رمضان کیسے گزاریں؟

تحریر: اریبہ فاطمہ،سیالکوٹ
روزہ مسلمانوں کے لیے ایک تربیتی مشق کا مہینہ ہے جو انسان کو عام دنوں میں رہنے کا سلیقہ سیکھاتا ہے۔اﷲ سبحانہ و تعالٰی نے روزہ کا مقصد تقوی بتایا ہے۔کیا آپ جانتے ہیں تقوی کیا ہے ؟ تقوی ایک بہت ہی لطف آمیز روحانی کیفیت کا نام ہے جو محبت و ڈر کے رشتے کا مرکب ہے۔اس کیفیت کو پانے کے لیے انسان اﷲ کی محبت میں گرفتار ہوجاتا ہے اس کی ترجیحات میں اگر کوئی چیز اہم ہوتی ہے تو وہ محض اپنے محبوب کی رضا ہی ہوتی ہے۔کیونکہ محبت کا تقاضا یہی ہے کہ انسان ہر ممکن طریقے سے اپنے محبوب کو خوش رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔محبت الہی میں سرشار انسان بھی ہر اس کام کو کرنے کی کوشش کرتا ہے جس سے اسکارب سوہنا خوش ہوتا ہے اور ہر اس کام سے منع ہوجاتا ہے جس سے وہ ناراض ہوتا ہے۔محبت الہی میں سرشار ہونیکے بعد وہ ہمیشہ اس بات سے ڈرتا ہے کہ کہیں میرا محبوب مجھ سے ناراض نہ ہوجائے مجھ سے کوئی ایسی بھول نہ ہوجائے جس سے وہ میرے سے ناراضگی اختیار کر لے وہ استغفار کرتا رہتا ہے بخشش مانگتا رہتا ہے۔یہی سوچ اسے متقی بناتی ہے اور جو شخص اس ڈر و محبت کے رشتے سے منسلک ہوجائے وہ ہر قدم پھونک پھونک کر رکھتا ہے دنیا کے اس کانٹے دار جھاڑیوں والی راہوں سے اپنے کپڑے کو بچاتا رہتا ہے۔تاکہ اس کا ایمان مخفوظ رہے۔ماہِ صیام مسلمان کے متقی بننے کی مشق کا مہینہ ہے۔اﷲ اپنے بندوں پہ بہت فضل فرماتا ہے۔آئیں کیوں نہ ہم بھی رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں مقامِ تقوی کو پائیں اور یہ تقوی نہ صرف رمضان میں بلکہ تاحیات ہمارا مقدر بن جائے۔رمضان المبارک کے ہر لمحے کو رب کی رضا کے حصول کے لیے صرف کر کے ہم متقی بن سکتے ہیں آئیں عہد کرتے ہیں کہ ہم رمضان کو ہر ممکن کوشش سے پچھلے رمضان سے بہتر بنائیں گے۔ آئیں رمضان کو بہتر سے بہتر گزارنے کے لیے اپنے شب وروز منظم کرتے ہیں اور اس بات کا عہد کرتے ہیں کہ مقام ِتقوی کے حصول کے لیے تگ ودو کرتے رہیں گے۔سحری کرئیں کیونکہ سحری میں برکت ہے خواہ ایک کجھور کا ٹکڑا ہی ہو۔کوشش کرئیں کہ سحری میں باقی کھانے کے ساتھ ایک یا دو کجھوریں بھی لیں کیونکہ کجھور کھانا جہاں ہمارے نبیﷺ کی سنت ہے وہاں وہ ہمیں طاقت بھی مہیا کرتی ہے دنیا و آخرت کے اجر کا باعث ہے۔سحری کے بعد گھر کے کاموں جلد نمٹا کر سونے کی بجائے کوشش کرئے کہ خشوع و خضوع سے نماز ادا کریں اور فجر کی نماز کو باقی نمازوں کی نسبت طویل کرئیں قرآن مجید میں جو بھی سورتیں یاد ہو نمازِ فجر میں سورۃ اخلاص کے ساتھ انکی بھی تلاوت کرئیں۔نماز ِ فجر کی ادائیگی کے بعد مسنون اذکار کرئے اﷲ سے دعا مانگیں اور پوری کوشش کریں کہ قرآن کا کچھ حصہ بآواز بلند تلاوت کریں بآواز بلند کرنے سے آپکی روح مسرت ہوجائے اور ایک دلکش کیفیت طاری ہوجائے گی جو آپ کو مزید تلاوت کرنیپہ ابھارتی رہے گی۔بلند آواز اتنی ہی ہو جتنی کی آپ کے کانوں تک پہنچ سکے۔تلاوت کے بعد بھی اگر سورج طلوع ہونے میں کچھ وقت باقی ہو تو اس میں تسبیحات یا استغفارکرتے رہیں۔استغفار کرنے سے گناہ جھر جاتے ہیں اور دل کی گندگی صاف ہوجاتی ہے جس سے عبادت میں سستی کی بجائے لطف آتا ہے۔سورج طلوع ہونے پہ نمازِ اشراق کی نیت سے جتنے ہوسکے نوافل ادا کریں اور پھر آپ آرام کر لیں۔تمام نمازوں کو خشوع و خضوع سے ادا کریں۔کوشش کریں فارغ اوقات میں بکثرت سے قرآن کی تلاوت کریں۔قرآن کو چار طریقوں سے پڑھے۔مختلف انداز سے پڑھنے پہ انسان تھکتا بھی نہیں اور ہر نیا اندازہ انسان کو تروتازہ کردیتا ہے۔قرآن کی تلاوت کریں ۔قرآن کی کسی ایک آیت کو ترجمہ کے ساتھ پڑھیں اوراس پہ غوروفکر کریں قرآن میں بارہا اﷲ تعالیٰ نے غوروفکر کی تلقین کی ہے کوشش کریں روزہ قرآن کی کوئی بھی آیت یا چھوٹی سی سورۃ زبانی یاد کرلیں جس کو آپ چلتے پڑھتے رہیں۔کوئی بھی قرآنی بات یا قرآن کا مطالعہ کر کے اسے اپنے بچوں ,دوستوں اور ہمسائیوں کے ساتھ بھی شئیر کریں انکو بھی سیکھائے۔کیونکہ ہمارے پیارے نبی ? نے بھی فرمایا تم میں سے بہترین وہ ہے جو قرآن سیکھتا اور سیکھاتا ہے۔خواتین کا زیادہ تر وقت چونکہ بچوں کے ساتھ گزرتا ہے اور بہت زیادہ کوشش کے باوجود زبانی بدکلامی سے خود کو مخفوظ نہیں رکھ پاتیں۔کوشش کریں جتنا ہوسکے خاموشی اختیار کریں اور بچوں کو پیارو محبت سے سمجھائیں اگر وہ بات پھر بھی نہ مانیں تو آپ اپنا اخلاق خراب مت کریں خاموشی اختیار کر لیں کیونکہ یہی آپ کی آزمائش ہے اور آپ کا ہر چھوٹے سے چھوٹا عمل بچوں پہ بہت اثر انداز ہوتا ہے۔خواتین آپس میں مل بیٹھ کر غیبت و چغلی نہ کریں کیونکہ جہنم میں عورت کی کثرت انہی برائیوں کی وجہ سے ہوگی۔اس لیے جتنا ہوسکے ان تمام چیزوں سے پرہیز کریں۔نمازوں کوباقاعدگی سے مقررہ وقت پہ ادا کرئیں۔کثرت سیاستغفار کرے رہیں۔مغفرت کی دعائیں کرتے رہیں اگر دعائیں زبانی یاد نہیں ہوتیں تو کسی کارڈ پہ لکھ کر ایسی جگہ لگا دیں جس سے آپکو بآسانی نظر آجائیں اور یادہانی بھی ہوتی رہے۔اخلاق کا دامن نہ چھوڑیں۔اخلاقیات کی پہلی سیڑھی سچائی ہے سچائی کا رستہ اختیار کریں بلاشہ سچائی بہت قربانیاں مانگتی ہے لیکن ہمارے ایمان کو دیمک لگنے سے بچاتی ہے۔ سچائی کو کوئی قبول نہیں کرتا لیکن اسکا انجام کامیابی ہی ہوتاہے۔جہاں تک ممکن ہوسکے جھوٹ کا بائیکاٹ کریں۔ہم اتنے کم ظرف لگ ہیں جہاں کسی کی تذلیل مقصود ہو وہاں غیر ضروری سچ بول دیتے ہیں اور اپنی بات کا مان رکھنے کے لیے چھوٹی چھوٹی باتوں پہ ہی جھوٹ ول دیتے ہیں۔کبھی کبھی لاشعوری طور پہ جھوٹ بولا جاتا ہے جو عام طور پہ خواتین بچوں سے کوئی خاص کام کروانے یا روتے ہوئے بچے کو چپ کروانے یا ڈرانے دھکانے کے لیے بولتی ہیں اور کبھی کبھی ہم مذاق میں ہی جھوٹ بولتے ہیں یہ دنوں صورتیں ہی ہلاکت ہیں۔اس لیے سچائی کی راہ اختیار کریں نہ صرف تیس دنوں کے لیے بلکہ پوری عمر کے لیے۔۔۔اپنی زبان کولغو گفتگو سے بچائیں۔غیر ضروری گفتگو سے پرہیز کریں کوشش کریں کہ ایسے بول ہی بولے جائے جن کا کوئی مقصد ہو جس سے کسی کو فائدہ پہنچانا مقصود ہو۔اس سے ہمارے اندر سنجیدگی پیدا ہوجاتی ہے اور ہم غوروفکر کی راہ پہ نکل پڑتے ہیں۔غورفکر کی راہ ہی ہمیں اپنا محاسبہ کرنے اپنی اصلاح کرنے پہ مجبور کرتی ہے اور جب ہماری نظر گناہوں سے لدے ناپاک دل پہ پڑتی ہے توہی پاکیزگی کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے اور ہم پاکیزہ راہ کے متلاشی بن جاتے ہیں۔اس لیے سنجیدگی اختیار کرئے اور اگر رمضان کو یکسوئی سے گزارے گے تو مجھے یقین ہے کہ ہماری محنت ہمیں عمر بھر کے لیے ان تمام خصائل کا عادی بنا دے گی۔