ٹی ٹوئنٹی تراویاں

افطاری اور پھر مغرب کی نماز کے بعد واک کیلئے گھر سے نکلا ہی تھا کہ سڑک کنارے چاند میاں کو بھی سگریٹ سلگائے بیٹھا پایا۔ آج کل چاند میاں سے کچھ زیادہ ہی واسطہ پڑتا ہے، وہ جب بھی ملتے ہیں کسی نہ کسی موضوع پر گفتگو چھیڑ دیتے ہیں۔ رمضان المبارک میں اُن کے زیادہ تر موضوعات بھی تراویح، روزے اور عبادات سے متعلق ہوتے ہیں۔ خود چاہے عمل کریں نہ کریں مگر دوسروں کے ساتھ ایسے موضوعات پر بحث کرنا اپنا فرضِ عین سمجھتے ہیں۔ رمضان کے ابتدائی دِنوں میں ملے، حال اَحوال پوچھا تو کہنے لگے کیا بتاؤں ! رمضان میں نیند بھی قسطوں میں پوری کرنا پڑتی ہے۔ دوسری بار تراویح کے لئے مسجد جاتے وقت ملے تو بھی ساتھ ہو لئے، کھچوے کی چال سے مسجد کی جانب بڑھنے لگے۔ مسجد کے قریب پہنچ کر کہنے لگے تُم جاؤ میں ذرا دُکان سے ہو کر آتا ہوں۔ نماز ، تراویح کے دوران اِدھر اُدھر نظر دوڑائی مگر کسی بھی صف میں کھڑے نظر نہ آئے۔ تراویح سے فراغت کے بعد گھر کیلئے رختِ سفر باندھا تو راستے میں وہ بھی پیچھے چلتے پائے گئے، مگر اِس بار قدموں کی رفتار سست روی کے بجائے تیز تھی۔ آخر ہمت کر کے مسجد کی طرف آتے ہوئے آہستہ اور جاتے ہوئے تیز چلنے کی وجہ پوچھی تو فرمانے لگے رمضان میں مسجد بڑھنے والے قدموں کا دُگنا ثواب ملتا ہے اس لئے سلوموشن چل رہا تھا۔ بندہ پوچھے !!! نہ نماز، نہ تراویح بس صرف مسجد کی طرف بڑھتے قدموں کا ثواب اور وہ بھی دُگنا؟ اب کی بار اُن کا ایک الگ ہی موضوع تھا، کہنے لگے ہمارے ساتھ والے گاؤں کی مسجد کا مُلاانڑاں ( مولوی) دس سے بارہ منٹ میں تراویح بمعہ وِتر پڑھا لیتا ہے۔ لوگوں نے اُس کا نام ’’4G مُلانڑاں‘‘ رکھا ہوا ہے جو بیس رکعات کی پوری تراویح میں قرآن سُنانے کے بجائے صرف چند مختصر سورتیں ہی پڑھتا ہے۔ چاند میاں کی بات سُنتے ہی مجھے ایک پُرانا واقعہ یاد آ گیا۔ ایک مولوی صاحب جمعہ کے خطبے میں فرما رہے تھے کہ ایک مرتبہ جب میں تراویح پڑھا کر مسجد سے نکلنے لگا تو ایک نوجوان نے آگے بڑھ کر مجھ سے ہاتھ ملایا ، انتہائی ادب سے میرے ہاتھوں کو چوما، حال احوال پوچھا اور پھر بولا ،مولوی صاحب ! تراویح میں اسپیڈ تھوڑی تیز رکھا کریں مجھے گھر جا کر اپنی پسند کا ڈرامہ بھی تو دیکھنا ہوتا ہے۔ ہو سکتا ہے حفاظ حضرات بھی کسی مقتدی کی ہدایات پر عمل کر رہے ہوں ورنہ تراویح میں اتنی اسپیڈ لگانے کا تو کوئی تُک نہیں بنتا۔ ایسی ہی برق رفتار تراویح کی ایک ویڈیو گزشتہ چند سالوں سے انٹرنیٹ پر وائرل ہے اور ہر رمضان میں سوشل میڈیا پر موضوعِ بحث بن جاتی ہے۔ اس ویڈیو میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح نمازِ تراویح بمعہ وِتر کی تئیس رکعات صرف سات منٹ میں پڑھا کر ایک انڈونیشین قاری نے ورلڈ ریکارڈ قائم کیا ہے۔ دُنیا جس تیز رفتاری سے آگے بڑھ رہی ہے ہر شعبے میں مقابلہ بازی کا رحجان بھی بڑھ گیا ہے، عموماً تراویح میں ہر روز بیس رکعات میں سوا پارہ پڑھایا جاتا ہے اور اس طرح قرآنِ پاک کو رمضان المبارک کی ستائیس تاریخ کو ختم کر لیا جاتا ہے۔ بیس رکعات کے علاوہ وِتر کی تین رکعات بھی نمازِ تراویح کے ساتھ باجماعت ادا کی جاتی ہیں۔ مختلف مساجد میں نمازِ تراویح کا دورانیہ مختلف ہوتا ہے تاہم یہ پینتالیس منٹ سے زیادہ ہی ہوتا ہے۔ جب ہر کوئی ایکدوسرے پر سبقت لے جانے کی دوڑ میں مشغول ہے تو پھر حفاظ حضرات کیسے پیچھے رہ سکتے ہیں۔ دُنیا کی تیز رفتاری کے ساتھ اب تراویح میں بھی تیز رفتاری آ گئی ہے اور حفاظ حضرات میں بھی خوب مقابلہ چل رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی اسپیڈ کے باعث تراویح میں قرآن سُنانے والے حفاظ حضرات کے بھی مختلف نام پڑ چکے ہیں۔ مثلاً قاری ایف سولہ، قاری موٹروے، حافظ مرسٹڈیز، چیتا قاری، حضرت شیخ قاری راکٹ لانچر، حضرت شیخ قاری یاماھا مدظلہ، حافظ میزائل، مولوی ٹوئنٹی ٹوئنٹی، حضرت شیخ قاری تیزگام المعروف شالیمار نان اسٹاپ دامت سپیڈھم وغیرہ۔ آج کل تو سوشل میڈیا پر بھی بہت سے قاری حضرات متحرک نظر آتے ہیں، تراویح پڑھانے کے فوری بعد اپنا اسٹیٹس اَپ ڈیٹ کر دیتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ وِتر کی نماز پڑھا کر دُعا بعد میں کراتے ہیں اسٹیٹس پہلے اَپ ڈیٹ کر دیتے ہیں تاکہ لیٹ اسٹیٹس پر کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ قاری صاحب نے تراویح میں بہت زیادہ ٹائم لگایا، اور اسٹیٹس بھی بڑے کمال کے ہوتے ہیں مثلاً ،شکر الحمد اﷲ !!! آج میں نے تراویح میں تین سپارے پڑھائے، شکر الحمد اﷲ !!! آج میں نے دو سپارے پڑھائے !!! شکر الحمد اﷲ پندرھویں رمضان میں ہی قرآن پاک مکمل کر ڈالا وغیرہ وغیرہ۔ تراویح میں عام نمازوں کی نسبت ذرا تیز پڑھنے کا معمول تو ہے ہی مگر ایسا تیز بھی نہیں پڑھنا چاہئے کہ الفاظ صحیح طور پر ادا نہ ہوں اور سُننے والوں کو سوائے یعلمون تعلمون کے کچھ سمجھ نہ آئے۔چند سال قبل کی بات ہے اسلام آباد کی ایک مسجد میں باپ بیٹا تراویح پڑھانے کا فریضہ سرانجام دیتے تھے، ایک دِن اگر باپ تراویح پڑھاتا تو پچھلی صف میں بیٹا قرآن سُنتا جبکہ دوسرے دِن اگر بیٹا پڑھاتا تو باپ سُنتا۔ بیٹا باپ سے زیادہ روانی سے قرآن پڑھتا جس پر لوگوں نے باپ کو ’’حافظ ریل‘‘ اور بیٹے کو ’’حافظ انجن‘‘ کے لقب سے نواز دیا۔ ایک دوست کے بقول راولپنڈی پیرودھائی کے ساتھ فوجی کالونی میں ایک قاری صاحب ہیں جن کا نام موٹروے قاری پڑ گیا ہے۔ موٹروے نام کی وجہ تسمیہ یہ بتائی گئی کہ مذکورہ قاری صاحب کا ریکارڈ ہے کہ وہ بیس تراویح گارنٹی کے ساتھ آدھے گھنٹے سے پہلے ختم کر دیتے ہیں۔ اِنسان ایک جلد باز مخلوق ہے، شاید اسی وجہ سے اکثر مساجد میں خوش الحان ٹھہر ٹھہر کر پڑھنے والے قاری صاحبان کے بجائے تیز رفتار حفاظ کو ترجیح دی جاتی ہے اور جلدباز لوگ ایسے ہی قاری حضرات کے پیچھے تراویح پڑھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
٭٭٭

Najeem Shah
About the Author: Najeem Shah Read More Articles by Najeem Shah: 163 Articles with 176701 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.