اس کائنات رنگ وبو میں انواع و اقسام کی مخلوقات موجود
ہیں جن میں اشرف المخلوقات کے اعزاز کا حامل انسان ہے۔جس اپنے علم و عمل
اور فکر و نظر کی بدولت فرشتوں سے بھی افضل قرار دیا گیا ہے۔
دنیا میں مختلف مذاہب،اقوام،رنگ و نسل اور مختلف زبانیں بولنے والے افراد
بستے ہیں۔ہر شخص وطن پرستی اور حب الوطنی کا علیحدہ علیحدہ نظریہ اور میعار
رکھتا ہے
وطنِ عزیز پاکستان کی تاریخ پر اگر نظر دوڑائی جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے
کہ تخلیق پاکستان میں کردار ادا کرنے والے لوگ مختلف اقوام اور علاقوں کے
ہونے کے باوجود ایک نظریہ اور سوچ کے حامل تھے۔وہ خدمت انسانیت اور فلاح
الناس کو مقصد حیات سمجھتے تھے۔
پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد جہاں وطن پرست حکمرانوں اور حقیقی عوامی
نمائندوں کا فقدان رہا ہے وہیں عوام کا کردار بھی سوالیہ نشان رکھتا ہے۔
پاکستان میں نظریاتی اور فکری لحاظ سے عوام تقریباً پانچ طبقات یا گروہوں
میں بٹی ہوئی ہے۔ جو اپنے افعال و اعمال اور کردار و گفتار کے لحاظ سے یکسر
مختلف ہیں۔
پہلی قسم کے وہ لوگ ہیں جو ناخواندہ،غریب اور قدامت پسند پس منظر کے حامل
ہیں۔ یہ لوگ قوم وملت اور وطن کی ترقی میں اپنا کوئی کردار ادا نہیں
کرتے۔ان کا مقصد حیات سوائے اپنی زندگی جیسے تیسے گزارنے کے کچھ نہیں
ہوتا۔ایسے لوگ دنیا کے کسی بھی خطے میں پیدا ہوں ان کی سوچ اور عمل میں
کوئی بدلاؤ نہیں آتا۔یہ لوگ قابل رحم اور قابل توجہ ہوتے ہیں۔
دوسری قسم کے وہ لوگ ہیں جو اپنی تمام تر مشکلات اور مسائل کے باوجود دل ہی
دل میں کڑھتے رہتے ہیں لیکن ان مسائل کے حل کے لیے باوجود موقع اور وسائل
ہونے کے کوئی کوشش کرنے سے گریزاں نظر آتے ہیں۔ایسے لوگوں میں شخصیت پرستی
اور جماعت پرستی کا عنصر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا ہے۔یہ لوگ اپنے پسندیدہ شخص
یا جماعت کے متعلق کسی قسم کی تنقید برداشت نہیں کرتے ۔حقیقت پسندی سے جی
کتراتے اور سچ کا سامنا کرنے سے گریزاں نظر آتے ہیں۔ یہ لوگ سوچ و فکر سے
عاری ہوتے ہیں اور کسی ذاتی نظریہ یا فکر کی بجائے اپنی پارٹی یا شخصیت کے
منشور اور اقوال کو حرفِ آخر گردانتے ہیں۔ایسے لوگ انسانیت کے کیلئے کلنک
کا ٹیکہ ثابت ہوتے ہیں۔ایسے لوگ اپنی ذہنی تسکین اور معمولی مالی فوائد
کیلئے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔
تیسری قسم کے لوگ وہ لوگ ہیں جنکے لیے مذہب یا وطن کوئی اہمیت نہیں رکھتا
وہ اپنی ہر کوشش،صلاحیت اور وسائل کو اغیار کی خوشنودی کے حصول کے لیے
استعمال کرتے ہیں۔ ایسے لوگ ہر قسم کی دہشتگردانہ کارروائیوں اور شرپسندی
کے واقعات کے سرغنہ ہوتے ہیں۔میر جعفر اور میر صادق کے یہ روحانی فرزند ملک
دشمن عناصر کے لیے جاسوسی کے فرائض سر انجام دیتے ہیں۔ایسے لوگوں سے حب
الوطنی اور مخلص رویوں کی توقع عبث ہے۔
