بسم اﷲ الرحمن الرحیم
گزشتہ آسمانی کتابوں میں آخری نبی ﷺ کی جو نشانیاں وضاحت سے بیان ہوئیں ان
میں ایک نشانی آبائی شہر مکہ مکرمہ کی فتح بھی ہے۔بائبل نے دس ہزار قدسیوں
کے جس لشکر کا ذکر کیا ہے یہ وہی تعداد ہے جو اس معرکے میں محسن انسانیت ﷺ
کے ہمرکاب تھی۔ہندو آج تک جس چوہدویں اوتار کا انتظار کررہے ہیں اسکی
نشانیوں میں سے بھی ایک نشانی اپنے آبائی دیس کو فتح کرنا شامل ہے۔یہ اﷲ
تعالی کی طرف سے اپنے آخری نبی ﷺ کو دیے گئے انعامات میں سے ایک خاص انعام
ہے کہ جہاں کی زمین محسن انسانیت ﷺ پر تنگ کر دی گئی اور ہجرت پر مجبور کر
دیا گیا ٹھیک آٹھ سال کے بعداﷲ رب العزت نے اس شہرکے دروازے آپ کے لیے کھول
دیے۔صلح نامہ حدیبیہ دراصل فتح مکہ کا مقدمہ ثابت ہوا۔اس صلح نامہ میں ایک
شرط یہ بھی تھی دس سال تک فریقیں کے درمیان جنگ نہ ہو گی اور عرب قبائل جس
فریق کے ساتھ چاہیں گے مل سکیں گے۔دو قبائل جو باہم دشمن تھے ان میں سے بنو
بکرقریش مکہ کے ساتھ مل گئے اوربنو خزاعہ مسلمانوں کے حلیف بن گئے۔ان دونوں
کے درمیان جب جنگ ہوئی تو یہ دس سالہ عدم جنگ کے معاہدے کی خلاف ورزی
تھی،قریش کو چاہیے تھا کہ یہ جنگ رکوا دیتے یا کم از کم غیر جانبدار رہتے
لیکن انہوں نے ایسا نہ کیا اور اپنے دوست قبیلہ بنوبکرکے ساتھ مل کر
مسلمانوں کے دوست قبیلے بنوخزاعہ میں خوب قتل و غارت گری اور لوٹ کھسوٹ
کی۔بنو خزاعہ نے حرم مکہ مکرمہ میں پناہ لینا چاہی تو ان ظالموں نے حرم کا
احترام بھی نہ کیا۔
بنو خزاعہ کا ایک نمائندہ سرداربدیل بن ورقہ مدینہ منورہ میں محسن انسانیت
ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنی مظلومیت کی اشعار کی صورت میں بآوازبلند
صدا لگائی،آپ ﷺ نے بہت افسوس کا اظہار کیا اورمدد کا وعدہ فرمایا اوراپنا
ایک نمائندہ قریش مکہ کے پاس روانہ کیاجس نے سرداران قریش کے سامنے تین
شرائط پیش کیں:
1۔بنو خزاعہ کے مقتولین کا خون بہا دا کیا جائے اور انکے نقصان کا ازالہ
کیا جائے۔یا
2۔قریش مکہ اپنے دوست قبیلے بنو بکر کاساتھ چھوڑ دیں اور انکی حمایت سے
دستکش ہو جائیں۔یا
3۔صلح نامہ حدیبیہ کومنسوخ کر دیا جائے
قریش کے سرداران نے تکبر میں آکر تیسری شرط قبول کر لی اور اس طرح صلح
حدیبیہ ڈھائی سال بعد اپنے انجام کو پہنچ گئی۔قاصد کے روانہ ہوتے ہی قریش
کو اپنی غلطی کا احساس ہواتو انہوں نے فوراََ ابو سفیان کو مدینہ روانہ
کیا۔ابو سفیان آپ ﷺ کے کو ملنے کے لیے اپنی بیٹی ام حبیبہ کے ہاں گیا جو
زوجۃ النبی ﷺاورام المومنین تھیں ابو سفیان بیٹھنے لگا تو بیٹی نے بستر
کھینچ لیا،باپ نے پوچھا یہ کیا کرتی ہو؟ بیٹی نے کہا کہ یہ بستر نبوی ﷺ ہے
اور آپ مشرک ہیں بھلا ایک مشرک نبی کے بستر پر کیسے براجمان ہو سکتا ہے۔ابو
سفیان کو مدینہ میں پہنچنے والا یہ پہلا صدمہ تھا۔
صلح حدیبیہ کو دوبارہ قائم کرنے کے لیے ابوسفیان محسن انسانیت ﷺ ﷺ سے ملا
لیکن مایوسی ہوئی،حضرت ابوبکر،حضرت عمر،حضرت عثمان اور حضرت علی سے