روز صدقہ کریں۔صدقہ قربانی ہے۔صدقہ اﷲ کی عطا کردہ نعمت کو پاک کرتا ہے۔ہم سمجھتے ہیں نعمت صرف مال ہی ہوتی ہے اس لیے ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہتے ہیں کہ مال آئے تو ہم صدقہ کریں گے۔اگر ہم اپنے اندر اﷲ کی نعمتیں تلاش کریں, تو گنتے گنتے تھک جائیں گے۔ اس لیے ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کا شکر ادا کریں اور شکر ادا کرنے کا بہتر طریقہ اس نعمت سے دوسروں کو مستفید کرنا ہے۔طاقت رکھتے ہیں تو لوگوں کا بوجھ اٹھا لیں ،لوگوں کو سلام کریں ,ان سے مسکرا کر ملیں،اپنی زبان سے ایسے الفاظ نکالیں جو دوسروں کو فائدہ پہنچائیں، دوسروں کے آنسو پونچھیں،دوسروں کے درد کو بانٹیں ،اگر کوئی بیمار ہے، تو عیادت کو جائیں،افطاری کے دستر خواں پہ ایک پلیٹ میں کجھور رکھ کر روزہ افطار کرنے پہ آپ سب کو پیش کریں، تو یہ بھی آپکاصدقہ ہے جس سے آپس میں محبت کا رشتہ مضبوط بھی ہوگا اور آپکا خالق بھی جب آپ کو اپنی مخلوق کی خدمت کرتا دیکھے گا تو بہت خوش ہوگا اور ہمارا تو مقصد ہی اپنے خالق کی رضا ہے اس سے بڑا مقصد کیا ہوسکتا ہے۔جس کے مقاصد بلند ہوں، تو کامیابی بھی بلند ہی ہوتی ہے۔لوگوں کے لیے دعا کریں ،استادِ محترمہ ڈاکٹر فرحت ہاشمی فرماتی ہیں ’’دعاکرتے وقت ہم بھول جاتے ہیں کہ کس کے لیے دعا کریں تو بہتر طریقہ موبائل کانٹیکٹ کھول لیں اور روز دو چار کے لیے دعا کرتے جائیں پھر اگلے دن اگلے چار لوگوں کے لیے دعا کردیں نام لے کر دعا کریں انکا جو مسئلہ ہے اﷲ سے اسکو طلب کریں دعا بہترین صدقہ ہے‘‘ کیونکہ یہ اﷲ اور بندے کی ملاقات ہے چونکہ ہم عموماً ایسے کام ہی دوسروں کے لیے کرتے ہیں جن سے ہمیں شکر گزاری یا تعریف بھرے کلمات ملتے ہوں لیکن دعا محبت کا ایسا ثبوت ہے جس میں ہم صلے سے بالاتر ہو جاتے ہیں۔دعا کرنے کی طاقت رکھتے ہیں تو پہلے دوسروں کے لیے مانگیں۔اسی طرح اگر غوروفکر کریں تو ہم بہت طریقوں سے صدقہ کرسکتے ہیں اور ان لوگوں جیسا مقام پاسکتے ہیں جو اپنے مال و دولت سے دوسروں کی مدد کرتے ہیں۔لیکن میرا خیال ہے کہ آج لوگوں کو مال و دولت کی مدد سے زیادہ پیار ،ہمدردی ،توجہ اور دکھ بانٹنے والوں کی ضرورت ہے۔صدقہ انسان کی مصیبت کو ٹال دیتا ہے ہمارے آقا ﷺنے صدقہ کو اہمیت دیتے ہوئے فرمایا ’’آگ سے بچو اگرچہ کجھور کا کچھ حصہ دے کر سہی‘‘۔ایک اور جگہ آپﷺفرماتے ہیں ’’کوئی نیکی حقیر نہ جانو خواہ اپنے بھائی کو کھلے چہرے سے ملنا ہی کیوں نہ ہو‘‘اس لیے اپنے اردگرد اﷲ کی نعمتیں تلاش کریں اور جن نعمتوں سے آپ کو نوازا گیا ہے ،اس سے دوسروں کو مستفید کریں۔آپکی روح کو سکون ملے گااور آپ بہت سی جسمانی اور ذہنی بیماریوں سے نجات پاجائیں گے۔اس کا یقین کر لیجئے آپ پہ آنے والی سب مصیبتیں ٹال دی جائیں گی اورآپ کی راہیں آسان ہوجائیں گی۔آئیں قدم بڑھائیں اس نیک کام کی ابتدا بابرکت مہینے سے کرتے ہیں ,اس کو اپنی عادت بنا لیتے ہیں رمضان کو اتنی یکسوئی سے گزاریں کہ ہمارا خالق عام دنوں میں بھی مقام تقوی ہمارا مقدر بنا دے۔آمین،بشکریہ پریس لائن انٹرنیشنل

 

Talha Khan
About the Author: Talha Khan Read More Articles by Talha Khan: 63 Articles with 49982 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.