی کم نفوذ ہے۔ غالبا اس کا علم یاتو روزہ دار کو ہوتا ہے یا عالم غیب کو۔ اس کے بر عکس دیگر عبادات میں دکھاوے کا عمل دخل ہوتا ہے ۔مسجد میں کوئی بزرگ عالم دین آپہونچے، تلاوت کا لحن و لہجہ بدل جاتاہے۔چار لوگ کیا کہیں گے اگر چندےمیں کمی رہی۔ لہٰذا قربت الی اللہ کی نیت تبدیل ہوگئی ۔دوسری عبادتوں کے مقابلروزہ داری میں نا م ونمود کی طلب اور ریا کاری کا حملہ کم ہی ہوتاہے۔
بعض حضرات نے رقم کیا ہے کہ روزے کے ثواب کی مقدار کو اللہ تعالی جانتا ہے۔ جب کہ دوسری عبادات ایسی ہیں جن کی جزاء کا اللہ تعالیٰ کے بندوں کوبھی علم ہے۔
روزہ میں صبر کا عنصر زیادہ ہے۔ اس عبادت کے دوران صائم کو جس قدر صبر اور آزمائش کے مراحل طے کرنے پڑتے ہیں۔ شاید ہی دیگر عبادات میں اتنی صبر آزما منزلیں پیش آتی ہوں۔ صبر کے متعلق ارشاد احدیت ہورہاہے:’’انما یوفی الصابرون اجرھم بغیر حساب‘‘
’’بس صبر کرنے والے ہی وہ ہیں جن کو بے حساب اجر دیا جاتاہے۔‘‘(الزمر۱۰)
روزہ دار اس ماہ میں خواہشات نفسانی سے اجنتاب کر تاہے اور اپنے معبود کی عبادت میں محو ہو تاہے ۔تلاوت کلام پاک اور دیگر متعدد عبادات میں مشغول رہتاہے ۔ جس کے باعث وہ اللہ کا محبوب بندہ بن جاتا ہے ۔لہٰذا!اس مبارک ماہ کے قیمتی لمحات میں جہاں تک بن پڑے حقیقی معبود کے حضور سر تسلیم خم کئے رہیں اور ہرآن زیر لب ذکر الٰہی کا ورد جاری رہے۔