بالترتیب الگ الگ ملا۔سب نے آپ ﷺ سے ملنے کا مشورہ دیا جب ابو سفیان نے آپ
ﷺ کے بارے میں بتایا کہ وہ ﷺ نہیں مانے تو سب نے اپنی بے بسی کا اظہار کر
دیاتاہم حضرت علی کرم اﷲ وجہ نے اسے مشورہ دیا کہ مسجد میں کھڑے ہو کر تو
خود سے صلح نامہ حدیبیہ دوبارہ قائم کرنے کا اعلان کر دو،ابوسفیان نے ایسا
ہی کیا لیکن ظاہر ہے معاہدے ہمیشہ دو طرفہ ہوا کرتے ہیں یک طرفہ معاہدے کی
کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ابو سفیان اس ناکام سفارت کے بعداپنے اونٹ پر سوار
ہوااور مکہ سدھار گیا۔محسن انسانیت ﷺ نے پوری رازداری کے ساتھ مکہ پر
چڑھائی کی تیاری شروع کر دی اور حضرت عائشہ رضی اﷲ عنھا کو سامان باندھنے
کا حکم دے دیا۔10رمضان المبارک 8ھ کو مدینہ سے روانہ ہوئے اور مکہ کی الٹ
سمت چل کھڑے ہوئے اور دعا کی کہ اے بار الہ ہمارا ارادہ دشمن سے خفیہ رکھنا
اور اس تک ہر اطلاع کے دروازے مسدود کر دینا۔حاطب بن ابی بلتعہ نامی آدمی
نے ایک عورت کی چوٹی میں رقعہ باندھ کرقریش کو اطلاع کرنا چاہی لیکن وحی کے
ذریعے آپ ﷺ کو اسکی اطلاع دے دی گئی ۔چنانچہ حضرت علی اور انکے ساتھی
دوڑائے گئے جنہوں نے اس عورت سے رقعہ برآمد کر لیا۔
محسن انسانیت ﷺ کے ساتھ دس ہزارجاں نثار تھے،جب راستہ میں حضرت عباس بن
عبدالمطب اپنے اہل و عیال کے ساتھ آپ سے ملے۔وہ مسلمان ہو کر مدینہ آ رہے
تھے۔آپ ﷺ کے چچیرے بھائی اورپھوپھی زاد بھائی بھی راستے میں آپ سے ملے اب
وہ بھی مسلمان ہو چکے تھے۔آپ ﷺ کے لشکر نے وادی فاطمہ میں پڑاؤ ڈالا اور ہر
ہر مجاہد نبوی ﷺ نے حکم رسول خدا کے مطابق رات کواپنا اپنا علیحدہ چولھا
جلایا۔اہل مکہ بہت مضطرب تھے کہ کسی بھی وقت ان پر مسلمانوں کا حملہ ہو
سکتا تھا،جبکہ اﷲ تعالی نے ان پر اطلاعات کے تمام دروازے بند کررکھے
تھے۔حضرت عباس اس رات آپ ﷺ کے خچر پر نکلے اور مکہ کے نواح سے ابو سفیان کو
تلاش کر کے اپنے پیچھے خچر پر بٹھاکر لے آئے ۔وہ جس جس الاؤ سے گزرتے لوگ
گھور کر دیکھتے تو آپ ﷺ کا خچر اورچچاعباس کو دیکھ کر تھم جاتے کیونکہ ابو
سفیان نے منہ پر کپڑا کر رکھا تھالیکن حضرت عمر نے پہچان لیا اور آپ ﷺ کی
طرف دوڑے تاکہ قتل کی اجازت پاکر ابو سفیان کاسر قلم کر دیں۔حضرت عباس نے
بھی خچر کو ایڑھ لگا دی اور حضرت عمر سے پہلے آپ ﷺ کے خیمے میں داخل ہو کر
تو ابو سفیان کے لیے امان مانگ لی۔
اگلی صبح محسن انسانیت ﷺ نے ابوسفیان کو ایک اونچے پہاڑی مقام پر کھڑا کر
کے اسلامی لشکرکو حکم دیا کہ ابوسفیان کے سامنے سے مارچ پاسٹ کرتے ہوئے
گزریں۔جب بھی کوئی دستہ گزرتا وہ پوچھتا یہ کون لوگ ہیں؟ حضرت عباس بتاتے
یہ بنی فلاں ہیں وہ کہتا مجھے کیا۔گویا وہ اپنا خوف چھپانے کی کوشش کرتا۔اس
طویل لشکر کے آخر میں لوہے میں ڈوبا ہوا ایک دستہ گزرا ابو سفیان چلا اٹھا
خدا کی قسم ان لوگوں سے مقابلہ ممکن نہیں اور پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟فرمایا
انصار و مہاجرین کے جلو میں محسن انسانیت ﷺ تشریف فرما ہیں۔اس موقع پرایک
انصاری صحابی جن کے ہاتھ میں’’ علم‘‘تھا،انہوں نے ابوسفیان کو دیکھ کر نعرہ
بلند کیاکہ کہ آج انتقام لینے کا دن ہے،محسن انسانیتﷺنے ان سے ’’علم لے کر
ان کے بیٹے کے ہاتھ میں تھمادیااور فرمایاآج رحم کرنے کا دن ہے۔اسکے بعد
ابو سفیان کے ذہن میں دوردور تک اگر کہیں مقابلے کا خیال بھی تھا تو وہ دم
توڑ گیا۔ابو سفیان دوڑتا ہوا مکہ پہنچااوراہل شہر کو مسلمانوں کے لشکر کی
آمد کی جانکاہ اطلاع سنائی۔کچھ اوباش مقابلے کے لیے تیار ہوئے ۔محسن
انسانیت ﷺنے لشکر کو چار حصوں میں تقسیم کیااور مکہ کے چار اطراف سے داخل
ہونے کا حکم ارشاد فرمایا تاکہ اہل مکہ مقابلہ کرنا بھی چاہیں تو انکی قوت
چار حصوں میں تقسیم ہو جائے۔صرف حضرت خالد ؓ بن ولید کے دستے سے کچھ کفار
کا ٹکراؤہوا،باقی ماندہ تینوں دستے امن و آشتی سے کوہ صفا پر محسن انسانیت
ﷺسے آن ملے اور فتح تکمیل پزیر ہوئی۔
فاتحین ماضی کے ہوں یا اکیسویں صدی کی دہلیز پر جب مفتوحہ علاقوں میں داخل
ہوتے ہیں تو انکی گردنیں تنی ہوئی ہوتی ہیں اور تلواریں خون کی پیاسی ہوتی
ہیں۔لیکن محسن انسانیت ﷺجب مکہ میں داخل ہوئے تو پیشانی مبارک اس قدر جھکی
ہوئی تھی کہ داڑھی کے مقدس بال کجاوے کو چھوچھو رہے تھے اورمحسن انسانیت
ﷺنے قتل عام کی بجائے امن عام کا اعلان کر دیا۔صرف نو افراد کے بارے میں
فرمایا کہ اگرغلاف کعبہ بھی تھامے ہوں تو سر قلم کر دیا جائے۔ان میں سے بھی
پانچ افراد مختلف حیلوں سے جان بخشی کرانے میں کامیاب ہو گئے۔محسن انسانیت
ﷺانصارومہاجرین کے جھرمٹ میں حرم مکہ میں داخل ہوئے آپﷺکے دست مبارک میں
کمان تھی ،حرم میں موجود کم و بیش 360بت اس کمان کی ٹھوکر سے گرتے چلے
گئے،آپ اونٹنی پر سوار تھے اوراسی حالت میں طواف کعبہ کیا، عمرے کی ادائگی
اس لیے ممکن نہ تھی کہ احرام باندھا نہ گیا تھا۔عثمان بن طلحہ سے خانہ کعبہ
کی چابی منگوا کر کمرے میں داخل ہوئے جہاں حضرات ابراہیم و اسمائیل علیھما
السلام کی تصویریں بنی تھیں۔کعبہ وحرم کعبہ کو ان نامعقولات سے پاک کیااندر
ہی نماز ادا کی۔اسکے بعد حضرت بلال ؓ نے کعبہ کی چھت پر کھڑے ہو کر آذان
بھی دی،حضرت بلال رضی اﷲ تعالی عنہ کو یہ اعلی و ارفع مقام ان کے تقوی اور
حب رسولﷺ کے باعث ملا۔پہلادن اسی طرح تمام ہوا۔دوسرے دن محسن انسانیت ﷺنے
خطبہ دیا جس میں حرم مکہ کی حرمت دوبارہ قیامت تک کے لیے قائم کرنے کا
اعلان کیا۔انصار کا خیال تھا کہ محسن انسانیت ﷺ شاید اب مکہ میں ہی قیام
کریں گے لیکن آپ ﷺ نے فرمایا اب مرنا جینا انصار کے ساتھ ہی ہے۔ہاتھیوں
والوں کی ہلاکت سے یہ بات طے ہو گئی تھی کہ خانہ کعبہ پر کسی شریر کا قبضہ
نہیں ہو سکتا۔اب کے عرب قبائل منتظر تھے کہ خانہ کعبہ پر کس فریق کا قبضہ
ہوتا ہے۔مسلمانوں کے قبضے سے نبی علیہ السلام کی حقانیت ثابت ہو چکی،چنانچہ
قبائل عرب فوج در فوج مکہ میں آئے اور دست نبویﷺ پر مشرف بہ اسلام ہوئے۔ |