چوتھی قسم کے لوگ حکمران،جاگیردار ،وڈیرے اور اعلیٰ حکومتی عہدیدار ہوتے
ہیں۔ یہ لوگ ملک کو اپنی جاگیر،انصاف کو اپنی کنیز اور عوام کو کیڑے مکوڑے
سمجھتے ہیں۔ یہ لوگ ملک کے وسائل کا اپنی عیاشیوں اور بدمعاشیوں کے لیے بے
دریغ استعمال کرتے ہیں۔ اسلامی قوانین اور ریاستی اصولوں کو پس پشت ڈالتے
ہوئے اپنی انا اور نفس کی تسکین کے لئے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ملک پر
حکمرانی کو اپنا اور اپنی نسلوں کا حق سمجھتے ہیں۔ یہ لوگ بھی ملکی ترقی
اور خوشحالی کے لیے کوئی کردار ادا نہیں کرتے اور صرف اقتدار کے حصول اور
عوامی وسائل کے بے دریغ استعمال کو اپنا مقصد حیات جانتے ہیں۔
پانچویں قسم کے لوگ حقیقی معنوں میں محب وطن، با شعور اور غیرت مند ہوتے
ہیں۔ یہ لوگ اپنے عہدے ،منصب،صلاحیت اور قابلیت کو ملک وقوم کی فلاح و
بہبود کے لیے استعمال کرتے ہیں اور عوامی وسائل کو امانت سمجھ کر بہتر
مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔یہ لوگ محلے،منبرومحراب،پارلیمنٹ اور کسی
مقام پر ہوں ان کی تمام کوششوں کا مقصد ارض پاک کی سربلندی اور عزت و عظمت
ہوتا ہے۔
یہ لوگ تمام تر مخالفتوں اور ریشہ دوانیوں کے باوجود ہر صورتحال میں پاک
وطن کی بقاء و سالمیت کے لیے اپنی کوششوں کو روا رکھتے ہیں۔
یہ لوگ وطن کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کرنے والے فوجی جوان بھی ہوسکتے
ہیں اور دشمن کی چیرہ دستیوں اور سازشوں کا مقابلہ کرنے والے خفیہ اداروں
کے ایجنٹ بھی ہوسکتے ہیں۔ یہ لوگ عالم کفر کے اسلام پر اعتراضات کا جواب
دینے والے اسلامی سکالر بھی ہوسکتے ہیں اور یہ لوگ عوام الناس کی اخلاقی
اور مذہبی تربیت کا فریضہ انجام دینے والے علماء کرام بھی۔ یہ لوگ ڈاکٹر کے
روپ میں انسانیت کے لیے مسیحا بھی ہوسکتے ہیں اور استاد کے روپ میں
نونہالان وطن کی ذہنی و فکری صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کا کام پوری تندہی سے
انجام دیتے ہیں۔ یہ لوگ کبھی صحافت کے میدان میں دشمن عناصر کے پروپیگنڈہ
کا جواب دینے کے لیے تیار بیٹھے ہوتے ہیں تو کبھی تاجر اور صنعتکار کے روپ
میں ملک کو معاشی طور پر مستحکم کرنے کی سعی میں مصروف ہوتے ہیں۔
اپنے انجام اور اغیار کی مخالفتوں کے باوجود یہ لوگ اپنے وطن کی عزت پر حرف
نہیں آنے دیتے چاہے اس مقصد کے حصول میں انہیں اپنی جان کی بازی کیوں نہ
لگانی پڑے۔
یہی لوگ ملک کا حقیقی سرمایہ ہوتے ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جنہیں تاریخ کے
اوراق میں سنہرے حروف میں لکھا جاتا ہے۔
کوشش کریں کہ ہم اپنا شمار بھی ان لوگ میں کروانے میں کامیاب ہو جائیں
کیونکہ یہی لوگ دنیا و آخرت دونوں میں عزت و احترام اور کامیابی وکامرانی
کے حقدار قرار دیے جائیں گے۔
شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات |