رمضان المبارک کا پورا مہینہ ہی رحمتوں، برکتوں کا مہینہ
ہوتا ہے۔ اس میں حسن اعمال اور نیک کاموں کا اجر ویسے ہی ستر گنا تک بڑھا
دیا جاتا ہے۔ نوافل کا ثواب واجبات جتنا ملتا ہے، واجبات کا ثواب فرائض
جتنا ملتا ہے اور فرائض کا ثواب ستر گنا تک بڑھا دیا جاتا ہے، تو اندازہ
لگایئے کہ پھر استحبابی کام کرنے اور مستحب اعمال بجالانے کا ثواب اس میں
کس قدر زیادہ ہوگا؟ مثلاً کسی مسلمان کی حاجت پوری کردی، کسی کی مشکل آسان
کردی، کسی پر رحم کردیا، کسی کی مالی یا جانی مدد کردی،کسی کا روزہ دار کا
روزہ افطار کرادیا کہ ایسے استحبابی کاموں اور مستحب اعمال کے اجر و ثواب
کا اﷲ تعالیٰ کے یہاں بہت بڑا ٹھکانا ہے اور اس پر اﷲ تعالیٰ بہت کچھ مرحمت
فرماتے ہیں۔
حضرت سلمان فارسی رضی اﷲ عنہ کی ایک طویل حدیث میں آتا ہے کہ نبی کریم صلی
اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرائے
اس کے لئے گناہوں کے معاف ہونے اور(جہنم کی) آگ سے خلاصی کا سبب ہوگا اور
روزہ دار کے ثواب کی مانند اس کو ثواب ہوگا، مگر اس روزہ دار کے ثواب سے
کچھ کم نہیں کیا جائے گا۔ صحابہ رضی اﷲ عنہم نے عرض کیا یارسول اﷲ! ہم میں
سے ہر شخص تو اتنی وسعت نہیں رکھتا کہ روزہ دار کو افطار کرائے، تو آپ صلی
اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (پیٹ بھر کھلانے پر موقوف نہیں) یہ ثواب تو حق
شانہ ایک کھجور سے کوئی افطار کرادے یا ایک گھونٹ پانی پلادے یا ایک گھونٹ
لسی پلادے اس پر بھی مرحمت فرمادیتے ہیں…… جو شخص کسی روزہ دار کو پانی
پلائے حق تعالیٰ (قیامت کے دن) میرے حوض سے اس کو ایسا پانی پلائیں گے کہ
جس کے بعد جنت میں داخل ہونے تک پیاس نہیں لگے گی…… جو شخص اس مہینہ میں
اپنے غلام اور خادم (یعنی اپنے ماتحت کام کرنے والے ) کے بوجھ کو ہلکا کردے
(اور اس سے زیادہ کام نہ لے) تو حق تعالیٰ شانہ اس کی مغفرت فرماتے ہیں اور
(جہنم کی) آگ سے اُس کو آزاد فرماتے ہیں۔ (صحیح ابن خزیمہ)
حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما ایک مرتبہ مسجد نبوی (صلی اﷲ علیہ وسلم )میں
اعتکاف فرمارہے تھے کہ آپ کے پاس ایک شخص آیا اور سلام کرکے (چپ چاپ) بیٹھ
گیا ، حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما نے اس سے فرمایا کہ میں تمہیں غم زدہ اور
پریشان دیکھ رہا ہوں ، کیا بات ہے؟ اس نے عرض کیا اے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ
وسلم کے بھتیجے! واقعی میں غم زدہ اور پریشان ہوں کہ فلاں شخص کا مجھ پر حق
ہے اور (نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی قبر اطہر کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ)
اس قبر والے کی عزت کی قسم! میں اس حق کے ادا کرنے پر قادر نہیں ہوں، حضرت
ابن عباس رضی اﷲ عنہما نے فرمایا کہ اچھا کیا میں اس سے تیری سفارش کروں؟
اس نے عرض کیا کہ جیسے آپ مناسب سمجھیں ، حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما یہ سن
کر جوتا پہن کر مسجد سے باہر تشریف لائے، اس شخص نے عرض کیا کہ آپ اپنا
اعتکاف بھول گئے، فرمایا بھولا نہیں ہوں ، بلکہ میں نے اس قبر والے (صلی اﷲ
علیہ وسلم) سے سنا ہے اور ابھی زمانہ کچھ زیادہ نہیں گزرا (یہ لفظ کہتے
ہوئے ) حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے کہ حضور صلی
اﷲ علیہ وسلم فرمارہے تھے کہ جو شخص اپنے بھائی کے کسی کام میں چلے پھرے
اور کوشش کرے تو یہ اس شخص کے لئے دس (10) برس کے اعتکاف سے بھی افضل ہے۔ (معجم
الاوسط للطبرانی)
ماہِ رمضان غرباء و مساکین کے ساتھ ایثار و ہم دردی، سخاوت و فیاضی اور غم
خواری کرنے کا مہینہ ہے۔ افضل تو یہ ہے کہ غریبوں ، مسکینوں، یتیموں،
بیواؤں اور ضعیف و نادار لوگوں پر اپنے سے زیادہ اور اچھا مال و دولت خرچ
کیا جائے،اگر یہ نہ ہوسکے تو پھر مساوات اور برابر ی کا معاملہ کیا جائے کہ
حدیث شریف میں ایسے شخص کو کامل مؤمن کہا گیا ہے ۔اور اگر یہ بھی نہ ہوسکے
تو پھر کم از کم اتنا ضرورکرلیا جائے کہ جو کچھ سحری وافطاری میں کھانے
پینے وغیرہ اشیائے خورد و نوش کا انتظام اپنے لئے کیا ہے اس میں سے ان
لوگوں کو بھی کچھ نہ کچھ ضروردے دیا جائے۔ اسی طرح اپنی فرض زکوٰۃ ، واجبی
صدقات اور نفلی خیرات وغیرہ کے ذریعہ بھی ان لوگوں کی ضرور مدد کی جائے کہ
ان مدات کے صحیح معنوں میں مصداق یہی لوگ ہیں اور یہ انہی کے حقوق ہیں جو
اﷲ تعالیٰ نے ہمارے ہاتھوں میں دے رکھے ہیں۔
روح البیان میں سیوطیؒ کی جامع الصغیر اور سخاویؒ کی مقاصد سے بروایت حضرت
ابن عمر رضی اﷲ عنہما نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کیا ہے کہ
میری اُمت میں ہر وقت پانچ سو برگزیدہ بندے اور چالیس ابدال رہتے ہیں، جب
کوئی شخص ان میں سے مرجاتا ہے تو فوراً دوسرا اس کی جگہ لے لیتا ہے، صحابہ
نے عرض کیا کہ ان لوگوں کے خصوصی اعمال کیا ہیں؟ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے
ارشاد فرمایا کہ ظلم کرنے والوں سے درگزر کرتے ہیں اور برائی کا معاملہ
کرنے والوں سے (بھی) احسان کا برتاؤ کرتے ہیں اور اﷲ کے عطا فرمائے ہوئے
رزق میں لوگوں کے ساتھ ہم دردی اور غم خواری کا برتاؤ کرتے ہیں۔ ایک دوسری
حدیث سے نقل کیا ہے کہ جو شخص بھوکے کو روٹی کھلائے، یا ننگے کو کپڑا
پہنائے، یا مسافر کو شب باشی (رات گزارنے) کی جگہ دے ، حق تعالیٰ شانہ
قیامت کے ہولوں سے اس کو پناہ دیتے ہیں۔ یحییٰ برمکی رحمۃ اﷲ علیہ حضرت
سفیان ثوری رحمۃ اﷲ علیہ پر ہر ماہ ایک ہزار درہم خرچ کرتے تھے تو حضرت
سفیان ثوری رحمۃ اﷲ علیہ سجدے میں ان کے لئے دعاء کرتے تھے کہ یا اﷲ! یحییٰ
نے میری دنیا کی کفایت کی تو اپنے لطف سے ان کی آخرت کی کفایت فرما! ۔ جب
یحییٰ کا انتقال ہوا تو لوگوں نے خواب میں ان سے پوچھا کہ کیا گزری؟ انہوں
نے کہا کہ سفیان کی دعاء کی بدولت مغفرت ہوئی۔ حماد بن سلمہ رحمۃ اﷲ علیہ
ایک مشہور محدث ہیں وہ روزانہ پچاس آدمیوں کے روزہ افطار کرانے کا اہتمام
فرماتے تھے۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ جو شخص حلال کمائی سے رمضان میں کسی
روزہ دار کو روزہ افطار کرائے تو اس پر رمضان کی راتوں میں فرشتے رحمت
بھیجتے ہیں اور شب قدر میں حضرت جبرئیل علیہ السلام اس سے مصافحہ کرتے ہیں
اور جس سے حضرت جبرئیل علیہ السلام مصافحہ کرتے ہیں (اس کی علامت یہ ہوتی
ہے کہ) اس کے دل میں رقت پیدا ہوتی ہے اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے
ہیں۔ |